کچھ توکرنا ہی پڑے گا
مگر اقتدار کے نشے میں دھت حکمرانوں کی سمجھ میں ایسی باتیں نہیں آتی ہیں۔
ISLAMABAD:
کوئٹہ ایک بار پھر دہشت گردوں کی زد پر ۔ پیر کی صبح پہلے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیا۔ پھر اس خبر کی اطلاع ملنے پر جب وکلا کی ایک بڑی تعداد سول اسپتال کوئٹہ پہنچی تو وہاں موجود مجمعے پر خودکش حملہ کردیا گیا۔ اس حملے میں70کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے، جن میں اکثریت وکلا کی تھی۔ قریباً اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ معاملہ صرف بلوچستان تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ پورا ملک ہی چار دہائیوں سے اس آگ میں سلگ رہا ہے، جو عاقبت نا اندیش فوجی آمرجنرل ضیاالحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے افغانستان میں لگائی تھی۔
افغانستان میں مذہب کے نام پر شروع کی جانے والی عسکریت کے بارے میں خان عبدالولی خان مرحوم، میر غوث بخش بزنجو مرحوم ، اجمل خٹک مرحوم اور ائیر مارشل اصغر خان سمیت سبھی سیاسی مدبرین نے اس وقت کی حکومت کوایک سے زائد مرتبہ متنبہ کیا کہ جو آگ افغانستان میں لگا رہی ہے، اس کے شعلوں سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
مگر اقتدار کے نشے میں دھت حکمرانوں کی سمجھ میں ایسی باتیں نہیں آتی ہیں۔ پھر چرخ کہن نے وہ دور بھی دیکھا، جب وہ جنگجو،جو کبھی امریکا کے محل ابیض کے چہیتے ہوا کرتے تھے، بدترین دشمن قرار پائے۔ مگر ہمارے منصوبہ سازافغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کی خواہش میں وہاں تزویراتی گہرائی تلاش کرتے رہے جس کی وجہ سے ان عناصر کی متشدد کارروائیوں کو نظر انداز کرنا پڑا۔ آج بھی بیشتر حکومتی حلقوں میں ان عناصر کے خلاف بلاامتیاز آپریشن کے بجائے اچھے اور برے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس صورتحال پر عالمی حلقے ہی اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کررہے، بلکہ ملک کے متوشش حلقے بھی پریشانی کا شکار ہیں۔
اس تناظر میں اگر کراچی آپریشن کا جائزہ لیا جائے، تو ستمبر2013میں یہ چار سنگین جرائم کے خلاف شروع کیا گیا تھا جن میں اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیاں، بھتہ خوری اور کاروں کا چھینا جانا شامل تھے۔ غیر جانبدار رپورٹس کے مطابق کراچی میں ہونے والے درج بالا سنگین جرائم میں ملوث85فیصد افراد کا تعلق قبائلی علاقوں، خیبر پختونخوا اور پنجاب سے ہوتا ہے۔ یہی کچھ صورتحال اسٹریٹ کرائمز کی ہے جن میں زیادہ تر ہزارہ اور سرائیکی بیلٹ سے آنے والوں کے علاوہ افغان باشندے بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن ان تین برسوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس آپریشن کا رخ سیاسی جماعتوں کی طرف موڑ دیا۔ نتیجتا ًشدت پسند عناصر پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں وفاقی وزراء کے بیانات اور طرزعمل بھی خاصا مایوس کن ہے۔ وہ دہشت گردوں کے مارے جانے پر جس انداز میں ردعمل ظاہرکرتے ہیں، اس سے ان کی شدت پسند عناصر کے لیے ہمدردیاں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک دہشت گرد حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے پر انھوں نے قومی اسمبلی میں اس پر آواز اٹھائی تھی۔ اسی طرح اس سال نوشکی میں ملا اختر منصور کے مارے جانے پر ان کا غم و غصہ سامنے آیا ۔ان کے طرز خطابت پر شاید انھیں مذہبی شدت پسند عناصر کی جانب سے تو خوب پذیرائی ملے جب کہ متوشش شہریوں کے لیے یہ پر امن بقائے باہمی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ بعض ریاستی حلقے مذہبی شدت پسند عناصرکے خلاف ٹھوس اورمربوط کارروائیوںکی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ یہ طرزعمل دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔
حکومتی اداروں کے اس الزام میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ بعض غیر ملکی بالخصوص پڑوسی ملک کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں شرانگیزی کی سرپرستی میں ملوث ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں دوست ممالک کی ایجنسیوں کی اپنے یہاں سرگرمیوں سے بھی صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ خاص طور پر ان دو برادر ممالک کی پراکسی جنگ کو نہیں بھولنا چاہیے، جو کئی دہائیوں سے ہماری سرزمین پر لڑی جارہی ہے۔
