چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کو آڑے ہاتھوں لے لیا
ایوان میں جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ ہماری انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے تضحیک آمیز ہے،وزیرداخلہ
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ہمیں آوازیں کسنے کے بجائے مل کر دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا اورکل جو ایوان میں الفاظ استعمال کئے گئے وہ ہماری انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے تضحیک آمیز ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ کل اس ایوان میں جس طرح اظہارخیال کرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ ہماری انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے تضحیک آمیز ہے اور انہیں کمزور کرنے کا ایک عمل ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس پر انتہائی افسوس ہوا جب کہ ان کی آواز 'را' اور افغان خفیہ ایجنسی کے خلاف بھی اٹھتی،اگر ایسے الفاظ کسی غیر ملک کی پارلیمنٹ میں بھی ادا کئے جاتے تو وہ بھی قابل مذمت تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : سانحہ کوئٹہ خفیہ اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اچکزئی
وزیرداخلہ نے کہا کہ دہشت گردی چندبرس کی بات نہیں،کئی برسوں میں یہ مسئلہ پیداہوا، 2009 اور2010 دہشتگردی کے لحاظ سے بدترین سال تھے، جی ایچ کیو پر حملہ ہوا اور 36گھنٹے جاری رہا، پاکستان کی ایئر اور نیول بیس پر بھی حملے ہوئے۔ وہ یہ تو نہیں کہتے کہ سب کچھ بہتر ہوگیا ہے لیکن گزشتہ ڈھائی برسوں میں سیکیورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، 2013 میں روزانہ 2سے 5دھماکے ہوتے تھے، پہلےدھماکا نا ہونے پر خبر بنتی تھی، آج دھماکا ہو تو خبر بنتی ہے۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی نےکہاتھا کہ امن کے لیے مذاکرات بہتر راستہ ہے، حکومت نے اے پی سی میں تمام جماعتوں کو بلایا، اےاین پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کو مذاکرات سے اختلافات تھے، ہم نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا، ہم نے دل وجان سےامن کے لیے مذاکرات کیے، فوج بھی ہمارے ساتھ تھی، ہم نے مذاکرات کیے تو پروپیگنڈا کیا گیا کہ حکومت کچھ اور فوج کچھ اور چاہتی ہے، حکومت کی دہشتگردوں سے بات چیت تسلی بخش اندازمیں ہورہی تھی، اسی دوران اندزاہ ہوا کہ ہمارے ساتھ ڈبل گیم کی جارہی ہے، ایک جانب بات چیت تو دوسری طرف دباؤ ڈالنے کے لیے دہشت گرد کارروائیاں کررہے تھے۔
وفاقی وزیر نےکہا کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد وزیراعظم نے کہا کہ اب بہت ہوچکا، پہلی بار سیاسی اور عسکری قیادت نے ہم آہنگی کے ساتھ 14جون کو آپریشن کا فیصلہ کیا گیا،حکومت تنہا دہشت گردوں سے نہیں لڑسکتی،یہ قوم کی جنگ ہے، عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت سے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کو ڈیڑھ برس ہوگیا، رواں سال کے 8 مہینوں کے دوران ملک بھر میں 181 واقعات میں ہلاکتیں ہوئیں جب کہ 296 واقعات میں کوئی نقصان نہیں ہوا، بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کی کوششوں کو کامیاب ترین قرار دے رہے ہیں۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ انہوں نے کبھی کسی صوبائی حکومت پر تنقید نہیں کی، سیکیورٹی اجلاس میں صوبائی یااپنی کمزوری کی نشاندہی کی،مگر کبھی عوام میں نہیں کی، دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والے ہمارے ہیروز ہیں، گلی کوچوں میں کھڑے اہلکار تربیت یافتہ نہیں مگر بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتےہیں،قوم سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں اور کاوشوں کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے، گزشتہ روز ہمارے ایوان سے ایسی آواز اٹھی کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں کے مورال کو کمزور کرنے کی کوشش تھی، وہ اگر کسی اور ملک سے اٹھتی توبھی قابل مذمت تھی، ہمیں آوازیں کسنے کے بجائے مل کر دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف ایسا قانون ضروری ہے جس سے ان کا خاتمہ ہوسکے، دہشت گردوں کے لئے خواتین اور بچوں کو مارنا جیت ہے، کوئی بھی سیاسی حکومت نہیں چاہتی کہ سخت قوانین بنائےجائیں، غیرمعمولی صورتحال میں غیرمعمولی طور طریقے اپنانے ہوں گے، ملٹری کورٹس سیاسی مخالفین کے لئے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے لئےبنائی ہیں، ملٹری کورٹس کے معاملے میں آصف زرداری نےحمایت کی تو ان کی بھی تعریف کی۔ ملٹری کورٹس کے مثبت نتائج نکلے ہیں۔ کوئٹہ میں دہشت گردوں نے انتہائی منظم منصوبہ بندی کے تحت کارروائی کی، دہشت گرد ہم میں اختلاف نہیں ڈال سکتے، ان کا قلع قمع کرکے رہیں گے،آپریشن آخری مراحل میں ہے، اس مرحلے میں ہمیں اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے، آئندہ ڈیڑھ سال تک اتحاد قائم رہا تو جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
اس سے قبل چوہدری نثار نے ایوان کو شناختی کارڈز کی تصدیق کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے اہم ترین محکموں میں اندھیر نگری مچائی گئی اور ڈرون حملے میں مارے جانے والی شخصیت کا شناختی کارڈ بھی پاکستان میں بنا جب کہ تصدیقی مہم کے دوران ڈیڑھ ماہ کے دوران ساڑھے تین کروڑ شناختی کارڈ کی تصدیق کی جاچکی ہے اور 29 ہزار غیرملکیوں کے جعلی پاسپورٹ منسوخ کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ شناختی کارڈ کی تصدیق قومی مہم ہے جس میں عوام اور میڈیا دونوں کا تعاون حاصل ہے، خاندانوں کی تصدیق کے لئے 35 لاکھ پیغامات موصول ہوئے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عوام تصدیقی مہم میں خود بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ افغان اگر کسی پاکستانی خاتون سے شادی کرے گا تو افغان ہی رہے گا اور اس کے بچے بھی افغانی کہلائے جایئں گے اور کسی افغانی کے بچوں کو شناختی کارڈز جاری نہیں کئے جائیں گے، شناختی کارڈ کی تصدیق کے دوران اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو ریکارڈ کی درستگی کے لئے پارلیمانی کمیٹی بھی بنائی جاسکتی ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ کل اس ایوان میں جس طرح اظہارخیال کرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ ہماری انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے تضحیک آمیز ہے اور انہیں کمزور کرنے کا ایک عمل ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس پر انتہائی افسوس ہوا جب کہ ان کی آواز 'را' اور افغان خفیہ ایجنسی کے خلاف بھی اٹھتی،اگر ایسے الفاظ کسی غیر ملک کی پارلیمنٹ میں بھی ادا کئے جاتے تو وہ بھی قابل مذمت تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : سانحہ کوئٹہ خفیہ اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اچکزئی
وزیرداخلہ نے کہا کہ دہشت گردی چندبرس کی بات نہیں،کئی برسوں میں یہ مسئلہ پیداہوا، 2009 اور2010 دہشتگردی کے لحاظ سے بدترین سال تھے، جی ایچ کیو پر حملہ ہوا اور 36گھنٹے جاری رہا، پاکستان کی ایئر اور نیول بیس پر بھی حملے ہوئے۔ وہ یہ تو نہیں کہتے کہ سب کچھ بہتر ہوگیا ہے لیکن گزشتہ ڈھائی برسوں میں سیکیورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، 2013 میں روزانہ 2سے 5دھماکے ہوتے تھے، پہلےدھماکا نا ہونے پر خبر بنتی تھی، آج دھماکا ہو تو خبر بنتی ہے۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی نےکہاتھا کہ امن کے لیے مذاکرات بہتر راستہ ہے، حکومت نے اے پی سی میں تمام جماعتوں کو بلایا، اےاین پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کو مذاکرات سے اختلافات تھے، ہم نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا، ہم نے دل وجان سےامن کے لیے مذاکرات کیے، فوج بھی ہمارے ساتھ تھی، ہم نے مذاکرات کیے تو پروپیگنڈا کیا گیا کہ حکومت کچھ اور فوج کچھ اور چاہتی ہے، حکومت کی دہشتگردوں سے بات چیت تسلی بخش اندازمیں ہورہی تھی، اسی دوران اندزاہ ہوا کہ ہمارے ساتھ ڈبل گیم کی جارہی ہے، ایک جانب بات چیت تو دوسری طرف دباؤ ڈالنے کے لیے دہشت گرد کارروائیاں کررہے تھے۔
