مسجد اموی دمشق کا تحفہ
دنیا میں قیام وقعود کی طرح سفر بھی متعین ہوتا ہے اور انسان کی زندگی میں سفر بھی لکھا ہوتا ہے
نہ جانے کتنے برس گزر گئے اور اس دوران نہ جانے کتنے ہی کالم لکھے گئے اور ان کالموں میں نہ جانے کتنے لاکھ الفاظ لکھے گئے ان میں کتنے کہیں چھپ گئے اور نہ جانے کتنے کہیں گم سم ہو گئے یعنی کہیں چھپے تو لیکن پڑھے بغیر خاموشی سے گزر گئے اور اپنی موت آپ ہی مر گئے' نہ ماتم نہ کوئی رونے دھونے والا اور نہ کسی قبرستان میں کوئی نام و نشان ایک بے نیاز کی منتشر کہانی جو زندگی بھر بے نیاز رہا اور اسی گمنامی کے عالم میں گزر گیا۔ کیا آئیڈیل زندگی اور کیا آئیڈیل موت تھی جو کسی کو زحمت دیے بغیر ہی چلی گئی۔
کسی کے ایک آنسو کا احسان بھی نہ اٹھایا اور نہ ذرا سی سسکی تک کی داد وصول کی شاید یہ زندگی کسی داد کی مستحق ہی نہ تھی۔ اور اس زندگی والے کی کتنی فراخدلی تھی کہ وہ اپنے تمام گوناگوں گناہوں کے جلوس میں بالآخر وہاں پہنچ گیا جہاں کا آخری سفر اس کی قسمت میں تھا۔ دنیا میں قیام وقعود کی طرح سفر بھی متعین ہوتا ہے اور انسان کی زندگی میں سفر بھی لکھا ہوتا ہے جس کے مطابق وہ یہاں قیام کرتا ہے یا سفر۔ یہ سفر کئی قسم سے ہوتے ہیں جن کا ذکر ان سفروں کی طرح طویل ہو کر آپ کو بور کر سکتا ہے ویسے تو آج کے زمانے میں کوئی جگہ اب نئی نہیں رہی جس کا قارئین کو تعارف کرایا جائے البتہ بعض واقعات ایسے ہو جاتے ہیں جو عبرت بن کر آپ کی زندگی میں زندہ رہتے ہیں۔
کافی عرصہ گزرا کہ ایک دفعہ میں نے مکہ معظمہ میں ایک خاندان کے چند افراد کو بیت اللہ سے باہر آتے ہوئے سنا کہ پتہ نہیں کیوں لوگ پتھر کی ان عمارتوں کو دیکھنے کے لیے یہاں آتے ہیں اتنا خرچ کرتے ہیں اور اتنی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ ایسی عمارتیں کہاں نہیں ہیں۔ بہرکیف ان پاکستانی لوگوں کی یہ باتیں بس حدود مکہ میں ہی سن رہا تھا مگر اس وقت میں کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔ جتنی ہمت تھی وہ میں اسی وقت اللہ کے گھر کے سامنے کسی دوسرے خیال میں ضایع نہیں کر سکتا تھا۔
ایک ایسی کیفیت جو صرف کسی ایسے مقام پر ہی کسی انسان پر طاری ہوتی ہے جو کبھی قسمت سے اسے نصیب ہوتا ہے کہ اس میں وہ کوئی خوشی منا سکے کسی کامیابی کی یاد تازہ کر سکے کسی کامیابی کو دل میں بسا سکے اور اسے کہیں نقش کر دے کہ جب کبھی اس پر نظر پڑے اسے ماضی کی کوئی خوشی لوٹ کر آتی دکھائی دے اور وہ اس میں گم ہو جائے۔ انسان کی زندگی مال و دولت سے نہیں انھیں چند لمحوں میں میسر ہے جن کو وہ زندگی کا ایک ثمر سمجھتا ہے اور ان ہی کی یادوں میں گم رہتا ہے اور یہ یادیں کچھ اتنی نا پسندیدہ یوں نہیں ہوتیں کہ ان کو فراموش کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ انسان ان کو یاد رکھنے اور یاد کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور بعض اوقات یہی اس کی باقی ماندہ زندگی کا سہارا بن جاتی ہیں۔ یہ یادیں اس کا ذاتی اثاثہ اور دکھ سکھ کے لمحوں کا ثمر ہوتا ہے۔
آپ کی طرح میں نے بھی کتنی ہی کتابیں ایسی پڑھی ہیں جو کسی کی یادوں کا مجموعہ تھیں لیکن وہ شخصیت اتنی بڑی تھی یا اس کی یادیں اتنی دولت مند تھیں کہ یہ جب کتابوں میں درج ہو کر عام لوگوں کے پاس پہنچیں تو ہر قاری کو حیرت زدہ کرتی چلی گئیں۔ ان یادوں میں ایسے اشخاص اور واقعات کا ذکر تھا کہ جو اس سے قبل سنی سنائی باتوں تک محدود تھے۔ ایسے کتنے ہی واقعات پرانے عرب دانشمندوں نے اپنی یادداشتوں میں نقل کیے جو آج ہم تک ایک تاریخ اور بعض اوقات فلسفے کا کوئی نکتہ بن کر سامنے آتے اور پھر تاریخ کے یہ واقعات اور نکات کتابیں بن گئے کیونکہ ان کو بیان کرنے والے محض ہماری طرح کوئی ڈیوٹی ہی ادا نہیں کرتے کسی فرض یا اندرونی کسی خواہش کی تسکین کا سبب بن جاتے۔ بعض مقامات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہاں کے کسی گوشے میں بیٹھنے والے نے تاریخ بنا ڈالی اور آنے والی نسلوں کو نہ ختم ہونے والے تحفے دے گئے۔
دمشق میں گھومتے ہوئے اس شہر کے عرب حکمرانوں کے دور میں گزرنے لگا تو ایک مسجد دکھائی دی جو سادگی اور حسن میں اپنی مثال آپ والا معاملہ تھا۔ یہ بنو امیہ کی تعمیر تھی میں اس کے اندر چلا گیا تو مسجد کے بڑے ہال کا ایک کونہ ذرا سا مختلف دکھائی دیا قریب گیا تو حیرت میں غرق ہو گیا میں زاویہ غزالی کے سامنے کھڑا تھا جہاں امام غزالی نے بیٹھ کر اپنی شہرہ آفاق کتاب شرعی اور صوفیانہ پہلوؤں پر تحریر کی اور تاریخی مسجد کا یہ گوشہ زاویہ غزالی کہلایا۔ 'احیاء العلوم' کی زندہ جاوید کتاب مسجد امیہ کے اسی کونے کا ایک عطیہ ہے جہاں امام غزالی نے کچھ توقف کیا اور یہ کتاب تحریر کر دی۔
اس سے اندازہ ہوا کہ ایک زمانے میں علماء مساجد کے کونوں کو اپنا کتب خانہ بھی بنا لیتے تھے اور اپنا دفتر بھی۔ کئی مساجد کے ان ہی زاویوں میں علماء وقت نے تاریخی شاہکار تصنیف کر دیے جن کو ہم آج تک حیرت کے ساتھ پڑھا کرتے ہیں۔ دمشق کی مسجد اموی کے ایک زاویہ میں لکھی گئی کتاب احیاء العلوم امام غزالی کا ایک ایسا تحفہ اور عطیہ ہے جو مسلمان نسلیں یاد رکھیں گی اور شاید ہی کبھی کوئی عالم اس کا ثانی تیار کر سکے۔ یہ الہامی کتابیں تھیں جو اللہ تبارک تعالیٰ کے فضل و کرم سے کسی عالم کے ذہن میں اتریں اور ہاتھوں سے گزر کر مسلم امہ کے لیے یاد گار اور اس کے نصاب کا حصہ بن گئیں وہ کیا لوگ تھے اور ہم ہیں کہ ان قومی ذخیروں سے شاید آگاہ بھی نہیں ہیں۔