وزیراعلیٰ سندھ کا منصب کانٹوں کی سیج آخری حصہ
سندھ بھر میں گرمی کی شدت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو دو نہیں چار آنکھیں رکھنی ہوں گی انھیں اپنے والد کی طرح ہر معاملے کو خود دیکھنا ہو گا، لوگوں کے مسائل ان کے دروازے پر سن کر حل کیے جائیں۔ اس کے Follow-up میں کمشنر، ڈی سی کھلی کچہری لگائیں، اپنے دفاتر کے دروازے عوام سے ملنے کے لیے کھلے رکھیں۔ صوبے کے اندر ڈاکوؤں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع کروائیں، اغوا، بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائم کے مجرموں کوکیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اچھے اور ایماندار پولیس افسران کو فری ہینڈ کام کرنے دیا جائے۔
سندھ بھر میں گرمی کی شدت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ خاص طور پرفاریسٹ کا خاتمہ اور درختوں کی کٹائی سرفہرست ہیں اس سلسلے میں جو لوگ ملوث ہیں انھیں قانون کے شکنجے میں لایا جائے چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ کوسٹل ایریا میں مینگرو کے خاتمے کی وجہ سے اور ڈیلٹا میں دریائے سندھ کا پانی کا نہ بہنا سمندر کو موقعہ مل رہا ہے جو کئی لاکھ زرخیز زمین کو بنجر بنا دیا ہے، میٹھا پینے کا پانی کھارا بن چکا ہے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں، مچھلی، آبی پرندے اور دوسری مخلوق ختم ہو رہی ہے جس سے سندھ کو نہ صرف معاشی دھچکا لگ رہا ہے بلکہ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
میٹھے پانی کی جھیلیں جن میں منچھر، کینجھر اور ہالیجی بھی شامل ہیں، گندی ہو رہی ہیں۔ موئن جو دڑو، مکلی، رانی کوٹ، کوٹ ڈیجی، عمرکوٹ جو ہماری پہچان ہیں وہ لاوارث ہو چکے ہیں۔ تفریحی مقام گورکھ ہل اسٹیشن کئی سالوں سے ابھی تک مکمل نہیں ہوا، اسے ہمیں بچانا ہے۔ آب پاشی کا نظام بدتر ہو گیا ہے۔
زمین سیم اور تھور میں دن بہ دن جکڑتی جا رہی ہے سندھ میں کارخانوں کا زہریلا پانی دریائے سندھ میں چھوڑا جا رہا ہے جس کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے اس کو بچانے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹس کون لگوائے گا، جو اس کو روکنے کے لیے کورٹس بنائی گئی ہیں، انھیں کون فعال بنائے گا۔ آج کے دور میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بڑی اہمیت رکھتے ہیں، جن کو استعمال کر کے عوام اور صوبے کے مسائل کے بارے میں وزیراعلیٰ باخبر رہ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں خود محکمہ اطلاعات سے ملنے والی خبروں، مضامین، کالمزکا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ انفارمیشن محکمے میں اب وہ بات نہیں رہی ہے اس لیے انھیں باہر سے expert لوگ لانے ہوں گے جو عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کو مضبوط بنا رکھیں۔ وہاں پر Advertisement والے حصے میں اچھے اور ایماندار لوگوں کو لایا جائے۔
کلچر ڈپارٹمنٹ بھی اہم محکمہ ہے جس کو شرمیلا اور منظورکناسرو جیسے لوگوں سے بچایا جائے۔ کیونکہ کلچر ڈپارٹمنٹ صرف میلے منعقد کر کے کمانے کا نام نہیں ہے۔ اس محکمے کی اہمیت بہت زیادہ ہے جس میں ہمیں اپنے archaeological sites کو بچانا ہے، ادیب، شاعر، مفکر اور محقق کے کام سے فائدہ اٹھانا ہے، صرف شاہ عبداللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کو ہی نہیں بلکہ ہمارے ماضی اور حال کے Legends کو بھی اہمیت دینی ہے ان کی لکھی ہوئی کتابوں کی دوبارہ اشاعت اور موجودہ تحریروں کو کتابی صورت دینی چاہیے۔ ثقافت کے حوالے سے لائبریریاں اہم رول ادا کرتی ہیں مگر انھیں ہمیشہ ایک کونے میں غیرضروری سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے جہاں پر نئی نسل کے بچے اپنا مستقبل بناتے ہیں مگر رشوت خور بڑے افسر وہاں سے بھی کمانا چاہتے ہیں اور اچھے اور کام کے لوگوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ریلوے کا نظام جو انگریزوں کے زمانے سے سفر کی سہولت کے حوالے سے لوگوں کے لیے سستا اور پسندیدہ رہا ہے مگر سندھ میں خاص طور پر کراچی سے لاڑکانہ، دادو، اور جیکب آباد لائن پر ٹرین چلانا ختم ہو چکی ہے، ان کی بحالی کے لیے نئے وزیر اعلیٰ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
ہماری نئی نسل مستقبل کی معمار ہے، ان کی تعلیم، تربیت اور روزگار کے لیے نئی اسکیمیں متعارف کروائی جائیں۔ کراچی جیسے شہر میں سرکاری پرائمری اور سیکنڈری اسکولزکی بڑی کمی ہے اس لیے غریب لوگوں کے بچے بھی پرائیویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے پریشان رہتے ہیں۔ غریبوں کے پاس تو اپنے ذاتی گھر نہیں ہیں اور کرائے کے مکان اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی کی خرید سے بہت دور ہیں۔ اس لیے مراد علی شاہ کو چاہیے کہ غریبوں کو پلاٹ اور گھر دینے کی اسکیم شروع کریں لیکن اس میں علاقے کی آب و ہوا اور رہنے کی اسٹائل کے مطابق ہوں۔ اس پالیسی کو پورا کرنے سے پی پی کا روٹی، کپڑا اور مکان والا وعدہ پورا ہو جائے گا۔ شاہ صاحب خود ضلع دادو سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے انھیں کاچھو کے حالات معلوم ہیں جس کے لیے انھیں اس خطے کے لیے کچھ ترقیاتی اور معاشی اسکیمیں بھی لانی چاہئیں۔ اس کے علاوہ تھر جو اس وقت قحط اور بیماریوں کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے وہاں پر جو امداد اور طبی مدد دی جائے اس کا وہ خود خیال رکھیں ۔
سندھ میں کئی ایسے غریب لوگ ہیں جن کی فیملی میں پانچ سے لے کر 10 افراد ایسی ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس نے انھیں اپاہج بنا دیا ہے نہ تو ان کے پاس علاج کروانے کے پیسے ہیں اور نہ کھانا کھانے کے لیے۔ ان کی مدد کی جائے، طبی ٹیمیں بنا کر وہاں بھیجی جائیں اور انھیں علاج و معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ہزاروں حاملہ عورتیں اور چھوٹے بچے علاج نہ ملنے سے مر جاتے ہیں کیونکہ وہاں پر اسپتال تو بنائے گئے ہیں مگر ڈاکٹرز اور ادویات نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مالی مدد والے پروگراموں کو تبدیل کر کے ایسے بنایا جائے جس سے غریب افراد بجائے بھکاری بننے کے روزگار سے لگ جائیں ۔
سندھ میں ایک اور بیماری ہے جو غریب لوگوں کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے جسے کہتے ہیں قرضہ لینے کے لیے ان کا جائیداد گروی رکھنا یا پھر بغیر جائیداد کے قرضہ لینا جس پر دو سو فیصد سے 500 فیصد تک ویاج دینا۔ اس میں ضرورت مند لوگ اپنا سب کچھ لٹا چکے ہیں کیونکہ ضرورت کے وقت وہ پیسے تو لے لیتے ہیں مگر پیسے واپس نہ کرنے کی صورت میں انھیں اپنی جائیداد، عورتیں دینی پڑتی ہیں۔ کئی لوگ خودکشی کر چکے ہیں اور کئی لوگوں کو غلام بنا کر ان کی فیملی سے زبردستی مزدوری لی جاتی ہے اور یہ قرضہ ساری عمر میں بھی نہیں دے پاتے۔ وزیر اعلیٰ کو ان افسران اور سیاستدانوں کے خلاف سختی سے نمٹنا ہو گا جو سرکاری گاڑیاں لے کر گئے ہیں اور ابھی تک واپس نہیں کر رہے ہیں۔
صوبے میں میٹھے پانی کی بڑی کمی ہے اس پر خاص دھیان دیا جائے ورنہ ایک دن ایسا ہو گا کہ ہمارے لوگ بہت بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ آر بی او ڈی اور ایل بی او ڈی کی وجہ سے سندھ کو بڑا نقصان ہوا ہے انھیں روکنے کے لیے سخت اقدام کرنے ہوں گے۔ ٹریفک حادثات کو روکنے کے لیے شاہراہوں پر نظام کو بہتر بنایا جائے اور ایمرجنسی طبی امداد دینے کے لیے نئی اسکیمیں تیار کی جائیں۔ سب سے زیادہ ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ خوشامدی لوگوں سے بچا جائے اور اگر فریال تالپرکی ڈیکٹیشن کو مان لیا گیا تو پھرکوئی بھی قدم آگے جانے کے بجائے پیچھے جاتا رہے گا اور تبدیلی کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