چیئرمین سینیٹ کو یاد دہانی
نوجوانی کا دور ہی زندگی کا وہ دور ہوتا ہے جس میں انسان مصلحت کے بغیر فیصلے کرتا ہے
برس ہا برس گزر گئے، ایک روز اخبار پر نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کا یہ بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی امید دلائی تھی۔ اس خبر کو گزرے ہوئے بھی 6 ماہ سے زائد ہو چکے۔ مگر کون یاد دلائے کہ اگر یونہی دن گزرتے رہے تو نئی نسل جمہوریت کی تعلیم سے دور ہو چکی ہو گی اور صرف جمہوریت کی نعرہ بازی کی مہم سے لوگ آشنا ہوں گے۔
نوجوانی کا دور ہی زندگی کا وہ دور ہوتا ہے جس میں انسان مصلحت کے بغیر فیصلے کرتا ہے اور شخصیت سازی اسی دور میں ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کی نسل تو گزر چکی، موجودہ لیڈرشپ سیکنڈ جنریشن کہلائے گی اور اگر اب بھی جمہوریت کی داغ بیل کو پانی نہ ملا تو یہ خشک ہو جائے گی اور ہوس زر کی سیاست ہی جمہوریت کہلائے گی۔ جنرل ضیا الحق کی جمہوریت کو تو بدترین آمریت خصوصاً پیپلزپارٹی نے کہا، مگر عملی طور پر جمہوریت کے اہداف کو ابھی تک ختم نہیں کیا گیا، خصوصاً اسٹوڈنٹس یونین کے شعوری دور کی واپسی موجودہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے ایک نوید تھی اور امید تھی کہ یہ خبر چند ماہ میں حقیقت بن کر سامنے آ جائے گی اور خصوصاً ایسے سینیٹ کے رہنما کی جانب سے جو شعوری طور پر پُرمغز اور ایماندار ہیں اور دور جوانی سے سیاست کی گرہیں کھول رہے ہیں، مزید یہ کہ اپنی پارٹی سے ہر عہد میں وفا کی اور جن کا سیاسی عمل بے داغ ہے۔
اس لیے ان کی باتوں میں ایک وزن محسوس ہوا اور سنجیدگی بھی، ورنہ یاد دہانی کی ضرورت نہ تھی۔اس وقت پاکستان کو اسٹوڈنٹس یونین کی جس قدر ضرورت ہے کبھی نہ تھی، کیونکہ دور جدید اور خصوصاً آئی ٹیکنالوجی کی آمد نے نئی نسل کی سیاسی، سماجی اور ادبی رشتوں کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ نئی نسل کی لیڈرشپ ملک و قوم کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہو گی۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے بجائے جانشینی کی سیاست چل پڑی ہے، اب لیڈرشپ عوام سے نہیں ابھرے گی بلکہ وزارتی عمل سے ہی نکلے گی۔ سیاست کی الف ب اور مسائل کی حقیقت جوانی کی عمر سے شروع ہوتی ہے، گو کہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ اکثر طلبا کے اخراجات والدین اٹھاتے ہیں، مگر ایسے گھرانے بھی خاصی تعداد میں ہوتے ہیں کہ جن کے لڑکے اپنا بوجھ خود اٹھانے لگتے ہیں اور آگے چل کر سیاست کا قلمدان بھی انھی کی میز پر ہوتا ہے۔
بلوچستان کی نئی نسل کی لیڈرشپ، جماعت اسلامی کی منور حسن اور پیپلزپارٹی کے مرحوم سالار معراج محمد خان اور پی پی کے مرحوم وزیر صحت امیر حیدر کاظمی اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جب زمانہ طالب علمی سے سیاست کا آغاز ہوتا ہے تو نظریات پر یقین کامل ہوتا ہے، مگر یقین محکم بھی ہر آدمی کا یکساں نہیں ہوتا، اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اس کی زندگی کن لوگوں میں گزری ہے۔ چونکہ پاکستان کی یہ تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے، پہلی نسل 1947ء، 1948ء میں جوان تھی، جو اب تقریباً 80 فیصد سلامت نہیں اور اگر سلامت بھی ہیں تو عملی طور پر کام کے قابل نہیں، یہاں تک کہ زیادہ تر اساتذہ بھی کالجوں میں موجود نہیں، جو اگلے وقتوں کی باتیں سنائیں اور مباحثے بھی اسٹوڈنٹس یونین کی روانگی کی بدولت جاتے رہے۔
