عالمی سرمایہ داری بحران کی لپیٹ میں
امریکا میں سیاہ فاموں کا قتل اور تشدد کے خلاف امریکی عوام سراپا احتجاج ہوئے
عالمی سرمایہ داری شدید بحران کے بھنور میں ہے۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں عوام نے ووٹ ڈالے، نتیجتاً دنیا بھر میں کرنسیوں کی قدر میں کمی آئی۔ جرمنی سے چین تک اور امریکا سے سنگاپور تک ہر ملک اور خطے میں یہ عمل در آیا۔ تجارت، تبادلہ اور پیداوار سب کچھ متاثر ہوا۔ فرانس اور ترکی میں دھماکوں کی وجہ سے سیاحت اور تجارت پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔
امریکا میں سیاہ فاموں کا قتل اور تشدد کے خلاف امریکی عوام سراپا احتجاج ہوئے، اس سے بھی امریکی معیشت پر برے اثرات پڑے۔ شمالی کوریا کے رخ پر جنوبی کوریا کے میزائل نصب کرنے کے فیصلے کے خلاف جنوبی کوریا کے عوام سراپا احتجاج بنے۔ برازیل میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف عوام کا سمندر سڑکوں پہ امڈ آیا۔ عرب بہار انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں پھیلانے والے جال میں سامراج اب خود پھنستا جا رہا ہے۔
اس وقت سامراجی آلہ کار دو دھڑوں میں نہ صرف تقسیم ہیں، بلکہ ایک دوسرے سے مسلح لڑائیوں میں نبرد آزما ہیں۔ ایک جانب سعودی عرب، اسرائیل، ترکی اور مصر ہیں، تو دوسری جانب ایران، شام، عراق اور لبنان ہیں۔ مصری فوجی حکومت کا حامی اگر سعودی عرب ہے تو نام نہاد حزب اختلاف اخوان المسلمون کا حامی قطر ہے۔ النصرۃ کا اگر سعودی عرب حامی ہے تو داعش کی حامی اردگان حکومت ہے۔
ترکی میں حکمران طبقات کی جماعت اے کے دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ان میں ایک دھڑا اردگان کی رہنمائی میں اور دوسرا دھڑا فتح اللہ گولن کی رہنمائی میں۔ اور اب ترکی میں حکمران طبقات کی چپقلش فوجی بغاوت تک جاپہنچی ہے۔ اے کے پارٹی کا اردگان دھڑا نواز شریف کی طرح کشکول توڑنے کی بات بھی کرتا ہے، نیٹو، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے علیحدگی اختیارکرتا ہے اور نہ اسرائیل سے تعلقات ختم کرنا چاہتا ہے، بلکہ مزید مضبوط کر رہا ہے۔ نیٹو کا فوجی اڈہ استنبول میں، جہاں جرمن فوج اب بھی موجود ہے، اس کی نگہبانی اور کاسہ لیسی کرتا نظر آتا ہے۔ داعش سے تیل لیتا ہے اور اسے ڈالر دیتا ہے۔ کردوں پر اب بھی مسلسل بمباری کی جا رہی ہے۔
کردوں کے جمہوری حقوق دینے کے بجائے ان پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں عراق میں موجود کردستان ورکرز پارٹی کے کارکنان پر ترکی کی فضائیہ نے بمباری کی، جب کہ کردوں نے بڑی بہادری اور جرأت مندی سے کوبانی میں داعش کو شکست دے کر پیچھے دھکیل دیا۔ حالیہ فوجی بغاوت کے خلاف ترکی کی بائیں بازو کی حزب اختلاف نے بھی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''ہم اردگان کی پالیسی کے خلاف ہیں، اس لیے بھی کہ اس نے آزادی صحافت پر قدغن لگائی ہے اور جمہوری اقدار کو پامال کر کے آمرانہ طرز حکومت قائم کی ہے لیکن ہم فوجی بغاوت کے خلاف ہیں، فوج کے سامنے آ کھڑے ہونے والے صرف اردگان کے کارکنان نہیں تھے بلکہ بائیں بازو کے حزب اختلاف کے کارکنان بھی تھے''۔
یہ بغاوت صرف فوج کی نہیں ہے بلکہ اے کے پارٹی کے دونوں دھڑوں کی چپقلش ہے۔ بغاوت کے بعد اب تک اٹھاون ہزار افراد ملازمت سے نکالے گئے ہیں، جن میں فوج کم اور سویلین زیادہ ہیں۔ باغی دھڑا اسلامی صوفی ازم اور سیکولر سرمایہ داری کا حامی جب کہ اردگان اسلامی سرمایہ داری اور داعش کا حامی ہے۔ دونوں ہی دھڑے سامراجی چھتری تلے اسی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہیں۔ اردگان حکومت نے اب تک ننانوے جنرلوں پر فرد جرم عائد کی ہے۔
اب تک برطرف ہونے والے افراد میں اکیس ہزار اساتذہ سمیت محکمہ تعلیم کے سینتیس ہزار سے زیادہ ملازمین اور فوج سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار افراد، دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور تقریباً نو ہزار پولیس اہلکار شامل ہیں۔ ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہے۔ ادھر ترک فوج کے جنگی طیاروں نے شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں میں بیس کرد حریت پسندوں کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ خفیہ معلومات افشا کرنے والی وکی لیکس نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی نے ملک بھر میں اس کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس کی طرف سے حکمران جماعت سے متعلق تقریباً تین لاکھ ای میل جاری کیے جانے کے اعلان کے بعد کیا گیا۔ وکی لیکس نے اعلان کیا تھا کہ وہ حکومتی پالیسی سے متعلق دستاویزات جاری کرے گی۔
ترکی نے باغیوں کو سزائے موت دینے کی تجویز دی ہے۔ چونکہ ترکی یورپی یونین کا رکن ہے اور یورپی یونین میں سزائے موت نہیں ہے، اگر اردگان سزائے موت بحال کرنے جاتا ہے تو ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت نہیں رہے گی۔ 2014ء میں ترکی میں بے روزگاری آٹھ فیصد تھی، جو کہ 2015ء میں دس فیصد ہو گئی۔ ٹریڈ یونین کنفیڈریشن ترکی کی ایک رپورٹ کے مطابق آبادی کے پچاس فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ترکی میں زیر زمین مزدوروں اور نوجوانوں کے مسائل کا لاوا کھول رہا ہے، جس کا اظہار 2013ء میں گیزی پارک میں اور مزدوروں کی ہڑتال 2014ء کی شکل میں نظر آیا تھا۔ ترکی ہو، ایران ہو، شام ہو یا پاکستان، ان سارے ممالک کے مسائل سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے حل نہیں ہو سکتے ہیں۔
اس لیے کہ یہ نظام عوامی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکا ہے۔ طبقاتی نظام مسائل میں اضافہ تو کر سکتا ہے لیکن حل نہیں کر سکتا۔ چونکہ ریاست جبر کا ادارہ ہے اور اس کے ذیلی ادارے خواہ اسمبلی ہو، عدلیہ ہو، فوج ہو، میڈیا ہو یا سرحدی محافظ ہوں، یہ سب ریاست کے ہی محافظ ہیں۔ ان کا بنیادی کردار صاحب جائیداد طبقات کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، پھر یہ کیونکر پیداواری قوتوں اور محنت کش عوام کی فلاح کے لیے کام کریں گے۔ ریاست کا کام یہی ہے کہ وہ چند لوگوں کی اکثریت پر جبر کرنے کی وکالت کرے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسا بے ریاستی نظام قائم کیا جائے جس کی بنیاد امداد باہمی کے معاشرے پر مشتمل ہو۔