بھنا ہوا مرغا

میراثی نے پھر خوشامد کی کہ گاؤں کے کسی سیانے کو بلاتے ہیں مگر یہ ہوا کیا۔


Abdul Qadir Hassan August 10, 2016
[email protected]

عالمی حالات ایسا پلٹا کھا رہے ہیں بلکہ ایسے الٹ پلٹ ہو رہے ہیں کہ تاریخ پڑھنے والوں کو حیرت ہے کہ قدرت کیا چاہتی ہے۔ کل تک لاہور کی حد تک حالت یہ تھی کہ میرے جیسے نئے نہیں پرانے جم پل لاہوری بھی سخت موسم سے پناہ مانگ رہے تھے لیکن موسم انسانوں کی پسند و ناپسند کی پروا نہیں کرتا۔ اس کی اپنی پسند و نا پسند اور رفتار ہے جس کو وہ اختیار کرتا ہے اور جس پر چلتا ہے۔

اب میں اگر اپنے پیدائشی موسم کا خیال کروں جس میں اس قلمکار نے آنکھ کھولی تھی یا پھر قدرے شعور آنے پر جس میں اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا سیکھا تھا اور پھر جس میں زندگی کے مہ و سال گزارے تھے تو آپ کہیں گے کہ پاگل شخص بھاگ جاؤ خشک راوی کے اس دیس سے اور صرف بارشوں کے پانی پر گزر کرنے کا پرانا سبق یاد کرو اور عیش کرو اس قدرتی موسم میں جس میں کوئی کسی پر جبر نہیں کرتا۔ اگر گرمی ہے تو پہاڑی لوگوں نے اس کا توڑ معلوم کر رکھا ہے بہت بڑی بات ہوئی تو گیلی چق دروازے پر لٹکا لی اور اس سے بھی زیادہ نخرہ کرنا ہوا تو دوپہر کو گیلے کپڑے کو اپنے اوپر بچھا کر لیٹ گئے جس سے گرمی کا زور ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے، جب ہوا چلتی ہے تو اس بھیگے کپڑے میں سے گزر کر آپ تک پہنچتی ہے اور قدرے ٹھنڈی ہوتی ہے۔

بجلی کے بغیر وقت گزارنے کے جو طریقے ایجاد ہوئے ہیں ان میں ہی ایسے طریقے چلتے ہیں اور لوگ ان کے سہارے دن رات بسر کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے یہ ملتان کے قرب و جوار کے علاقے کی بات ہے، ملتان کے مشہور و معروف کسی میراثی تک یہ اطلاع پہنچی کہ فلاں نیا نیا زمیندار گرمیوں میں خس کی ٹٹی اور گیلی چادر میں دن رات بسر کر رہا ہے۔ اس میراثی نے جو اس علاقے کے زمینداروں کی نسل در نسل رگ رگ سے واقف تھا جب یہ سنا کہ ایک نیا زمیندار بھی حالات نے پیدا کر دیا ہے تو اس نے اپنے پروگرام میں اس نوزائیدہ رئیس اور زمیندار کا نام بھی درج کر لیا اور گرمیوں میں ایک دن اس زمیندار کے گاؤں اور ڈیرے کی طرف نکل گیا کہ اس نئی آباد دنیا کا نظارہ کر سکے اور اس علاقے کا کوئی گوشہ اس کے علم اور نظارے سے محروم نہ رہے۔

وہ جب اس گاؤں پہنچا اور اس نئے زمیندار کا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے نئے ڈیرے پر آرام کررہا ہے چنانچہ وہ گرم موسم میں ہی اپنی نئی تلاش میں گرتا مرتا بالآخر پہنچ گیا اور جب بیٹھک کے بڑے ہال کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بڑے سے پلنگ پر ڈیرے کا مالک زمیندار لیٹا ہوا ہے اور اس نے اپنے اوپر ایک باریک چادر لی ہوئی ہے جو گیلی ہے اور جس میں گزرتی ہوئی ہوا قدرے ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ اس نے حسب دستور خاص انداز میں بے چین زمیندار کو سلام کیا اور کہا کہ حضور کچھ تکلیف محسوس ہو رہی ہے تو حکم کریں کسی حکیم ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ جواب میں دو چار بار تکلیف کے اظہار کے بعد پھر یہی بات دہرائی تو ٹھنڈی گیلی چادر میں لیٹے ہوئے زمیندار نے جواب دیا کہ ''دادا'' کیا کہوں کل سے پیٹ میں ابال اٹھ رہا ہے۔

میراثی نے پھر خوشامد کی کہ گاؤں کے کسی سیانے کو بلاتے ہیں مگر یہ ہوا کیا۔ اس کے جواب میں اس نئے نئے رئیس نے کہا کہ دادا کل بھون کر دیسی مرغا کھا لیا تھا جس کے بعد یہ تکلیف شروع ہوئی ہے۔ یہ سن کر میراثی نے تسلی کا سانس لیا اور کہا کہ سائیں یہ بھنا ہوا مرغا ہے ہی ایسی بلا کہ پہلی بار میں پچتی یعنی ہضم ہی نہیں ہوتی آپ فکر نہ کریں جلد ہی درست ہو جائیں گے۔ میراثی دعا دے کر دل میں ہنستا ہوا باہر نکل آیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ دادا یہ ملاقات کیسی رہی۔ اس نے جواب میں مرغے والی کہانی سنا دی۔

ہمارے ہاں دیہاتی زندگی میں کچھ لوگ بعض اوقات اچانک خوشحال ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی خوشحالی کے وقت میں پرانی خواہشیں پوری کرتے ہیں اور بعض اوقات ان خواہشوں کی تکمیل میں بے اعتدالی کی وجہ سے گڑ بڑ ہو جاتی ہے ایسی ہی گڑ بڑ ملتان کے اس 'نوزائیدہ' زمیندار کے ہاں بھی ہو گئی اور ملتان کے استاد اور راٹھ میراثی نے اسے اپنے انداز میں بیان کردیا اور پھر یہ بیان اس علاقے میں زباں زدعام ہو گیا۔ اس سے آگے اس زمیندار کے حاسدوں نے یہ اڑا دی کہ وہ اس میراثی کے لطیفے کے بعد علاقہ ہی چھوڑ گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ بھنا ہوا مرغا پہلی بار ہضم نہیں ہوگا اور یہاں سے ایک سبق ملتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں