کارکردگی حصہ اول

کارکردگی تو کارکردگی ہوتی ہے، چاہے اچھی ہو یا بری، جیسے ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی

najmalam.jafri@gmail.com

ISLAMABAD:
کارکردگی تو کارکردگی ہوتی ہے، چاہے اچھی ہو یا بری، جیسے ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ خیر ذکر تھا کارکردگی کا اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ کسی کی کارکردگی؟ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے والے، قانون بنانے والوں، قانون کے نگرانوں کی، مختلف وزرا، اداروں، حکومتی و نجی شعبوں یا اہم شخصیات کی... اگر ان میں سے چند ایک کی کارکردگی پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو حرج توکچھ نہیں مگر صورتحال کچھ ناخوشگوار ضرور ہوجائے گی کہ جو لوگ اچھے دنوں کے انتظار میں موت سے بدتر زندگی خوشی خوشی بسر کر رہے ہیں تو وہ یہ سب پڑھ کر آج ہی مرجائیں گے، تو کیا ہوا؟ چلیے جان چھٹی، خس کم جہاں پاک بلکہ ملک پاک۔

آج کل چند مسائل پر کچھ زیادہ ہی شور بلکہ زور ہے ایک تو افغان مہاجرین جن کو ساڑھے تین چار دہائیوں کے بعد مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے ۔اس میں بھی پوری قوم ایک ہی انداز فکر کی حامل نہیں ایک طرف ان بن بلائے مہمانوں کی میزبانی سے تنگ آنے والوں کا موقف اور دوسری ان کو نہ صرف مزید قیام بلکہ انھیں افغان مہاجرین کے بجائے پاکستانی قرار دینے والوں کا موقف۔دوسرا مسئلہ کراچی کے تمام مسائل حل کرنے کا۔ یہ وہ ازلی مسئلہ ہے جس کو وفاق نے ہمیشہ پہلے خود مسئلہ بنایا اور اب نہایت صدق دل سے اس کو حل کرنے کے لیے ایسے ایسے فارمولے پیش کیے جا رہے ہیں کہ یہ مسئلہ کبھی حل ہی نہ ہوسکے کیونکہ جذبہ صادق میں اتنا کھوٹ ہے کہ بات بیانات سے آگے بڑھتی ہی نہیں اور اگرکچھ عملی کام ہوجائے تو وہ ایسا الٹا ہوتا ہے کہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے اتنا گمبھیر ہوجاتا ہے کہ حل تلاش کرنے والے خود ہی اس سے راہ فراراختیار کر لیتے ہیں اورکراچی کے معصوم شہری کچھ دن بعد یہ تک بھول جاتے ہیں کہ ان کے کچھ دیرینہ مسائل حل کرنے کے بارے کچھ دعوے ہوئے تھے جن پرآج تک عمل ہی نہ ہوسکا۔ عمل ہوتا کیسے؟

وہ قابل عمل تھے ہی کیا؟ کیونکہ ان منصوبوں میں کراچی کے کسی دانشورکسی نمایندے کو شامل کرنا تو دور، ان سے رائے بھی نہیں لی گئی تھی اور نہ اہل کراچی کی امنگوں کا خیال رکھا گیا تھا۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کسی نے کوئی صائب رائے دی ہی نہیں۔ کراچی کے ہمدرد، دانشوروں نے، مضامین لکھنے والوں نے پورے پورے کالم اس سلسلے میں لکھے ایسے مناسب مشورے جن پر باآسانی بلاخطیر رقم خرچ کیے عمل کیا جاسکتا تھا (خود ہم نے ایک بار لکھا تھا کہ کراچی کے بیروزگار نوجوانوں کو متحرک کرکے کئی مسائل حل کرائے جاسکتے ہیں جو حل اور مشورے تھے وہ تو کالم ہی پڑھ کر معلوم ہوسکتے ہیں) مگر ہمارے دانشور کی دانشوری بھی بس کتابی ہے، انھیں آج تک معلوم ہی نہ ہوسکا (دانشوروں سے معذرت کے ساتھ) کہ ہمارے منصوبہ ساز اراکینِ حکومت بطور خاص وزرا اخبارات پڑھنے میں وقت ضایع کرنے کے بجائے خوابوں میں منصوبے بناتے ہیں جن کے لیے کسی مطالعے، مہارت، اہلیت اور سب سے بڑھ کر کسی کے مشورے کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔


سیدھی سی بات ہے کہ ہمارے ایوانوں میں اکثریت ان کی ہے جن کے پاس ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا جعلی جب کہ دانشور اپنے ملک کے علاوہ تمام غیر ملکی لکھنے والوں تک کی کتابیں چاٹ جاتے ہیں (لہٰذا ایوانوں سے دورصرف دانشور ہی رہ جاتے ہیں) اور پھر ان کے حوالے بھی اپنی تحریر میں دیتے ہیں پتا نہیں کن کن ممالک کے عدالتی فیصلوں، معاشی تجربوں کو بطور مثال بیان کرتے ہیں۔ نامعلوم کن کن ایسی شخصیات کا ذکر کرتے ہیں جنھوں نے اپنے ملک کی تعلیمی پالیسی اس طرح بنائی کہ جس کے زیر اثر طلبا محب وطن، محنتی اورباعمل ہوں یا ایسے افراد جنھوں نے اپنے ملک کے خراب حالات پر اپنے تدبر سے مختصر عرصے میں قابو پالیا۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے احمقوں تک کا تذکرہ کر ڈالتے ہیں جنھوں نے اپنی انتظامی یا منصبی غلطی کا بلاجھجک اعتراف کرلیا اور جھٹ اپنے عہدے کو خیرباد کہہ دیا۔ یہ ساری باتیں ہمارے ڈگری یافتہ ارکنانِ ایوان کے سر پر سے گزر جاتی ہیں اور منہ بن جاتے ہیں، کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ اول تو ہم نے غلطی کی ہی نہیں اور اگر کی ہے تو یہ ہمارا منصبی حق ہے جس کا اعتراف گناہ کبیرہ اور عہدے سے چمٹے رہنا ثواب دارین ہے اس خوش فہمی کی وجہ یہ ہے ''کیونکہ عقل کل ہم ، پوری قوم عقل سے پیدل۔''

بات کا آغاز ہم نے کیا تھا کارکردگی سے، بس فیصلہ یہ کرنا تھا کہ پہلے کس کی کارکردگی کا ڈھول پیٹا جائے، کچھ شعبوں اوراداروں کا ہم نے تعین بھی کرلیا تھا۔ لہٰذا نیچے سے اوپر جانے کے بجائے ذرا اوپر سے نیچے آتے ہیں کہ ہم اپنے کئی سابقہ حکمرانوں کی اعلیٰ کارکردگی کے باعث بہت اوپر چڑھ گئے ہیں۔ مگر اب اپنے اصلی مقام پر آنے کے لیے کچھ نیچے اترنا پڑ رہا ہے جو اوپر کی آب و ہوا اور بالا بالا بہت کچھ کرلینے کے باعث خلاف عادت و مزاج لگ رہا ہے، چنانچہ ہم بھی اوپر یعنی وفاقی حکومت کی کارکردگی کا ذکر پہلے کرتے ہیں۔

اگرچہ اس داستان کا کوئی سر پیر تو ہے نہیں مگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ''پرانے زمانے'' کی بات ہے کہ پڑوسی ملک کے حالات خراب ہوئے (کیوں؟ یہ سب کو معلوم ہے) تو ہمارے پڑوسیوں نے ہمارے ملک میں پناہ حاصل کی، اچھے پڑوسی ہونے کے ناطے ہم نے انھیں فوراً اپنا مہمان بنالیا۔ جب مہمانوں کا یہ ریلہ ہمارے ملک میں آیا تو آتا ہی چلا گیا۔ بات کیونکہ کارکردگی کی ہو رہی ہے تو ہماری حکومت میزبانی میں اتنی مصروف تھی کہ اس کو خیال ہی نہ آیا کہ کچھ اعداد و شمار رکھے جائیں کہ ہمارے مہمانوں کی تعداد کتنی ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story