کوئی تے دَسّے کَتھے جند میری کَتھے جان میری
اس دوران پولیس والوں سے رابطہ کرتے ہیں تو ان کا ٹکا سا جواب ہوتا کہ ہم ڈھونڈ رہے ہیں
آس
۔۔۔
نہیں نہیں کا کے کے ابّا
دیواریں اور دروازہ یوں ہی رہنے دو
رنگ نہ کرنا
سارے محلے سے بھی کہہ دو
اپنے مکانوں کے چہروں کو ذرا نہ بدلیں
گلی کے نکڑ پر جو لگا ہے پیڑ ، نہ کاٹیں
گھر کو آتی ٹوٹی سڑک بننے نہ پائے
سڑک کنارے بیٹھا پاگل جگہ چھوڑ کر اُٹھ نہ جائے
ٹافی سپاری والا وہ شیدے کا کھوکھا اپنی جگہ سے ہٹ
نہ جائے
ایسا نہ ہو
میرا کاکا
جب آئے تو
گھر کے رستے کے جو نشاں سب یاد ہیں اُس کو
کوئی نہ پائے
لوٹ نہ جائے
پھر نہ کہیں وہ گُم ہو جائے
...
شیخوپورہ کے نواح میں واقعی بھکھی کے علاقے اسکندر آباد سے ہفتے کے روز 7 سالہ شعبان علی نامی بچہ لاپتہ ہو گیا تھا۔ ممکن ہے مقامی پولیس کا خیال یہی ہو کہ بچہ ناراض ہو کر چلا گیا ہے اور خود ہی واپس لوٹ آئے گا لیکن پیر کے روز اس معصوم کی لاش قریبی گاؤں کھاریاں والا میں کھیتوں میں پڑی ملی۔ اس میں شک نہیں کہ علاقائی اور عالمی سیاست کے جبر نے ہمیں دہشت گردی کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے۔
ہمارے ارد گرد ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اس ماردھاڑ اور قتل و غارت گری میں علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کا بھی بڑا عمل دخل ہے لیکن اس کو کیا کہئے کہ معمولی فائدے کے لیے ماؤں کے جگر گوشوں کو گاجر، مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا جائے۔ جن آنکھوں میں مستقبل کے خواب جھلملاتے ہوں، جو آنکھیں ماں باپ اور بہن بھائیوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں انہیں بیچنے کے لیے جسم سے نکال لیا جائے۔ لاہور اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے بچوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ایک حقیقت ہے۔
اس حقیقت پر پولیس کے ردعمل پر جائیں تو ایسی کوئی غیر معمولی صورتحال سرے سے موجود ہی نہیں۔ معاملات کا سامنا کرنے کے حوالے سے پولیس کے رویئے سے کون واقف نہیں۔ میں خود پاکستانی میڈیا کا حصہ ہوتے ہوئے اسے بھگت چکا ہوں۔ فرق اتنا ہے کہ کسی عام سائل سے خشک اور سخت انداز میں بات کی جاتی ہے اور مجھ سے پولیس والوں نے درخواست کی کہ موبائل چھینے جانے کی واردات کی گمشدگی لکھوائیں کیونکہ بصورت دیگر اسے ڈکیتی کے زمرے میں تصور کیا جاتا ہے اور اس پر ہونے والی پیش رفت سے ہر ہفتہ آگاہ کرنا لازم ہے۔ بچوں کے اغوا اور گمشدگی کے واقعات پر بھی پولیس اسی طرح کے رویئے کا مظاہرہ کر رہی ہے ورنہ اب تک اعضاء نکالے جانے کے جتنے بھی واقعات سامنے آئے ہیں ان پر کوئی اہم پیش رفت سامنے آچکی ہوتی اور پس پردہ ہاتھ بے نقاب ہو جاتے۔
آئی جی پنجاب ندیم نواز نے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق گزشتہ چھ برس کے عرصہ میں 6793 بچے اغوا ہوئے جن میں سے 6654 بازیاب کرا لیے گئے۔ 2015-16 کے دوران 1315 بچے بازیاب ہوئے جبکہ 93 کے لیے تفتیش کا عمل جاری ہے۔ اسی طرح رواں برس کے پہلے سات ماہ میں 767 بچے اغوا ہونے کے واقعات رجسٹر ہوئے، 715 بازیاب ہو چکے جبکہ 52 معاملات کی چھان بین جاری ہے۔ اس رپورٹ میں اس خیال کو بھی رد کیا گیا کہ پنجاب میں کوئی منظم گروہ بچوں کے اغوا کی وارداتیں کر رہا ہے۔ اگر اس بات کو درست بھی مان لیا جائے تو پھر بھی بچوں کی گمشدگی خواہ وہ کسی منظم گروہ کے ہاتھوں ہو یا کسی کی انفرادی کارروائی ہو اس کا مقصد بھیک منگوانا ہو یا خودکش بمبار بنانا، منشیات کی اسمگلنگ ہو یا پھر انسانی اعضاء بیچنے کا مکروہ دھندہ، معاملے کا انسانی پہلو یہ ہے کہ ریاست والدین کے لیے ان کی اولاد کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کر رہی ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ میں صفائی پیش کرنے کے باوجود انتہائی معتبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پنجاب میں حکام نے بچوں کے اغوا کے سلسلے میں کے پی کے اور سندھ کے حکام سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ پنجاب حکومت سمجھتی ہے کہ اغوا کاروں کا تعلق ان دو صوبوں سے ہے جو دہشت گردی کے لیے بچوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ نام خفیہ رکھنے کی شرط پر اہم سرکاری اہلکار نے بتایا کہ کراچی اورقبائلی علاقوں میں آپریشن کے نتیجے میں بہت سے دہشت گرد پنجاب آچکے ہیں اور اب بڑے شہروں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہے ہیں۔
اہلکار کے مطابق دہشت گردوں نے اب ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، مردان، کوہاٹ اور پشاور کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ہے جہاں سے پنجاب اور کے پی کے کے درمیان سرگرمیوں کو مربوط کیا جاتا ہے۔ اس بات کا اقرار پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے بھی کیا ہے کہ ایسے بین الصوبائی گروہ سرگرم عمل ہیں۔ حکومت پنجاب گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے Digital Child Abduction Alert System متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ذریعے گمشدہ بچے کی اطلاع ملک بھر میں متعلقہ شعبوں کو پہنچائی جا سکے گی۔ حکومت پنجاب کے یہ تمام اقدامات بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ایسے سفاک گروہ سرگرم عمل ہیں جو ملک میں سزا اور احتساب کی عدم موجودگی کے تاثر کے زیراثر ہر طرح کے جرائم کا کھلے عام ارتکاب کرنے سے نہیں گھبراتے۔
شیخوپورہ سے نمائندہ ایکسپریس شاہد خان کے مطابق نواحی گاؤں جھبران منڈی کے رہائشی محمد ادریس کا 5 سالہ بیٹا شرجیل گھر کے قریب دکان سے چیز لینے کے لئے گیا، جہاں سے اسے اغواء کاروں نے پکڑ لیا اور لے کر فرار ہو گئے ۔ اہل علاقہ نے پولیس کو اطلاع دی، جس نے اہل علاقہ کے ہمراہ اغواء کاروں کا تعاقب کرکے تینوں کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اغواء کار اس سے قبل بھی اغواء کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیں۔ پولیس نے ملزمان سے تفتیش شروع کر دی ہے۔
