ظلم کے سائے

اصل میں ہندوؤں میں ذات پات کی واضح تقسیم موجود ہے جس کی وجہ سے اس قوم میں سخت انتشار ہے


عثمان دموہی August 10, 2016
[email protected]

آج کل بھارتی میڈیا میں ایک خصوصی گمراہ کن مہم جاری ہے جس میں اسلام میں نام نہاد ذات پات کی تقسیم کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس پروپیگنڈے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ بھارتی مسلمان ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ انھوں نے تو ہندوستان پر اپنی ہزار سالہ حکومت کے دوران بھی اپنے عقائدکو کبھی ہندوؤں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی چنانچہ مسلمانوں میں بلاجواز ذات پات کی تقسیم کا پروپیگنڈا کرنے کی کیوں ضرورت محسوس کی جا رہی ہے لیکن ذرا سا غورکرنے کے بعد اس پروپیگنڈے کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔

اصل میں ہندوؤں میں ذات پات کی واضح تقسیم موجود ہے جس کی وجہ سے اس قوم میں سخت انتشار ہے اور یہ انتشار صدیوں سے موجود ہے۔ پیشوں کے اعتبار سے ہندوؤں کو سات ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے اعلیٰ درجے پر برہمن ہیں اور سب سے نچلے درجے پر دلت یا ہریجن ہیں جن کے ذمے سارے گھٹیا کاموں کے انجام دینے کی ذمے داری ہے۔ ان لوگوں کی ہندو معاشرے میں کوئی وقعت نہیں ہے ان کی ناقدری صدیوں سے جاری ہے ان کے کنوئیں سے لے کر مندر تک جدا ہیں۔ حقیقت میں دلت غلاموں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں چنانچہ جب برصغیر میں اسلام کی آمد ہوئی یہ لوگ اسلام کے مساوات اور رواداری کے نظام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو گئے۔

آج بھی یہ بات کہی جاتی ہے اور سچ بھی ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے میں دلتوں کا بڑا حصہ تھا لیکن اسلام کے زریں اصولوں نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو بھی متاثر کیا اور وہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اسلام پر ایک اور بھی بہتان لگایا جاتا ہے کہ وہ تلوار کے زور پر پھیلا ہے اگر واقعی ظلم و زیادتی کی بنیاد پر لوگ مسلمان بنے ہوتے تو بعد میں وہ ضرور اسے چھوڑ کر اپنے اصلی مذہب کی طرف لوٹ جاتے مگر ہوا یہ ہے کہ جو بھی اسلام کے دائرے میں داخل ہوا وہ پھر کبھی واپس نہیں گیا بلکہ اس نے اسلام کی عظمت کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ اسلام اپنی خوبیوں کی بدولت ہی پوری دنیا میں پھیلا ہے اور پھیلتا چلا جا رہا ہے۔

اس وقت یہ دنیا میں لوگوں کو سب سے زیادہ اپنی جانب راغب کرنے والا مذہب ہے۔ مغرب میں اسلام کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اسے دہشت گردوں کا مذہب قرار دیا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود یہ مغرب میں سب سے زیادہ مقبول مذہب ہے۔ یہی حال بھارت میں ہے وہاں بھی اسلام سب سے زیادہ مقبول مذہب ہے جب کہ وہاں اسلام کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ وہاں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چلنے والی زہریلی مہم کا واضح مقصد دلتوں کو اسلام سے دور رکھنا ہے کیونکہ ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم کے ظالمانہ نظام سے وہ بری طرح بیزار ہیں۔

بی جے پی دلتوں کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی طرح گائے کا گوشت کھانے سے روکنا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی انھیں گائے کی پوجا کی جانب مائل کرنا چاہتی ہے جب کہ دلت نہ تو گائے کے گوشت کے کھانے کو چھوڑنے پر راضی ہیں اور نہ ہی گائے کو دیوتا ماننے پر تیار ہیں۔ وہ اسے ایک جانور مانتے ہیں اور اس کے گوشت کو کھانے کی چیز سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہندوتوا کے پجاریوں نے دلتوں کو گائے کا گوشت کھانے کی پاداش میں مارنا پیٹنا شروع کر رکھا ہے۔ اب تک کئی دلتوں کو گائے کا گوشت کھانے کی وجہ سے ہلاک کر دیا گیا ہے۔

اس زیادتی پر دلتوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وہ انتقاماً اعلیٰ ذات والوں کی مقدس گائے کی وہ بے حرمتی کر رہے ہیں کہ جس سے مودی سرکار ہل کر رہ گئی ہے۔ انھوں نے ساتھ ہی ہندو دھرم چھوڑ کر اسلام یا بودھ مذہب اختیار کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ اس وقت بھارت میں کم سے کم چالیس کروڑ دلت ہیں۔ ان کے ہندو دھرم چھوڑنے کے بعد مودی کا بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

دلتوں کے سب سے بڑے لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے بھی سیکڑوں دلتوں کے ساتھ بہ بانگ دہل ہندو دھرم چھوڑ کر بودھ دھرم اختیار کر لیا تھا۔ بعد میں بابو جگ جیون رام جو کانگریس کے ایک بڑے لیڈر اور ذات کے چمار تھے نے بھی بھارت میں بسے کروڑوں دلتوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی دھمکی دی تھی مگر ان کے اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔

بھارت کی جنوبی ریاستوں میں اسلام ہمیشہ ہی مقبول رہا ہے۔ وہاں 80ء کی دہائی میں ایک پورا قصبہ ہندو سے مسلمان ہو گیا تھا یہ قصبہ جسے میناکشی پورم کہا جاتا ہے اس وقت کی بھارتی حکومت کے لیے ایک گمبھیر چیلنج بن گیا تھا۔ اس وقت اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم تھیں انھوں نے ہندو دھرم کی آبرو رکھنے کے لیے فوراً بھارتی پارلیمنٹ سے تبدیلی مذہب پر پابندی کا قانون پاس کروایا تھا۔ یہ قانون بھارت جیسے سیکولر اور جمہوری ملک کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں ہے ۔

مہاتما گاندھی نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بھارت میں ذات پات کے نظام کو ختم کرنے اور دلتوں کو سماج میں مساوی مقام دلانے کے لیے خرچ کیا مگر ان کی ساری محنت رائیگاں ہی گئی کیونکہ بھارت میں ذات پات کی تقسیم کم ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ شدید ہوگئی ہے جس سے بھارت کا وجود خطرے میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ کلدیپ نیئر نے اپنے ایک کالم میں دلتوں سے متعلق گاندھی کا ایک واقعہ رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گاندھی نے دلتوں کو لبھانے کے لیے نہ صرف ان کا نام ہری جن رکھا تھا جس کے معنی ''خدا کے بیٹے'' ہے بلکہ وہ کچھ دن ایک بھنگی کالونی میں ایک مکان میں بھی رہے تھے ایسے میں ایک دن ڈاکٹر راجندر پرشاد ان سے ملنے وہاں آئے وہ گاندھی کے خاص پیروکار تھے اور آزادی کے بعد بھارت کے صدر بھی مقرر ہوئے تھے۔ گاندھی نے اس ملاقات میں انھیں اسی بھنگی کالونی میں کچھ دن ایک مکان میں آباد ہونے کا مشورہ دیا تھا۔

گاندھی کا یہ مشورہ انھیں اس قدر ناگوار گزرا کہ انھوں نے اس کی شکایت پنڈت جواہر لال نہرو سے کی تھی تو گاندھی کے خود خاص پیروکار اور بھارت کی صدارت جیسے اہم عہدے پر فائز ہونے والے دلتوں کے ساتھ نفرت کا یہ حال تھا تو بھارت کے دیگر لیڈروں کی تو بات ہی کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گاندھی نے دلتوں اور اقلیتوں کو لبھانے کی جو مہم چلائی تھی وہ سراسر سیاسی مقاصد کے تحت تھی۔ تقسیم سے قبل جب گاندھی دلتوں کو لبھانے کی مہم چلا رہے تھے اس وقت دلتوں کے عظیم رہنما ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر دلتوں کو ہندوؤں سے الگ قوم بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے مگر گاندھی اپنی مہم میں کامیاب رہے تھے کیونکہ گاندھی کی میٹھی زبان کے سحر میں ڈوب کر دلتوں کی اکثریت نے ڈاکٹر امبیڈکر کے ساتھ بودھ دھرم اختیار نہیں کیا تھا تاہم ڈاکٹر صاحب ہندو دھرم کو چھوڑ کر بودھ بن گئے تھے اور وہ آخر تک اس دھرم پر قائم رہے۔

اب 70 برس بعد گاندھی کی دلتوں کو لبھانے کی حقیقت کا ہندوتوا نے پردہ فاش کر دیا ہے چنانچہ اب وہ ڈاکٹر امبیڈکر صاحب کا اس وقت ساتھ نہ دینے پر سخت ندامت کا شکار ہیں اور اب وہ ظلم و زیادتی کے نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے کسی بھی وقت اسلام یا بودھ دھرم اختیار کر سکتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کا اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا مقصد دراصل اسلام کو ہندو دھرم جیسا ذات پات کا مذہب ظاہر کرنا ہے تا کہ دلت اسلام سے دور رہیں اور اس طرح بھارت میں مسلمانوں کی طاقت نہ بڑھ سکے تاہم دلت برادری اپنے بہتر مستقبل کے لیے ضرور بولڈ فیصلہ کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں