یاسیت کی انتہا

مرنے والے نوجوان کی نفسیاتی کیفیت کے مقابل ان لوگوں کی بھی ایک نفسیاتی حالت ہے جو آگ لگنے کے بعد وہاں جمع ہو گئے تھے۔

gmohyddin@express.com.pk

کراچی کی اسٹیٹ لائف بلڈنگ کی کھڑکی کے ساتھ چمٹے' زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے نوجوان اویس بیگ کو دیکھ کر مجھے عظیم ناول نگار فیو دور دوستو فسکی کے ناول کرائم اینڈ پنشمنٹ کا وہ حصہ یاد آ گیا جس میں سزائے موت کے قیدی کی اُس ذہنی کشمکش کی عکاسی کی گئی ہے جو جیل سے پھانسی گھاٹ کی طرف سفر کے دوران اس کے دماغ میں چل رہی ہے۔

نقاد دوستوفسکی کو فرائڈ سے بڑا ماہر نفسیات قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنے ناول کے اس منظر کے ذریعے یہ نقطہ واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ موت بذات خود کوئی اذیت ناک چیز نہیں بلکہ اصل اذیت وقت کا وہ وقفہ ہے جو موت کے قریب آ جانے کے یقین اور موت واقع ہو جانے کے درمیان کا عرصہ ہے۔ یہ عرصہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے اور اس اذیت کا دورانیہ جس قدر سُکڑتا جاتا ہے اس کی شدت اسی قدر بڑھتی جاتی ہے۔

جس منظر کا میں نے ذکر کیا، اس میں ایک ایسے نوجوان کو جیل سے نکال کر پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا جاتا ہے جس کا سارا بچپن اور لڑکپن انھی گلی کوچوں میں کھیلتے گزرا ہے جو جیل اور پھانسی گھاٹ کے علاقے کے بیچوں بیچ پھیلے ہوئے ہیں۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور وہ گھوڑا گاڑی میں بیٹھا باہر سے آنے والی آوازوں' گاڑی کے موڑ مڑنے اور مختلف جگہوں سے اُٹھنے والی بُو باس سے اندازہ لگا رہا ہے کہ گاڑی کہاں سے گزر رہی ہو گی اور ابھی پھانسی گھاٹ پہنچنے میں کتنا وقت اور لگے گا۔ کہیں بھیڑ کے باعث گاڑی کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور کہیں گاڑی کو رکنا پڑتا ہے... اور یوں قیدی بار بار سوچتا ہے کہ ...''ابھی بہت وقت باقی ہے''۔

گلوٹین ایک ایسی مشین ہوتی ہے جس میں لکڑی کے ایک آٹھ دس فٹ اونچے فریم میں بہت بھاری بلیڈ لگا ہوا ہوتا ہے۔ اس مشین کو انقلاب فرانس کے دوران بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ مجرم کی گردن بلیڈ کے نیچے باندھ دی جاتی تھی اور اوپر سے بلیڈ کا کھٹکا ہٹا دیا جاتا جس سے بلیڈ تیزی سے نیچے آتا اور مجرم کا سر تن سے جدا ہو کر دور جا گرتا۔ دوستو فسکی کہتا ہے کہ سر کٹنے کی تکلیف تو در حقیقت تکلیف کا خاتمہ ہے۔ ایسی موت کی ساری اذیت کا تعلق تو مرنے والے کی سماعت کے ساتھ ہے۔ موت کی اذیت بلیڈ کے چھوٹنے سے پیدا ہونے والی کرخت آواز میں چھپی ہے۔

اس میں کیا شک ہے کہ اویس بیگ بھی کم و بیش اسی اذیت سے گزرا ہو گا۔ وہ انٹرویو دینے آیا تھا۔ آگ لگی تو بجلی کے تاروں کے جلنے کا کڑوا دھواں کمرے میں بھر گیا۔ بدحواسی میں وہ کھڑکی کے باہر لٹک گیا۔ شاید دوسرے ملکوں میں کھڑکیوں کے ساتھ یوں لٹک کر پھنس جانے والوں کو بچانے کے مناظر دیکھ دیکھ کر اسے بھی یہ احساس ہو چلا ہو کہ پاکستان میں بھی موت کی طرف سرکتی ہوئی کسی جان کو بچا لینے کے لیے ویسی ہی جان توڑ کوشش کی جائے گی جیسی باہر کے ملکوں میں ریسکیو کے ادارے کیا کرتے ہیں۔


یقیناً کمرے سے نکل کر کھڑکی سے چمٹ جانے کے بعد اسے کسی حد تک اطمینان کا احساس ہوا ہو گا کہ وہ اصل خطرے سے بچ نکلا ہے اور اب جب لوگ اسے اس حالت میں دیکھیں گے تو یقیناً اسے مرنے نہیں دیا جائے گا لیکن جو کچھ ہوا وہ زمین پر گر کر چکنا چور ہوجانے والے اس نوجوان کی امیدوں کے بالکل برعکس تھا۔ یقیناً جوں جوں کھڑکی کے پینل آگ کی جدت سے گرم ہوتے گئے ہوں گے' انھیں تھامے رکھنا دشوار ہوتا گیا ہو گا۔ اُس کے اپنے جسم کے وزن کا احساس بڑھتا گیا ہو گا۔ پائوں پتلی سی پٹی پر ٹکائے رکھنے میں شدید تکلیف محسوس ہوتی ہوگی۔

اس کے لیے بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موت کے احساس کا بے رحم شکنجہ بالکل اسی طرح کستا گیا ہو گا جسے پھانسی گھاٹ کی جانب محو سفر سزائے موت کے قیدی کے ساتھ ہوا تھا اور آخری لمحات میں پہاڑوں سے بھی بھاری نا اُمیدی ایک لمحے کے اندر سمٹ گئی ہو گی' جس لمحے اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہوئی اور وہ موت سے ہمکنار ہو گیا۔

گر کر مرنے والے اس نوجوان کی اس نفسیاتی کیفیت کے مقابل ان لوگوں کی بھی ایک نفسیاتی حالت ہے جو آگ لگنے کے بعد وہاں جمع ہو گئے تھے۔ اگر یہ نوجوان پندرہ بیس منٹ بھی کھڑکی کے باہر لٹکتا رہا ہے تو اسے بچا لیا جانا ممکن تھا۔ آخر اس منظر کو دیکھنے کے لیے اتنا بڑا ہجوم چند لمحوں میں تو جمع نہیں ہوا ہو گا۔ ٹی وی چینلز کے لوگ بھی اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ ان مناظر کو ٹی وی چینل براہ راست دکھا رہے تھے۔ یہ بھی بعید نہیں کہ یہ سب دکھانے والوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہو کہ نوجوان کے گرنے کا منظر کہیں مِس نہ ہو جائے' یا جب یہ گرے تو کیمرے کا ایسا زاویہ رکھا جانا ممکن ہو جو بہترین انداز میں اس منظر کو ناظرین تک پہنچائے۔

دوسری جانب وہاں اکٹھے ہو جانے والے لوگوں کی ذہنی کیفیت ہے۔ سب ہیجان کے عالم میں دیکھ تو رہے تھے لیکن اس نوجوان کو بچانے کے لیے کسی عملی کام کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اگر یہ ہجوم فوراً بچائو کی تدبیر کرنے میں مصروف ہو جاتا۔۔۔۔۔ جیسی بھی سہی' اور اس کے باوجود اویس بیگ کو نہ بچایا جا سکتا تو یہ اور بات تھی۔ اس سے کم از کم یہ ظاہر ہوتا کہ ہمارے معاشرے میں کسی مشکل کی صورت میں اس کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی ہے۔ یہ پتہ چلتا کہ ناگہانی صورت حال پیدا ہو جائے تو ہجوم میں مثبت سمت میں عمل پیرا ہونے کی کتنی صلاحیت موجود ہے۔ بدقسمتی سے ہم سماجی اعتبار سے مفلوج ہوجانے کی حد تک بے حس ہو چکے ہیں۔ ہمارے اعصاب اس طرح سے ناکارہ ہو جاتے ہیں جیسے کسی درندے کے سامنے گھاس چرنے والے چوپایوں کا پورا گروہ حواس کھو بیٹھتا ہے۔

ناگہانی حالت کے سامنے کھڑے ہو جانا ہی انسان کی ہمت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ ایسے واقعات کسی معاشرے کی مجموعی حالت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قوم یاسیت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ ہماری اس کیفیت کا نظارہ کرنا ہمارے دشمنوں کے لیے کتنی طمانیت کا باعث ہو گا کہ ہماری حالت یاسیت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ ہم اُس حالت کو پُہنچ چکے ہیں جہاں اگر کوئی مشکل آن پڑے تو لوگ اس مشکل کا سامنا کرنے' اس کا منہ موڑ دینے یا اس سے بچ نکلنے کے بجائے اس کے وقوع پذیر ہو جانے کا انتظار کرنے لگتے ہیں، بالکل ایسے ہی جس طرح ایک منگول سردار اپنے وسط ایشیائی منقوحہ علاقوں میں چند مسلمانوں کو دیکھ کر رکا اور گرج کر کہا ''یہیں کھڑے رہنا میں اپنی تلوار لے کر آتا ہوں'' اور جب وہ واپس آیا تو وہ سب کے سب واقعی وہیں کھڑے تھے۔
Load Next Story