میں ہوں حنیف محمد

میری والدہ امیر بی ایک زبردست رول ماڈل تھیں، وہ بذات خود بھی ایک کام یاب اسپورٹس وومن تھیں، حنیف محمد کی خودنوشت

میری والدہ امیر بی ایک زبردست رول ماڈل تھیں، وہ بذات خود بھی ایک کام یاب اسپورٹس وومن تھیں، حنیف محمد کی خودنوشت : فوٹو : فائل

OKARA:
میں انڈیا کی ریاست جوناگڑھ میں پیدا ہوا تھا، جو بھارتی جزیرہ نما کاٹھیاواڑ میں واقع ہے۔ یہ ایک پرسکون اور پرامن ریاست تھی جہاں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بڑے پیار اور محبت سے رہتے تھے۔ مگر جب برصغیر میں تحریک پاکستان زور و شور سے چلی تو یہاں کے مسلمانوں میں بھی بیداری آئی، جس کے نتیجے میں ہمیں ایک آزاد ملک پاکستان ملا جس میں آج ہم سب آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

میرے والد


میرے والد شیخ اسماعیل انڈین آرمی میں کیپٹن تھے۔ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ ایک سالٹ فیکٹری میں منیجر ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا ذاتی موٹیل بھی تھا، جو ''گرین ریسٹ ہاؤس'' کے نام سے مشہور تھا۔ وہ ایک پیٹرول پمپ کے مالک بھی تھے۔ انہوں نے ہمیں پرآسائش زندگی دی۔ ہم نے پوری زندگی عیش میں بسر کی۔ ہمیں ایک طرف والدین کا پیار ملا تو دوسری طرف خدا بھی ہم پر مہربان رہا۔

پاکستان ہجرت
قیام پاکستان کے بعد دوسرے مہاجرین کی طرح ہم نے بھی پاکستان ہجرت کی۔ ہم پانچ بھائی تھے جن میں سے چار نے جن میں وزیر، میں خود ، مشتاق اور صادق شامل تھے، پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ پانچواں بھائی رئیس اس معاملے میں خوش قسمت ثابت نہ ہوسکا، لیکن ایک ٹیسٹ میں وہ بارہواں کھلاڑی ضرور بنا تھا۔ ہم سب بھائیوں نے پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلی اور خوب اعزازات سمیٹے۔ بعد میں یہی کام میرے بیٹے شعیب محمد نے کیا۔ اس نے ٹیسٹ کرکٹ بھی کھیلی اور ایک روزہ میچز بھی، اور خوب نام کمایا۔

کرکٹ خون میں شامل
کرکٹ کا کھیل ہمارے خون میں شروع ہی سے شامل تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا گھرانا شروع سے ہی کھیلوں کا شائق تھا۔ میرے والد محترم کرکٹ کے شوقین تھے۔ میرے والد اور دادا جونا گڑھ میں کلب کرکٹ کھیلتے تھے اور ماموں بشیر، دلاور، حمید اور شاکر بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس عمر میں، میں بھی کرکٹ کا بڑا شیدائی تھا۔

کچھ باتیں امی کی


میری والدہ امیر بی ایک زبردست رول ماڈل تھیں، وہ بذات خود بھی ایک کام یاب اسپورٹس وومن تھیں۔ وہ جوناگڑھ لیڈیز کلب کی فعال رکن تھیں، بیڈمنٹن اور کیرم کی چیمپیئن رہ چکی تھیں۔ انہوں نے متعدد ٹرافیاں جیتیں۔ گویا میرے امی، ابو اور دادا کی وجہ سے ہمارا سارا گھرکھیلوں سے بہت لگاؤ رکھتا تھا۔

کرکٹ جونا گڑھ میں

کلب اور ریاست کی سطح پر اس زمانے میں بھی کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے جنہیں دیکھنے لوگ بڑے ذوق و شوق سے جاتے تھے۔ میرے بھائی وزیر اور رئیس ریاست جوناگڑھ کی ٹیم میں شامل تھے، میرے انکل شاکر بھی اس زمانے میں سوئنگ بولر تھے اور انہوں نے ڈھیروں وکٹیں لی تھیں۔ لوگ ان کے کھیل سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔

میری خاص دل چسپی
میں بہت چھوٹا تھا اور جوناگڑھ کے جی میں پڑھتا تھا، مگر اس عمر میں بھی کرکٹ میں بہت دل چسپی لیتا تھا۔ میں اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا، اوپننگ بھی کرتا تھا اور وکٹ کیپنگ بھی۔ میں نے اسکول میں خوب رنز بھی بنائے اور میچز بھی جیتے۔ ہم لوگوں کو جب بھی فرصت ملتی، ہم کرکٹ کھیلتے تھے۔ کرکٹ اس زمانے میں بھی ہمارا جنون تھا اور بعد میں بھی رہا۔ ہم شام کے اوقات میں گھر کی چھت پر ٹینس بال سے کرکٹ کھیلتے تھے۔

بیٹا بھی اور بیٹی بھی
میں اپنی امی کا بیٹا بھی تھا اور بیٹی بھی۔ امی ابو دونوں ہی کو بیٹی کی بڑی خواہش تھی۔ ان کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی مگر وہ بدقسمتی سے زندہ نہ رہ سکی۔ اس کی موت نے پورے گھر کو اداس اور مایوس کردیا۔ اس کے بعد وزیر بھائی دنیا میں آئے ،پھر رئیس بھائی۔ میرے والدین تو نہ جانے کب سے بیٹی کے منتظر تھے۔ جب میرے پیدا ہونے کی باری آئی تو سب کو یقین تھا کہ اس بار بیٹی پیدا ہوگی۔



میری امی نے اسی حساب سے میرے لیے زنانہ ملبوسات تیار کیے تھے، مگر خدا کو کچھ اور منظور تھا اور اس نے مجھے دنیا میں بھیج دیا۔ میری آمد سے میرے والدین کو مایوسی تو ہوئی، مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ میری امی نے مجھے لڑکی سمجھنا شروع کردیا۔ وہ مجھے لڑکیوں والی فراکیں پہناتیں، لڑکیوں والے سینڈل پہناتیں، میرا میک اپ کرتیں اور مجھے اس طرح مخاطب کرتیں جیسے میں ان کی بیٹی ہوں۔

مجھے بیٹی سمجھنے کا یہ سلسلہ تین چار سال کی عمر تک چلا۔ ایک بات میں سچائی کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں، جب میری امی مجھے بیٹی سمجھتی تھیں اور بیٹی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں تو ان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک اور خوشی نظر آتی تھی۔ مجھے امی کی وہ خوشی جب بھی یاد آتی ہے تو میں ماضی میں گم ہوجاتا ہوں، کیوں کہ امی مجھے بیٹی سمجھ کر جب جنونی انداز سے پیار کرتی تھیں تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔

زندگی کی بہترین اننگ
کراچی ٹیسٹ میں، میں نے 1959-60کے سیزن میں سینچری اسکور کی اور ہم یہ میچ ڈرا کرنے میں کام یاب رہے۔ یہ میچ میرے لیے اس حوالے سے یاد گار تھا کہ وہ 9 دسمبر کو ختم ہوا اور شمشاد سے میری شادی 11دسمبر کو ہوئی۔ اخبارات میں پہلے ہی میری شادی کی خبریں چھپ چکی تھیں۔ ایک اخبار نے تو یہ تک لکھ دیا تھا کہ یہ سینچری میری ہونے والی بیوی کے لیے شادی کا تحفہ ہے۔ اس طرح یہ سینچری میرے لیے یادگار ثابت ہوئی۔

پاکستان کی کپتانی
1964-65کے سیزن میں مجھے پاکستان کا کپتان بنادیا گیا۔ یہ ایک مشکل وقت تھا۔ ہمارے ہاں آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم آرہی تھی جو پہلے ہی ایشز ٹرانی کا انگلینڈ کے خلاف کام یابی سے دفاع کرچکی تھی اور انڈیا کے خلاف تین میچوں کی سیریز ڈرا کرنے میں کام یاب رہی تھی۔ اس وقت مجھے جو ٹیم دی گئی تھی اس میں چھے نئے لڑکے تھے: آصف اقبال، عبدالقادر، خالد بلی عباداﷲ، ماجد خان، پرویز سجاد اور شفقت رانا۔ ہماری ٹیم نے پہلی اننگ میں 414رنز بنائے، جواب میں آسٹریلیا کی ٹیم 352 رنز بناسکی۔ گویا ہمیں 62 رنز کی سبقت حاصل تھی۔ ہم نے دوسری اننگ شروع کی اور 8 وکٹ پر 279رنز بناکر اننگ ڈکلیئر کردی، مگر یہ میچ ڈرا ہوگیا۔ گویا میں بطور کپتان مجموعی طور پر کام یاب رہا۔n

(حنیف محمد کی خودنوشت Playing for Pakistan سے چند اقتباسات)
Load Next Story