فوری توجہ کے مستحق عظیم فنکار
عزتِ نفس ہر باضمیر انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے جس میں فنکاروں کا مقام سر فہرست ہونا چاہیے۔
خبر ہے کہ پاکستان کی فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والے ایک نام ورموسیقار افضل حسین گزشتہ ایک سال سے صاحب فراش ہیں۔ فالج سے ان کے جسم کا بایاں حصہ متاثر ہے جس کا علاج معالجہ کراچی کے ایک مقامی اسپتال میں جاری ہے۔کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں جب کہ دو وقت کی روٹی کا حصول بھی آسان نہیں ہے فالج جیسے مرض کا علاج کرانا کارِ دشوار ہے، ہمارے موجودہ نا پُرساں معاشرے میں جہاں یہ عالم ہے کہ بقول غالب:
پڑیے گھر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
افضل حسین جیسے فنکاروں کا بھلا کون پُرسان حال ہوگا، چارو ناچار ان کے علاج معالجے اور دوا دارو کے اخراجات ان کے بڑے بھائی موسیقار محبوب اشرف کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کی قوتِ برداشت بھی بھلا کہاں تک ان کا ساتھ دے گی؟ موسیقار افضل حسین کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ پاکستان کی فلمی دنیا کی تاریخ میں ان کا ایک مقام ہے۔ وہ بے شمار سدا بہار فلمی گانوں کو اپنی دھنوں سے مزیّن کرچکے ہیں جن کی گونج ہمارے کانوں میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کا نام ملکۂ ترنم مادام نور جہاں شہرہ آفاق اقبال بانو اور شہنشاہِ غزل مہدی حسن جیسے لافانی اور لازوال گلوکاروں کے ناموں کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہے۔
ابھی موسیقار افضل حسین کی طویل اور مسلسل علالت کی پریشان کن خبر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ یہ افسوسناک خبر بھی آگئی کہ نیاز احمد جوکہ وطن عزیز کے ایک اور صاحب طرز معروف موسیقار ہیں معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے باعث اس حد تک عاجز آگئے ہیں کہ وہ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کے فن کے اعتراف میں دیا گیا پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ بھی فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نامساعد حالات ہی تھے جنہوں نے ساحرؔ لدھیانوی کو یہ کہنے پر مجبور کردیا تھا کہ
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
روزنامہ ایکسپریس کے نمایندے سے گزشتہ دنوں گفتگو کے دوران ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق انھیں یہ کہنا پڑا کہ مجھے نگار ایوارڈ، بہترین کمپوزر کا ریڈیو ایوارڈ اور پاکستان ٹیلی ویژن سمیت 17 ایوارڈ مل چکے ہیں جن سے میں اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر انھیں بہتر روزگار فراہم کر دیتی تو ان کے لیے اس کی زیادہ اہمیت ہوتی۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ میں لوہے اور پیتل کے ٹکڑوں سے پیٹ نہیں بھر سکتا۔خدا کا شکر ہے کہ حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت نے ان کی فریادسن لی ، اور امید ہے کہ ان کا سالانہ وظیفہ بھی مقرر کیا جارہا ہے۔
موسیقار نیاز احمد کوئی معمولی فنکار نہیں ہے۔ وہ آنجہانی موسیقار مدن موہن کی طرح کے ایک صاحبِ ایجاد تخلیق کار ہیں جن کی بنائی ہوئی مسحور کن دھنیں آج بھی اہلِ ذوق سامعین کے کانوں میں امرت رس گھولتی ہیں۔ یہ کوئی قصہ پارینہ نہیں بلکہ محض کل کی سی بات ہے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا نامورگلوکار ہو جسے انھوں نے گوایا نہ ہو۔ ان کی موسیقی سے سجی ہوئی دھنیں سدا بہار اور ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کی آئینہ دار ہیں۔ اس میں فلمی نغمے اور منتخب غزلیں برابر اہمیت کی حامل ہیں۔