امریکا کی آن… خضر خان
نیویارک کے ساحل پر فرانسیسیوں کی طرف سے تحفے میں ملنے والا جو مجسمہ آزادی سر اٹھائے کھڑا ہوا ہے
ISLAMABAD:
امریکی ریاست ورجینیا میں رہنے والے خضر خان نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ وہ اپنے اختیاری وطن میں اپنا کڑیل جوان بیٹا کھودیں گے اور فلاڈلفیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن میں کھڑے ہو کر اس شخص کو چیلنج کریں گے جو کھرب پتی ہے اور امریکی صدارتی انتخاب کو یوں لڑرہا ہے جیسے اکھاڑے میں اپنے طاقتور بدن کی نمائش کرنے والا کوئی پہلوان ہو، جسے کشتی کے صرف داؤ پیچ ہی نہیں آتے، جس کی زبان پر بھی سان رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح ڈونالڈ ٹرمپ نے خواب میں نہیں سوچا ہوگا کہ تیسری دنیا کے ایک ملک سے آنے والا تارک وطن انھیں امریکی جمہوریت کے وہ نکتے تعلیم کرے گا جسے ٹرمپ صاحب بھولے ہوئے ہیں۔
نیویارک کے ساحل پر فرانسیسیوں کی طرف سے تحفے میں ملنے والا جو مجسمہ آزادی سر اٹھائے کھڑا ہوا ہے، اس کے بارے میں سمندری راستے سے آنے والے تارکین وطن یہ کہتے رہے ہیں کہ رات کی تاریکی میں میلوں دور سے مجسمۂ آزادی کی روشن مشعل انھیں راستہ دکھاتی رہی ہے۔
خضر خان اسی روشنی کی کرن کو تھامے ہوئے اپنے خاندان کے ساتھ امریکا پہنچے تھے، وہ کہتے ہیں کہ امریکا نے انھیں مایوس نہیں کیا۔ ان کے بیٹے ہمایوں خان نے امریکی فوج میں بھرتی کو ترجیح دی اور ہمایوں کے والدین نے اس کا راستہ نہیں روکا۔ باپ نے بیٹے کو امریکی آئین کی بنیادی باتیں حفظ کرائیں اور لام پر روانہ کردیا۔ خضر خان اپنی جیب میں امریکی آئین کی ایک کاپی ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں اور اگر کوئی ان کے گھر جائے تو وہ اسے تحفے میں آئین کی ایک کاپی نذر کرتے ہیں۔
امریکی حکومتوں کے استعماری اور استحصالی رویوں پر میں نے خدا جانے کتنے صفحے سیاہ کیے ہیں لیکن یہ بات میں کیسے جھٹلا سکتی ہوں کہ امریکا میں آنے والوں اور وہاں کی شہریت اختیار کرنے والوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جاتی، انھیں وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ایک عام سفید فام شہری کے ہوتے ہیں۔ خضر خان اور غزالہ خان کا بیٹا امریکی فوج میں کیپٹن ہوا، اسے عراق بھیجا گیا جہاں وہ ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوگیا۔ 27 برس کی عمر کہانی ختم ہونے کی نہیں ہوتی لیکن اسے کیا کہیے کہ ہمایوں خان زندگی کے اتنے ہی دن لکھوا کر لایا تھا۔
چند گھنٹوں پہلے اس نے اپنی جرمن دوست مس آئر کو ای میل کیا تھا کہ وہ کسی جوئیلر کے یہاں جاکر منگنی کی انگوٹھی پسند کرلے۔ ان کی دوستی دو برس پرانی تھی اور دن بہ دن گہری ہوتی گئی تھی۔ ہمایوں اور آئر کا ارادہ تھا کہ عنقریب وہ شادی کرلیں گے۔ ہمایوں کا خیال باپ کی طرح قانون پڑھنے کا تھا اور وہ ایک قانون دان کے طور پر آئر کے ساتھ زندگی کے بقیہ دن گزارنے کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن خوابوں سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ کیپٹن ہمایوں اپنے ساتھی فوجیوں کے لیے سینڈوچ بناکر چلا تھا، اس نے سامنے سے آتی ہوئی ایک مشکوک ٹیکسی کو دیکھ لیا تھا جو کیمپ کے گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
ہمایوں نے چیخ کر اپنے ساتھیوں کو خطرے سے آگاہ کیا اور فوراً اس ٹیکسی کی طرف لپکا تاکہ اسے روک سکے لیکن موت نے اس کا اور ٹیکسی میں سوار خودکش بمباروں کا راستہ روک لیا۔ دوسرے امریکی فوجیوں کی طرح کیپٹن ہمایوں خان کا تابوت بھی امریکا آیا اور وہ آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوا۔ اس کی اور آس پاس کی دوسری قبروں میں فرق ہے تو اتنا کہ ان کے سنگ مزار پر صلیب کا نشان ہے اور ہمایوں خان کے لوح مزار پر ایک ہلال چمک رہا ہے۔
خضر خان اور ان کی بیگم غزالہ خان جو چند دنوں کے اندر امریکا میں ایک سیلیبریٹی جوڑے کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں، ان کا زندگی نامہ بھی عجب اتفاقات سے پُر ہے۔ خضر اور غزالہ کا تعلق گجرانوالہ اور فیصل آباد سے ہے۔ خضر قانون پڑھ رہے تھے جب ان کی ملاقات غزالہ سے ہوئی۔ وہ فارسی زبان و ادب کے عاشق تھے اور غزالہ یونیورسٹی کی ادبی محفلوں میں فارسی نثر اور نظم اپنے شیریں لہجے میں سناتی تھیں، یوں قانون اور زبان فارسی کا میل ہوا، جو آخرکار شادی کی شکل اختیار کرگیا۔ دونوں کو آگے بڑھنے کا شوق تھا ۔ وہ پاکستان سے دبئی گئے۔ وہاں انھوں نے محنت مشقت کرکے اتنے پیسے جوڑے کہ وہ امریکا جاسکیں، جو خضر خان کے لیے خوابوں کی زمین تھی۔
خضر خان نے 1986ء میں ہارورڈ لا اسکول سے گریجویشن کیا اور امریکی زندگی ان کی غزالہ اور ان کے تین بیٹوں کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔
کڑیل جوان بیٹے کی موت کا صدمہ ایسا نہیں جو کوئی بھلا سکے۔ یہ دونوں بھی اس غم میں ڈوب گئے، لیکن پھر اس سے نکلے۔ غزالہ خان نے کپڑے کی ایک دکان پر اپنے غموں کا مداوا ڈھونڈا جہاں وہ ہر آنے والے کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کے بارے میں بتاتی ہیں اور دل ہلکا کرتی ہیں۔ خضر خان فوج میں کمیشن لینے والوں کو آزادی جمہوریت اور مساوات کے اصولوں کی حفاظت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان سے کہتے ہیں کہ ان کا حلف وفاداری کسی فرد سے نہیں، امریکی آئین کے ساتھ ہے۔
خضر خان آج اگر کروڑوں امریکیوں کا مرکز نگاہ ہیں تو اس لیے کہ چند مہینوں پہلے ایک آن لائن پبلی کیشن نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسٹر ٹرمپ کا امریکی مسلمانوں کے بارے میں جو موقف ہے وہ باکل غلط ہے۔ خضر خان نے اس گفتگو میں اپنے بڑے بیٹے سے کہا تھا کہ اگر کوئی بھی مسلمان امریکا میں انتہاپسندی کی تعلیم دیتا ہے تو وہ غدار ہے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔
یہ خیالات جب ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم چلانے والے بعض لوگوں کے علم میں آئے تو انھوں نے خضر خان سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ نیشنل کنونشن میں ان کے بیٹے کی ویڈیو دکھانے والے ہیں، کیا وہ اس موقع پر چند جملے کہنا پسند کریں گے۔ یوں خضر خان کو ہیلری کلنٹن کے اس کنونشن میں شرکت کا موقع ملا جہاں ایک غمزدہ باپ نے ایک خود پسند اور پُرغرور شخص سے یہ سوال کیا کہ تم قربانی کے بارے میں کیا جانتے ہو، تم نے امریکیوں کے لیے کیا قربانی دی ہے؟ وہ شخص جو بگڑے ہوئے کسی بچے کی طرح مسلمانوں، میکسیکو سے آنے والے تارکین وطن، عورتوں اور رنگ دار امریکیوں کے بارے میں توہین آمیز جملے کہتا ہے، لوگوں کے دلی جذبات کو مجروح کرتا ہے۔
اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ پاکستانی پنجاب سے 80 کی دہائی میں آکر امریکا میں آباد ہونے والا ایک جوڑا اس کو اس طرح آئینہ دکھائے گا کہ اس کی طیش کی کیفیت کچھ اور بڑھ جائے گی اور اس کے بارے میں یہ بنیادی سوالات اٹھنے لگیں گے کہ بطور صدر کیا وہ اس بات کا اہل ہے کہ جوابی ایٹمی حملے کے لیے بٹن دبانے کا کام اسے تفویض کردیا جائے یا دنیا میں امریکی فوجوں کو کسی بھی ملک یا شہر پر حملے کی اجازت کی ذمے داری سپرد کردی جائے۔ اس سے پہلے بھی ری پبلکن حلقوں میں یہ سوال اٹھ رہے تھے کہ ان کی حمایت سے جس شخص کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا ہے، وہ ذہنی اعتبار سے متوازن اور متحمل مزاج ہے یا نہیں۔ امریکی جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں صدر امریکا کو نہایت ذمے دار اور بردبار ہونا چاہیے۔ ان کی سمجھ میں ایک ایسا شخص نہیں آتا جو اینڈتا ہوا اسٹیج پر آئے اور مختلف نسلوں، مذاہب کے ماننے والوں اور امریکی خواب میں یقین رکھنے والوں کا مذاق اڑائے۔ ایک عام امریکی کے خیال میں امریکی سماج کی تکثیریت ہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے، اگر اسی کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو پھر امریکا میں رہ کیا جائے گا۔
خضر خان کی طرح وہ بھی تھامس جیفرسن کو یاد کرتے ہیں جس نے میثاقِ آزادی تحریر کیا تھا۔ اس کی وہ تقریر جو اس نے سینیٹ میں کی، اسے امریکی صدور کی طرف سے کی جانے والی چار یا پانچ اعلیٰ ترین تقریروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ وہ جمہوری مزاج رکھنے والا ایک ایسا شخص تھا جسے شان و شوکت کے مظاہرے سے نفرت تھی، اسی لیے جب وہ اپنے عہدے کا حلف لینے آیا تو سادہ لباس میں تھا، اس کے آگے چوبدار نہیں چل رہے تھے، اس نے اپنا گھوڑا ایک پیڑ سے باندھا اور سینیٹ چیمبر میں داخل ہوا جہاں اس نے حلف اپنے عم زاد اور دشمن جانی مارشل سے لیا اور اپنی افتتاحی تقریر کی۔ یہ تقریر 4 مارچ 1801ء کو کی گئی تھی اور جس میں اس نے امریکی میثاق آزادی کا عطر اس ایک جملے میں کشید کیا تھا کہ تمام انسانوں کے لیے مساوی اور یکساں انصاف۔
امریکا کو خضر خان اور خضر خان کو امریکا پر اگر فخر ہو تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔
امریکی ریاست ورجینیا میں رہنے والے خضر خان نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ وہ اپنے اختیاری وطن میں اپنا کڑیل جوان بیٹا کھودیں گے اور فلاڈلفیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن میں کھڑے ہو کر اس شخص کو چیلنج کریں گے جو کھرب پتی ہے اور امریکی صدارتی انتخاب کو یوں لڑرہا ہے جیسے اکھاڑے میں اپنے طاقتور بدن کی نمائش کرنے والا کوئی پہلوان ہو، جسے کشتی کے صرف داؤ پیچ ہی نہیں آتے، جس کی زبان پر بھی سان رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح ڈونالڈ ٹرمپ نے خواب میں نہیں سوچا ہوگا کہ تیسری دنیا کے ایک ملک سے آنے والا تارک وطن انھیں امریکی جمہوریت کے وہ نکتے تعلیم کرے گا جسے ٹرمپ صاحب بھولے ہوئے ہیں۔
نیویارک کے ساحل پر فرانسیسیوں کی طرف سے تحفے میں ملنے والا جو مجسمہ آزادی سر اٹھائے کھڑا ہوا ہے، اس کے بارے میں سمندری راستے سے آنے والے تارکین وطن یہ کہتے رہے ہیں کہ رات کی تاریکی میں میلوں دور سے مجسمۂ آزادی کی روشن مشعل انھیں راستہ دکھاتی رہی ہے۔
خضر خان اسی روشنی کی کرن کو تھامے ہوئے اپنے خاندان کے ساتھ امریکا پہنچے تھے، وہ کہتے ہیں کہ امریکا نے انھیں مایوس نہیں کیا۔ ان کے بیٹے ہمایوں خان نے امریکی فوج میں بھرتی کو ترجیح دی اور ہمایوں کے والدین نے اس کا راستہ نہیں روکا۔ باپ نے بیٹے کو امریکی آئین کی بنیادی باتیں حفظ کرائیں اور لام پر روانہ کردیا۔ خضر خان اپنی جیب میں امریکی آئین کی ایک کاپی ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں اور اگر کوئی ان کے گھر جائے تو وہ اسے تحفے میں آئین کی ایک کاپی نذر کرتے ہیں۔
امریکی حکومتوں کے استعماری اور استحصالی رویوں پر میں نے خدا جانے کتنے صفحے سیاہ کیے ہیں لیکن یہ بات میں کیسے جھٹلا سکتی ہوں کہ امریکا میں آنے والوں اور وہاں کی شہریت اختیار کرنے والوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جاتی، انھیں وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ایک عام سفید فام شہری کے ہوتے ہیں۔ خضر خان اور غزالہ خان کا بیٹا امریکی فوج میں کیپٹن ہوا، اسے عراق بھیجا گیا جہاں وہ ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوگیا۔ 27 برس کی عمر کہانی ختم ہونے کی نہیں ہوتی لیکن اسے کیا کہیے کہ ہمایوں خان زندگی کے اتنے ہی دن لکھوا کر لایا تھا۔
چند گھنٹوں پہلے اس نے اپنی جرمن دوست مس آئر کو ای میل کیا تھا کہ وہ کسی جوئیلر کے یہاں جاکر منگنی کی انگوٹھی پسند کرلے۔ ان کی دوستی دو برس پرانی تھی اور دن بہ دن گہری ہوتی گئی تھی۔ ہمایوں اور آئر کا ارادہ تھا کہ عنقریب وہ شادی کرلیں گے۔ ہمایوں کا خیال باپ کی طرح قانون پڑھنے کا تھا اور وہ ایک قانون دان کے طور پر آئر کے ساتھ زندگی کے بقیہ دن گزارنے کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن خوابوں سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ کیپٹن ہمایوں اپنے ساتھی فوجیوں کے لیے سینڈوچ بناکر چلا تھا، اس نے سامنے سے آتی ہوئی ایک مشکوک ٹیکسی کو دیکھ لیا تھا جو کیمپ کے گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
ہمایوں نے چیخ کر اپنے ساتھیوں کو خطرے سے آگاہ کیا اور فوراً اس ٹیکسی کی طرف لپکا تاکہ اسے روک سکے لیکن موت نے اس کا اور ٹیکسی میں سوار خودکش بمباروں کا راستہ روک لیا۔ دوسرے امریکی فوجیوں کی طرح کیپٹن ہمایوں خان کا تابوت بھی امریکا آیا اور وہ آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوا۔ اس کی اور آس پاس کی دوسری قبروں میں فرق ہے تو اتنا کہ ان کے سنگ مزار پر صلیب کا نشان ہے اور ہمایوں خان کے لوح مزار پر ایک ہلال چمک رہا ہے۔
خضر خان اور ان کی بیگم غزالہ خان جو چند دنوں کے اندر امریکا میں ایک سیلیبریٹی جوڑے کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں، ان کا زندگی نامہ بھی عجب اتفاقات سے پُر ہے۔ خضر اور غزالہ کا تعلق گجرانوالہ اور فیصل آباد سے ہے۔ خضر قانون پڑھ رہے تھے جب ان کی ملاقات غزالہ سے ہوئی۔ وہ فارسی زبان و ادب کے عاشق تھے اور غزالہ یونیورسٹی کی ادبی محفلوں میں فارسی نثر اور نظم اپنے شیریں لہجے میں سناتی تھیں، یوں قانون اور زبان فارسی کا میل ہوا، جو آخرکار شادی کی شکل اختیار کرگیا۔ دونوں کو آگے بڑھنے کا شوق تھا ۔ وہ پاکستان سے دبئی گئے۔ وہاں انھوں نے محنت مشقت کرکے اتنے پیسے جوڑے کہ وہ امریکا جاسکیں، جو خضر خان کے لیے خوابوں کی زمین تھی۔
خضر خان نے 1986ء میں ہارورڈ لا اسکول سے گریجویشن کیا اور امریکی زندگی ان کی غزالہ اور ان کے تین بیٹوں کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔
کڑیل جوان بیٹے کی موت کا صدمہ ایسا نہیں جو کوئی بھلا سکے۔ یہ دونوں بھی اس غم میں ڈوب گئے، لیکن پھر اس سے نکلے۔ غزالہ خان نے کپڑے کی ایک دکان پر اپنے غموں کا مداوا ڈھونڈا جہاں وہ ہر آنے والے کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کے بارے میں بتاتی ہیں اور دل ہلکا کرتی ہیں۔ خضر خان فوج میں کمیشن لینے والوں کو آزادی جمہوریت اور مساوات کے اصولوں کی حفاظت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان سے کہتے ہیں کہ ان کا حلف وفاداری کسی فرد سے نہیں، امریکی آئین کے ساتھ ہے۔
خضر خان آج اگر کروڑوں امریکیوں کا مرکز نگاہ ہیں تو اس لیے کہ چند مہینوں پہلے ایک آن لائن پبلی کیشن نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسٹر ٹرمپ کا امریکی مسلمانوں کے بارے میں جو موقف ہے وہ باکل غلط ہے۔ خضر خان نے اس گفتگو میں اپنے بڑے بیٹے سے کہا تھا کہ اگر کوئی بھی مسلمان امریکا میں انتہاپسندی کی تعلیم دیتا ہے تو وہ غدار ہے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔
یہ خیالات جب ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم چلانے والے بعض لوگوں کے علم میں آئے تو انھوں نے خضر خان سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ نیشنل کنونشن میں ان کے بیٹے کی ویڈیو دکھانے والے ہیں، کیا وہ اس موقع پر چند جملے کہنا پسند کریں گے۔ یوں خضر خان کو ہیلری کلنٹن کے اس کنونشن میں شرکت کا موقع ملا جہاں ایک غمزدہ باپ نے ایک خود پسند اور پُرغرور شخص سے یہ سوال کیا کہ تم قربانی کے بارے میں کیا جانتے ہو، تم نے امریکیوں کے لیے کیا قربانی دی ہے؟ وہ شخص جو بگڑے ہوئے کسی بچے کی طرح مسلمانوں، میکسیکو سے آنے والے تارکین وطن، عورتوں اور رنگ دار امریکیوں کے بارے میں توہین آمیز جملے کہتا ہے، لوگوں کے دلی جذبات کو مجروح کرتا ہے۔
اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ پاکستانی پنجاب سے 80 کی دہائی میں آکر امریکا میں آباد ہونے والا ایک جوڑا اس کو اس طرح آئینہ دکھائے گا کہ اس کی طیش کی کیفیت کچھ اور بڑھ جائے گی اور اس کے بارے میں یہ بنیادی سوالات اٹھنے لگیں گے کہ بطور صدر کیا وہ اس بات کا اہل ہے کہ جوابی ایٹمی حملے کے لیے بٹن دبانے کا کام اسے تفویض کردیا جائے یا دنیا میں امریکی فوجوں کو کسی بھی ملک یا شہر پر حملے کی اجازت کی ذمے داری سپرد کردی جائے۔ اس سے پہلے بھی ری پبلکن حلقوں میں یہ سوال اٹھ رہے تھے کہ ان کی حمایت سے جس شخص کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا ہے، وہ ذہنی اعتبار سے متوازن اور متحمل مزاج ہے یا نہیں۔ امریکی جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں صدر امریکا کو نہایت ذمے دار اور بردبار ہونا چاہیے۔ ان کی سمجھ میں ایک ایسا شخص نہیں آتا جو اینڈتا ہوا اسٹیج پر آئے اور مختلف نسلوں، مذاہب کے ماننے والوں اور امریکی خواب میں یقین رکھنے والوں کا مذاق اڑائے۔ ایک عام امریکی کے خیال میں امریکی سماج کی تکثیریت ہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے، اگر اسی کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو پھر امریکا میں رہ کیا جائے گا۔
خضر خان کی طرح وہ بھی تھامس جیفرسن کو یاد کرتے ہیں جس نے میثاقِ آزادی تحریر کیا تھا۔ اس کی وہ تقریر جو اس نے سینیٹ میں کی، اسے امریکی صدور کی طرف سے کی جانے والی چار یا پانچ اعلیٰ ترین تقریروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ وہ جمہوری مزاج رکھنے والا ایک ایسا شخص تھا جسے شان و شوکت کے مظاہرے سے نفرت تھی، اسی لیے جب وہ اپنے عہدے کا حلف لینے آیا تو سادہ لباس میں تھا، اس کے آگے چوبدار نہیں چل رہے تھے، اس نے اپنا گھوڑا ایک پیڑ سے باندھا اور سینیٹ چیمبر میں داخل ہوا جہاں اس نے حلف اپنے عم زاد اور دشمن جانی مارشل سے لیا اور اپنی افتتاحی تقریر کی۔ یہ تقریر 4 مارچ 1801ء کو کی گئی تھی اور جس میں اس نے امریکی میثاق آزادی کا عطر اس ایک جملے میں کشید کیا تھا کہ تمام انسانوں کے لیے مساوی اور یکساں انصاف۔
امریکا کو خضر خان اور خضر خان کو امریکا پر اگر فخر ہو تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