فلم ’’ماہ میر“ صاحب علم افراد کے لیے بنائی گئی تھی انجم شہزاد
چند افراد کی ناپسندیدگی سے حوصلے پست نہیں بلکہ مزید بلند ہوئے ہیں، انجم شہزاد
ہدایت کار انجم شہزاد کا کہنا ہےکہ فلم"ماہ میر"صاحب علم افراد کے لیے بنائی گئی تھی جس کا مقصد فلم کو فیسٹول میں پیش کرنا تھا لیکن فلم "منٹو" کو مثبت ریسپانس ملنے کے بعد ہم نے بھی فلم سینما میں لگا دی تاکہ لوگوں کو اس طرح کے سینما سے روشناس کروایا جائے۔
رواں سال انجم شہزاد کی فلم "ماہ میر" نے پاکستان فلم انڈسٹری ، فلمی ناقدین اور فلم بینوں سے ملے جلے تاثرات حاصل کیے جب کہ دیگر فلموں کے مقابلے میں اسے بہترین ہدایت کاری، مضبوط کہانی اورمکالموں کے لیے کافی پذیرائی ملی۔ انجم شہزاد نئی فلم"زندگی کتنی حسین ہے" کے ساتھ بڑے پردے پر واپس فلم پیش کرنے کو تیار ہیں۔
گزشتہ روز کراچی کے مقامی ہوٹل میں محبت، رومانس، ایکشن، ڈرامہ اور سسپنس سے بھر پور فلم"زندگی کتنی حسین ہے" کا میوزک لانچ منعقد کیا گیا جس میں فلم میں شامل موسیقی کو موسیقاروں نے پیش کیا۔ اس موقع پر فلم کے ہدایت کار انجم شہزاد، پروڈیوسر رفیق احمد چوہدری، فلم نگار عبدالخالق خان، مرکزی اداکار فیروز خان اور سجل علی و دیگر موجود تھے۔
فلم کی موسیقی کے افتتاح موقع پر ہدایت کار انجم شہزاد سے ان کی فلم "ماہ میر" سے متعلق تند و تیز اور چبھتے ہوئے سوالات کیے گئے جس پر انہوں نے انتہائی صبر و تحمل سے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ فلم "ماہ میر" فیسٹول میں لگانے کے لیے بنائی گئی تھی، فلم صاحب علم افراد کے لیے بنائی گئی تھی جس کا مقصد فلم کو فیسٹول میں پیش کرنا تھا لیکن فلم "منٹو" کو مثبت ریسپانس ملنے کے بعد ہم نے بھی فلم سینما میں لگا دی تاکہ لوگوں کو اس طرح کے سینما سے روشناس کروایا جائے۔
انجم شہزاد نے کہا کہ چند افراد کی ناپسندیدگی سے حوصلے پست نہیں بلکہ مزید بلند ہوئے ہیں، تفریح کے ساتھ متوازی سینما بھی لوگوں تک پہنچانا چاہیے، فلمساز جامی، شرمین عبید چنائے اور سرمد کھوسٹ جیسے لوگ بھی فلم انڈسٹری کے لیے بے حد ضروری ہیں جو سماج کی تلخ حقیقتوں اور تاریخ کو بڑے پردے پر لاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو بھی پروفیشنلزم سیکھنے کی سخت ضرورت ہے، فلم کی موسیقی کے موقع پر فلم کے گیتوں کے بارے میں پوچھنا چاہیئے کہ اچھے لگے یا برے ، نہ کہ میری پرانی فلم کو ڈسکس کریں کیونکہ صحافت کا تقاضہ بھی یہی ہے، میری فلم بین الاقوامی سطح پر کوئی ایوارڈ حاصل کرکے آئے گی تویہی لوگ رابطہ کریں گے۔
رواں سال انجم شہزاد کی فلم "ماہ میر" نے پاکستان فلم انڈسٹری ، فلمی ناقدین اور فلم بینوں سے ملے جلے تاثرات حاصل کیے جب کہ دیگر فلموں کے مقابلے میں اسے بہترین ہدایت کاری، مضبوط کہانی اورمکالموں کے لیے کافی پذیرائی ملی۔ انجم شہزاد نئی فلم"زندگی کتنی حسین ہے" کے ساتھ بڑے پردے پر واپس فلم پیش کرنے کو تیار ہیں۔
گزشتہ روز کراچی کے مقامی ہوٹل میں محبت، رومانس، ایکشن، ڈرامہ اور سسپنس سے بھر پور فلم"زندگی کتنی حسین ہے" کا میوزک لانچ منعقد کیا گیا جس میں فلم میں شامل موسیقی کو موسیقاروں نے پیش کیا۔ اس موقع پر فلم کے ہدایت کار انجم شہزاد، پروڈیوسر رفیق احمد چوہدری، فلم نگار عبدالخالق خان، مرکزی اداکار فیروز خان اور سجل علی و دیگر موجود تھے۔
فلم کی موسیقی کے افتتاح موقع پر ہدایت کار انجم شہزاد سے ان کی فلم "ماہ میر" سے متعلق تند و تیز اور چبھتے ہوئے سوالات کیے گئے جس پر انہوں نے انتہائی صبر و تحمل سے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ فلم "ماہ میر" فیسٹول میں لگانے کے لیے بنائی گئی تھی، فلم صاحب علم افراد کے لیے بنائی گئی تھی جس کا مقصد فلم کو فیسٹول میں پیش کرنا تھا لیکن فلم "منٹو" کو مثبت ریسپانس ملنے کے بعد ہم نے بھی فلم سینما میں لگا دی تاکہ لوگوں کو اس طرح کے سینما سے روشناس کروایا جائے۔
انجم شہزاد نے کہا کہ چند افراد کی ناپسندیدگی سے حوصلے پست نہیں بلکہ مزید بلند ہوئے ہیں، تفریح کے ساتھ متوازی سینما بھی لوگوں تک پہنچانا چاہیے، فلمساز جامی، شرمین عبید چنائے اور سرمد کھوسٹ جیسے لوگ بھی فلم انڈسٹری کے لیے بے حد ضروری ہیں جو سماج کی تلخ حقیقتوں اور تاریخ کو بڑے پردے پر لاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو بھی پروفیشنلزم سیکھنے کی سخت ضرورت ہے، فلم کی موسیقی کے موقع پر فلم کے گیتوں کے بارے میں پوچھنا چاہیئے کہ اچھے لگے یا برے ، نہ کہ میری پرانی فلم کو ڈسکس کریں کیونکہ صحافت کا تقاضہ بھی یہی ہے، میری فلم بین الاقوامی سطح پر کوئی ایوارڈ حاصل کرکے آئے گی تویہی لوگ رابطہ کریں گے۔