اب صرف ان لوگوں کی اکثریت زیر تعلیم ہے جو محض روپیہ کمانے اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے زیر تعلیم ہیں۔ وہ نسل دفن ہو گئی جو قیام پاکستان کے وقت ملک چلا رہی تھی، اب پیٹ کی سیاست اور ریاضت کی باتیں رہ گئیں ہیں۔ نہ اب بھارت میں گاندھی جی ہیں اور پنڈت نہرو ہیں، جنھوں نے کشمیر کی قرارداد پر حامی بھری تھی اور خصوصاً گاندھی جی جنھوں نے تقسیم زر کے لیے پاکستان کے حق میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کی تھی اور نہ اب پاکستان میں محمد علی جناح جیسے باوصف مرد آہن اور نہ لیاقت علی خان جیسے شریف اور بااصول لیڈر، اس لیے اب پاکستان میں اسٹوڈنٹس یونین بہت ضروری ہے تاکہ ماضی کا تسلسل برقرار رہے اور تاریخ پاکستان کا صحیح پس منظر پیش کیا جا سکے۔
اہل پاکستان کے سامنے ماضی کے تمام لیڈروں کا پس منظر موجود ہو، محض الیکٹرانک میڈیا پر انحصار نہ ہو کیونکہ میڈیا پر علمی، ادبی اور تاریخی گفتگو ناپید ہے اور قائداعظم کا یہ فرمان کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی، یہ صاحبان جو عوام کو کچھ سنانے اور بتانے آتے ہیں اردو زبان کے صحیح تلفظ اور اکثر غلط املا کی پٹیاں بھی ٹی وی پر چلائی جاتی ہیں۔ لہٰذا آزاد اور درست زبان کے لیے اسٹوڈنٹس یونین اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ضروری ہے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم میں صرف ٹیکنیکل یا سرمایہ کاری کی تعلیم پر زور جاری ہے۔ فلسفہ، حکمت، تاریخ، منطق کی اصناف کا کوچ ہو چلا ہے جب کہ اب ٹریڈ اور کامرس کا دور ہے، ان درسگاہوں میں نہایت کم طلبہ درس لے رہے ہیں جو ادب اور علم کو یکجا کر کے قوم کا معیار بلند کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہم 70 سال بعد بھی اگر تجربہ کریں تو یہ معلوم ہو گا کہ ملک روبہ زوال ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ملک پر جو حاکم ہیں اور جو دوسری جانب حزب اختلاف ہیں، دونوں نے جمہوریت کی مالا گلے میں ڈالی ہوئی ہے مگر جمہوریت کے تقاضے کوئی بھی پورا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں طلبا یونین موجود ہیں، بشمول پڑوسی ملک بھارت بلکہ دہلی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین بھارتی جمہوریت میں کشمیری مظالم کے خلاف ہر ماہ جلسہ کرتی ہے اور بعض اوقات تو ہر ہفتے جلسہ ہوتا ہے، اس طرح جمہوریت میں بھارتی سرکار کے خلاف زبردست جلسے ہوتے ہیں، جس کی خبریں پاکستانی میڈیا نہیں دیتا تا کہ کشمیر میں بھارتی جمہوریت کی فوج کشی عوام پر ظاہر ہو، مگر پاکستان میں حزب مخالف اور حزب اقتدار میں بعض موضوعات پر سمجھوتہ ہے یعنی طلبا یونین بحال نہیں ہوں گی، جب کہ ہر پارٹی نے اپنی ذیلی تنظیم بنا رکھی ہے مگر وہ آزاد خودمختار یونین سے ڈرتی ہیں، اسی لیے جنرل ضیا الحق کی بند کردہ یونین پر جو پابندی لگی تھی وہ اب تک باقی ہے۔
سینیٹر رضا ربانی کے بیان کو گزرے ایک عرصہ ہو چکا ہے، قرارداد پاس بھی ہو چکی، مگر جمہوریت کے مرکزی صندوق سے اسے باہر نہ نکالا گیا، جب کہ کیا ہی خوب ہوتا کہ اسٹوڈنٹس یونین بحال ہوتیں تو ہر کالج میں پروگرام ہوتے اور قیام پاکستان پر جلسے ہوتے، مختلف زاویوں سے گفتگو ہوتی، قائداعظمؒ کی تقریر پر نصف جملہ سنا کر ٹی وی پر گفتگو بند نہ ہوتی بلکہ سیاق و سباق سے ہر پہلو سے گفتگو ہوتی۔ دراصل موجودہ جمہوریت نہیں چاہتی کہ گفتگو تمام پہلو سے ہو اور اس میں ملک و ملت کے تمام پہلوؤں کو دیکھا جا سکے۔