نیاز احمد مقدار کے نہیں معیار کے قائل ہیں۔ استاد نصرت فتح علی خان (مرحوم) کی آواز میں ان کے کمپوز کیے ہوئے ملی نغمے پاکستان پاکستان، میرا ایمان پاکستان، محبت امن ہے اور اس امن کا پیغام، پاکستان کی گونج ہمارے کانوں میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔اس دلکش ملی نغمے کی خوشبو گلاب کی طرح آج بھی تروتازہ ہے۔ نیاز احمد کی ترتیب دی ہوئی دھنوں سے میڈم نورجہاں، مہدی حسن، امانت علی خاں اور احمد رشدی سمیت بڑے بڑے مشہورگلوکاروں نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ہے اور اپنی فنکاری کا لوہا منوایا ہے۔ یہ نابغۂ روزگار فنکار گزشتہ38 سال سے ریڈیو، ٹی وی اور فلمی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہا ہے۔ بہ الفاظ دیگر
یہ نصف صدی کا قصّہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
عزتِ نفس ہر باضمیر انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے جس میں فنکاروں کا مقام سر فہرست ہونا چاہیے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے باصلاحیت فنکاروں کی اتنی قدر کریں جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ ہمارا فنکاروں پر احسان نہیں بلکہ ہماری اخلاقی اور معاشرتی ذمے داری ہے۔ آزادی سے قبل یہ عظیم ذمے داری نوجوانوں اور راجوں مہاراجوں نے اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں موسیقی کے پٹیالہ اور گوالیار جیسے مشہور زمانہ گھرانے پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں یہ ذمے داری وہاں کی فلم انڈسٹری، آل انڈیا ریڈیو، دور درشن اور متعدد ثقافتی اداروں نے بہ رضا و رغبت اپنے کاندھوں پر اٹھالی جب کہ سرحد کے اس پار ذمے داری کا یہ بوجھ ریڈیو پاکستان اور پاکستانی فلم انڈسٹری کے ناتواں کندھوں پر منتقل ہوگیا۔ بلاشبہ موسیقی کے ان دونوں قدر شناس نجی اور سرکاری اداروں نے اپنی اس عظیم ذمے داری سے کماحقہ، عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں موسیقی کے حوالے سے بڑے بڑے نامور فنکاروں نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ ناموں کی یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ مختصر کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اس فہرست میں روشن آراء بیگم، میڈم نور جہاں، استاد (بڑے اور چھوٹے) غلام علی خاں، سلامت اور نزاکت علی خان، امانت علی خاں، ملکہ پکھراج، پٹھانے خان، فریدہ خانم، اقبال بانو، ثریا ملتانیکر، غلام علی، زبیدہ خانم، نسیم بیگم، مالا ، احمد رشدی، طفیل نیازی، عنایت حسین بھٹی، عالم لوہار، مجیب عالم، شوکت علی، مسعود رانا، ریشماں، طاہرہ سید، ناہید اختر، مہناز اور نیرہ نور وغیرہ سمیت بے شمار فنکاروں کے نام شامل ہیں۔ میوزک ڈائریکٹرز میں فیروز نظامی، خواجہ خورشید انور، رشید عطرے اور بابا جی اے چشتی جیسے نابغۂ روزگار شامل ہیں۔ جن کا لوہا نوشاد جیسے میوزک ڈائریکٹر نے بھی مانا ہے۔ فردوسی بیگم، شہناز بیگم اور رونا لیلیٰ جیسی دلنواز بنگالن گلوکاراؤں کو بھی پاکستانی موسیقاروں نے ہی متعارف کرایا اور شہرت کے بام عروج تک پہنچایا۔ اسی طرح بنگال (مشرقی پاکستان) سے تعلق رکھنے والے موسیقاروں دیبو بھٹّا چاریہ اور روبن گھوش نے بھی پاکستان سے ہی بڑا نام کمایا ہے۔
تاہم نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں موسیقی کے شعبے کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی جس کے نتیجے میں استاد بڑے غلام علی خان جیسے عظیم فنکار کو ترک وطن کرکے بھارت جانا پڑا جہاں ان کی شایان شان بڑی قدرومنزلت ہوئی۔ پاکستان میں بڑے غلام علی خان کی جو ناقدری ہوئی اس کا دکھ بھرا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے عظیم فلمی موسیقار ناشاد بھی زندگی بھر ناشاد رہے ۔یہاں آکر ایسی ناقدری کا شکار ہوگئے جس کا شاید انھوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔
اپنے قابل احترام سیاستدانوں سے نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اس ملک کی جتنی بدنامی دنیا بھر میں ہوئی ہے اور ہورہی ہے اس میں سب سے بڑا قصور ان ہی کا ہے اور اس کے برعکس وطن عزیز کا دنیا میں جتنا نام روشن ہوا ہے اس میں زیادہ تر حصہ وطنِ عزیز کے فنکاروں اور کھلاڑیوں کا ہے جس میں عمران خان کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے میدان سیاست میں قدم رکھ کر گویا عزتِ سادات کو داؤ پر لگادیا ہے۔
پاکستانی فنکاروں کی بے مثال ہمت اور صلاحیت کی داد دینا چاہیے کہ جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود موسیقی کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا اور ملک و قوم کا نام روشن کیا۔اس میں ہمارے نامور غزل گائیک مہدی حسن، امانت علی خان، استاد منظور علی خان ، محمد جمن، ابراہیم، محمد یوسف ،غلام علی، فریدہ خانم، اقبال بانو اور عابدہ پروین جیسے باکمال اورلوک گلوکار یقیناً قابل ذکر اور لائق تحسین ہیں۔ دوسری جانب نصرت فتح علی خان اور ان کے پیروکار راحت فتح علی خان ہیں جن کی شہرت کے ڈنکے ہندوستان میں آج بھی بج رہے ہیں۔یہ ان تمام فنکاروں کی ذاتی ریاضت اور محنت کا ثمر ہے کہ وہ شہرت کے اس بلند مقام پر فائز ہیں وگرنہ وطنِ عزیز میں حالات موسیقی کے حوالے سے بھی حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔
یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ کلاسیکی موسیقی ہی تمام قسم کی موسیقی کی اساس ہوتی ہے جو وطن عزیز میں عملاً دم توڑ رہی ہے۔ موسیقی کی یہ بنیادی صنف مدت دراز سے ہماری یہاں آکسیجن کیمپ میں پڑی ہوئی دم توڑ رہی ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے کہ یہ اپنی آخری ہچکی لے کر ہمیشہ کے لیے ملک عدم سدھار جائے۔ ہمیں اگر اپنے اس بیش قیمت سرمائے کو بچانا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے حکومت کے زیر سرپرستی اداروں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کو اپنے ماضی کے کردار کا اعادہ کرنا ہوگا۔ مگر اس کی پیشگی شرط یہ ہے کہ یہ ادارے اپنے پروگرام میں کلاسیکی موسیقی کے لیے حسب سابق وہ گنجائش پیدا کریں جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔
ظاہر ہے کہ اس کے لیے مطلوبہ رقم کی فراہمی لازمی ہے۔ دوسری جانب فنونِ لطیفہ کے فروغ کے ذمے دار اداروں کو اپنی روایتی بے حسی کی روش کو ترک کرکے موسیقی اور بالخصوص کلاسیکی موسیقی کی حوصلہ افزائی اور ترویج کے لیے نہایت مخلصانہ اور ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان نیشنل سینٹرز اور آرٹس کونسلوں جیسے اداروں سے ہماری پُرزور اپیل ہے کہ وہ موسیقی اور اس سے وابستہ افضل حسین اور نیاز احمد جیسے عظیم فنکاروں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے بلاتاخیر مزید مطلوبہ اقدامات کریں۔ ہم موسیقار نیاز احمد کے ان الفاظ میں پوشیدہ کرب کو بہ آسانی اور بخوبی محسوس کرسکتے ہیں کہ ''آج میں زندہ ہوں تو کوئی پوچھنے والا نہیں، کل جب نہیں ہوں گا تو میرے نام پر تعزیتی ریفرنس رکھ کر میرے نام کے قصیدے پڑھے جائیں گے''۔ ہمیں نیاز صاحب کے ان الفاظ سے سو فیصد اتفاق ہے کہ ''ہمیں اپنے مزاج کو بدلنا ہوگا ورنہ پھر کوئی بڑا فنکار پیدا نہیں ہوگا۔'' ہم وزیر باتدبیر قمر الزماں کائرہ وفاقی وزیر اطلاعات سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری توجہ کے مستحق ان عظیم موسیقاروں کی فوری دادرسی فرمائیں اور متعدد سرکاری ونجی ریڈیو اور ٹی وی چینلز اور کارپوریٹ سیکٹر کے شعبۂ CSR کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائیں۔
آخر میں ہم اپنے فنکار پر وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ متاثرہ فنکاروں کی فوری اور بھرپور اعانت فرمائیں گے۔
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی
پڑیے گھر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
افضل حسین جیسے فنکاروں کا بھلا کون پُرسان حال ہوگا، چارو ناچار ان کے علاج معالجے اور دوا دارو کے اخراجات ان کے بڑے بھائی موسیقار محبوب اشرف کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کی قوتِ برداشت بھی بھلا کہاں تک ان کا ساتھ دے گی؟ موسیقار افضل حسین کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ پاکستان کی فلمی دنیا کی تاریخ میں ان کا ایک مقام ہے۔ وہ بے شمار سدا بہار فلمی گانوں کو اپنی دھنوں سے مزیّن کرچکے ہیں جن کی گونج ہمارے کانوں میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کا نام ملکۂ ترنم مادام نور جہاں شہرہ آفاق اقبال بانو اور شہنشاہِ غزل مہدی حسن جیسے لافانی اور لازوال گلوکاروں کے ناموں کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہے۔
ابھی موسیقار افضل حسین کی طویل اور مسلسل علالت کی پریشان کن خبر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ یہ افسوسناک خبر بھی آگئی کہ نیاز احمد جوکہ وطن عزیز کے ایک اور صاحب طرز معروف موسیقار ہیں معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے باعث اس حد تک عاجز آگئے ہیں کہ وہ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کے فن کے اعتراف میں دیا گیا پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ بھی فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نامساعد حالات ہی تھے جنہوں نے ساحرؔ لدھیانوی کو یہ کہنے پر مجبور کردیا تھا کہ
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
روزنامہ ایکسپریس کے نمایندے سے گزشتہ دنوں گفتگو کے دوران ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق انھیں یہ کہنا پڑا کہ مجھے نگار ایوارڈ، بہترین کمپوزر کا ریڈیو ایوارڈ اور پاکستان ٹیلی ویژن سمیت 17 ایوارڈ مل چکے ہیں جن سے میں اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر انھیں بہتر روزگار فراہم کر دیتی تو ان کے لیے اس کی زیادہ اہمیت ہوتی۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ میں لوہے اور پیتل کے ٹکڑوں سے پیٹ نہیں بھر سکتا۔خدا کا شکر ہے کہ حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت نے ان کی فریادسن لی ، اور امید ہے کہ ان کا سالانہ وظیفہ بھی مقرر کیا جارہا ہے۔
موسیقار نیاز احمد کوئی معمولی فنکار نہیں ہے۔ وہ آنجہانی موسیقار مدن موہن کی طرح کے ایک صاحبِ ایجاد تخلیق کار ہیں جن کی بنائی ہوئی مسحور کن دھنیں آج بھی اہلِ ذوق سامعین کے کانوں میں امرت رس گھولتی ہیں۔ یہ کوئی قصہ پارینہ نہیں بلکہ محض کل کی سی بات ہے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا نامورگلوکار ہو جسے انھوں نے گوایا نہ ہو۔ ان کی موسیقی سے سجی ہوئی دھنیں سدا بہار اور ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کی آئینہ دار ہیں۔ اس میں فلمی نغمے اور منتخب غزلیں برابر اہمیت کی حامل ہیں۔نیاز احمد مقدار کے نہیں معیار کے قائل ہیں۔ استاد نصرت فتح علی خان (مرحوم) کی آواز میں ان کے کمپوز کیے ہوئے ملی نغمے پاکستان پاکستان، میرا ایمان پاکستان، محبت امن ہے اور اس امن کا پیغام، پاکستان کی گونج ہمارے کانوں میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔اس دلکش ملی نغمے کی خوشبو گلاب کی طرح آج بھی تروتازہ ہے۔ نیاز احمد کی ترتیب دی ہوئی دھنوں سے میڈم نورجہاں، مہدی حسن، امانت علی خاں اور احمد رشدی سمیت بڑے بڑے مشہورگلوکاروں نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ہے اور اپنی فنکاری کا لوہا منوایا ہے۔ یہ نابغۂ روزگار فنکار گزشتہ38 سال سے ریڈیو، ٹی وی اور فلمی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہا ہے۔ بہ الفاظ دیگر
یہ نصف صدی کا قصّہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
عزتِ نفس ہر باضمیر انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے جس میں فنکاروں کا مقام سر فہرست ہونا چاہیے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے باصلاحیت فنکاروں کی اتنی قدر کریں جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ ہمارا فنکاروں پر احسان نہیں بلکہ ہماری اخلاقی اور معاشرتی ذمے داری ہے۔ آزادی سے قبل یہ عظیم ذمے داری نوجوانوں اور راجوں مہاراجوں نے اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں موسیقی کے پٹیالہ اور گوالیار جیسے مشہور زمانہ گھرانے پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں یہ ذمے داری وہاں کی فلم انڈسٹری، آل انڈیا ریڈیو، دور درشن اور متعدد ثقافتی اداروں نے بہ رضا و رغبت اپنے کاندھوں پر اٹھالی جب کہ سرحد کے اس پار ذمے داری کا یہ بوجھ ریڈیو پاکستان اور پاکستانی فلم انڈسٹری کے ناتواں کندھوں پر منتقل ہوگیا۔ بلاشبہ موسیقی کے ان دونوں قدر شناس نجی اور سرکاری اداروں نے اپنی اس عظیم ذمے داری سے کماحقہ، عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں موسیقی کے حوالے سے بڑے بڑے نامور فنکاروں نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ ناموں کی یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ مختصر کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اس فہرست میں روشن آراء بیگم، میڈم نور جہاں، استاد (بڑے اور چھوٹے) غلام علی خاں، سلامت اور نزاکت علی خان، امانت علی خاں، ملکہ پکھراج، پٹھانے خان، فریدہ خانم، اقبال بانو، ثریا ملتانیکر، غلام علی، زبیدہ خانم، نسیم بیگم، مالا ، احمد رشدی، طفیل نیازی، عنایت حسین بھٹی، عالم لوہار، مجیب عالم، شوکت علی، مسعود رانا، ریشماں، طاہرہ سید، ناہید اختر، مہناز اور نیرہ نور وغیرہ سمیت بے شمار فنکاروں کے نام شامل ہیں۔ میوزک ڈائریکٹرز میں فیروز نظامی، خواجہ خورشید انور، رشید عطرے اور بابا جی اے چشتی جیسے نابغۂ روزگار شامل ہیں۔ جن کا لوہا نوشاد جیسے میوزک ڈائریکٹر نے بھی مانا ہے۔ فردوسی بیگم، شہناز بیگم اور رونا لیلیٰ جیسی دلنواز بنگالن گلوکاراؤں کو بھی پاکستانی موسیقاروں نے ہی متعارف کرایا اور شہرت کے بام عروج تک پہنچایا۔ اسی طرح بنگال (مشرقی پاکستان) سے تعلق رکھنے والے موسیقاروں دیبو بھٹّا چاریہ اور روبن گھوش نے بھی پاکستان سے ہی بڑا نام کمایا ہے۔
تاہم نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں موسیقی کے شعبے کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی جس کے نتیجے میں استاد بڑے غلام علی خان جیسے عظیم فنکار کو ترک وطن کرکے بھارت جانا پڑا جہاں ان کی شایان شان بڑی قدرومنزلت ہوئی۔ پاکستان میں بڑے غلام علی خان کی جو ناقدری ہوئی اس کا دکھ بھرا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے عظیم فلمی موسیقار ناشاد بھی زندگی بھر ناشاد رہے ۔یہاں آکر ایسی ناقدری کا شکار ہوگئے جس کا شاید انھوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔
اپنے قابل احترام سیاستدانوں سے نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اس ملک کی جتنی بدنامی دنیا بھر میں ہوئی ہے اور ہورہی ہے اس میں سب سے بڑا قصور ان ہی کا ہے اور اس کے برعکس وطن عزیز کا دنیا میں جتنا نام روشن ہوا ہے اس میں زیادہ تر حصہ وطنِ عزیز کے فنکاروں اور کھلاڑیوں کا ہے جس میں عمران خان کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے میدان سیاست میں قدم رکھ کر گویا عزتِ سادات کو داؤ پر لگادیا ہے۔
پاکستانی فنکاروں کی بے مثال ہمت اور صلاحیت کی داد دینا چاہیے کہ جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود موسیقی کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا اور ملک و قوم کا نام روشن کیا۔اس میں ہمارے نامور غزل گائیک مہدی حسن، امانت علی خان، استاد منظور علی خان ، محمد جمن، ابراہیم، محمد یوسف ،غلام علی، فریدہ خانم، اقبال بانو اور عابدہ پروین جیسے باکمال اورلوک گلوکار یقیناً قابل ذکر اور لائق تحسین ہیں۔ دوسری جانب نصرت فتح علی خان اور ان کے پیروکار راحت فتح علی خان ہیں جن کی شہرت کے ڈنکے ہندوستان میں آج بھی بج رہے ہیں۔یہ ان تمام فنکاروں کی ذاتی ریاضت اور محنت کا ثمر ہے کہ وہ شہرت کے اس بلند مقام پر فائز ہیں وگرنہ وطنِ عزیز میں حالات موسیقی کے حوالے سے بھی حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔
یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ کلاسیکی موسیقی ہی تمام قسم کی موسیقی کی اساس ہوتی ہے جو وطن عزیز میں عملاً دم توڑ رہی ہے۔ موسیقی کی یہ بنیادی صنف مدت دراز سے ہماری یہاں آکسیجن کیمپ میں پڑی ہوئی دم توڑ رہی ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے کہ یہ اپنی آخری ہچکی لے کر ہمیشہ کے لیے ملک عدم سدھار جائے۔ ہمیں اگر اپنے اس بیش قیمت سرمائے کو بچانا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے حکومت کے زیر سرپرستی اداروں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کو اپنے ماضی کے کردار کا اعادہ کرنا ہوگا۔ مگر اس کی پیشگی شرط یہ ہے کہ یہ ادارے اپنے پروگرام میں کلاسیکی موسیقی کے لیے حسب سابق وہ گنجائش پیدا کریں جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔
ظاہر ہے کہ اس کے لیے مطلوبہ رقم کی فراہمی لازمی ہے۔ دوسری جانب فنونِ لطیفہ کے فروغ کے ذمے دار اداروں کو اپنی روایتی بے حسی کی روش کو ترک کرکے موسیقی اور بالخصوص کلاسیکی موسیقی کی حوصلہ افزائی اور ترویج کے لیے نہایت مخلصانہ اور ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان نیشنل سینٹرز اور آرٹس کونسلوں جیسے اداروں سے ہماری پُرزور اپیل ہے کہ وہ موسیقی اور اس سے وابستہ افضل حسین اور نیاز احمد جیسے عظیم فنکاروں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے بلاتاخیر مزید مطلوبہ اقدامات کریں۔ ہم موسیقار نیاز احمد کے ان الفاظ میں پوشیدہ کرب کو بہ آسانی اور بخوبی محسوس کرسکتے ہیں کہ ''آج میں زندہ ہوں تو کوئی پوچھنے والا نہیں، کل جب نہیں ہوں گا تو میرے نام پر تعزیتی ریفرنس رکھ کر میرے نام کے قصیدے پڑھے جائیں گے''۔ ہمیں نیاز صاحب کے ان الفاظ سے سو فیصد اتفاق ہے کہ ''ہمیں اپنے مزاج کو بدلنا ہوگا ورنہ پھر کوئی بڑا فنکار پیدا نہیں ہوگا۔'' ہم وزیر باتدبیر قمر الزماں کائرہ وفاقی وزیر اطلاعات سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری توجہ کے مستحق ان عظیم موسیقاروں کی فوری دادرسی فرمائیں اور متعدد سرکاری ونجی ریڈیو اور ٹی وی چینلز اور کارپوریٹ سیکٹر کے شعبۂ CSR کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائیں۔
آخر میں ہم اپنے فنکار پر وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ متاثرہ فنکاروں کی فوری اور بھرپور اعانت فرمائیں گے۔
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی