کاش ہم تتلی ہوتے
کیٹس احساس اور خوبصورتی کا لافانی شاعر ہے۔ جو غم سے رومانس کرتا تھا۔
کیٹس احساس اور خوبصورتی کا لافانی شاعر ہے۔ جو غم سے رومانس کرتا تھا۔ اس کی زندگی دکھوں اور تلخیوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ چودہ سال کا تھا کہ ماں نے دنیا سے ہمیشہ منہ موڑ لیا۔ وہ پڑھائی چھوڑ کر کسی سرجن کے پاس سرجری کی تربیت لینے گیا۔ اس دورکو وہ اپنی سزا کا حصہ سمجھتا رہا۔ اسپتال میں عام سی نوکری کرنے کے دوران وہ رات کو سرجری روم میں سو جاتا اور شعر کہتا۔ شاعری بھی اس قدرحسین کہ پڑھنے والے کی دل کی دھڑکنیں منتشر ہو جائیں۔
کیٹس کی زندگی مشکل اور دکھوں سے بھرپور تھی اوراس کی حساسیت کا آئینہ بار بار حالات سے ٹکرا کے پاش ہو جاتا۔ شاید دکھ ہی اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق کرواتے ہیں۔ شاعری کے اس سفر میں، اسے شدید مخالفت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالفین نے جی بھر کے اس کا مذاق اڑایا۔ کیٹس کے دوست کہتے ہیں کہ کیٹس کی موت میں اس کی بیماری سے زیادہ جارحانہ تنقیدی مضامین اور منفی رویوں کا ہاتھ ہے۔ اسے جتنے رویوں کے زخم ملے وہ کیٹس نے جذبوں کے سرخ گلابوں میں پرو دیے۔
کبھی اس کی شاعری میں اندھیرا مہکنے لگتا تو کبھی اس کے دل کی غمزدہ شاخ پر بلبل چہکنے لگتی۔ کبھی وہ چاند سے باتیں کرتا یا کبھی گہری اداسی کی دیوی کی بانہوں میں چھپ جاتا۔ کچھ نقاد اسے فراریت پسندی قرار دیتے ہیں۔
کیٹس کے ہمدرد بائرن، لی ہنٹ اور شیلے ایک طرف اسے تسلی دیتے تو دوسری طرف اس کے مخالفین اس کے ذہن کو بے یقینی کی تاریکی سے بھر دیتے۔ اس وقت جب انسان جسمانی طور پر بیمار ہو تو، اسے زندگی کے تضادات شدت سے محسوس ہوتے ہیں۔
کیٹس کی زندگی میں یکایک فینی بران کی محبت کا دیپ جل اٹھا۔ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت نے اسے زندہ رکھا۔ یہ محبت احتیاط کی زنجیروں میں قید تھی۔ کیونکہ وہ اپنی زندگی کے حوالے سے بے یقینی میں مبتلا تھا۔ نہ آگے بڑھ سکتا اور نہ ہی پیچھے ہٹنا اس کے اختیار میں تھا۔ کیٹس نے فینی کے چہرے میں کائنات کے حسن کی جھلک محسوس کی۔ بیماری کے دنوں میں فینی گھنٹوں اس کے پاس بیٹھی رہتی۔ فینی سے اس نے روحانی محبت کی تھی۔
کیٹس کو ٹی بی جیسی مہلک بیماری اپنے بھائی ٹام سے منتقل ہوئی۔ ٹام کی موت نے کیٹس کو اندر سے توڑ کے رکھ دیا۔ کیٹس نے فینی کو لاتعداد خطوط لکھے جو اس کی موت کے بعد شایع ہوئے۔ یورپ کے رومانوی تحریک کے روح رواں شاعرکے یہ خطوط حسن و عشق اور بے ثباتی کے آئینہ دار اور احساس کے منفرد ترجمان ہیں۔ کیٹس کو فقط احساس اور جذبے کی سچائی کا یقین تھا۔ یہ دونوں چیزیں حقیقی حسن پا لیتی ہیں۔ فینی سے قبل ازابیلا جونز سے کیٹس نے محبت کی تھی مگر یہ محبت جسمانی کشش پر مبنی تھی۔
اپنے ایک خط میں کیٹس، فینی کو لکھتا ہے ''اس وقت میں ایک جھونپڑی نما کمرے میں ایک خوبصورت کھڑی کے پاس بیٹھا ہوا حسین کوہستانی علاقہ دیکھ رہا ہوں، ساتھ ہی مجھے سمندر کی کی جھلک بھی دکھائی دے رہی ہے ، صبح کا سمان بہت سہانا ہے، میں نہیں جانتا کہ میری روح کس حد تک متلون مزاج ہو سکتی ہے۔ اگر تمہاری یاد، میرے اعصاب پر سوار نہ ہو تو میں ایک حسین بارہ سنگھے کی مانند آزادانہ گھومنے پھرنے اور کھلی فضا میں سانس لے کر زندگی بسر کرنے سے کتنا لطف اٹھا سکتا ہوں۔
میری جان! اس بات کا فیصلہ تم خود ہی کر لو کہ کیا تم نے میرے ہوش و حواس پر جادو کر کے اور میری آزادی چھین کر مجھ پر ظلم نہیں کیا؟ مجھے سکون پہنچانے کے لیے تم اپنے خط کو میرے لیے حشیش کی مانند نشیلا بنا کر بھیجنا اور نازک الفاظ کو چوم لینا تا کہ جہاں تمہارے ہونٹ چھوتے میں اپنے ہونٹ وہاں رکھ سکوں۔ میں تمہارے حسن کو بیان کرنے کے لیے ''روشنی'' سے زیادہ روشن اور ''حسن'' سے زیادہ حسین لفظ چاہتا ہوں۔ کبھی کبھی تو میرا دل کرتا ہے کہ کاش ہم تتلی ہوتے اور بہاروں میں صرف تین دن زندہ رہتے۔''
یہ حقیقت ہے کہ کیٹس کے خطوط کا مطالعہ کرتے یا اس کی شاعری پڑھتے بے اختیار میر تقی میر یاد آ جاتے ہیں۔
نازکی اس لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
دونوں کے لیے وہی حسن و عشق کی دنیا، وہی کسمپرسی اور جان لیوا بیماری کے تکلیف دہ پیچ و خم محبت کا نشہ یا رومانیت کا خمار جسمانی بیماری کے بغیر مکمل نہیں ہو پاتا۔
ایک خط میں کیٹس لکھتا ہے ''تم سے دوبارہ ملنے کی امید کے سوا میں ہر بات بھول جاتا ہوں۔ تم نے مجھے اپنے اندرجذب کر لیا ہے اس لمحے مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں تحلیل ہوا جا رہا ہوں، اگر تم سے امید نہ ہو تو مجھ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں۔''
جان کیٹس کے اندر مشرقی روح زندہ تھی۔ وہ یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کا ذکر جابجا اپنی شاعری میں کیا ہے۔ بقول شیلے کہ ''جان کیٹس مزاجاً یونانی ہے'' کیٹس کا Hellenism یونانی قدیم سوچ، فن، نوادرات،کرداروں اورماحول سے جڑا ہوا ہے۔ جس نے کیٹس کی شاعری کو جاوداں رنگ بخشا ہے۔ کیٹس کے لفظوں کے گھنے جنگل میں عجیب سی پراسراریت رچی بسی ہے۔ گھنے درختوں سے چاند کی کرنیں زمین پر پڑتی ہیں، تو ہلکا سا اجالا ہو جاتا ہے۔ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا مگر وہ خوشبو کے توسط سے پھولوں کو پہچان لیتا ہے۔
کیٹس کی شہرہ آفاق نظم an ode to nightingale میں وہ جب جسمانی درد اور بخار میں تپتے ہوئے، بلبل کی آواز سنتا ہے، تو اس کا تصور، اسے غم کی دنیا سے دور لے جاتا ہے۔ وہ بلبل کو لافانی پرندہ کہتا ہے۔ چاند، جنگل اور بلبل کی آواز اس کے جلتے ہوئے احساس کو شبنمی ٹھنڈک عطا کرتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب وہ جسم کی دنیا سے نکل کر ایک ماورائی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ شاعری الہامی احساس کے زیر اثر ہے۔ جب الفاظ خودبخود اپنا راستہ بنانے لگتے ہیں۔ جسے ولیم ورڈز ورتھ Spontaneous overflow of powerful feelings کہتا ہے۔ یہ اعلیٰ و ارفع جذبات کا بے ساختہ بہاؤ ہے، جو فطرت کی خالص روح سے رابطے کا نتیجہ ہے۔
دکھ وجدانی کیفیات کے قریب کر دیتے ہیں۔ یہ پری ڈیتھ سنڈروم کا حصہ ہیں جب انسان لاشعور میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کا تعلق دوبارہ الوہی روشنی سے جڑجاتا ہے اور شعوری بہاؤ میں اسے ماضی کے واقعات یاد آنے لگتے ہیں ذہن کا یہ کیمیائی عمل اعلیٰ پائے کی تخلیق کو جنم دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح ولیم ورڈز ورتھ کی نظم جس میں ولیم ورڈز ورتھ کہتا ہے کہ دنیا میں آنے کے بعد بھی بچے کا شعور آسمانی روشنی سے تعلق میں ہے۔ وہ جیسے بڑا ہوتا ہے، اس پر دنیاوی رنگ غالب آنے لگتا ہے اور ایک دن اس کا رابطہ الوہی روشنی سے منقطع ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح سے دنیا چھوڑنے سے پہلے انسان کا شعور اپنی بنیاد سے دوبارہ رابطہ قائم کرتا ہے۔
تبھی انسان خوابوں کے ذریعے یا اپنی کیفیات کے توسط سے جان لیتا ہے کہ اب اس کے دن کم ہو چکے ہیں مگرکیٹس کو اس بات کا علم تھا کہ یہ جان لیوا بیماری اسے حسن و عشق کی دنیا سے دور لے جائے گی۔ دوبارہ کبھی نہ چاندنی کا عکس اس کی پلکوں پر جھلملائے گا۔ نہ بلبل کا گیت سوئے ہوئے خواب جگائے گا اور نہ ہی وہ فینی کے چہرے پر کھلتے محبتوں کے پھولوں کو چھو سکے گا۔ ایک خوبصورت جذبوں کے شاعر کے لیے، دنیا چھوڑنے کا خیال درد کا گہرا دریا ہے۔ حسن سے رابطہ منقطع ہونے کا خیال اسے بے چین کر دیتا ہے۔
کیٹس نے فینی کو لکھا کہ ''میں بزدل ہوں اورخوش ہونے کی تکلیف گوارا نہیں کر سکتا۔ خوشی کا حصول کسی طرح ممکن نہیں۔ مجھے تو اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے'' انگریزی شاعری کا یہ روشن ستارہ فقط پچیس سال جی سکا۔ اس نے بیس سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور زندگی کے محض پانچ سالوں میں وہ شاعری کے افق پر چھا گیا۔ اس کا دیا ہوا پیغام امر ہے۔ اس سے زیادہ جاننے کی ضرورت نہیں۔