وفاقی وزیر نےکہا کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد وزیراعظم نے کہا کہ اب بہت ہوچکا، پہلی بار سیاسی اور عسکری قیادت نے ہم آہنگی کے ساتھ 14جون کو آپریشن کا فیصلہ کیا گیا،حکومت تنہا دہشت گردوں سے نہیں لڑسکتی،یہ قوم کی جنگ ہے، عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت سے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کو ڈیڑھ برس ہوگیا، رواں سال کے 8 مہینوں کے دوران ملک بھر میں 181 واقعات میں ہلاکتیں ہوئیں جب کہ 296 واقعات میں کوئی نقصان نہیں ہوا، بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کی کوششوں کو کامیاب ترین قرار دے رہے ہیں۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ انہوں نے کبھی کسی صوبائی حکومت پر تنقید نہیں کی، سیکیورٹی اجلاس میں صوبائی یااپنی کمزوری کی نشاندہی کی،مگر کبھی عوام میں نہیں کی، دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والے ہمارے ہیروز ہیں، گلی کوچوں میں کھڑے اہلکار تربیت یافتہ نہیں مگر بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتےہیں،قوم سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں اور کاوشوں کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے، گزشتہ روز ہمارے ایوان سے ایسی آواز اٹھی کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں کے مورال کو کمزور کرنے کی کوشش تھی، وہ اگر کسی اور ملک سے اٹھتی توبھی قابل مذمت تھی، ہمیں آوازیں کسنے کے بجائے مل کر دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف ایسا قانون ضروری ہے جس سے ان کا خاتمہ ہوسکے، دہشت گردوں کے لئے خواتین اور بچوں کو مارنا جیت ہے، کوئی بھی سیاسی حکومت نہیں چاہتی کہ سخت قوانین بنائےجائیں، غیرمعمولی صورتحال میں غیرمعمولی طور طریقے اپنانے ہوں گے، ملٹری کورٹس سیاسی مخالفین کے لئے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے لئےبنائی ہیں، ملٹری کورٹس کے معاملے میں آصف زرداری نےحمایت کی تو ان کی بھی تعریف کی۔ ملٹری کورٹس کے مثبت نتائج نکلے ہیں۔ کوئٹہ میں دہشت گردوں نے انتہائی منظم منصوبہ بندی کے تحت کارروائی کی، دہشت گرد ہم میں اختلاف نہیں ڈال سکتے، ان کا قلع قمع کرکے رہیں گے،آپریشن آخری مراحل میں ہے، اس مرحلے میں ہمیں اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے، آئندہ ڈیڑھ سال تک اتحاد قائم رہا تو جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
اس سے قبل چوہدری نثار نے ایوان کو شناختی کارڈز کی تصدیق کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے اہم ترین محکموں میں اندھیر نگری مچائی گئی اور ڈرون حملے میں مارے جانے والی شخصیت کا شناختی کارڈ بھی پاکستان میں بنا جب کہ تصدیقی مہم کے دوران ڈیڑھ ماہ کے دوران ساڑھے تین کروڑ شناختی کارڈ کی تصدیق کی جاچکی ہے اور 29 ہزار غیرملکیوں کے جعلی پاسپورٹ منسوخ کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ شناختی کارڈ کی تصدیق قومی مہم ہے جس میں عوام اور میڈیا دونوں کا تعاون حاصل ہے، خاندانوں کی تصدیق کے لئے 35 لاکھ پیغامات موصول ہوئے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عوام تصدیقی مہم میں خود بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ افغان اگر کسی پاکستانی خاتون سے شادی کرے گا تو افغان ہی رہے گا اور اس کے بچے بھی افغانی کہلائے جایئں گے اور کسی افغانی کے بچوں کو شناختی کارڈز جاری نہیں کئے جائیں گے، شناختی کارڈ کی تصدیق کے دوران اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو ریکارڈ کی درستگی کے لئے پارلیمانی کمیٹی بھی بنائی جاسکتی ہے۔