کمسن بچے شرجیل کے والد محنت کش محمد ادریس نے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ جھبراں منڈی کے محلہ اسلام پورہ میں میری کریانہ کی دکان ہے اور دکان کے قریب ہی میرا گھر ہے میرا بیٹا جب کھانے کی چیز لے کر گھر واپس جارہاتھا کہ ان تین ملزمان ارشد، افتخاراور خالد محمود نے اسے گلی سے اغواء کرلیا۔ ملزمان جب بچے کو اٹھا کر لے جا رہے تھے تو اہل محلہ کچھ لوگوں نے انہیں دیکھ لیا اور ان کا پیچھا کرکے بچے کو بازیاب کرویا اور ایک اغواء کارکو بھی پکڑلیا جبکہ دیگرساتھی فرار ہوگئے، جس کی اطلاع ہم نے متعلقہ پولیس کو دی جس پر بروقت کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے قریبی ڈیرہ پر چھاپہ مارکر فرار ہونے والے دونوں ملزمان کو گرفتارکرلیا۔ بچے کے والدکا کہنا تھا کہ پولیس نے ہمارے ساتھ مکمل تعاون کیا جس پر ہم بہت خوش ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اہل محلہ اور پولیس کی بروقت کارروائی کی وجہ سے ہمارا بچہ ان درندہ صفت انسانوں کے چنگل سے بازیاب ہوگیا جس پر ہم بہت خوش ہیں۔
رحیم یار خان سے خصوصی رپورٹر فاروق سندھو کے مطابق بچوں کے لاپتہ ہونے والے واقعات نے لاہور کی طرح پنجاب کے دیگر شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ رحیم یارخان کے علاقہ ظفر آباد کالونی کا محنت کش فاروق ملک گزشتہ ایک ماہ سے اپنے 13سالہ لخت جگر ساجد کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا ہے' ماں بے بسی کی تصویر بنے گھر کی دہلیز پر نظریں جمائے بیٹھی ہے کہ شاید اس کا لاڈلا، اس کی آنکھوں کا تارا، اس کے دل کا قرار، دروازے پر اچانک مسکراتا ہوا نمودار ہوگا اور اسے دیکھ کر پکارے گا ''ماں''۔ لاپتہ بچے کے والد ملک فاروق نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرا بیٹا ساجد عید کی چھٹیوں کے دوران گھر سے نکلا اور دوبارہ نہیں لوٹا۔ طرح طرح کے خدشات ماں اور باپ کو کانٹوں کی طرح چبھ رہے ہیں' ساجد ایک معصوم سا لڑکا جو محلے داروں' دوستوں سمیت سب سے پیار کرتا تھا' والدین کی عزت کرتا تھا، عید کی چھٹیوں کے دوران اچانک لاپتہ ہوگیا' پولیس کو بھی واقعہ سے آگاہ کیا گیا، لیکن تاحال ان کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔
بیٹے کو لاپتہ ہوئے ایک ماہ سے زائد وقت گزر چکا ہے، مگر اس کا کچھ پتہ نہیں۔ ملک فاروق اور اس کی بیوی کیا اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھ بھی پائیں گے یا نہیں' اے خدا! اسے سلامت رکھنا' اے خدا! تو بڑا مہربان ہے ہمارے لخت جگر کو ہم سے ملا دے آنکھوں سے چھم چھم آنسو برساتے ہوئے لبوں پر یہ دعائیں مانگتے ہوئے ساجد کے والدین کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ تو صرف وہی کرسکتے ہیں۔
نا شکرے لوگ
معصوم بچے بڑی تعداد میں غائب ہو رہے ہیں۔ جن گھروں سے وہ تعلق رکھتے ہیں، ان کے درودیوار سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سلسلہ دراز ہوا تو سپریم کورٹ نے بجا طور پر از خود نوٹس لیا۔
جولائی کے مہینے میں کارروائی کا آغاز ہوا۔ پولیس کے نمائندے نے بیان دیا کہ زیادہ تر بچے خود گھروں سے بھاگے ہیں، اغوا ہونے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حسب معمول، حزب اقتدار نے (اور پولیس والوںِ نے) نقارہ بجایا کہ یہ کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہے، خواہ مخواہ میڈیا panic پھیلا رہا ہے۔ بچے تو غائب ہوتے رہتے ہیں، پھر یہ کہ اکثر بچے خود گھر سے بھاگے ہیں، اور وہ واپس بھی آ رہے ہیں۔
حقیقت کیا ہیِ؟ پنجاب کے مختلف شہروں، خاص طور پر لاہور، راول پنڈی، بہاول پور، فیصل آباد اور بہاول نگر سے پے در پے والدین کی شکایات موصول ہوتی رہیں کہ پولیس اور دیگر متعلقہ حکام کا رویہ درست نہیں ہے۔ وہ کان دھرنے کو تیار نہیں۔ کیا یہ خبر تعجب خیز یا من گھڑت ہے؟ سب جانتے ہیں کہ پولیس کا محکمہ انتہائی ظالم اور بد دیانت ہے۔ پولیس والوں کا ظلم پاکستان کی بستیوں میں ننگا ہوکر ناچتا ہے۔ ان کی بددیانتی کا کبھی پیٹ نہیں بھرتا، حتیٰ کہ وہ انتہائی لاچار، مجبور، بے کس، بے بس، آنسوؤں کے سمندر میں ڈوبے غریب فریادیوں تک کی کھالیں اتار لیتے ہیں۔
حزب اقتدار والے شور کررہے ہیں کہ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے۔ خواہ مخواہ؟ ایسا لرزہ خیز بیان پاکستان ہی میں دیا جا سکتا ہے۔ کیا ماں باپ کا اچانک اپنے معصوم جگر گوشوں سے، بہنوں کا اپنے بھائیوں سے اور بھائیوں کا اپنی بہنوں سے یوں بچھڑنا معمولی واقعہ ہے۔ خدا نہ کرے، ان کا کوئی بچہ ان سے بچھڑ جائے، تب ان سے پوچھا جائے کہ کہو تمہارے دل پہ کیا گزر رہی ہے، اب تمہیں احساس ہوا کہ یہ غم کس طرح روح کے اندر اُترتا ہے اور زندگی میں کس طرح ویرانیاں بکھیر دیتا ہے۔
یہ دستور پاکستانی سیاست کے نصاب میں شامل ہو چکا ہے۔ تم حزب اقتدار میں ہو تو تمہیں ہر طرف ہرا ہرا نظر آتا ہے، حزب اختلاف میں ہو تو تمہارے دل میں درد کی لہریں دوڑنے بھاگنے لگتی ہیں۔ یہ ایک بہت مکروہ اور غلیظ منظر ہے۔ حزب اقتدار والے
کس طرح آنکھوں میں دُھول جھونکتے ہیں، اس کے لیے مثالیں حزب اقتدار کے بازار میں عریاں ہو کر رقص کرتی ہیں:
'' فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، بد عنوانی پڑوسی ملک میں ہم سے زیادہ ہوتی ہے۔''
'' گھبرائیں نہیں، امریکا میں ہر سال ہم سے زیادہ قتل ہوتے ہیں۔''
'' ہم پھر بھی بہتر ہیں، کولمبیا میں تو ہم سے زیادہ ٹارگیٹ کلنگ ہوتی ہے۔َ''
ہم پھر بھی نیچے ہیں، نائیجیریا کی نوکر شاہی ہم سے کہیں زیادہ بدعنوان اور خودغرض ہے۔''
'' خواہ مخواہ شور کرتے ہو، افریقا کے ملک ' ڈاکو ناکو چاکو' میں ہم سے زیادہ غربت ہے۔''
'' اللہ کا شکر ادا کرو بھائی، لاکو کاٹو جاٹو میں ہم سے زیادہ غلیظ پانی وہاں کے لوگ پیتے ہیں۔''
'' ہم خوش قسمت ہیں، روزانہ صرف چند سو افراد دوا نہ ملنے سے ہلاک ہوتے ہیں، لاچوماچوچاٹو میںتو رزانہ ہزاروں افراد دوا نہ ملنے سے مرجاتے ہیں۔''
وعلیٰ ہٰذالقیاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر سانحہ معمولی ہے، جب تم اقتدار میں ہو!!
ہر برائی ہمالہ سے اونچی ہے، اگر تم حزب اختلاف میں ہو!!!
نادار، مجبور، محروم، لاچار لوگ ان کی بازی گری دیکھتے ہیں، اور تھک ہار کر سر جھکا لیتے ہیں۔
تو اس بار بھی یہی فرمان ہے: ''بچے غائب ہو رہے ہیں، شکر ادا کرو،
ابھی ہزاروں میں ہیں، لاکھوں میں نہیں۔''
دنیا پور کے 11سالہ سجاد کو لاپتہ ہوئے 5 ماہ گزر گئے، ماں کو غشی کے دورے
دنیا پور کے علاقے لدھا بوہڑ کے رہائشی محمد حنیف کا 9 سالہ بھتیجا محمد سجاد 11 مارچ کو لاپتہ ہوا اور آج تک کہیں سے اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اس حوالے سے ''ایکسپریس'' نے بچے کے والد سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن بیٹے کے صدمے کی وجہ سے وہ بات ہی نہ کر سکے۔
تاہم سجاد کے چچا حنیف نے بتایا کہ وہ مارچ میں اپنے ایک عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے ملتان گئے تھے۔ اگلے روز رات کو ولیمہ تھا، جس میں شرکت کے لئے جب ہم زکریا ٹاؤن پہنچے تو کچھ دیر بعد ہمیں محسوس ہوا کہ سجاد کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ کسی نے پوچھنے پر بتایا کہ وہ کوئی چیز لینے کے لئے باہر گیا تھا۔ ہم سب اسے ڈھونڈنے کے لئے باہر نکل پڑے، لیکن وہ ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیا، دکاندار اور اہل علاقہ بھی سجاد سے لاعلم تھے۔ ہم نے فوری طور پر مساجد میں اعلانات کروائے، خوب بھاگ دوڑ کی، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، تھک ہار کر ہم متعلقہ تھانے پہنچ گئے، جہاں پولیس نے بچے کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کر کے ہمیں روانہ کر دیا۔ بعدازاں ہم نے اخبارات اور کیبل نیٹ ورک پر اشتہارات دیئے، بینرز لگوائے، لیکن سجاد نہ ملا۔ گھر میں سوگ کا سماں ہے، اس وقت ایک ماں کی ممتا پر کیا بیت رہی ہے؟ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
سجاد کی والدہ ہر وقت منہ چھپا چھپا کر روتی رہتی ہے، تاہم کبھی کبھار وہ خود پر ضبط نہ رہنے کے باعث دھاڑیں بھی مارنے لگ جاتی ہیں، ان کا کھانا پینا چھوٹ چکا ہے، بے ہوشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ وہ ہر وقت یہ کہتی رہتی ہیں کہ معلوم نہیں میرا بچہ کہاں اور کس حالت میں ہوگا؟ اس نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں؟ اسے کہیں بخار تو نہیں ہو رہا، پیٹ میں درد تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف والد جس کا چند روز پہلے کندھا اتر گیا تھا، بیٹے کے غم میں اب چارپائی پر لگ چکا ہے۔
ہماری حالت اس وقت یہ ہے کہ جب بھی ہمیں کہیں سے کسی بچے کے ملنے کی اطلاع ملتی ہے، ہم فوراً پاگلوں کی طرح اس طرف دوڑ پڑتے ہیں، لیکن ہمارا لال ابھی تک ہماری آنکھوں سے دور ہے۔ اس دوران پولیس والوں سے رابطہ کرتے ہیں تو ان کا ٹکا سا جواب ہوتا کہ ہم ڈھونڈ رہے ہیں، جب ملے گا تو تمہیں اطلاع کر دی جائے گی۔ ہم غریب لوگ ہیں، ایک خان (وڈیرا) کے پاس نوکری کرتے ہیں، جو سال کے دانے دے دیتا ہے،جس سے زندگی اور روح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بچے کی بازیابی کے لئے کہاں اور کس کے پاس فریاد لے کر جائیں؟ بس اللہ تعالی سے دعا گو ہے کہ وہ ہم پر اپنا فضل فرمائے۔
7 سالہ لاپتہ بچے کی کھیتوں سے مسخ شدہ نعش برآمد، والدہ کی دُہائی
بچوں کے اغوا کے حوالے سے تھانہ بھکھی کے علاقہ کھاریانوالہ میں پیش آنے والے واقعہ نے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک بھٹہ مزدور عبدالحمید کا 7سالہ بیٹا نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بنا اور اغوا ہونے کے تین روز بعد اس کی نعش جوار کے کھیت سے برآمد ہوئی۔ موضع سکندرآباد کے رہائشی بھٹی مزدور عبدالحمید کا سات سالہ بیٹا شعبان علی ایک ماہ قبل سے کھاریانوالہ میں رہائش پذیر اپنے نانا بشیر احمد کے ہاں رہ رہا تھا۔
وقوعہ کے روز شعبان علی اپنی ممانی صغراں کے ساتھ قریبی کھیت میں گیا، جہاں اس کی ممانی نے اسے گھر پانی لینے کے لئے بھیجا مگر وہ واپس نہ آیا، تاخیر کے باعث تشویش ہوئی تو وہ ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکا۔ بچے کے ورثاء نے پولیس تھانہ بھکھی کو اطلاع کی تو ایس ایچ او نفری کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔
ورثاء کا اصرار تھا کہ ان کا بچہ اغوا ہو گیا ہے مگر ایس ایچ او نے ورثاء سے کہا کہ وہ بچے کو قریب واقع جوہڑ میں تلاش کریں۔ 1122ریسکیوکو بھی فوری بلوایا گیا مگر ان کے پاس بڑی کشتی تھی جو مذکورہ جوہڑ میں تیر نہیں سکتی تھی، تاہم ورثاء اور گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جوہڑ میں بچے کو تلاش کیا، لیکن وہ ملنا تھا نہ ملا۔ اس دوران مختلف افواہیں علاقہ میں گردش کرتی رہیں۔ علاقہ مکینوں نے پولیس کے خلاف احتجاج کیا اور روڈ بلاک کر کے ٹائر جلائے، جس پر ڈی پی او شیخوپورہ کی ہدایات پرڈی ایس پی سٹی سرکل راجہ فخر بشیر نے بچے کی جلد بازیابی کی یقین دہانی کروا کے مظاہرین کو منتشر کر دیا۔
بچہ لاپتہ ہونے کے تیسرے روز شعبان علی کی نعش جوار کے کھیت سے اس وقت برآمد ہوئی جب پولیس تلاش میں تھی، نعش بہت بری حالت میں تھی۔ اس حوالہ سے بھی علاقہ میں یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ مقتول بچے کی آنکھیں اور دل نکال لیا گیا مگر یہ تمام افواہیں میڈیکل رپورٹ نے جھوٹی ثابت کر دیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اس کی موت قمیض سے گلے میں پھندا دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔ فرانزک ٹیسٹ رپورٹ تاحال آنا باقی ہے، جس کے بعد مزید حقائق سامنے آئیں گے۔ سات سالہ شعبان علی کے والد جو کہ تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کا باپ ہے، نے پولیس کو بتایا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں، ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ اس موقع پر والدہ روتی اور دُہائی دیتی رہی۔ والدین نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ ان کے بیٹے کے سفاک قاتل کو گرفتار کر کے انصاف مہیا کیا جائے۔
(ڈاکٹر رانا خضر حیات، جھبراں)
...