مختلف متشدد فرقہ ورانہ گروپوں کو ان ممالک کی سرپرستی اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے ایک نجی نشست میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان میں دو دہائیوں کے دوران مذہبی شدت پسندی اور متشددفرقہ واریت میں خاصی تیزی آئی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ بلوچ نوجوان،جوچند برس پہلے تک سیکیولرقوم پرستی پر یقین رکھتے تھے،اب ان میں سے بیشتر متشدد فرقہ وارانہ تنظیموں کا حصہ بن چکے ہیں۔
ملک میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے دہشت گردی کے واقعات چند سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ اول،کیا ریاستی ادارے دہشت گردی کے پس پشت عوامل کے بارے میں بے خبر ہیں؟ دوئم، اگر جانتے ہیں، توکیا مختلف اداروںکے درمیان روابط(Liaison)کا فقدان ہے؟ سوئم،کیا ہمارے اداروں میں ایسے مظاہر پر قابو پانے کے لیے درکار استعداد کی کمی ہے؟ چہارم، کیا ان میں اس عزم(Will)کی کمی ہے، جو ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتی ہے؟جس کی طرف امریکا سمیت بعض مغربی ممالک بھی اشارے کرتے رہے ہیں۔
پہلے تین سوالات کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ ہمارے ریاستی ادارے اس پوری صورتحال کی نہ صرف مکمل آگہی رکھتے ہیں، بلکہ ان پر قابو پانے کی پوری استعداد بھی رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ چوتھا سوال ہے۔ یعنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے ان معاملات سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عزم یعنی Will میں کمی کے بجائے بعض مصلحتیں زیادہ کارفرما ہیں۔ جس کی کئی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ اول، ریاست کا جو منطقی جواز عوام کے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے، وہ شدت پسند عناصر کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
دوئم، منصوبہ سازوں کی اکثریت آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ مذہبی عناصر کا ایک بڑا حصہ بھارت اور افغانستان کے معاملات کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس لیے انھیں مکمل طور پر ختم کرنا درست نہیں ہے۔ سوئم، متشدد فرقہ ورانہ عناصر کا مکمل قلع قمع کچھ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے، اس لیے اس عمل سے گریز کیا جانا چاہیے ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ سول سوسائٹی کے مطالبہ اور تمام ترعالمی دباؤ کے باوجود ریاست سخت گیر اقدامات سے گریز کررہی ہے۔
ہمارے منصوبہ سازوں کو ان پہلوؤں پر بہرحال غور کرنا پڑے گا کہ وہ کون سے اسباب ہیں یا ہم سے کون سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جو ہمارے مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کا بدترین شکار ہونے اور مسلسل قربانیاں دینے کے باوجود عالمی رائے عامہ ہمارے خلاف کیوں ہے؟ ہمارے قریبی دوست جن کی دوستی پر ہمیں ہمیشہ ناز رہا، آج کیوں ہمارے دشمن کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں؟ افغانستان جس میں لگی آگ کو ہم نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا، ہم سے کیوں اتنا متنفر ہوگیا ہے؟ ان سوالات پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا ہوگا۔ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا کھل کر یعنیBluntlyجائزہ لینا ہوگا۔
کوئٹہ میں ہونے والا المیہ اس لحاظ سے اور بھی سنگین ہے کہ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں خواندگی کی شرح پہلے ہی تشویشناک حد تک کم ہے۔ وہاں اتنی بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ افراد یعنی وکلا کی شہادت سانحہ عظیم ہے۔ اس لیے اب ان تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنا ہوگی، جو مذہب کو بنیاد بناکر ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ یہ بات بھی ریاستی منصوبہ سازوں کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی69 برس کی تاریخ میں اس ملک کو کبھی آزاد خیال لوگوں نے کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچایا۔ جو فتنہ و فساد بپا ہوا، وہ عقیدے یا پھر لسانی بنیادوں پر ہوا ہے۔
لہٰذا اب ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سرد جنگ کی حکمت عملیاں اور پالیسیاں اب Relevantنہیں رہی ہیں۔اس لیے جس قدر جلد ممکن ہو،ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی جائے ۔ ہمارے منصوبہ سازوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ سرد جنگ کے زمانے میں مذہبیت (Religiosity) کا چورن بک جاتا تھا، مگر اب اس کا بکنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جس قدر جلد ممکن ہو، اس سے جان چھڑا کر جناح کے تصور پاکستان کو فروغ دیاجائے ، تاکہ ملک میں ٹھوس اور پائیدارامن قائم ہو اور تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکیں، اس لیے کچھ نہ کچھ کرناہی پڑے گا۔
کوئٹہ ایک بار پھر دہشت گردوں کی زد پر ۔ پیر کی صبح پہلے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیا۔ پھر اس خبر کی اطلاع ملنے پر جب وکلا کی ایک بڑی تعداد سول اسپتال کوئٹہ پہنچی تو وہاں موجود مجمعے پر خودکش حملہ کردیا گیا۔ اس حملے میں70کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے، جن میں اکثریت وکلا کی تھی۔ قریباً اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ معاملہ صرف بلوچستان تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ پورا ملک ہی چار دہائیوں سے اس آگ میں سلگ رہا ہے، جو عاقبت نا اندیش فوجی آمرجنرل ضیاالحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے افغانستان میں لگائی تھی۔
افغانستان میں مذہب کے نام پر شروع کی جانے والی عسکریت کے بارے میں خان عبدالولی خان مرحوم، میر غوث بخش بزنجو مرحوم ، اجمل خٹک مرحوم اور ائیر مارشل اصغر خان سمیت سبھی سیاسی مدبرین نے اس وقت کی حکومت کوایک سے زائد مرتبہ متنبہ کیا کہ جو آگ افغانستان میں لگا رہی ہے، اس کے شعلوں سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
مگر اقتدار کے نشے میں دھت حکمرانوں کی سمجھ میں ایسی باتیں نہیں آتی ہیں۔ پھر چرخ کہن نے وہ دور بھی دیکھا، جب وہ جنگجو،جو کبھی امریکا کے محل ابیض کے چہیتے ہوا کرتے تھے، بدترین دشمن قرار پائے۔ مگر ہمارے منصوبہ سازافغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کی خواہش میں وہاں تزویراتی گہرائی تلاش کرتے رہے جس کی وجہ سے ان عناصر کی متشدد کارروائیوں کو نظر انداز کرنا پڑا۔ آج بھی بیشتر حکومتی حلقوں میں ان عناصر کے خلاف بلاامتیاز آپریشن کے بجائے اچھے اور برے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس صورتحال پر عالمی حلقے ہی اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کررہے، بلکہ ملک کے متوشش حلقے بھی پریشانی کا شکار ہیں۔
اس تناظر میں اگر کراچی آپریشن کا جائزہ لیا جائے، تو ستمبر2013میں یہ چار سنگین جرائم کے خلاف شروع کیا گیا تھا جن میں اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیاں، بھتہ خوری اور کاروں کا چھینا جانا شامل تھے۔ غیر جانبدار رپورٹس کے مطابق کراچی میں ہونے والے درج بالا سنگین جرائم میں ملوث85فیصد افراد کا تعلق قبائلی علاقوں، خیبر پختونخوا اور پنجاب سے ہوتا ہے۔ یہی کچھ صورتحال اسٹریٹ کرائمز کی ہے جن میں زیادہ تر ہزارہ اور سرائیکی بیلٹ سے آنے والوں کے علاوہ افغان باشندے بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن ان تین برسوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس آپریشن کا رخ سیاسی جماعتوں کی طرف موڑ دیا۔ نتیجتا ًشدت پسند عناصر پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں وفاقی وزراء کے بیانات اور طرزعمل بھی خاصا مایوس کن ہے۔ وہ دہشت گردوں کے مارے جانے پر جس انداز میں ردعمل ظاہرکرتے ہیں، اس سے ان کی شدت پسند عناصر کے لیے ہمدردیاں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک دہشت گرد حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے پر انھوں نے قومی اسمبلی میں اس پر آواز اٹھائی تھی۔ اسی طرح اس سال نوشکی میں ملا اختر منصور کے مارے جانے پر ان کا غم و غصہ سامنے آیا ۔ان کے طرز خطابت پر شاید انھیں مذہبی شدت پسند عناصر کی جانب سے تو خوب پذیرائی ملے جب کہ متوشش شہریوں کے لیے یہ پر امن بقائے باہمی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ بعض ریاستی حلقے مذہبی شدت پسند عناصرکے خلاف ٹھوس اورمربوط کارروائیوںکی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ یہ طرزعمل دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔
حکومتی اداروں کے اس الزام میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ بعض غیر ملکی بالخصوص پڑوسی ملک کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں شرانگیزی کی سرپرستی میں ملوث ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں دوست ممالک کی ایجنسیوں کی اپنے یہاں سرگرمیوں سے بھی صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ خاص طور پر ان دو برادر ممالک کی پراکسی جنگ کو نہیں بھولنا چاہیے، جو کئی دہائیوں سے ہماری سرزمین پر لڑی جارہی ہے۔
مختلف متشدد فرقہ ورانہ گروپوں کو ان ممالک کی سرپرستی اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے ایک نجی نشست میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان میں دو دہائیوں کے دوران مذہبی شدت پسندی اور متشددفرقہ واریت میں خاصی تیزی آئی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ بلوچ نوجوان،جوچند برس پہلے تک سیکیولرقوم پرستی پر یقین رکھتے تھے،اب ان میں سے بیشتر متشدد فرقہ وارانہ تنظیموں کا حصہ بن چکے ہیں۔
ملک میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے دہشت گردی کے واقعات چند سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ اول،کیا ریاستی ادارے دہشت گردی کے پس پشت عوامل کے بارے میں بے خبر ہیں؟ دوئم، اگر جانتے ہیں، توکیا مختلف اداروںکے درمیان روابط(Liaison)کا فقدان ہے؟ سوئم،کیا ہمارے اداروں میں ایسے مظاہر پر قابو پانے کے لیے درکار استعداد کی کمی ہے؟ چہارم، کیا ان میں اس عزم(Will)کی کمی ہے، جو ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتی ہے؟جس کی طرف امریکا سمیت بعض مغربی ممالک بھی اشارے کرتے رہے ہیں۔
پہلے تین سوالات کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ ہمارے ریاستی ادارے اس پوری صورتحال کی نہ صرف مکمل آگہی رکھتے ہیں، بلکہ ان پر قابو پانے کی پوری استعداد بھی رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ چوتھا سوال ہے۔ یعنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے ان معاملات سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عزم یعنی Will میں کمی کے بجائے بعض مصلحتیں زیادہ کارفرما ہیں۔ جس کی کئی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ اول، ریاست کا جو منطقی جواز عوام کے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے، وہ شدت پسند عناصر کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
دوئم، منصوبہ سازوں کی اکثریت آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ مذہبی عناصر کا ایک بڑا حصہ بھارت اور افغانستان کے معاملات کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس لیے انھیں مکمل طور پر ختم کرنا درست نہیں ہے۔ سوئم، متشدد فرقہ ورانہ عناصر کا مکمل قلع قمع کچھ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے، اس لیے اس عمل سے گریز کیا جانا چاہیے ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ سول سوسائٹی کے مطالبہ اور تمام ترعالمی دباؤ کے باوجود ریاست سخت گیر اقدامات سے گریز کررہی ہے۔
ہمارے منصوبہ سازوں کو ان پہلوؤں پر بہرحال غور کرنا پڑے گا کہ وہ کون سے اسباب ہیں یا ہم سے کون سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جو ہمارے مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کا بدترین شکار ہونے اور مسلسل قربانیاں دینے کے باوجود عالمی رائے عامہ ہمارے خلاف کیوں ہے؟ ہمارے قریبی دوست جن کی دوستی پر ہمیں ہمیشہ ناز رہا، آج کیوں ہمارے دشمن کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں؟ افغانستان جس میں لگی آگ کو ہم نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا، ہم سے کیوں اتنا متنفر ہوگیا ہے؟ ان سوالات پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا ہوگا۔ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا کھل کر یعنیBluntlyجائزہ لینا ہوگا۔
کوئٹہ میں ہونے والا المیہ اس لحاظ سے اور بھی سنگین ہے کہ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں خواندگی کی شرح پہلے ہی تشویشناک حد تک کم ہے۔ وہاں اتنی بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ افراد یعنی وکلا کی شہادت سانحہ عظیم ہے۔ اس لیے اب ان تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنا ہوگی، جو مذہب کو بنیاد بناکر ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ یہ بات بھی ریاستی منصوبہ سازوں کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی69 برس کی تاریخ میں اس ملک کو کبھی آزاد خیال لوگوں نے کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچایا۔ جو فتنہ و فساد بپا ہوا، وہ عقیدے یا پھر لسانی بنیادوں پر ہوا ہے۔
لہٰذا اب ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سرد جنگ کی حکمت عملیاں اور پالیسیاں اب Relevantنہیں رہی ہیں۔اس لیے جس قدر جلد ممکن ہو،ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی جائے ۔ ہمارے منصوبہ سازوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ سرد جنگ کے زمانے میں مذہبیت (Religiosity) کا چورن بک جاتا تھا، مگر اب اس کا بکنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جس قدر جلد ممکن ہو، اس سے جان چھڑا کر جناح کے تصور پاکستان کو فروغ دیاجائے ، تاکہ ملک میں ٹھوس اور پائیدارامن قائم ہو اور تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکیں، اس لیے کچھ نہ کچھ کرناہی پڑے گا۔