انتہا پسندی کو دفن کرنے کا وقت
یہاں ہر روزکوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے، جس سے دل ٹکڑے ٹکڑے اورآنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوجاتی ہیں۔
یہاں ہر روزکوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے، جس سے دل ٹکڑے ٹکڑے اورآنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوجاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک حادثہ، ایک نیا المیہ، ایک نیاسانحہ، ایک نئی اذیت، ایک نیا دکھ، زہر میں بجھی خبریں مسلسل سینے میں پیوست ہورہی ہے، آہ و زاری بڑھتی جارہی ہے، وہی دکھ، وہی آنسو، وہی غم، وہی فریاد، وہی مذمت، وہی روایتی بیان، خاک وخون میں لتھڑے ہوئے بے جان لاشے سوال پوچھتے ہیں کہ اورکتنی جانوں کا زیاں باقی ہے۔
قوم وطن عزیز کے 70ویں جشن آزادی کی تیاریوں میں مشغول تھی کہ بلوچستان میں پھر قیامت ٹوٹ گئی۔ انسانیت دشمنوں نے سفاکیت وبربریت کو پھر مات دیدی۔کوئٹہ کے شفاخانے کو مقتل بنادیا،آزادی کی خوشی سے سرشار قوم ایک بار پھر رنجیدہ اورماحول کفن آلود ہوگیا، ہر سمت سوگواراورآنکھ اشک بار ہوگئی۔ انسانی خون کے پیادوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ واردات کی، پہلے بلوچستان بارایسوسی ایشن کے صدر بلال انورکاسی کو جاں بحق کیا، ان کی لاش سول اسپتال پہنچی تو وکلاء، ڈاکٹرز، میڈیا کے جمع ہونے پر خود کش دھماکا ہوا۔ جس کے نتیجے میں 70افراد شہید اور 100سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ دہشتگرد اپنی حکمت عملی میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ٹائمنگ اور اٹیک میں سبقت کیسے لے جاتے ہیں؟
یہ درست ہے کہ دہشتگردی کی اس جنگ میں ہمیں اس طرح کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے،کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جاری یہ جنگ ایک طویل المدتی جنگ ہے، جس میں ایسے نادیدہ دشمن سے پالا پڑا ہے، جو بے چہرہ و بے شناخت ہے اور ہماری صفوں میں موجود ہے، پاک فوج نے تو ضرب عضب آپریشن کرکے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے، دہشتگرد کمزور بھی ہوئے مگر ابھی ختم نہیں ہوئے، داخلی سطح پر چھپے ہوئے بے چہرہ دہشتگردں کی شناخت اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانا سول انتظامیہ کی ذمے داری بھی ہے۔
قیام امن کی ساری ذمے داری فوج پر ڈال کر سیاست داں چپ چاپ تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں؟ اگر فوج کو ہی سب کچھ سنبھالنا ہے تو یہ جمہوریت کی دیوی کوکیوں اسمبلیوں میں سجاکر رکھا ہوا ہے۔کوئٹہ میں جس منصوبہ بندی سے واردات ہوئی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کے پیچھے بھارتی یا کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ پاک چائنہ راہداری منصوبہ گیم چینجر ہے جس کی تکمیل سے پاکستان کے ایشین ٹائیگر بننے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہے گا، ایسے میں ہمارا ازلی دشمن کس طرح خاموش رہ سکتا ہے۔ جن دہشتگردوں کو ہم نے خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں سے بھاگنے پر مجبور کیا اب وہی دہشتگرد دشمن کے آلہ کار بن کر سی پیک منصوبے کو ٹارگٹ بنا رہے ہیں۔گوادر پورے جنوبی ایشیاء کے لیے توانائی کی فراہمی اور ایک علاقائی توانائی گرڈ کے قیام میں فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس لیے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں، 1971 میں ہمارے دائیں بازو کو بھارتی جارحیت نے کاٹ دیا، آج پھر وہی بھارتی سازشیں بلوچستان میں بھی ہورہی ہیں، گھناؤنے منصوبے کی تکمیل کے لیے بلوچستان کوآگ و خون میں نہلایا جارہا ہے، مودی بے ضررکبوتر پکڑ کر بھی اقوام عالم میں ڈھنڈورا پیٹ ڈالتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پاکستان بھارت اور امریکا کے حوالے کرچکا ہے مگر دہشتگردی کی وارداتوں میں کمی آنے کے بجائے روز بروز ان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جو پاکستان کی سلامتی اور امن و امان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
ان باتوں کے باوجود ہمارے حکمرانوں کے دل میں بھارت کے لیے نرم گوشہ ہے۔ جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے، ظالم، عیار، مکار اور دھوکے باز بھارت چھپ کر اپنے خبث باطن کو تسکین دینے کی کوشش کررہا ہے، بغل میں چھری اور منہ میں رام رام بھارت سرکار کے لیے ہی مشہور ہے، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے نے بھارتیوں کے خون کو مزید گندا کردیا ہے، یہ اس پاکستان کو کیسے پھلتا پھولتا دیکھ سکتے ہیں جسے یہ آج تک بٹوارے کے نتیجے میں اپنا حصہ سمجھتے ہیں اور علیحدگی کی سزا اسے ختم کرکے دینا چاہتے ہیں۔
لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے قوم دشمن سیاستدانوں کے درمیان ایک ایسا انسان بھی ہمیں عطا فرمایا ہے جو قوم کا سچا ہمدرد ہے، جو دہشتگردی کی کاشت کی گئی فصل کو تلف کرنے میں شب و روز مصروف عمل ہے، کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو فوراً قوم کے درمیان آکھڑا ہوتا ہے، عجیب انسان ہے جس نے کراچی والوں کو غیر محسوس طور پر یہ احساس دلایا کہ تم اکیلے نہیں ہو، ہم اس آپریشن کے دوران تمہیں تنہا نہیں چھوڑینگے، ایک ایک کو پکڑیں گے، بھاگنے نہیں دینگے، اب سب کچھ بے نقاب ہوگا، ہر حساب صاف ہوگا، کبھی یہ پیکر ہمدردی شندور پہنچتا ہے تو کبھی اگلے مورچوں پر جوانوں کا حوصلہ بڑھانے ان کے کندھے سے کندھا ملا لیتا ہے۔ بلوچستان ہو یا خیبرپختونخواہ، سندھ ہو یا پنجاب، گلگت بلتستان ہو یا شمالی علاقہ جات، عجب آزاد مرد ہے کہ ہر زخم پر مرہم کی طرح پایا جاتا ہے، چہرے پر بلا کا اطمینان مگر آنکھوں میں اصلی شیرکی سی چمک ہوتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے سانحہ کوئٹہ کے بعد ملک بھر میں کومبنگ آپریشن شروع کرنے کے احکامات دیکر ایک بار پھر قوم کے دل جیت لیے ہیں۔ دہشتگردوں کی کمر توڑنے کے بعد اب سانپوں کے ان سنپولیوں کی باری ہے، جو ایک بار پھر عوام کو نظریاتی طور پر الجھانا چاہتے ہیں، حکمرانوں کو بھی اب نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ انتہا پسندی جہاں سے ابھری ہے اسے وہی دفن کرنے کا وقت قریب آپہنچا ہے، ایسے وقت میں دشمن سے چوکنا رہنے کی اشد ترین ضرورت ہے، ہمیں اپنے گھر کی حفاظت کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے، بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے ساتھ ملحقہ سرحد پر بھی سیکیورٹی کا نظام زیادہ موثر بنانا چاہیے، ارض پاک سے دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ آپریشن کے ذریعے ہم انتہا پسند کو تو ختم کررہے ہیں مگر انتہا پسند نظریے کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں، دہشتگردی کے درخت کی شاخیں تو کاٹی جارہی ہے مگر درخت اپنی جگہ موجود ہے، ہم جتنی شاخیں کاٹ رہے ہیں اتنی ہی شاخیں دوبارہ نکل رہی ہیں۔
اس مسئلہ کا صاف اور سیدھا حل یہ ہے کہ درخت کو ہی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے نظریے کو پروان چڑھانے والے اداروں کے خلاف بھی کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے، آپریشن کے ساتھ ہمیں اس طرز فکر کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو انتہا پسند نظریے کے فروغ کے لیے خود کش بمبار تیار کرتے ہیں۔ ملک سے شدت پسندی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیے کلیدی اقدامات کیے جائیں بالخصوص تعلیمی نظام میں اصلاحات کی جائیں، پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے، دینی مدارس کو قومی دھارے (Mainstream) میں لایا جائے، سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ اگر نصاب میں تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں اور محض لڑائی کے ذریعے دہشتگردی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ سوائے انتشار کے کچھ نہیں نکلے گا۔
قوم وطن عزیز کے 70ویں جشن آزادی کی تیاریوں میں مشغول تھی کہ بلوچستان میں پھر قیامت ٹوٹ گئی۔ انسانیت دشمنوں نے سفاکیت وبربریت کو پھر مات دیدی۔کوئٹہ کے شفاخانے کو مقتل بنادیا،آزادی کی خوشی سے سرشار قوم ایک بار پھر رنجیدہ اورماحول کفن آلود ہوگیا، ہر سمت سوگواراورآنکھ اشک بار ہوگئی۔ انسانی خون کے پیادوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ واردات کی، پہلے بلوچستان بارایسوسی ایشن کے صدر بلال انورکاسی کو جاں بحق کیا، ان کی لاش سول اسپتال پہنچی تو وکلاء، ڈاکٹرز، میڈیا کے جمع ہونے پر خود کش دھماکا ہوا۔ جس کے نتیجے میں 70افراد شہید اور 100سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ دہشتگرد اپنی حکمت عملی میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ٹائمنگ اور اٹیک میں سبقت کیسے لے جاتے ہیں؟
یہ درست ہے کہ دہشتگردی کی اس جنگ میں ہمیں اس طرح کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے،کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جاری یہ جنگ ایک طویل المدتی جنگ ہے، جس میں ایسے نادیدہ دشمن سے پالا پڑا ہے، جو بے چہرہ و بے شناخت ہے اور ہماری صفوں میں موجود ہے، پاک فوج نے تو ضرب عضب آپریشن کرکے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے، دہشتگرد کمزور بھی ہوئے مگر ابھی ختم نہیں ہوئے، داخلی سطح پر چھپے ہوئے بے چہرہ دہشتگردں کی شناخت اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانا سول انتظامیہ کی ذمے داری بھی ہے۔
قیام امن کی ساری ذمے داری فوج پر ڈال کر سیاست داں چپ چاپ تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں؟ اگر فوج کو ہی سب کچھ سنبھالنا ہے تو یہ جمہوریت کی دیوی کوکیوں اسمبلیوں میں سجاکر رکھا ہوا ہے۔کوئٹہ میں جس منصوبہ بندی سے واردات ہوئی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کے پیچھے بھارتی یا کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ پاک چائنہ راہداری منصوبہ گیم چینجر ہے جس کی تکمیل سے پاکستان کے ایشین ٹائیگر بننے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہے گا، ایسے میں ہمارا ازلی دشمن کس طرح خاموش رہ سکتا ہے۔ جن دہشتگردوں کو ہم نے خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں سے بھاگنے پر مجبور کیا اب وہی دہشتگرد دشمن کے آلہ کار بن کر سی پیک منصوبے کو ٹارگٹ بنا رہے ہیں۔گوادر پورے جنوبی ایشیاء کے لیے توانائی کی فراہمی اور ایک علاقائی توانائی گرڈ کے قیام میں فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس لیے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں، 1971 میں ہمارے دائیں بازو کو بھارتی جارحیت نے کاٹ دیا، آج پھر وہی بھارتی سازشیں بلوچستان میں بھی ہورہی ہیں، گھناؤنے منصوبے کی تکمیل کے لیے بلوچستان کوآگ و خون میں نہلایا جارہا ہے، مودی بے ضررکبوتر پکڑ کر بھی اقوام عالم میں ڈھنڈورا پیٹ ڈالتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پاکستان بھارت اور امریکا کے حوالے کرچکا ہے مگر دہشتگردی کی وارداتوں میں کمی آنے کے بجائے روز بروز ان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جو پاکستان کی سلامتی اور امن و امان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
ان باتوں کے باوجود ہمارے حکمرانوں کے دل میں بھارت کے لیے نرم گوشہ ہے۔ جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے، ظالم، عیار، مکار اور دھوکے باز بھارت چھپ کر اپنے خبث باطن کو تسکین دینے کی کوشش کررہا ہے، بغل میں چھری اور منہ میں رام رام بھارت سرکار کے لیے ہی مشہور ہے، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے نے بھارتیوں کے خون کو مزید گندا کردیا ہے، یہ اس پاکستان کو کیسے پھلتا پھولتا دیکھ سکتے ہیں جسے یہ آج تک بٹوارے کے نتیجے میں اپنا حصہ سمجھتے ہیں اور علیحدگی کی سزا اسے ختم کرکے دینا چاہتے ہیں۔
لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے قوم دشمن سیاستدانوں کے درمیان ایک ایسا انسان بھی ہمیں عطا فرمایا ہے جو قوم کا سچا ہمدرد ہے، جو دہشتگردی کی کاشت کی گئی فصل کو تلف کرنے میں شب و روز مصروف عمل ہے، کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو فوراً قوم کے درمیان آکھڑا ہوتا ہے، عجیب انسان ہے جس نے کراچی والوں کو غیر محسوس طور پر یہ احساس دلایا کہ تم اکیلے نہیں ہو، ہم اس آپریشن کے دوران تمہیں تنہا نہیں چھوڑینگے، ایک ایک کو پکڑیں گے، بھاگنے نہیں دینگے، اب سب کچھ بے نقاب ہوگا، ہر حساب صاف ہوگا، کبھی یہ پیکر ہمدردی شندور پہنچتا ہے تو کبھی اگلے مورچوں پر جوانوں کا حوصلہ بڑھانے ان کے کندھے سے کندھا ملا لیتا ہے۔ بلوچستان ہو یا خیبرپختونخواہ، سندھ ہو یا پنجاب، گلگت بلتستان ہو یا شمالی علاقہ جات، عجب آزاد مرد ہے کہ ہر زخم پر مرہم کی طرح پایا جاتا ہے، چہرے پر بلا کا اطمینان مگر آنکھوں میں اصلی شیرکی سی چمک ہوتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے سانحہ کوئٹہ کے بعد ملک بھر میں کومبنگ آپریشن شروع کرنے کے احکامات دیکر ایک بار پھر قوم کے دل جیت لیے ہیں۔ دہشتگردوں کی کمر توڑنے کے بعد اب سانپوں کے ان سنپولیوں کی باری ہے، جو ایک بار پھر عوام کو نظریاتی طور پر الجھانا چاہتے ہیں، حکمرانوں کو بھی اب نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ انتہا پسندی جہاں سے ابھری ہے اسے وہی دفن کرنے کا وقت قریب آپہنچا ہے، ایسے وقت میں دشمن سے چوکنا رہنے کی اشد ترین ضرورت ہے، ہمیں اپنے گھر کی حفاظت کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے، بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے ساتھ ملحقہ سرحد پر بھی سیکیورٹی کا نظام زیادہ موثر بنانا چاہیے، ارض پاک سے دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ آپریشن کے ذریعے ہم انتہا پسند کو تو ختم کررہے ہیں مگر انتہا پسند نظریے کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں، دہشتگردی کے درخت کی شاخیں تو کاٹی جارہی ہے مگر درخت اپنی جگہ موجود ہے، ہم جتنی شاخیں کاٹ رہے ہیں اتنی ہی شاخیں دوبارہ نکل رہی ہیں۔
اس مسئلہ کا صاف اور سیدھا حل یہ ہے کہ درخت کو ہی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے نظریے کو پروان چڑھانے والے اداروں کے خلاف بھی کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے، آپریشن کے ساتھ ہمیں اس طرز فکر کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو انتہا پسند نظریے کے فروغ کے لیے خود کش بمبار تیار کرتے ہیں۔ ملک سے شدت پسندی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیے کلیدی اقدامات کیے جائیں بالخصوص تعلیمی نظام میں اصلاحات کی جائیں، پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے، دینی مدارس کو قومی دھارے (Mainstream) میں لایا جائے، سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ اگر نصاب میں تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں اور محض لڑائی کے ذریعے دہشتگردی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ سوائے انتشار کے کچھ نہیں نکلے گا۔