قیام پاکستان ایک طویل جد وجہد کا مستقل انجام ہے، جس کی کڑیاں 1857ء سے جڑی ہیں، اگر تحریک کو جدا کر کے بھی سوچا جائے تو مشرقی پاکستان کے بھائیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنھوں نے بھی اس تحریک کو جلا بخشی اور سبز ہلالی پرچم کو بنانے میں یکساں جدوجہد کی، ان کی قربانیوں کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا، جو ہماری بے نتیجہ سیاست سے تنگ آ کر ہم سے جدا ہو گئے۔ آپ غور کیجیے جب سے ہمارا مشرقی بازو ٹوٹا ہے دولت کمانے کی سیاست نے زور پکڑ لیا ہے اور وسائل پر قبضے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے جو متحدہ پاکستان میں ممکن نہ تھی، کیونکہ وہاں کی سیاست میں جاگیردارانہ سماج اثر انداز نہ تھا، لہٰذا لیڈرشپ کے خواص جدا تھے، مگر یہ پہلو کتابوں میں اب نہ ملیں گے۔
کون بتائے گا آج کے طلبا کو تحریک پاکستان محض علامہ اقبال کا خیال اور قائداعظم کا عمل نہ تھا بلکہ ان کی تحریک میں شامل وہ لوگ بھی تھے جو پاکستان میں آ کر نہ بسے کیوں کہ یہاں کی سیاست پر خصوصاً مغربی پاکستان پر مفاد پرستوں کا غلبہ ہوتا گیا، اس لیے حسرت موہانی جیسی شخصیت بھی ملک میں سیاست نہ کر سکی، راجہ صاحب آف محمود آباد پاکستان چھوڑ کر لندن آباد ہو گئے اور اب یہ نعرے بلند ہو رہے ہیں کہ ہم بنائیں گے نیا پاکستان، اس کے خدوخال نمایاں نہیں ہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے دنیا کے جمہوری ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اسٹوڈنٹس یونین 14 اگست کے تحفے کے طور پر بحال کی جائے، ورنہ لوگ فیض صاحب کا یہ شعر گنگناتے رہیں گے۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
نوجوانی کا دور ہی زندگی کا وہ دور ہوتا ہے جس میں انسان مصلحت کے بغیر فیصلے کرتا ہے اور شخصیت سازی اسی دور میں ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کی نسل تو گزر چکی، موجودہ لیڈرشپ سیکنڈ جنریشن کہلائے گی اور اگر اب بھی جمہوریت کی داغ بیل کو پانی نہ ملا تو یہ خشک ہو جائے گی اور ہوس زر کی سیاست ہی جمہوریت کہلائے گی۔ جنرل ضیا الحق کی جمہوریت کو تو بدترین آمریت خصوصاً پیپلزپارٹی نے کہا، مگر عملی طور پر جمہوریت کے اہداف کو ابھی تک ختم نہیں کیا گیا، خصوصاً اسٹوڈنٹس یونین کے شعوری دور کی واپسی موجودہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے ایک نوید تھی اور امید تھی کہ یہ خبر چند ماہ میں حقیقت بن کر سامنے آ جائے گی اور خصوصاً ایسے سینیٹ کے رہنما کی جانب سے جو شعوری طور پر پُرمغز اور ایماندار ہیں اور دور جوانی سے سیاست کی گرہیں کھول رہے ہیں، مزید یہ کہ اپنی پارٹی سے ہر عہد میں وفا کی اور جن کا سیاسی عمل بے داغ ہے۔
اس لیے ان کی باتوں میں ایک وزن محسوس ہوا اور سنجیدگی بھی، ورنہ یاد دہانی کی ضرورت نہ تھی۔اس وقت پاکستان کو اسٹوڈنٹس یونین کی جس قدر ضرورت ہے کبھی نہ تھی، کیونکہ دور جدید اور خصوصاً آئی ٹیکنالوجی کی آمد نے نئی نسل کی سیاسی، سماجی اور ادبی رشتوں کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ نئی نسل کی لیڈرشپ ملک و قوم کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہو گی۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے بجائے جانشینی کی سیاست چل پڑی ہے، اب لیڈرشپ عوام سے نہیں ابھرے گی بلکہ وزارتی عمل سے ہی نکلے گی۔ سیاست کی الف ب اور مسائل کی حقیقت جوانی کی عمر سے شروع ہوتی ہے، گو کہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ اکثر طلبا کے اخراجات والدین اٹھاتے ہیں، مگر ایسے گھرانے بھی خاصی تعداد میں ہوتے ہیں کہ جن کے لڑکے اپنا بوجھ خود اٹھانے لگتے ہیں اور آگے چل کر سیاست کا قلمدان بھی انھی کی میز پر ہوتا ہے۔
بلوچستان کی نئی نسل کی لیڈرشپ، جماعت اسلامی کی منور حسن اور پیپلزپارٹی کے مرحوم سالار معراج محمد خان اور پی پی کے مرحوم وزیر صحت امیر حیدر کاظمی اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جب زمانہ طالب علمی سے سیاست کا آغاز ہوتا ہے تو نظریات پر یقین کامل ہوتا ہے، مگر یقین محکم بھی ہر آدمی کا یکساں نہیں ہوتا، اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اس کی زندگی کن لوگوں میں گزری ہے۔ چونکہ پاکستان کی یہ تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے، پہلی نسل 1947ء، 1948ء میں جوان تھی، جو اب تقریباً 80 فیصد سلامت نہیں اور اگر سلامت بھی ہیں تو عملی طور پر کام کے قابل نہیں، یہاں تک کہ زیادہ تر اساتذہ بھی کالجوں میں موجود نہیں، جو اگلے وقتوں کی باتیں سنائیں اور مباحثے بھی اسٹوڈنٹس یونین کی روانگی کی بدولت جاتے رہے۔
اب صرف ان لوگوں کی اکثریت زیر تعلیم ہے جو محض روپیہ کمانے اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے زیر تعلیم ہیں۔ وہ نسل دفن ہو گئی جو قیام پاکستان کے وقت ملک چلا رہی تھی، اب پیٹ کی سیاست اور ریاضت کی باتیں رہ گئیں ہیں۔ نہ اب بھارت میں گاندھی جی ہیں اور پنڈت نہرو ہیں، جنھوں نے کشمیر کی قرارداد پر حامی بھری تھی اور خصوصاً گاندھی جی جنھوں نے تقسیم زر کے لیے پاکستان کے حق میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کی تھی اور نہ اب پاکستان میں محمد علی جناح جیسے باوصف مرد آہن اور نہ لیاقت علی خان جیسے شریف اور بااصول لیڈر، اس لیے اب پاکستان میں اسٹوڈنٹس یونین بہت ضروری ہے تاکہ ماضی کا تسلسل برقرار رہے اور تاریخ پاکستان کا صحیح پس منظر پیش کیا جا سکے۔
اہل پاکستان کے سامنے ماضی کے تمام لیڈروں کا پس منظر موجود ہو، محض الیکٹرانک میڈیا پر انحصار نہ ہو کیونکہ میڈیا پر علمی، ادبی اور تاریخی گفتگو ناپید ہے اور قائداعظم کا یہ فرمان کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی، یہ صاحبان جو عوام کو کچھ سنانے اور بتانے آتے ہیں اردو زبان کے صحیح تلفظ اور اکثر غلط املا کی پٹیاں بھی ٹی وی پر چلائی جاتی ہیں۔ لہٰذا آزاد اور درست زبان کے لیے اسٹوڈنٹس یونین اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ضروری ہے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم میں صرف ٹیکنیکل یا سرمایہ کاری کی تعلیم پر زور جاری ہے۔ فلسفہ، حکمت، تاریخ، منطق کی اصناف کا کوچ ہو چلا ہے جب کہ اب ٹریڈ اور کامرس کا دور ہے، ان درسگاہوں میں نہایت کم طلبہ درس لے رہے ہیں جو ادب اور علم کو یکجا کر کے قوم کا معیار بلند کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہم 70 سال بعد بھی اگر تجربہ کریں تو یہ معلوم ہو گا کہ ملک روبہ زوال ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ملک پر جو حاکم ہیں اور جو دوسری جانب حزب اختلاف ہیں، دونوں نے جمہوریت کی مالا گلے میں ڈالی ہوئی ہے مگر جمہوریت کے تقاضے کوئی بھی پورا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں طلبا یونین موجود ہیں، بشمول پڑوسی ملک بھارت بلکہ دہلی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین بھارتی جمہوریت میں کشمیری مظالم کے خلاف ہر ماہ جلسہ کرتی ہے اور بعض اوقات تو ہر ہفتے جلسہ ہوتا ہے، اس طرح جمہوریت میں بھارتی سرکار کے خلاف زبردست جلسے ہوتے ہیں، جس کی خبریں پاکستانی میڈیا نہیں دیتا تا کہ کشمیر میں بھارتی جمہوریت کی فوج کشی عوام پر ظاہر ہو، مگر پاکستان میں حزب مخالف اور حزب اقتدار میں بعض موضوعات پر سمجھوتہ ہے یعنی طلبا یونین بحال نہیں ہوں گی، جب کہ ہر پارٹی نے اپنی ذیلی تنظیم بنا رکھی ہے مگر وہ آزاد خودمختار یونین سے ڈرتی ہیں، اسی لیے جنرل ضیا الحق کی بند کردہ یونین پر جو پابندی لگی تھی وہ اب تک باقی ہے۔
سینیٹر رضا ربانی کے بیان کو گزرے ایک عرصہ ہو چکا ہے، قرارداد پاس بھی ہو چکی، مگر جمہوریت کے مرکزی صندوق سے اسے باہر نہ نکالا گیا، جب کہ کیا ہی خوب ہوتا کہ اسٹوڈنٹس یونین بحال ہوتیں تو ہر کالج میں پروگرام ہوتے اور قیام پاکستان پر جلسے ہوتے، مختلف زاویوں سے گفتگو ہوتی، قائداعظمؒ کی تقریر پر نصف جملہ سنا کر ٹی وی پر گفتگو بند نہ ہوتی بلکہ سیاق و سباق سے ہر پہلو سے گفتگو ہوتی۔ دراصل موجودہ جمہوریت نہیں چاہتی کہ گفتگو تمام پہلو سے ہو اور اس میں ملک و ملت کے تمام پہلوؤں کو دیکھا جا سکے۔
قیام پاکستان ایک طویل جد وجہد کا مستقل انجام ہے، جس کی کڑیاں 1857ء سے جڑی ہیں، اگر تحریک کو جدا کر کے بھی سوچا جائے تو مشرقی پاکستان کے بھائیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنھوں نے بھی اس تحریک کو جلا بخشی اور سبز ہلالی پرچم کو بنانے میں یکساں جدوجہد کی، ان کی قربانیوں کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا، جو ہماری بے نتیجہ سیاست سے تنگ آ کر ہم سے جدا ہو گئے۔ آپ غور کیجیے جب سے ہمارا مشرقی بازو ٹوٹا ہے دولت کمانے کی سیاست نے زور پکڑ لیا ہے اور وسائل پر قبضے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے جو متحدہ پاکستان میں ممکن نہ تھی، کیونکہ وہاں کی سیاست میں جاگیردارانہ سماج اثر انداز نہ تھا، لہٰذا لیڈرشپ کے خواص جدا تھے، مگر یہ پہلو کتابوں میں اب نہ ملیں گے۔
کون بتائے گا آج کے طلبا کو تحریک پاکستان محض علامہ اقبال کا خیال اور قائداعظم کا عمل نہ تھا بلکہ ان کی تحریک میں شامل وہ لوگ بھی تھے جو پاکستان میں آ کر نہ بسے کیوں کہ یہاں کی سیاست پر خصوصاً مغربی پاکستان پر مفاد پرستوں کا غلبہ ہوتا گیا، اس لیے حسرت موہانی جیسی شخصیت بھی ملک میں سیاست نہ کر سکی، راجہ صاحب آف محمود آباد پاکستان چھوڑ کر لندن آباد ہو گئے اور اب یہ نعرے بلند ہو رہے ہیں کہ ہم بنائیں گے نیا پاکستان، اس کے خدوخال نمایاں نہیں ہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے دنیا کے جمہوری ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اسٹوڈنٹس یونین 14 اگست کے تحفے کے طور پر بحال کی جائے، ورنہ لوگ فیض صاحب کا یہ شعر گنگناتے رہیں گے۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں