رینجرز کے خصوصی اختیارات
سٹرکیں کھود کر بھول جاتے ہیں۔ اس شہر میں تمام کوڑا کرکٹ محلوں، بازاروں اور مین شاہراہوں پر نظر آئے گا۔
ہر حکومت کی ترجیحات سیاسی مفادات ہیں، اسی بنیاد پر مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی پر گامزن ہیں اور اس طرح گڈ گورننس کا تصور ختم ہو گیا ہے۔ تمام وزیر اور مشیر عوام کی مشکلات پر کوئی توجہ نہیں دیتے، حالانکہ ہر مقصد کے لیے ادارے بنے ہوئے ہیں، ہر کام کی وزات بھی ہے اور اس کا سیکریٹریٹ بھی ہے۔ لیکن تمام ادارے ایسا لگتا ہے تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں، جس کو یقین نہیں آ رہا ہے وہ صرف شہر کراچی ہی کا دورہ کر لے۔ ہر فٹ پاتھ پر اتنی تجاوزات ہیں کہ چلنے والوں کے لیے بمشکل 2 فٹ جگہ بچی ہے۔
سٹرکیں کھود کر بھول جاتے ہیں۔ اس شہر میں تمام کوڑا کرکٹ محلوں، بازاروں اور مین شاہراہوں پر نظر آئے گا۔ ٹریفک کا حال یہ ہے کہ اب فٹ پاتھ پر سائیکلیں، موٹر سائیکلیں، حتیٰ کہ کاریں چلتی ہوئی ملیں گی، بسیں اپنے اسٹاپ نہیں رکتیں، بس سے اترنے چڑھنے والے بزرگ اور بچے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اترتے ہیں۔ بے ہنگم ٹریفک چلتی ہے۔ رانگ سائیڈ کا رواج عام ہو گیا۔ محلوں میں پتھارے داروں نے تمام سڑکوں کو گھیرا ہوا ہے۔ یہ سارا حال چند ماہ یا چند سال کا نہیں، برسوں کا ہے۔ ان کی اصلاح کے لیے کسی خاص بجٹ یا کسی خاص فورس کی ضرورت نہیں۔
اگر سندھ کے نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سندھ کے تمام محکموں کے سیکریٹری اور پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کو بلا کر یہ تنبیہہ کر دیں کہ اس شہر کی تمام مشکلات کو مستقل طور پر حل کیا جائے تو صرف دس دن کی مہلت پر تمام فٹ پاتھ خالی کرائے جا سکتے ہیں۔ پتھارے داروں کو میدان دیے جائیں جیسا جمعہ بازار کے لیے دیے جاتے ہیں۔ کراچی کے امن عامہ کے لیے اور دہشتگردوں، اسٹریٹ کرائمزکے لیے پولیس کے اختیارات رینجرز کو تین سال کے لیے دیے جائیں، تا کہ بدعنوانی کرنے والے اور کرائمز کرنے والی مافیا کو یہ پیغام پہنچے کہ جو آپریشن شہر میں پولیس اور رینجرز کی مدد سے ہو رہا ہے، وقتی نہیں، بلکہ مستقل بنیادوں پر ہے۔ اس طرح بدعنوانی، بدمعاش مافیا کا نیٹ ورک ٹوٹے گا۔
2013ء سے جب رینجرز کو خصوصی اختیارات ملے ہیں انھوں نے اس شہر کو کافی حد تک بہتر اور پرامن بنایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رینجرز جو فوج کے ماتحت کام کرتی ہے، اس نے کسی سیاسی مصلحت کو سامنے نہیں رکھا، بلکہ اپنے ذرایع سے جو خفیہ معلومات انھیں ملتی ہیں، وہ اس پر کارروائی کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس میں کچھ بے گناہ لوگ بھی پکڑے جا سکتے ہیں، جنھیں پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔
سندھ کے شہروں میں دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار، چھیناجھپٹی کا سلسلہ گزشتہ 30 سال سے جاری ہے۔ اس میں رینجرز کے خوف سے واقعی اتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ تاجر برادری، طلبا، سماجی کاموں کی رفتار تیز ہوئی، اسٹاک مارکیٹ بلند ہوئی۔ اس میں سب سے زیادہ کریڈٹ پولیس کے اعلیٰ افسران اور رینجرز کے ڈی جی کو جاتا ہے، وفاقی حکومت نے بھی حالات کو بہتر بنانے میں بھرپور کوشش کی ہے۔ سندھ حکومت کے بعض طاقتور لوگ بلاامتیاز بدعنوانی کا خاتمہ نہیں چاہتے، اس لیے وہ اندرون سندھ رینجرز کو اختیارات دینے میں پس و پیش کر رہے ہیں۔
جب کہ انھیں چاہیے کہ آیندہ عام انتخابات سے پہلے اس صوبے کو امن و امان کا گہوارہ بنائیں اور نظام حکومت جسے گڈ گورننس کہتے ہیں، اسے بہتر کریں اور ساری توجہ مردم شماری اور بڑھتی ہوئی آبادی کے کنٹرول پر دیں، شہر میں انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنائیں، بلدیاتی نظام کو بہتر بنائیں اور جو لوگ بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں، انھیں اختیارات اور بجٹ دیں تاکہ عوامی مسائل حل ہوں۔ میرا مشورہ ہے وزیراعلیٰ سندھ چیف منسٹر ہاؤس میں ایک شکایتی مرکز بنائیں جہاں پولیس، رینجرز، بلدیات، گیس، پانی، بجلی کے محکمے کے نمایندے بیٹھیں، وزیراعلیٰ ان شکایت کو ای میل یا واٹس اپ پر موصول کریں اور فوری طور پر ان پر عمل ہو۔ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ رینجرز کے معاملے پر لیت و لعل سے کام نہ لیں بلکہ فوری خصوصی اختیارات دیں۔ یہ بھی عجیب سی بات ہے کہ رینجر جو فوج کے ماتحت آتی ہے، یعنی وزارت دفاع اور دوسری طرف یہ وزارت داخلہ کے ماتحت بھی، مگر کسی صورت صوبائی حکومت کے ماتحت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ پورے پاکستان میں جہاں جہاں دہشت گردوں یا مالی بدعنوانی میں ملوث لوگ ہیں، دونوں کے خلاف رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے جائیں۔ کیونکہ دہشتگردی کا فیول مالی بدعنوانی اور کرپشن ہے، دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
پی پی پی ایک وفاق پرست اور عوامی مزاج کی پارٹی ہے، اس لیے اسے نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ تمام صنعت کار، تمام کاروباری حضرات، تمام طلبا و طالبات سب اس حق میں ہیں کہ رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے جائیں۔ یہ اختیارات پورے پاکستان کے ہر صوبے کے لیے دیے جائیں اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف جو اس ملک کو کرپشن اور دہشت گردی ختم کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں انھیں اپنے وطن کی حالت کو بہتر بنانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
جس طرح کراچی میں رینجرز نے کامیاب آپریشن کیا ہے، ویسا ہی سندھ میں بہت ضروری ہے، کیونکہ پنجاب کی طرح اندرون سندھ میں بھی بہت سے 'چھوٹو گینگ' موجود ہیں۔ وہاں بڑے بڑے نامی گرامی ڈاکو ہیں، وہاں بھی بدعنوانی ہے۔ اگر پی پی پی نے رینجرز کو اختیارات نہ دیے تو سیاسی نتیجہ سندھ میں بھی وہی ہو گا جو کشمیر کے انتخابات میں ہوا۔ عوام سمجھدار ہو گئے ہیں، ہر چہرہ بے نقاب ہے۔ ہمیں خوشی ہے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی کاوش سے سندھ کا وزیراعلیٰ ایک با اصول اور جدوجہد کرنے والا پی پی پی کا جیالا مراد علی شاہ کے طور پر سامنے لایا گیا۔ انھیں فری ہینڈ دیا جائے تاکہ وہ آزادانہ طور پر صوبے کے لیے جو بہتر ہو، وہ کام انجام دیں۔ رینجرز کے معاملے پر محاذ آرائی پی پی پی کو سیاسی طور پر بہت پیچھے لے جائے گی۔ پورے پاکستان میں پی پی پی کے پاس سندھ کے دیہی علاقے کے علاوہ کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں ووٹ مل سکیں۔ اس لیے اس ووٹ بینک کو بچانے کے لیے محاذ آرائی کے بجائے غیر جانبدارانہ رویہ اپنانا چاہیے۔ مجرم چاہے کوئی بھی ہو، کسی بھی جماعت سے وابستہ ہو، اسے صرف مجرم تصور کیا جائے اور اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
سٹرکیں کھود کر بھول جاتے ہیں۔ اس شہر میں تمام کوڑا کرکٹ محلوں، بازاروں اور مین شاہراہوں پر نظر آئے گا۔ ٹریفک کا حال یہ ہے کہ اب فٹ پاتھ پر سائیکلیں، موٹر سائیکلیں، حتیٰ کہ کاریں چلتی ہوئی ملیں گی، بسیں اپنے اسٹاپ نہیں رکتیں، بس سے اترنے چڑھنے والے بزرگ اور بچے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اترتے ہیں۔ بے ہنگم ٹریفک چلتی ہے۔ رانگ سائیڈ کا رواج عام ہو گیا۔ محلوں میں پتھارے داروں نے تمام سڑکوں کو گھیرا ہوا ہے۔ یہ سارا حال چند ماہ یا چند سال کا نہیں، برسوں کا ہے۔ ان کی اصلاح کے لیے کسی خاص بجٹ یا کسی خاص فورس کی ضرورت نہیں۔
اگر سندھ کے نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سندھ کے تمام محکموں کے سیکریٹری اور پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کو بلا کر یہ تنبیہہ کر دیں کہ اس شہر کی تمام مشکلات کو مستقل طور پر حل کیا جائے تو صرف دس دن کی مہلت پر تمام فٹ پاتھ خالی کرائے جا سکتے ہیں۔ پتھارے داروں کو میدان دیے جائیں جیسا جمعہ بازار کے لیے دیے جاتے ہیں۔ کراچی کے امن عامہ کے لیے اور دہشتگردوں، اسٹریٹ کرائمزکے لیے پولیس کے اختیارات رینجرز کو تین سال کے لیے دیے جائیں، تا کہ بدعنوانی کرنے والے اور کرائمز کرنے والی مافیا کو یہ پیغام پہنچے کہ جو آپریشن شہر میں پولیس اور رینجرز کی مدد سے ہو رہا ہے، وقتی نہیں، بلکہ مستقل بنیادوں پر ہے۔ اس طرح بدعنوانی، بدمعاش مافیا کا نیٹ ورک ٹوٹے گا۔
2013ء سے جب رینجرز کو خصوصی اختیارات ملے ہیں انھوں نے اس شہر کو کافی حد تک بہتر اور پرامن بنایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رینجرز جو فوج کے ماتحت کام کرتی ہے، اس نے کسی سیاسی مصلحت کو سامنے نہیں رکھا، بلکہ اپنے ذرایع سے جو خفیہ معلومات انھیں ملتی ہیں، وہ اس پر کارروائی کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس میں کچھ بے گناہ لوگ بھی پکڑے جا سکتے ہیں، جنھیں پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔
سندھ کے شہروں میں دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار، چھیناجھپٹی کا سلسلہ گزشتہ 30 سال سے جاری ہے۔ اس میں رینجرز کے خوف سے واقعی اتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ تاجر برادری، طلبا، سماجی کاموں کی رفتار تیز ہوئی، اسٹاک مارکیٹ بلند ہوئی۔ اس میں سب سے زیادہ کریڈٹ پولیس کے اعلیٰ افسران اور رینجرز کے ڈی جی کو جاتا ہے، وفاقی حکومت نے بھی حالات کو بہتر بنانے میں بھرپور کوشش کی ہے۔ سندھ حکومت کے بعض طاقتور لوگ بلاامتیاز بدعنوانی کا خاتمہ نہیں چاہتے، اس لیے وہ اندرون سندھ رینجرز کو اختیارات دینے میں پس و پیش کر رہے ہیں۔
جب کہ انھیں چاہیے کہ آیندہ عام انتخابات سے پہلے اس صوبے کو امن و امان کا گہوارہ بنائیں اور نظام حکومت جسے گڈ گورننس کہتے ہیں، اسے بہتر کریں اور ساری توجہ مردم شماری اور بڑھتی ہوئی آبادی کے کنٹرول پر دیں، شہر میں انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنائیں، بلدیاتی نظام کو بہتر بنائیں اور جو لوگ بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں، انھیں اختیارات اور بجٹ دیں تاکہ عوامی مسائل حل ہوں۔ میرا مشورہ ہے وزیراعلیٰ سندھ چیف منسٹر ہاؤس میں ایک شکایتی مرکز بنائیں جہاں پولیس، رینجرز، بلدیات، گیس، پانی، بجلی کے محکمے کے نمایندے بیٹھیں، وزیراعلیٰ ان شکایت کو ای میل یا واٹس اپ پر موصول کریں اور فوری طور پر ان پر عمل ہو۔ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ رینجرز کے معاملے پر لیت و لعل سے کام نہ لیں بلکہ فوری خصوصی اختیارات دیں۔ یہ بھی عجیب سی بات ہے کہ رینجر جو فوج کے ماتحت آتی ہے، یعنی وزارت دفاع اور دوسری طرف یہ وزارت داخلہ کے ماتحت بھی، مگر کسی صورت صوبائی حکومت کے ماتحت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ پورے پاکستان میں جہاں جہاں دہشت گردوں یا مالی بدعنوانی میں ملوث لوگ ہیں، دونوں کے خلاف رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے جائیں۔ کیونکہ دہشتگردی کا فیول مالی بدعنوانی اور کرپشن ہے، دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
پی پی پی ایک وفاق پرست اور عوامی مزاج کی پارٹی ہے، اس لیے اسے نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ تمام صنعت کار، تمام کاروباری حضرات، تمام طلبا و طالبات سب اس حق میں ہیں کہ رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے جائیں۔ یہ اختیارات پورے پاکستان کے ہر صوبے کے لیے دیے جائیں اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف جو اس ملک کو کرپشن اور دہشت گردی ختم کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں انھیں اپنے وطن کی حالت کو بہتر بنانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
جس طرح کراچی میں رینجرز نے کامیاب آپریشن کیا ہے، ویسا ہی سندھ میں بہت ضروری ہے، کیونکہ پنجاب کی طرح اندرون سندھ میں بھی بہت سے 'چھوٹو گینگ' موجود ہیں۔ وہاں بڑے بڑے نامی گرامی ڈاکو ہیں، وہاں بھی بدعنوانی ہے۔ اگر پی پی پی نے رینجرز کو اختیارات نہ دیے تو سیاسی نتیجہ سندھ میں بھی وہی ہو گا جو کشمیر کے انتخابات میں ہوا۔ عوام سمجھدار ہو گئے ہیں، ہر چہرہ بے نقاب ہے۔ ہمیں خوشی ہے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی کاوش سے سندھ کا وزیراعلیٰ ایک با اصول اور جدوجہد کرنے والا پی پی پی کا جیالا مراد علی شاہ کے طور پر سامنے لایا گیا۔ انھیں فری ہینڈ دیا جائے تاکہ وہ آزادانہ طور پر صوبے کے لیے جو بہتر ہو، وہ کام انجام دیں۔ رینجرز کے معاملے پر محاذ آرائی پی پی پی کو سیاسی طور پر بہت پیچھے لے جائے گی۔ پورے پاکستان میں پی پی پی کے پاس سندھ کے دیہی علاقے کے علاوہ کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں ووٹ مل سکیں۔ اس لیے اس ووٹ بینک کو بچانے کے لیے محاذ آرائی کے بجائے غیر جانبدارانہ رویہ اپنانا چاہیے۔ مجرم چاہے کوئی بھی ہو، کسی بھی جماعت سے وابستہ ہو، اسے صرف مجرم تصور کیا جائے اور اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