بیٹا اغوا ہوا، لیکن پولیس والے گھر سے بھاگنے کا بیان دینے پر مجبور کرتے رہے: والد غلام حسین
اہل علاقہ کی بروقت کارروائی سے 5 سالہ بیٹا اغواکاروں سے بازیاب ہو گیا: والد محمد ادریس
گڑھی شاہو لاہور کے رہائشی غلام حسین کا 13 سالہ بیٹا محمد بلال صبح سویرے دودھ لینے کے لئے دکان پر گیا، لیکن پھر گھر واپس نہ آیا۔ چار روز بعد وہ داتا دربار سے بھاگ کر گھر پہنچ گیا۔ اس حوالے سے بلال کے والد غلام حسین نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے بیٹے کو دودھ لانے کے لئے ریلوے کالونی بھیجا، لیکن کافی وقت گزرنے کے باوجود وہ گھر نہیں لوٹا۔ پہلے تو ہم نے خیال کیا کہ شائد وہ کہیں کھیل کود میں لگ گیا ہے، لیکن پھر مدرسہ جانے کا وقت گزرنے لگا تو ہمیں تھوڑی فکر ہوئی۔
اسی فکر میں، میں خود ہی اسے ڈھونڈنے نکل پڑا، لیکن وہ ملنا تھا نہ ملا۔ عزیزوں اقارب کو اطلاع دی گئی، ہر طرف دوڑ دھوپ کے بعد ہم نے پولیس سے بھی رابطہ کیا۔ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر پولیس نے بچے کے اغوا کی ایف آئی آر کاٹ دی۔ اس دوران ہمارے گھر پر فوتیدگی جیسا ماحول طاری رہا، بلال کی والدہ پر غشی کے دورے پڑنے لگے، کھانا پینا مکمل طور پر چھوٹ گیا، وہ جب ہوش میں آتیں، بلال کا پوچھ کر رونے لگتی اور پھر بے ہوش ہو جاتیں۔ میں نے ادھر ادھر کافی بلال کو تلاش کیا، لیکن سب لاحاصل۔ پولیس والے ایک دو روز گھر پر آئے اور طفل تسلیاں دے کر چلے گئے۔ میرا لخت جگر گھر سے غائب تھا، اس پریشانی کے عالم میں، میں تھانے جا کر دہائی دیتا، لیکن پولیس والے کہتے، ہم ڈھونڈ رہے ہیں، تم بھی ڈھونڈو۔ بچے کے اغوا کے دوران پولیس کا رویہ یہ تھا کہ بجائے وہ ہمارا ساتھ دیتے، الٹا مجھ پر دباؤ ڈالنے لگے کہ تم بچے کے اغوا کے بجائے گھر سے بھاگنے کا بیان دو۔
میں نے مزاحمت کی تو ان کا رویہ مزید سخت ہو گیا۔ پھر اللہ تعالی نے اپنا فضل کیا اور چار روز بعد بلال گھر واپس آ گیا۔ غلام حسین کے مطابق بلال نے واپس پہنچ کر بتایا کہ ''میں دودھ لینے جب بازار گیا تو وہاں اغوا کاروں نے کہا کہ ہم نے شادی پر جانا ہے تم ہمارے ساتھ چلو، ہم نے تمھارے گھر والوں کو پیسے بھی دے دیئے ہیں، میں نے مزاحمت کی تو انہوں نے مجھے کچھ سونگھا دیا، جس سے میں فوری طور پر بے ہوش ہو گیا، ہوش آنے پر میں ایک کمرے میں موجود تھا۔ میں جب ہوش میں آتا تو وہ مجھے کچھ کھانے پینے کو دیتے اور پھر بے ہوش کر دیتے، اسی طرح کافی وقت گزر گیا۔ کچھ روز بعد اچانک میری آنکھ کھلی تو میں داتا دربار کے سامنے ایک رکشے میں پڑا تھا، میرے ساتھ دو تین افراد تھے، جو مجھے رکشے میں چھوڑ کر کسی کام کی غرض سے اترے تو موقع پا کر میں وہاں سے بھاگ نکلا اور اپنے گھر پہنچ گیا۔
وہ واقعہ کوئی اور ہے، یہ ماجرا کوئی اور ہے
دو رویہ بنے بنگلوں کے بیچ بچھی سڑک کے کونے پر لگا بیریر اٹھتا ہے، اور گاڑیوں کی قطار اندر داخل ہوتی ہے، جن میں ٹی چینلز کی وینز نمایاں ہیں۔ دور تک پھیلی دیواروں کے بیچوں بیچ شان سے جَڑے اونچے فولادی گیٹ کے سامنے کھڑی پولیس موبائلوں اور سیاہ مرسڈیز، جس کے بونٹ پر چھوٹا سا قومی پرچم نڈھال پڑا ہے، کے آگے پیچھے جگہ بناتی گاڑیاں اور ان سے اترتے لوگ کشادہ گلی کو بھردیتے ہیں۔
کیمروں کی لائٹس آنکھیں چندھیانے لگی ہیں، مائیک اٹھائے رپورٹر اپنے اپنے چینل کے کیمرامین کے سامنے کھڑے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر لگ بھگ ایک سے بے ربط الفاظ میں خبر پہنچارہے ہیں، جو اس دعوے کے ساتھ نشر ہوگی کہ ''ہم نے یہ خبر سب سے پہلے ناظرین تک پہنچائی۔ ''سابق وزیر اور معروف صنعت کار چوہدری جمال اکرم کے کم سن بیٹے حسن جمال کو آج شام اغوا کرلیا گیا۔ میں اس وقت چوہدری جمال اکرم کی کوٹھی کے باہر موجود ہوں، اس وقت وزیرداخلہ، آئی جی پولیس اور پولیس اور دیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام چوہدری جمال اکرم سے ملاقات کر رہے ہیں۔ ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں۔۔۔۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھ کُھلے دروازے سے بین کی آواز بار بار ابھرتی ہے اور پتلی سی نیم تاریک گلی کی ویرانی میں گم ہوجاتی ہے۔ نکڑ پر پڑے کوڑے کے ڈھیر اور ٹوٹے گٹر کے ابلتے پانی سے کپڑے بچاتے چھوٹا سا قافلہ گلی میں داخل ہوکر ادھ کھلے دروازے پر رک جاتا ہے، آنے والوں میں سے ایک نڈھال شخص جیسے ہی دہلیز پار کرتا ہے رندھی ہوئی آواز سوال کرتی ہے،''میرے ارشد کا پتا چلا۔''
آنے والا کسی مجرم کی طرح آنکھیں نیچی کرکے سر ہلادیتا ہے۔ سوال کرتی آواز چیخ میں ڈھل جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ راہ پر کھڑے پولیس اہل کار ایک ایک گاڑی کو روک کر اندر جھانک رہے ہیں۔
''آج کیا ہوا ہے۔ ہر سڑک پر تلاشی ہورہی ہے۔''
''ٹی وی نہیں دیکھا۔۔۔۔چوہدری جمال اکرم کا بیٹا اغوا ہوگیا ہے۔''
تلاشی کے لیے باری آنے کے انتظار میں ڈرائیونگ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے شخص بیوی کے سوال کا جواب دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''او کیسی ایف آئی آر۔۔۔۔کہیں چلا گیا ہوگا، انتظار کرو آجائے گا۔۔۔تم لوگ بچے پیدا کرلیتے ہو، سنبھالنے نہیں آتے۔''
''صاحب! صبح نو بجے سے غائب ہے، رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ پورا علاقہ ڈھونڈ لیا۔ سات سال کا بچہ کتنی دور جاسکتا ہے۔ ارشد کی ماں کا رو رو کر بُرا حال ہوگیا ہے۔ آپ ایف آئی آر۔۔۔۔۔''
''او چل چل بھائی، دماغ خراب نہ کر، پہلے چوہدری جمال کے بیٹے کے چکر میں دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''چوہدری جمال کے بیٹے کے اغوا کو تین دن گزر گئے، آخر پولیس کیا کر رہی ہے۔۔۔''
''سب کا'' چینل کی چیل جیسی آواز والی نیوز اینکر کی آواز ہر ایک دو گھنٹے بعد ناظرین کی سماعتوں کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔
''گورنر کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس۔ سینئر سیاست داں چوہدری جمال اکرم کے بیٹے کے اغوا کا معاملہ سرفہرست رہا۔''
ٹی وی چینلز پر تین روز سے اسی طرح کی خبریں بار بار نشر ہورہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''چوہدری جمال اکرم کا بیٹا بازیاب کرالیا گیا''
وہی بنگلوں کے بیچ بچھی کشادہ سڑک، گاڑیوں کی وہی قطاریں، ہار اور مٹھائی ڈبے لیے لوگ، گیٹ پر پڑی گلاب کی پتیاں، کیمروں کی روشنیاں، رپورٹروں کی جوش سے ہکلاتی آوازیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''سات سالہ ارشد کی لاش نالے سے مل گئی۔ بچے کو تین روز قبل اغوا کیا گیا تھا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اسے۔۔۔۔۔۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی پتلی سی نیم تاریک گلی سے کچھ دور واقع قبرستان میں ایک چھوٹی سی قبر، گلاب کی پتیوں سی ڈھکی۔
۔۔۔
نہیں نہیں کا کے کے ابّا
دیواریں اور دروازہ یوں ہی رہنے دو
رنگ نہ کرنا
سارے محلے سے بھی کہہ دو
اپنے مکانوں کے چہروں کو ذرا نہ بدلیں
گلی کے نکڑ پر جو لگا ہے پیڑ ، نہ کاٹیں
گھر کو آتی ٹوٹی سڑک بننے نہ پائے
سڑک کنارے بیٹھا پاگل جگہ چھوڑ کر اُٹھ نہ جائے
ٹافی سپاری والا وہ شیدے کا کھوکھا اپنی جگہ سے ہٹ
نہ جائے
ایسا نہ ہو
میرا کاکا
جب آئے تو
گھر کے رستے کے جو نشاں سب یاد ہیں اُس کو
کوئی نہ پائے
لوٹ نہ جائے
پھر نہ کہیں وہ گُم ہو جائے
...
شیخوپورہ کے نواح میں واقعی بھکھی کے علاقے اسکندر آباد سے ہفتے کے روز 7 سالہ شعبان علی نامی بچہ لاپتہ ہو گیا تھا۔ ممکن ہے مقامی پولیس کا خیال یہی ہو کہ بچہ ناراض ہو کر چلا گیا ہے اور خود ہی واپس لوٹ آئے گا لیکن پیر کے روز اس معصوم کی لاش قریبی گاؤں کھاریاں والا میں کھیتوں میں پڑی ملی۔ اس میں شک نہیں کہ علاقائی اور عالمی سیاست کے جبر نے ہمیں دہشت گردی کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے۔
ہمارے ارد گرد ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اس ماردھاڑ اور قتل و غارت گری میں علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کا بھی بڑا عمل دخل ہے لیکن اس کو کیا کہئے کہ معمولی فائدے کے لیے ماؤں کے جگر گوشوں کو گاجر، مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا جائے۔ جن آنکھوں میں مستقبل کے خواب جھلملاتے ہوں، جو آنکھیں ماں باپ اور بہن بھائیوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں انہیں بیچنے کے لیے جسم سے نکال لیا جائے۔ لاہور اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے بچوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ایک حقیقت ہے۔
اس حقیقت پر پولیس کے ردعمل پر جائیں تو ایسی کوئی غیر معمولی صورتحال سرے سے موجود ہی نہیں۔ معاملات کا سامنا کرنے کے حوالے سے پولیس کے رویئے سے کون واقف نہیں۔ میں خود پاکستانی میڈیا کا حصہ ہوتے ہوئے اسے بھگت چکا ہوں۔ فرق اتنا ہے کہ کسی عام سائل سے خشک اور سخت انداز میں بات کی جاتی ہے اور مجھ سے پولیس والوں نے درخواست کی کہ موبائل چھینے جانے کی واردات کی گمشدگی لکھوائیں کیونکہ بصورت دیگر اسے ڈکیتی کے زمرے میں تصور کیا جاتا ہے اور اس پر ہونے والی پیش رفت سے ہر ہفتہ آگاہ کرنا لازم ہے۔ بچوں کے اغوا اور گمشدگی کے واقعات پر بھی پولیس اسی طرح کے رویئے کا مظاہرہ کر رہی ہے ورنہ اب تک اعضاء نکالے جانے کے جتنے بھی واقعات سامنے آئے ہیں ان پر کوئی اہم پیش رفت سامنے آچکی ہوتی اور پس پردہ ہاتھ بے نقاب ہو جاتے۔
آئی جی پنجاب ندیم نواز نے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق گزشتہ چھ برس کے عرصہ میں 6793 بچے اغوا ہوئے جن میں سے 6654 بازیاب کرا لیے گئے۔ 2015-16 کے دوران 1315 بچے بازیاب ہوئے جبکہ 93 کے لیے تفتیش کا عمل جاری ہے۔ اسی طرح رواں برس کے پہلے سات ماہ میں 767 بچے اغوا ہونے کے واقعات رجسٹر ہوئے، 715 بازیاب ہو چکے جبکہ 52 معاملات کی چھان بین جاری ہے۔ اس رپورٹ میں اس خیال کو بھی رد کیا گیا کہ پنجاب میں کوئی منظم گروہ بچوں کے اغوا کی وارداتیں کر رہا ہے۔ اگر اس بات کو درست بھی مان لیا جائے تو پھر بھی بچوں کی گمشدگی خواہ وہ کسی منظم گروہ کے ہاتھوں ہو یا کسی کی انفرادی کارروائی ہو اس کا مقصد بھیک منگوانا ہو یا خودکش بمبار بنانا، منشیات کی اسمگلنگ ہو یا پھر انسانی اعضاء بیچنے کا مکروہ دھندہ، معاملے کا انسانی پہلو یہ ہے کہ ریاست والدین کے لیے ان کی اولاد کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کر رہی ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ میں صفائی پیش کرنے کے باوجود انتہائی معتبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پنجاب میں حکام نے بچوں کے اغوا کے سلسلے میں کے پی کے اور سندھ کے حکام سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ پنجاب حکومت سمجھتی ہے کہ اغوا کاروں کا تعلق ان دو صوبوں سے ہے جو دہشت گردی کے لیے بچوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ نام خفیہ رکھنے کی شرط پر اہم سرکاری اہلکار نے بتایا کہ کراچی اورقبائلی علاقوں میں آپریشن کے نتیجے میں بہت سے دہشت گرد پنجاب آچکے ہیں اور اب بڑے شہروں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہے ہیں۔
اہلکار کے مطابق دہشت گردوں نے اب ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، مردان، کوہاٹ اور پشاور کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ہے جہاں سے پنجاب اور کے پی کے کے درمیان سرگرمیوں کو مربوط کیا جاتا ہے۔ اس بات کا اقرار پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے بھی کیا ہے کہ ایسے بین الصوبائی گروہ سرگرم عمل ہیں۔ حکومت پنجاب گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے Digital Child Abduction Alert System متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ذریعے گمشدہ بچے کی اطلاع ملک بھر میں متعلقہ شعبوں کو پہنچائی جا سکے گی۔ حکومت پنجاب کے یہ تمام اقدامات بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ایسے سفاک گروہ سرگرم عمل ہیں جو ملک میں سزا اور احتساب کی عدم موجودگی کے تاثر کے زیراثر ہر طرح کے جرائم کا کھلے عام ارتکاب کرنے سے نہیں گھبراتے۔
شیخوپورہ سے نمائندہ ایکسپریس شاہد خان کے مطابق نواحی گاؤں جھبران منڈی کے رہائشی محمد ادریس کا 5 سالہ بیٹا شرجیل گھر کے قریب دکان سے چیز لینے کے لئے گیا، جہاں سے اسے اغواء کاروں نے پکڑ لیا اور لے کر فرار ہو گئے ۔ اہل علاقہ نے پولیس کو اطلاع دی، جس نے اہل علاقہ کے ہمراہ اغواء کاروں کا تعاقب کرکے تینوں کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اغواء کار اس سے قبل بھی اغواء کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیں۔ پولیس نے ملزمان سے تفتیش شروع کر دی ہے۔
کمسن بچے شرجیل کے والد محنت کش محمد ادریس نے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ جھبراں منڈی کے محلہ اسلام پورہ میں میری کریانہ کی دکان ہے اور دکان کے قریب ہی میرا گھر ہے میرا بیٹا جب کھانے کی چیز لے کر گھر واپس جارہاتھا کہ ان تین ملزمان ارشد، افتخاراور خالد محمود نے اسے گلی سے اغواء کرلیا۔ ملزمان جب بچے کو اٹھا کر لے جا رہے تھے تو اہل محلہ کچھ لوگوں نے انہیں دیکھ لیا اور ان کا پیچھا کرکے بچے کو بازیاب کرویا اور ایک اغواء کارکو بھی پکڑلیا جبکہ دیگرساتھی فرار ہوگئے، جس کی اطلاع ہم نے متعلقہ پولیس کو دی جس پر بروقت کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے قریبی ڈیرہ پر چھاپہ مارکر فرار ہونے والے دونوں ملزمان کو گرفتارکرلیا۔ بچے کے والدکا کہنا تھا کہ پولیس نے ہمارے ساتھ مکمل تعاون کیا جس پر ہم بہت خوش ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اہل محلہ اور پولیس کی بروقت کارروائی کی وجہ سے ہمارا بچہ ان درندہ صفت انسانوں کے چنگل سے بازیاب ہوگیا جس پر ہم بہت خوش ہیں۔
رحیم یار خان سے خصوصی رپورٹر فاروق سندھو کے مطابق بچوں کے لاپتہ ہونے والے واقعات نے لاہور کی طرح پنجاب کے دیگر شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ رحیم یارخان کے علاقہ ظفر آباد کالونی کا محنت کش فاروق ملک گزشتہ ایک ماہ سے اپنے 13سالہ لخت جگر ساجد کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا ہے' ماں بے بسی کی تصویر بنے گھر کی دہلیز پر نظریں جمائے بیٹھی ہے کہ شاید اس کا لاڈلا، اس کی آنکھوں کا تارا، اس کے دل کا قرار، دروازے پر اچانک مسکراتا ہوا نمودار ہوگا اور اسے دیکھ کر پکارے گا ''ماں''۔ لاپتہ بچے کے والد ملک فاروق نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرا بیٹا ساجد عید کی چھٹیوں کے دوران گھر سے نکلا اور دوبارہ نہیں لوٹا۔ طرح طرح کے خدشات ماں اور باپ کو کانٹوں کی طرح چبھ رہے ہیں' ساجد ایک معصوم سا لڑکا جو محلے داروں' دوستوں سمیت سب سے پیار کرتا تھا' والدین کی عزت کرتا تھا، عید کی چھٹیوں کے دوران اچانک لاپتہ ہوگیا' پولیس کو بھی واقعہ سے آگاہ کیا گیا، لیکن تاحال ان کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔
بیٹے کو لاپتہ ہوئے ایک ماہ سے زائد وقت گزر چکا ہے، مگر اس کا کچھ پتہ نہیں۔ ملک فاروق اور اس کی بیوی کیا اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھ بھی پائیں گے یا نہیں' اے خدا! اسے سلامت رکھنا' اے خدا! تو بڑا مہربان ہے ہمارے لخت جگر کو ہم سے ملا دے آنکھوں سے چھم چھم آنسو برساتے ہوئے لبوں پر یہ دعائیں مانگتے ہوئے ساجد کے والدین کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ تو صرف وہی کرسکتے ہیں۔
نا شکرے لوگ
معصوم بچے بڑی تعداد میں غائب ہو رہے ہیں۔ جن گھروں سے وہ تعلق رکھتے ہیں، ان کے درودیوار سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سلسلہ دراز ہوا تو سپریم کورٹ نے بجا طور پر از خود نوٹس لیا۔
جولائی کے مہینے میں کارروائی کا آغاز ہوا۔ پولیس کے نمائندے نے بیان دیا کہ زیادہ تر بچے خود گھروں سے بھاگے ہیں، اغوا ہونے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حسب معمول، حزب اقتدار نے (اور پولیس والوںِ نے) نقارہ بجایا کہ یہ کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہے، خواہ مخواہ میڈیا panic پھیلا رہا ہے۔ بچے تو غائب ہوتے رہتے ہیں، پھر یہ کہ اکثر بچے خود گھر سے بھاگے ہیں، اور وہ واپس بھی آ رہے ہیں۔
حقیقت کیا ہیِ؟ پنجاب کے مختلف شہروں، خاص طور پر لاہور، راول پنڈی، بہاول پور، فیصل آباد اور بہاول نگر سے پے در پے والدین کی شکایات موصول ہوتی رہیں کہ پولیس اور دیگر متعلقہ حکام کا رویہ درست نہیں ہے۔ وہ کان دھرنے کو تیار نہیں۔ کیا یہ خبر تعجب خیز یا من گھڑت ہے؟ سب جانتے ہیں کہ پولیس کا محکمہ انتہائی ظالم اور بد دیانت ہے۔ پولیس والوں کا ظلم پاکستان کی بستیوں میں ننگا ہوکر ناچتا ہے۔ ان کی بددیانتی کا کبھی پیٹ نہیں بھرتا، حتیٰ کہ وہ انتہائی لاچار، مجبور، بے کس، بے بس، آنسوؤں کے سمندر میں ڈوبے غریب فریادیوں تک کی کھالیں اتار لیتے ہیں۔
حزب اقتدار والے شور کررہے ہیں کہ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے۔ خواہ مخواہ؟ ایسا لرزہ خیز بیان پاکستان ہی میں دیا جا سکتا ہے۔ کیا ماں باپ کا اچانک اپنے معصوم جگر گوشوں سے، بہنوں کا اپنے بھائیوں سے اور بھائیوں کا اپنی بہنوں سے یوں بچھڑنا معمولی واقعہ ہے۔ خدا نہ کرے، ان کا کوئی بچہ ان سے بچھڑ جائے، تب ان سے پوچھا جائے کہ کہو تمہارے دل پہ کیا گزر رہی ہے، اب تمہیں احساس ہوا کہ یہ غم کس طرح روح کے اندر اُترتا ہے اور زندگی میں کس طرح ویرانیاں بکھیر دیتا ہے۔
یہ دستور پاکستانی سیاست کے نصاب میں شامل ہو چکا ہے۔ تم حزب اقتدار میں ہو تو تمہیں ہر طرف ہرا ہرا نظر آتا ہے، حزب اختلاف میں ہو تو تمہارے دل میں درد کی لہریں دوڑنے بھاگنے لگتی ہیں۔ یہ ایک بہت مکروہ اور غلیظ منظر ہے۔ حزب اقتدار والے
کس طرح آنکھوں میں دُھول جھونکتے ہیں، اس کے لیے مثالیں حزب اقتدار کے بازار میں عریاں ہو کر رقص کرتی ہیں:
'' فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، بد عنوانی پڑوسی ملک میں ہم سے زیادہ ہوتی ہے۔''
'' گھبرائیں نہیں، امریکا میں ہر سال ہم سے زیادہ قتل ہوتے ہیں۔''
'' ہم پھر بھی بہتر ہیں، کولمبیا میں تو ہم سے زیادہ ٹارگیٹ کلنگ ہوتی ہے۔َ''
ہم پھر بھی نیچے ہیں، نائیجیریا کی نوکر شاہی ہم سے کہیں زیادہ بدعنوان اور خودغرض ہے۔''
'' خواہ مخواہ شور کرتے ہو، افریقا کے ملک ' ڈاکو ناکو چاکو' میں ہم سے زیادہ غربت ہے۔''
'' اللہ کا شکر ادا کرو بھائی، لاکو کاٹو جاٹو میں ہم سے زیادہ غلیظ پانی وہاں کے لوگ پیتے ہیں۔''
'' ہم خوش قسمت ہیں، روزانہ صرف چند سو افراد دوا نہ ملنے سے ہلاک ہوتے ہیں، لاچوماچوچاٹو میںتو رزانہ ہزاروں افراد دوا نہ ملنے سے مرجاتے ہیں۔''
وعلیٰ ہٰذالقیاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر سانحہ معمولی ہے، جب تم اقتدار میں ہو!!
ہر برائی ہمالہ سے اونچی ہے، اگر تم حزب اختلاف میں ہو!!!
