اسمبلیوں سے استعفیٰ متبادل آپشن
لیکن تحریک انصاف لوگوں میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے اس سنہری موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔
پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت پانامہ لیکس سے متعلق ملک گیر تحریک کاآغاز کر دیا ہے۔ ابتدا میں حزب اختلاف میں شامل نو جماعتوں کے اتحاد نے متفقہ طور پر احتجاج کو سڑکوں پر لانے سے اجتناب برتتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کے اندر اور قانونی طور پر لڑنے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن تحریک انصاف نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر اپنی احتجاجی تحریک کا اعلان کر دیا۔
ان کے اس اعلان کے پسِ پردہ اغراض و مقاصد کیا ہیں، وہ ابھی تک واضح نہیں ہیں کہ آیا وہ حقیقی معنوں میں کرپشن کے خلاف جہاد کرنا چاہتی ہے یا اسے صرف نواز حکومت کا خاتمہ مقصود ہے۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ تحریک انصاف عمومی طور پر پارلیمانی یا قانونی جنگ لڑنے سے زیادہ سڑکوں کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔
پانامہ پیپرز کے انکشاف سے لے کر اب تک وہ اسی ایک نکتے اور فیصلے پر ساری اپوزیشن کو قائل کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔ اس سارے معاملے کی تحقیقات کے لیے جو جوڈیشل کمیشن تجویز کیا گیا تھا، اس کے طریقہ کار کے لیے ٹرمز آف ریفرنس بنانے میں بھی وہ کچھ سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ ساری اپوزیشن ان مذکرات میں کوئی متفقہ حتمی لائحہ عمل طے کرنے میں کامیاب نہ ہو پائی۔ ویسے تو حکمرانوں کا رویہ بھی ان ٹی آر اوز کے معاملے میں کچھ مفاہمانہ نہیں تھا۔ دراصل حکومت کا مقصد تو ٹال مٹول اور لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے کچھ ٹائم گین کرنا تھا، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی۔ اور اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ پانامہ لیکس کے معاملے میں عوام الناس کے لیے دلچسپی کا عنصر کم ہوتا چلا گیا۔
لیکن تحریک انصاف لوگوں میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے اس سنہری موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔ اسی لیے وہ مسلسل بضد اور ڈٹی ہوئی ہے کہ کسی طرح اس مسئلے کو اٹھا کر ساری اپوزیشن حکومت کے خلاف اکھٹی ہو کر ایک فیصلہ کن معرکہ سر انجام دیدے۔ اپنی پچھلی احتجاجی تحریک کے برعکس وہ اس بار سولو فلائٹ کے بجائے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی اپنا ہم خیال اور ہم نوا بنا کر ایک ایسی پرزور تحریک چلانا چاہتی ہے جس کا اختتام کسی بھی طرح میاں نواز شریف کے دور اقتدار کے خاتمے پر منتج ہو۔ خواہ اس کے لیے ملک میں رائج موجودہ جمہوری نظام کی قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔ مگر پیپلز پارٹی اس سارے معاملے کو ایک دوسرے انداز میں لیتی ہے۔
وہ ایک پرانی اور پختہ کار سیاسی جماعت ہونے کے ناتے کسی ایسی تحریک کا حصہ بننے سے گریزاں ہے، جس کا نتیجہ جمہوریت کے خاتمے کی صورت میں نکلے اور ملک ایک بار پھر کسی لمبے عرصے کے لیے غیر جمہوری حکومت کے حوالے ہو جائے۔ وہ پانامہ لیکس پر میاں نواز شریف کو ٹف ٹائم ضرور دینا چاہتی ہے لیکن اس حد تک کہ کوئی تیسرا فریق مداخلت کر کے جمہوریت کا سارا بستر ہی گول نہ کر دے۔ اسے معلوم ہے کہ اگر اس ملک میں ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا گیا تو اس سے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، جو گزشتہ ایک برس سے خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، پھر شاید ہی مستقبل قریب میں کبھی واپس وطن لوٹ سکیں، اور ان کے فرزند ارجمند بلاول بھٹو زرداری کو بھی سیاسی تربیت کا یہ سنہری موقع نجانے پھر کب نصیب ہو۔
صوبہ سندھ میں ان کی پارٹی کے لوگوں کی جو مالی بدعنوانیاں ہیں، پھر ان کا حساب کتاب اور کچا چٹھا بھی آہنی ہاتھوں کے سپرد ہو جائے گا، جس سے وہ ابھی تک ''جمہوریت کے حسن اور ثمرات'' کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہی ہے جس کے طفیل آج تک ہمارے یہاں کرپٹ لوگوں کو کوئی سزا نہیں مل سکی اور وہ بار بار ملکی خزانوں کے مکمل بااختیار مالک بنتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے نزدیک دانائی اور ہوشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس معاملے کو صرف میاں نواز شریف پر ایک پریشر رکھنے کی حد تک تو برقرار رکھا جا سکتا ہے لیکن جمہوری نظام کے خاتمے کی حد تک نہیں۔
لیکن عمران خان دوسری طرح سوچتے ہیں۔ ان کے خیال میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ ہی سے عوام میں اپنی طاقت منوائی جا سکتی ہے۔ ان کی ساری سیاست ہی صرف اس ایک مفروضے کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے جس میں بصیرت، فہم و ادراک اور دانشمندی کے بجائے صرف اور صرف نفرت اور اشتعال کی سیاست کو زیادہ اہمیت اور فوقیت حاصل ہے۔ وہ اب تک جن لوگوں کے زیر اثر چلے آئے ہیں، ان میں زیادہ تر لوگ اسی سوچ کے حامل ہیں اور جن میں عوامی لیگ کے شیخ رشید سب سے نمایاں ہیں، جو پہلے دن سے ہی احتجاجی سیاست کو ایک زبردست ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، مذاکرات اور قانونی جنگ کے تو وہ شروع سے قائل ہی نہیں ہیں۔ انھیں خان صاحب سے بھی کوئی خاص محبت یا لگاؤ نہیں ہے، وہ تو بس خان صاحب کے ذریعے میاں نواز شریف سے پرانا بدلہ چکا کر اپنی آزردگی دور کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اندر کی انتقامی آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں۔
ویسے بھی 1999ء کے بعد سے انھیں جمہوریت سے زیادہ غیر جمہوری طرز حکومت سے کچھ زیادہ ہی محبت ہونے لگی ہے۔ اسی لیے انھیں ہر چند ماہ بعد ٹرپل ون بریگیڈ کے ٹرکوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگتی ہے اور وہ حکومت کے جانے کی پیش گوئیاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی خواہش تو یہی ہے کہ کسی طرح نواز حکومت کا جلد سے جلد خاتمہ ہو، خواہ اس کے لیے کچھ معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جانیں ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑ جائیں۔ وہ آج کل اپنی اس نئی احتجاجی تحریک کو کسی ایسے حادثے اور سانحے کے تناظر میں بھی دیکھنے لگے ہیں جس میں اپوزیشن کی اشتعال انگیزی اور ہنگامہ آرائی کے دوران کچھ غریب اور نادار لوگ بلاوجہ مارے جائیں اور جس کے نتیجے میں وہ اپنی حسرتوں اور خواہشوں کو پورا ہوتا دیکھ سکیں۔ وہ یہ سب کچھ 20 نومبر 2016ء سے پہلے پہلے ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ حتمی تاریخ ہے جس روز ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے عہدے کہ مدت پوری ہو رہی ہے اور موصوف کے خیال میں ملکی حالات اگر جوں کے توں پرسکون رہے تو پھر شاید ہی ایسی کوئی امید بر آئے اور وہ اپنے مقاصد میں سرخرو ہو پائیں۔
