کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
آج 4 دسمبر ہے، جیسی پیشن گوئیاں گردش میں ہیں کہ یہ مہینہ بڑا ہی خوفناک ہے، اس مہینے میں یہ ہوگا، یوں ہوگا۔
وہ صبح صبح اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جارہا تھا، کچھ ''لوگ'' بھی صبح سویرے ہی اس کی تاک میں بیٹھے تھے، باپ سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹی کو اسکول چھوڑنے جارہا تھا اور قاتل اس کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے لیے رستے میں کھڑے تھے۔ جب باپ بیٹی ذرا کھلی سڑک پر آئے تو قاتلوں نے گولیاں چلادیں۔ بہت سی گولیاں باپ کے جسم کے آر پار ہوگئیں، معصوم بیٹی کے سامنے باپ خون میں لت پت تڑپ رہا تھا، قاتل اپنا کام کرکے جاچکے تھے، یہ بھی وہی ''نامعلوم قاتل'' تھے، جو پچھلے کئی سال سے ہزاروں لوگوں کو قتل کرچکے ہیں اور ''نامعلوم'' ہیں۔
یہ واقعہ بھی میرے شہر کراچی میں ہوا ہے، شہر کی ایک کشادہ سڑک شہید ملت روڈ پر 30 نومبر 2012ء کی صبح ساڑھے سات بجے، نذر عباس شہید ہوچکا تھا۔ اس کی بچی بھی زخمی ہے۔ اس سے آگے مجھے کچھ معلوم نہیں ہے کہ اب بچی کا کیا حال ہے۔ نذر عباس کے گھر والے کس حال میں ہیں، مجھے تو اس وقت اپنے شہر کراچی کی ایک اور بڑی سڑک پر کے ای ایس سی بلڈنگ کی آٹھویں منزل کی کھڑکی سے لٹکا ہوا وہ نوجوان اویس بیگ یاد آگیا ہے کہ جو بلڈنگ میں آگ لگنے کی وجہ سے جان بچانے کے لیے دس پندرہ منٹ کھڑکی سے لٹکا رہا اور جب ہاتھوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو وہ گِر پڑا اور مرگیا۔
وہ دس پندرہ منٹ تک لٹکا رہا اور سڑک پر جمع لوگ محض دیکھتے رہے، اِرد گرد کی مارکیٹوں والے، کروڑوں کے دکاندار کوئی بھی اس نوجوان کو بچانے کی کوئی بھی تدبیر نہ کرسکے۔ ہاں! اس نوجوان کی لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف جانے والی فلم بنتی رہی ، وہ کھڑکی کو پکڑے لٹک رہا ہے، وہ نیچے لوگوں کو دیکھ رہا ہے، اور پھر اس کے ہاتھ چھوٹے، اب وہ گِر رہا ہے اور پھر وہ گِر کر مرگیا۔ نوجوان اپنی زندگی کے آخری روز فائنل انٹرویو دینے آیا تھا۔ وہ کامرس گریجویٹ تھا۔ میں مرنے والے نوجوان کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں۔ اور کیا جاننا؟بس جہاں ''نامعلوم قاتل'' لوگوں کو مار رہے ہیں، وہاں یہ نوجوان بھی مرگیا۔ جس بلڈنگ میں یہ نوجوان فائنل انٹرویو دینے آیا تھا، اس بلڈنگ کے آٹھویں فلور پر آگ لگ گئی تھی، بلڈنگ میں موجود سارے لوگ محفوظ رہے، اس نوجوان نے جان بچانے کے لیے کھڑکی کا راستہ اختیار کیا، مگر جان بچانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
آج چار دسمبر ہے، جیسی پیشن گوئیاں گردش میں ہیں کہ یہ مہینہ بڑا ہی خوفناک ہے، اس مہینے میں یہ ہوگا، یوں ہوگا، مگر جتنا کچھ اس شہر میں ہوچکا ہے اب اس کے بعد اور نیا ظلم نیا ستم کیا ہوگا؟ ''ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔'' شاید پہلا مصرعہ یوں ہے ''رات دن گردش میں ہیں سات آسماں'' اور اب گردش پلٹ جائے گی۔ بدل جائے گی، تو یہ بھی دیکھ لیں گے۔
میرے شہر کے لوگ سارے کے سارے بیمار ہوگئے ہیں، کیا بچے، کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا مرد، کیا عورتیں، کیا امیر، کیا غریب، کیا نیک، کیا بدمعاش۔ سب بیمار ہوگئے ہیں۔ جو مسیحا ہیں وہ اپنے فرض کی وجہ سے ٹھیک ہیں کہ انھیں بیماروں کو دیکھنا ہے۔ وہ مضبوط ہیں کہ انھیں بیمار نہیں ہونا، کیونکہ وہ بیمار ہوگئے تو بیماروں کو کون دیکھے گا؟ مگر ان مسیحاؤں کو بھی بیمار ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ وہی ''نامعلوم'' جو لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔
ہاں! وہی ڈاکٹروں کو اغواء کرتے ہیں، ان کو اپنے پاس رکھ کر ذہنی مفلوج بناتے ہیں، ٹارچر کرتے ہیں، تاوان مانگتے ہیں، اور پھر تاوان لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ''نامعلوم'' لوگوں کے پاس چند دن رہ کر ڈاکٹر بیمار ہوجاتا ہے اور بیماروں، مریضوں کی خدمت کے قابل نہیں رہتا۔ ''نامعلوم'' ڈاکٹروں کو مار دیتے ہیں۔ کلینک میں ''نامعلوم'' گھسے گولیاں ماریں، اور یہ جا وہ جا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ چونکہ وہ ''نامعلوم'' ہیں اس لیے وہ ''نامعلوم'' ہی رہتے ہیں۔ میرے شہر میں بظاہر سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ زندگی بظاہر ہر طرف نظر آتی ہے، مگر بلا کا ''سنّاٹا'' ہے۔
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جانب سنّاٹا ہے' دیوانے یاد آتے ہیں
میرے شہر کے تاجر موجود ہیں، بازار، دکانیں کھلتی ہیں، فیکٹریوں، ملوں میں پہیہ گھوم رہا ہے، اور اچانک ''نامعلوم'' آگ لگ جاتی ہے، اور سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے، مزدور بھی اور بلڈنگ بھی۔
یہ سب ملک کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ ہورہا ہے اور ''اربابِ اختیار'' خوب بول رہے ہیں، اور بولے ہی چلے جارہے ہیں۔ ان کو بولتے ہوئے سنتا ہوں تو مجھے یہ سخت بیمار نظر آتے ہیں، مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہیں بس بولے چلے جارہے ہیں۔ میرا دماغ اور میرا دل دکھ رہا ہے اور یہ صرف میرا حال نہیں ہے، پورے شہر کا یہی حال ہے۔ مسائل میں گھرے لوگوں کے گھروں میں حشر برپا ہیں، روزگار نہیں، کاروبار نہیں، پیسہ نہیں، باپ بیٹا، میاں بیوی لڑ رہے ہیں، گھر گھر بحث، تکرار ہورہی ہے۔ ہاتھا پائی، مارپیٹ، غیظ و غضب اور کہیں کہیں قتل بھی ہوجاتا ہے۔ آپ نے سنا ہوگا ایک غریب باپ نے اپنے اکلوتے بارہ سالہ بچے کو محض پانچ روپے چرانے پر مار دیا۔ حالات ایسے بنا دیے گئے ہیں کہ ہم سب ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ ہم سب بیمار ہیں اور اوپر حکومت والے خوب بول رہے ہیں۔ حالات کو درست کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ یہ پیشہ ور بولنے والے ہیں، کچھ بولتے بولتے چلے گئے۔ یہ بھی چلے جائیں گے اور پھر نئے بولنے والے آجائیں گے۔ ان حالات میں:
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