نادار، مجبور، محروم، لاچار لوگ ان کی بازی گری دیکھتے ہیں، اور تھک ہار کر سر جھکا لیتے ہیں۔
تو اس بار بھی یہی فرمان ہے: ''بچے غائب ہو رہے ہیں، شکر ادا کرو،
ابھی ہزاروں میں ہیں، لاکھوں میں نہیں۔''
دنیا پور کے 11سالہ سجاد کو لاپتہ ہوئے 5 ماہ گزر گئے، ماں کو غشی کے دورے
دنیا پور کے علاقے لدھا بوہڑ کے رہائشی محمد حنیف کا 9 سالہ بھتیجا محمد سجاد 11 مارچ کو لاپتہ ہوا اور آج تک کہیں سے اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اس حوالے سے ''ایکسپریس'' نے بچے کے والد سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن بیٹے کے صدمے کی وجہ سے وہ بات ہی نہ کر سکے۔
تاہم سجاد کے چچا حنیف نے بتایا کہ وہ مارچ میں اپنے ایک عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے ملتان گئے تھے۔ اگلے روز رات کو ولیمہ تھا، جس میں شرکت کے لئے جب ہم زکریا ٹاؤن پہنچے تو کچھ دیر بعد ہمیں محسوس ہوا کہ سجاد کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ کسی نے پوچھنے پر بتایا کہ وہ کوئی چیز لینے کے لئے باہر گیا تھا۔ ہم سب اسے ڈھونڈنے کے لئے باہر نکل پڑے، لیکن وہ ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیا، دکاندار اور اہل علاقہ بھی سجاد سے لاعلم تھے۔ ہم نے فوری طور پر مساجد میں اعلانات کروائے، خوب بھاگ دوڑ کی، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، تھک ہار کر ہم متعلقہ تھانے پہنچ گئے، جہاں پولیس نے بچے کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کر کے ہمیں روانہ کر دیا۔ بعدازاں ہم نے اخبارات اور کیبل نیٹ ورک پر اشتہارات دیئے، بینرز لگوائے، لیکن سجاد نہ ملا۔ گھر میں سوگ کا سماں ہے، اس وقت ایک ماں کی ممتا پر کیا بیت رہی ہے؟ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
سجاد کی والدہ ہر وقت منہ چھپا چھپا کر روتی رہتی ہے، تاہم کبھی کبھار وہ خود پر ضبط نہ رہنے کے باعث دھاڑیں بھی مارنے لگ جاتی ہیں، ان کا کھانا پینا چھوٹ چکا ہے، بے ہوشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ وہ ہر وقت یہ کہتی رہتی ہیں کہ معلوم نہیں میرا بچہ کہاں اور کس حالت میں ہوگا؟ اس نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں؟ اسے کہیں بخار تو نہیں ہو رہا، پیٹ میں درد تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف والد جس کا چند روز پہلے کندھا اتر گیا تھا، بیٹے کے غم میں اب چارپائی پر لگ چکا ہے۔
ہماری حالت اس وقت یہ ہے کہ جب بھی ہمیں کہیں سے کسی بچے کے ملنے کی اطلاع ملتی ہے، ہم فوراً پاگلوں کی طرح اس طرف دوڑ پڑتے ہیں، لیکن ہمارا لال ابھی تک ہماری آنکھوں سے دور ہے۔ اس دوران پولیس والوں سے رابطہ کرتے ہیں تو ان کا ٹکا سا جواب ہوتا کہ ہم ڈھونڈ رہے ہیں، جب ملے گا تو تمہیں اطلاع کر دی جائے گی۔ ہم غریب لوگ ہیں، ایک خان (وڈیرا) کے پاس نوکری کرتے ہیں، جو سال کے دانے دے دیتا ہے،جس سے زندگی اور روح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بچے کی بازیابی کے لئے کہاں اور کس کے پاس فریاد لے کر جائیں؟ بس اللہ تعالی سے دعا گو ہے کہ وہ ہم پر اپنا فضل فرمائے۔
7 سالہ لاپتہ بچے کی کھیتوں سے مسخ شدہ نعش برآمد، والدہ کی دُہائی
بچوں کے اغوا کے حوالے سے تھانہ بھکھی کے علاقہ کھاریانوالہ میں پیش آنے والے واقعہ نے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک بھٹہ مزدور عبدالحمید کا 7سالہ بیٹا نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بنا اور اغوا ہونے کے تین روز بعد اس کی نعش جوار کے کھیت سے برآمد ہوئی۔ موضع سکندرآباد کے رہائشی بھٹی مزدور عبدالحمید کا سات سالہ بیٹا شعبان علی ایک ماہ قبل سے کھاریانوالہ میں رہائش پذیر اپنے نانا بشیر احمد کے ہاں رہ رہا تھا۔
وقوعہ کے روز شعبان علی اپنی ممانی صغراں کے ساتھ قریبی کھیت میں گیا، جہاں اس کی ممانی نے اسے گھر پانی لینے کے لئے بھیجا مگر وہ واپس نہ آیا، تاخیر کے باعث تشویش ہوئی تو وہ ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکا۔ بچے کے ورثاء نے پولیس تھانہ بھکھی کو اطلاع کی تو ایس ایچ او نفری کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔
ورثاء کا اصرار تھا کہ ان کا بچہ اغوا ہو گیا ہے مگر ایس ایچ او نے ورثاء سے کہا کہ وہ بچے کو قریب واقع جوہڑ میں تلاش کریں۔ 1122ریسکیوکو بھی فوری بلوایا گیا مگر ان کے پاس بڑی کشتی تھی جو مذکورہ جوہڑ میں تیر نہیں سکتی تھی، تاہم ورثاء اور گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جوہڑ میں بچے کو تلاش کیا، لیکن وہ ملنا تھا نہ ملا۔ اس دوران مختلف افواہیں علاقہ میں گردش کرتی رہیں۔ علاقہ مکینوں نے پولیس کے خلاف احتجاج کیا اور روڈ بلاک کر کے ٹائر جلائے، جس پر ڈی پی او شیخوپورہ کی ہدایات پرڈی ایس پی سٹی سرکل راجہ فخر بشیر نے بچے کی جلد بازیابی کی یقین دہانی کروا کے مظاہرین کو منتشر کر دیا۔
بچہ لاپتہ ہونے کے تیسرے روز شعبان علی کی نعش جوار کے کھیت سے اس وقت برآمد ہوئی جب پولیس تلاش میں تھی، نعش بہت بری حالت میں تھی۔ اس حوالہ سے بھی علاقہ میں یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ مقتول بچے کی آنکھیں اور دل نکال لیا گیا مگر یہ تمام افواہیں میڈیکل رپورٹ نے جھوٹی ثابت کر دیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اس کی موت قمیض سے گلے میں پھندا دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔ فرانزک ٹیسٹ رپورٹ تاحال آنا باقی ہے، جس کے بعد مزید حقائق سامنے آئیں گے۔ سات سالہ شعبان علی کے والد جو کہ تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کا باپ ہے، نے پولیس کو بتایا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں، ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ اس موقع پر والدہ روتی اور دُہائی دیتی رہی۔ والدین نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ ان کے بیٹے کے سفاک قاتل کو گرفتار کر کے انصاف مہیا کیا جائے۔
(ڈاکٹر رانا خضر حیات، جھبراں)
...
بیٹا اغوا ہوا، لیکن پولیس والے گھر سے بھاگنے کا بیان دینے پر مجبور کرتے رہے: والد غلام حسین
اہل علاقہ کی بروقت کارروائی سے 5 سالہ بیٹا اغواکاروں سے بازیاب ہو گیا: والد محمد ادریس
گڑھی شاہو لاہور کے رہائشی غلام حسین کا 13 سالہ بیٹا محمد بلال صبح سویرے دودھ لینے کے لئے دکان پر گیا، لیکن پھر گھر واپس نہ آیا۔ چار روز بعد وہ داتا دربار سے بھاگ کر گھر پہنچ گیا۔ اس حوالے سے بلال کے والد غلام حسین نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے بیٹے کو دودھ لانے کے لئے ریلوے کالونی بھیجا، لیکن کافی وقت گزرنے کے باوجود وہ گھر نہیں لوٹا۔ پہلے تو ہم نے خیال کیا کہ شائد وہ کہیں کھیل کود میں لگ گیا ہے، لیکن پھر مدرسہ جانے کا وقت گزرنے لگا تو ہمیں تھوڑی فکر ہوئی۔
اسی فکر میں، میں خود ہی اسے ڈھونڈنے نکل پڑا، لیکن وہ ملنا تھا نہ ملا۔ عزیزوں اقارب کو اطلاع دی گئی، ہر طرف دوڑ دھوپ کے بعد ہم نے پولیس سے بھی رابطہ کیا۔ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر پولیس نے بچے کے اغوا کی ایف آئی آر کاٹ دی۔ اس دوران ہمارے گھر پر فوتیدگی جیسا ماحول طاری رہا، بلال کی والدہ پر غشی کے دورے پڑنے لگے، کھانا پینا مکمل طور پر چھوٹ گیا، وہ جب ہوش میں آتیں، بلال کا پوچھ کر رونے لگتی اور پھر بے ہوش ہو جاتیں۔ میں نے ادھر ادھر کافی بلال کو تلاش کیا، لیکن سب لاحاصل۔ پولیس والے ایک دو روز گھر پر آئے اور طفل تسلیاں دے کر چلے گئے۔ میرا لخت جگر گھر سے غائب تھا، اس پریشانی کے عالم میں، میں تھانے جا کر دہائی دیتا، لیکن پولیس والے کہتے، ہم ڈھونڈ رہے ہیں، تم بھی ڈھونڈو۔ بچے کے اغوا کے دوران پولیس کا رویہ یہ تھا کہ بجائے وہ ہمارا ساتھ دیتے، الٹا مجھ پر دباؤ ڈالنے لگے کہ تم بچے کے اغوا کے بجائے گھر سے بھاگنے کا بیان دو۔
میں نے مزاحمت کی تو ان کا رویہ مزید سخت ہو گیا۔ پھر اللہ تعالی نے اپنا فضل کیا اور چار روز بعد بلال گھر واپس آ گیا۔ غلام حسین کے مطابق بلال نے واپس پہنچ کر بتایا کہ ''میں دودھ لینے جب بازار گیا تو وہاں اغوا کاروں نے کہا کہ ہم نے شادی پر جانا ہے تم ہمارے ساتھ چلو، ہم نے تمھارے گھر والوں کو پیسے بھی دے دیئے ہیں، میں نے مزاحمت کی تو انہوں نے مجھے کچھ سونگھا دیا، جس سے میں فوری طور پر بے ہوش ہو گیا، ہوش آنے پر میں ایک کمرے میں موجود تھا۔ میں جب ہوش میں آتا تو وہ مجھے کچھ کھانے پینے کو دیتے اور پھر بے ہوش کر دیتے، اسی طرح کافی وقت گزر گیا۔ کچھ روز بعد اچانک میری آنکھ کھلی تو میں داتا دربار کے سامنے ایک رکشے میں پڑا تھا، میرے ساتھ دو تین افراد تھے، جو مجھے رکشے میں چھوڑ کر کسی کام کی غرض سے اترے تو موقع پا کر میں وہاں سے بھاگ نکلا اور اپنے گھر پہنچ گیا۔
وہ واقعہ کوئی اور ہے، یہ ماجرا کوئی اور ہے
دو رویہ بنے بنگلوں کے بیچ بچھی سڑک کے کونے پر لگا بیریر اٹھتا ہے، اور گاڑیوں کی قطار اندر داخل ہوتی ہے، جن میں ٹی چینلز کی وینز نمایاں ہیں۔ دور تک پھیلی دیواروں کے بیچوں بیچ شان سے جَڑے اونچے فولادی گیٹ کے سامنے کھڑی پولیس موبائلوں اور سیاہ مرسڈیز، جس کے بونٹ پر چھوٹا سا قومی پرچم نڈھال پڑا ہے، کے آگے پیچھے جگہ بناتی گاڑیاں اور ان سے اترتے لوگ کشادہ گلی کو بھردیتے ہیں۔
کیمروں کی لائٹس آنکھیں چندھیانے لگی ہیں، مائیک اٹھائے رپورٹر اپنے اپنے چینل کے کیمرامین کے سامنے کھڑے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر لگ بھگ ایک سے بے ربط الفاظ میں خبر پہنچارہے ہیں، جو اس دعوے کے ساتھ نشر ہوگی کہ ''ہم نے یہ خبر سب سے پہلے ناظرین تک پہنچائی۔ ''سابق وزیر اور معروف صنعت کار چوہدری جمال اکرم کے کم سن بیٹے حسن جمال کو آج شام اغوا کرلیا گیا۔ میں اس وقت چوہدری جمال اکرم کی کوٹھی کے باہر موجود ہوں، اس وقت وزیرداخلہ، آئی جی پولیس اور پولیس اور دیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام چوہدری جمال اکرم سے ملاقات کر رہے ہیں۔ ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں۔۔۔۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھ کُھلے دروازے سے بین کی آواز بار بار ابھرتی ہے اور پتلی سی نیم تاریک گلی کی ویرانی میں گم ہوجاتی ہے۔ نکڑ پر پڑے کوڑے کے ڈھیر اور ٹوٹے گٹر کے ابلتے پانی سے کپڑے بچاتے چھوٹا سا قافلہ گلی میں داخل ہوکر ادھ کھلے دروازے پر رک جاتا ہے، آنے والوں میں سے ایک نڈھال شخص جیسے ہی دہلیز پار کرتا ہے رندھی ہوئی آواز سوال کرتی ہے،''میرے ارشد کا پتا چلا۔''
آنے والا کسی مجرم کی طرح آنکھیں نیچی کرکے سر ہلادیتا ہے۔ سوال کرتی آواز چیخ میں ڈھل جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ راہ پر کھڑے پولیس اہل کار ایک ایک گاڑی کو روک کر اندر جھانک رہے ہیں۔
''آج کیا ہوا ہے۔ ہر سڑک پر تلاشی ہورہی ہے۔''
''ٹی وی نہیں دیکھا۔۔۔۔چوہدری جمال اکرم کا بیٹا اغوا ہوگیا ہے۔''
تلاشی کے لیے باری آنے کے انتظار میں ڈرائیونگ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے شخص بیوی کے سوال کا جواب دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''او کیسی ایف آئی آر۔۔۔۔کہیں چلا گیا ہوگا، انتظار کرو آجائے گا۔۔۔تم لوگ بچے پیدا کرلیتے ہو، سنبھالنے نہیں آتے۔''
''صاحب! صبح نو بجے سے غائب ہے، رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ پورا علاقہ ڈھونڈ لیا۔ سات سال کا بچہ کتنی دور جاسکتا ہے۔ ارشد کی ماں کا رو رو کر بُرا حال ہوگیا ہے۔ آپ ایف آئی آر۔۔۔۔۔''
''او چل چل بھائی، دماغ خراب نہ کر، پہلے چوہدری جمال کے بیٹے کے چکر میں دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''چوہدری جمال کے بیٹے کے اغوا کو تین دن گزر گئے، آخر پولیس کیا کر رہی ہے۔۔۔''
''سب کا'' چینل کی چیل جیسی آواز والی نیوز اینکر کی آواز ہر ایک دو گھنٹے بعد ناظرین کی سماعتوں کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔
''گورنر کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس۔ سینئر سیاست داں چوہدری جمال اکرم کے بیٹے کے اغوا کا معاملہ سرفہرست رہا۔''
ٹی وی چینلز پر تین روز سے اسی طرح کی خبریں بار بار نشر ہورہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''چوہدری جمال اکرم کا بیٹا بازیاب کرالیا گیا''
وہی بنگلوں کے بیچ بچھی کشادہ سڑک، گاڑیوں کی وہی قطاریں، ہار اور مٹھائی ڈبے لیے لوگ، گیٹ پر پڑی گلاب کی پتیاں، کیمروں کی روشنیاں، رپورٹروں کی جوش سے ہکلاتی آوازیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''سات سالہ ارشد کی لاش نالے سے مل گئی۔ بچے کو تین روز قبل اغوا کیا گیا تھا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اسے۔۔۔۔۔۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی پتلی سی نیم تاریک گلی سے کچھ دور واقع قبرستان میں ایک چھوٹی سی قبر، گلاب کی پتیوں سی ڈھکی۔