اپوزیشن کی باقی سیاسی جماعتوں نے ابھی اس احتجاجی تحریک کا حصہ بننے کا پروگرام نہیں بنایا۔ وہ حالات کا رخ اور بہاؤ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے فی الحال اس سے دور رہنے اور عیدالاضحیٰ کے بعد موقعے کی مناسبت سے اپنا لائحہ عمل طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر عمران خان، طاہرالقادری اور شیخ رشید کچھ ہلچل اور افراتفری پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور تیسری قوت کی جانب سے بھی کچھ اشارے ملنا شروع ہو گئے تو پھر شاید وہ بھی اس تحریک قصاص اور کرپشن مٹاؤ موومنٹ کا حصہ بن کر خود کو عوام کے نظروں میں معتبر بنانے کی سعی و جستجو ضرور کریں گے۔ مارشل لاء سے بچنے کے لیے ان کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔ جن میں حکومت کو نئے الیکشن کروانے پر مجبور کرنے کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مشترکہ طور پر استعفیٰ دینے کا آپشن سرفہرست ہے۔ جمہوری نظام کے بچاؤ اور تحفظ کے لیے یہ آپشن بہرحال ایک مناسب آپشن ہے، اور شاید انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں حکومت کے نزدیک بھی یہ آپشن زیادہ مرغوب اور پسندیدہ ہو سکتا ہے۔
اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کروانا خود حکمرانوں کے لیے اس مرحلے سے زیادہ مفید اور کارآمد ہو گا جس میں وہ اپنے خلاف ملک کی کسی عدالت یا احتسابی ادارے کے روبرو مالی بدعنوانی یا کرپشن جیسے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے صفائیاں پیش کرتی پھرے۔ خان صاحب ابھی سیاسی بصیرت اور بلوغت کے اس مقام تک نہیں پہنچ پائے ہیں جہاں یہ دو بڑی سیاسی جماعتیں پہنچ چکی ہیں۔ وہ ابھی تک جوش، جذبے اور جنون کی باتیں کرتے ہیں، جب کہ یہ دونوں سینئر اور جہاں دیدہ پارٹیاں بڑے صبر و تحمل، دور اندیشی اور دانشمندی سے سیاسی بساط پر اپنی اپنی چالیں کھیلتی رہی ہیں۔
ان کے اس اعلان کے پسِ پردہ اغراض و مقاصد کیا ہیں، وہ ابھی تک واضح نہیں ہیں کہ آیا وہ حقیقی معنوں میں کرپشن کے خلاف جہاد کرنا چاہتی ہے یا اسے صرف نواز حکومت کا خاتمہ مقصود ہے۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ تحریک انصاف عمومی طور پر پارلیمانی یا قانونی جنگ لڑنے سے زیادہ سڑکوں کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔
پانامہ پیپرز کے انکشاف سے لے کر اب تک وہ اسی ایک نکتے اور فیصلے پر ساری اپوزیشن کو قائل کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔ اس سارے معاملے کی تحقیقات کے لیے جو جوڈیشل کمیشن تجویز کیا گیا تھا، اس کے طریقہ کار کے لیے ٹرمز آف ریفرنس بنانے میں بھی وہ کچھ سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ ساری اپوزیشن ان مذکرات میں کوئی متفقہ حتمی لائحہ عمل طے کرنے میں کامیاب نہ ہو پائی۔ ویسے تو حکمرانوں کا رویہ بھی ان ٹی آر اوز کے معاملے میں کچھ مفاہمانہ نہیں تھا۔ دراصل حکومت کا مقصد تو ٹال مٹول اور لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے کچھ ٹائم گین کرنا تھا، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی۔ اور اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ پانامہ لیکس کے معاملے میں عوام الناس کے لیے دلچسپی کا عنصر کم ہوتا چلا گیا۔
لیکن تحریک انصاف لوگوں میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے اس سنہری موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔ اسی لیے وہ مسلسل بضد اور ڈٹی ہوئی ہے کہ کسی طرح اس مسئلے کو اٹھا کر ساری اپوزیشن حکومت کے خلاف اکھٹی ہو کر ایک فیصلہ کن معرکہ سر انجام دیدے۔ اپنی پچھلی احتجاجی تحریک کے برعکس وہ اس بار سولو فلائٹ کے بجائے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی اپنا ہم خیال اور ہم نوا بنا کر ایک ایسی پرزور تحریک چلانا چاہتی ہے جس کا اختتام کسی بھی طرح میاں نواز شریف کے دور اقتدار کے خاتمے پر منتج ہو۔ خواہ اس کے لیے ملک میں رائج موجودہ جمہوری نظام کی قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔ مگر پیپلز پارٹی اس سارے معاملے کو ایک دوسرے انداز میں لیتی ہے۔
وہ ایک پرانی اور پختہ کار سیاسی جماعت ہونے کے ناتے کسی ایسی تحریک کا حصہ بننے سے گریزاں ہے، جس کا نتیجہ جمہوریت کے خاتمے کی صورت میں نکلے اور ملک ایک بار پھر کسی لمبے عرصے کے لیے غیر جمہوری حکومت کے حوالے ہو جائے۔ وہ پانامہ لیکس پر میاں نواز شریف کو ٹف ٹائم ضرور دینا چاہتی ہے لیکن اس حد تک کہ کوئی تیسرا فریق مداخلت کر کے جمہوریت کا سارا بستر ہی گول نہ کر دے۔ اسے معلوم ہے کہ اگر اس ملک میں ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا گیا تو اس سے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، جو گزشتہ ایک برس سے خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، پھر شاید ہی مستقبل قریب میں کبھی واپس وطن لوٹ سکیں، اور ان کے فرزند ارجمند بلاول بھٹو زرداری کو بھی سیاسی تربیت کا یہ سنہری موقع نجانے پھر کب نصیب ہو۔
صوبہ سندھ میں ان کی پارٹی کے لوگوں کی جو مالی بدعنوانیاں ہیں، پھر ان کا حساب کتاب اور کچا چٹھا بھی آہنی ہاتھوں کے سپرد ہو جائے گا، جس سے وہ ابھی تک ''جمہوریت کے حسن اور ثمرات'' کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہی ہے جس کے طفیل آج تک ہمارے یہاں کرپٹ لوگوں کو کوئی سزا نہیں مل سکی اور وہ بار بار ملکی خزانوں کے مکمل بااختیار مالک بنتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے نزدیک دانائی اور ہوشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس معاملے کو صرف میاں نواز شریف پر ایک پریشر رکھنے کی حد تک تو برقرار رکھا جا سکتا ہے لیکن جمہوری نظام کے خاتمے کی حد تک نہیں۔
لیکن عمران خان دوسری طرح سوچتے ہیں۔ ان کے خیال میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ ہی سے عوام میں اپنی طاقت منوائی جا سکتی ہے۔ ان کی ساری سیاست ہی صرف اس ایک مفروضے کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے جس میں بصیرت، فہم و ادراک اور دانشمندی کے بجائے صرف اور صرف نفرت اور اشتعال کی سیاست کو زیادہ اہمیت اور فوقیت حاصل ہے۔ وہ اب تک جن لوگوں کے زیر اثر چلے آئے ہیں، ان میں زیادہ تر لوگ اسی سوچ کے حامل ہیں اور جن میں عوامی لیگ کے شیخ رشید سب سے نمایاں ہیں، جو پہلے دن سے ہی احتجاجی سیاست کو ایک زبردست ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، مذاکرات اور قانونی جنگ کے تو وہ شروع سے قائل ہی نہیں ہیں۔ انھیں خان صاحب سے بھی کوئی خاص محبت یا لگاؤ نہیں ہے، وہ تو بس خان صاحب کے ذریعے میاں نواز شریف سے پرانا بدلہ چکا کر اپنی آزردگی دور کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اندر کی انتقامی آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں۔
ویسے بھی 1999ء کے بعد سے انھیں جمہوریت سے زیادہ غیر جمہوری طرز حکومت سے کچھ زیادہ ہی محبت ہونے لگی ہے۔ اسی لیے انھیں ہر چند ماہ بعد ٹرپل ون بریگیڈ کے ٹرکوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگتی ہے اور وہ حکومت کے جانے کی پیش گوئیاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی خواہش تو یہی ہے کہ کسی طرح نواز حکومت کا جلد سے جلد خاتمہ ہو، خواہ اس کے لیے کچھ معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جانیں ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑ جائیں۔ وہ آج کل اپنی اس نئی احتجاجی تحریک کو کسی ایسے حادثے اور سانحے کے تناظر میں بھی دیکھنے لگے ہیں جس میں اپوزیشن کی اشتعال انگیزی اور ہنگامہ آرائی کے دوران کچھ غریب اور نادار لوگ بلاوجہ مارے جائیں اور جس کے نتیجے میں وہ اپنی حسرتوں اور خواہشوں کو پورا ہوتا دیکھ سکیں۔ وہ یہ سب کچھ 20 نومبر 2016ء سے پہلے پہلے ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ حتمی تاریخ ہے جس روز ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے عہدے کہ مدت پوری ہو رہی ہے اور موصوف کے خیال میں ملکی حالات اگر جوں کے توں پرسکون رہے تو پھر شاید ہی ایسی کوئی امید بر آئے اور وہ اپنے مقاصد میں سرخرو ہو پائیں۔
اپوزیشن کی باقی سیاسی جماعتوں نے ابھی اس احتجاجی تحریک کا حصہ بننے کا پروگرام نہیں بنایا۔ وہ حالات کا رخ اور بہاؤ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے فی الحال اس سے دور رہنے اور عیدالاضحیٰ کے بعد موقعے کی مناسبت سے اپنا لائحہ عمل طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر عمران خان، طاہرالقادری اور شیخ رشید کچھ ہلچل اور افراتفری پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور تیسری قوت کی جانب سے بھی کچھ اشارے ملنا شروع ہو گئے تو پھر شاید وہ بھی اس تحریک قصاص اور کرپشن مٹاؤ موومنٹ کا حصہ بن کر خود کو عوام کے نظروں میں معتبر بنانے کی سعی و جستجو ضرور کریں گے۔ مارشل لاء سے بچنے کے لیے ان کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔ جن میں حکومت کو نئے الیکشن کروانے پر مجبور کرنے کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مشترکہ طور پر استعفیٰ دینے کا آپشن سرفہرست ہے۔ جمہوری نظام کے بچاؤ اور تحفظ کے لیے یہ آپشن بہرحال ایک مناسب آپشن ہے، اور شاید انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں حکومت کے نزدیک بھی یہ آپشن زیادہ مرغوب اور پسندیدہ ہو سکتا ہے۔
اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کروانا خود حکمرانوں کے لیے اس مرحلے سے زیادہ مفید اور کارآمد ہو گا جس میں وہ اپنے خلاف ملک کی کسی عدالت یا احتسابی ادارے کے روبرو مالی بدعنوانی یا کرپشن جیسے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے صفائیاں پیش کرتی پھرے۔ خان صاحب ابھی سیاسی بصیرت اور بلوغت کے اس مقام تک نہیں پہنچ پائے ہیں جہاں یہ دو بڑی سیاسی جماعتیں پہنچ چکی ہیں۔ وہ ابھی تک جوش، جذبے اور جنون کی باتیں کرتے ہیں، جب کہ یہ دونوں سینئر اور جہاں دیدہ پارٹیاں بڑے صبر و تحمل، دور اندیشی اور دانشمندی سے سیاسی بساط پر اپنی اپنی چالیں کھیلتی رہی ہیں۔