دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت

دہشت گرد تب تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک داخلی اور خارجی سطح پر کوئی قوت ان کی اعانت نہ کرے


Editorial August 12, 2016
پاکستان کی سیاسی قوتوں کو خواہ وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں متحد ہو کر دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں اترنا ہوگا، فوٹو؛ فائل

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بدھ کو قومی اسمبلی میں سانحہ کوئٹہ پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعہ نے پوری قوم کو سوگوارکردیا ہے،ہمارا اتحاد ہی شیطانی قوتوں کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے، پاکستان کی حکومت، عوام، مسلح افواج اور قومی سلامتی کے ادارے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں متحد ہیں اور متحد رہیں گے اوراس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، ہم نے دہشتگردی کو ختم کرنے کا جو عزم کیا ہے اس کو متزلزل نہیں ہونے دیں گے، پہلے سے زیادہ عزم سے آگے بڑھیں گے، ہم نے ہر قیمت پراس نظریئے کو شکست دینی ہے۔

ہم ان مکروہ عزائم کو خاک میں ملائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے روشن ہوئی امکانات کی وسیع دنیا ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہی، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارا متحد ہونا ضروری ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر پاکستان خاموش نہیں رہ سکتا، پاکستان کو ہر مکتبہ فکر، عقیدے، رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے محفوظ سرزمین بنانا ہمارا مشن ہے، یہ پوری قوم اور سیاسی جماعتوں کا مشن اور قائد اعظم کا وژن ہے، پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے دن رات محنت کرکے دہشتگردی کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔

کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی نے پوری قوم کو ایک بار پھر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے' سیاسی اور عسکری قیادت نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ دہشت گرد ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے اور وہ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔ دہشت گردی کے ہونے والے حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کی کامیابی کے بعد وہاں سے فرار ہونے والے دہشت گردوں نے بلوچستان میں پناہ گاہیں بنا لی اور وہ وہاں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جنگ کسی ایک صوبے یا علاقے کی نہیں بلکہ پورے ملک اور قوم کی جنگ بن چکی ہے جسے سب نے مل کر لڑنا اور دہشت گردوں کو شکست دینا ہے۔

اسی جانب وزیراعظم نے بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اتحاد ہی شیطانی قوتوں کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی بدھ کو قومی اسمبلی میں نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اکیلے دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑ سکتی سب کو مل کر لڑنا ہو گا' آخر کب تک معصوم لوگوں کے خون پر آنسو بہاتے رہیں گے' دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پارلیمنٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بنائی جائے اور تمام ادارے پارلیمنٹ کی اس کمیٹی کو جواب دہ ہوں۔ دہشت گرد جس منظم انداز میں پورے ملک میں اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں انھیں شکست دینے کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی سلامتی اور بقا کے لیے متحد ہو جائیں اور وطن کے دشمنوں پر یہ واضح کر دیں کہ وہ ملکی سالمیت پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دیں گے خواہ اس کے لیے انھیں کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس موقف کو دہرایا کہ اگر ہمارا اتفاق و اتحاد اسی طرح قائم رہا تو دہشت گرد حملوں کو صفر پر لائیں گے۔

ادھر وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت بدھ کو ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اہم اجلاس ہوا جس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے شرکت کی' اجلاس میں تحفظ پاکستان ایکٹ میں ترمیم اور توسیع کا فیصلہ کیا گیا جب کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بننے والی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر بھی غور کیا گیا۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا اور 2015 میں اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں بنانے کی منظوری دی گئی تھی' ان عدالتوں کی مدت فروری 2017 میں ختم ہو رہی ہے' حکومت کو فوجی عدالتوں کی توسیع کے لیے آئینی ترمیم کرنا ہو گی جس کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔

دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ان کے سہولت کاروں اور فنڈنگ کرنے والے عناصر کی بیخ کنی ناگزیر ہو چکی ہے' دہشت گرد تب تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک داخلی اور خارجی سطح پر کوئی قوت ان کی اعانت نہ کرے۔ ایسی خبریں بھی منظر عام پر آرہی ہیں کہ بھارت اور افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں' یہ صورت حال ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو خواہ وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں متحد ہو کر دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں اترنا ہوگا، یہی وہ راستہ ہے جو ملکی سلامتی اور تحفظ کا ضامن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں