سائبر کرائمزاور کتنے خول

موبائل فون کمپنیز اور نجی وسرکاری اداروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ سائبر کرائمز کی تفتیش کے دوران مکمل تعاون کریں۔


Adnan Ashraf Advocate December 03, 2012
[email protected]

سوشل میڈیا، ویب سائٹس، فیس بُک اور موبائل فونز کے ذریعے جرائم اور خواتین کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 3 سالوں کے دوران اس قسم کے جرائم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ آئی ٹی کے جن کو قابو میں لانے کے لیے اور انٹرنیٹ،کمپیوٹر اورموبائل فونز کی مدد سے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے ایف آئی اے کو سائبرکرائمز کی بیخ کنی کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائمز سرکل کو انٹرنیٹ، کمپیوٹر، موبائل فون اور دیگر الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ہراساں کیے جانے، ان سہولیات کا غلط استعمال کرنے، بلیک میل کرنے اور مالی نقصان پہنچانے اور دیگر جرائم کے تدارک کے اختیارات دیے گئے تھے۔

اس سلسلے میں موبائل فون کمپنیز اور تمام نجی وسرکاری اداروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ سائبر کرائمز کی تفتیش کے دوران مکمل تعاون کریں۔ اس سلسلے میں نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائمز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور صدارتی حکمنامے کے ذریعے پری وینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈیننس کا نفاذ کیا گیا تھا جو اپنی معیاد ختم ہوجانے پر کالعدم ہوگیا اور اس وقت سائبر کرائمز کے لیے کوئی جامع قانون موجود نہیں ہے۔ذرایع کے مطابق کراچی،لاہور اور اسلام آباد میں خواتین کی جانب سے ماہانہ دو سو زائد واقعات رپورٹ کرائے جاتے ہیں (جب کہ غیر رپورٹ شدہ اور دیگر شہروں کے واقعات شامل کرلیں تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے) ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ موبائل فونز کے ذریعے دی جانے والی دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے معاملات میں موبائل کمپنیز انھیں متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کرتیں اور عمومی طور پر ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ایف آئی اے کارروائی سے قاصر رہتی ہے۔

سائبر کرائمز کے تدارک کے سلسلے میں متعلقہ حکام کا عذر یا جواز بھی قابل غور ہے۔ اپنی بعض خامیوں کے باوجود پری وینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈیننس (پیکو) ایک موثر و جامع قانون تھا جن میں ایسے جرائم کا احاطہ کیا گیا تھا متعلقہ اتھارٹی کو اختیارات سونپنے کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کو اس سے تعاون کرنے کا پابند کیا گیا تھا، لیکن پیکو کے خاتمے کے بعد دیگر ملکی قوانین مثلاً الیکٹرانکس کرائم آرڈیننس یا کریمنل پروسیجرز کوڈ عصر حاضر کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ ان میں اس نئی ٹیکنالوجی کے عفریت کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت آئی ٹی اور قانون کے ماہرین کے ساتھ مل کر فوری مربوط و مؤثر قانون سازی کرکے شہریوں کے جان ومال، عزت وآبرو اور مستقبل کے معماروں کا مستقبل محفوظ بنائے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے حقیقتاً پوری دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، دنیا کی ہر چیز کسی شخص کے ایک کلک کی محتاج ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ سہولیات بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں تھیں جنھیں آج کا ہر انسان استعمال کرسکتا ہے۔

موبائل فونز، فیس بُک، ٹیوٹر، یوٹیوب وغیرہ کی سہولیات جہاںایک نعمت سے کم نہیں، وہیں اس کے منفی اثرات اور مضمرات بھی انتہائی تباہ کن ہیں۔ سائبرکرائمز میں 70 فیصد شکایات فیس بُک کے حوالے سے ہوتی ہیں جب کہ 90 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے نے ایک شریف لڑکی کی عزت، مستقبل اور تعلیم کو برباد کردیا اور وہ خود بھی موت کے منہ سے واپس آئی، خاندان کی عزت بھی خاک میں مل گئی۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ اس لڑکی کے والدین نے اس کی منگنی ایک لڑکے سے کردی تھی، جس نے خود کو سرجن بتایا تھا، بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک ہومیو پیتھک کلینک چلاتا ہے۔منگنی کے بعد اس لڑکے کی حقیقت سامنے آنے اورکردار کا پتہ چلنے پر والدین نے یہ منگنی توڑ دی جس پر اس لڑکے کو بہت غصہ آیا اور انتقام پر اُتر آیا، پہلے اس نے اپنی منیگتر اور اس کی چھوٹی بہن کو موبائل فون اور میسج کے ذریعے تنگ کرنا شروع کردیا۔ آئی ڈی ہیک کرکے اس لڑکی کی اصل تصاویر ایڈیٹنگ کرکے فحش تصویروں میں تبدیل کرکے اور انتہائی فحش مواد اس لڑکی کی آئی ڈی کے ذریعے اپ لوڈ کرتا رہا اور اس لڑکی کے فرضی دوستوں کے حوالے سے بھی فحش گفتگو کی پوسٹنگ کرتا رہا۔

اس لڑکی کے ایڈ فرینڈ اور عزیز واقارب یہ منظر دیکھ کر پہلے تو یہی سمجھے کہ وہ لڑکی خود ہی اس طرح کی پوسٹنگ کر رہی ہے، اس نے رو رو کر اپنی بے گناہی کا یقین دلایا، لیکن کسی کو یقین نہیں آیا۔ پرنسپل نے اپنے کمرے میں بلاکر فیس بُک ویب سائٹ سے نکالا ہوا ایک پرنٹ اس کے منہ پر پھینکتے ہوئے کہا چلی جاؤ، تم جیسی بیہودہ حرکتیں کرنے والی لڑکیاں تعلیمی اداروں کا ماحول خراب کرتی ہیں، دوسری طالبات بھی خراب ہوں گی۔ اس کے بعد اس لڑکی نے خواب آورگولیاں کھا کر خودکشی کی کوششیں کیں۔ آخر کار کسی کو یقین آیا تو معاملہ کی اطلاع ایف آئی اے کو دی گئی تفتیش ہوئی تو اس ایجنسی نے لڑکی کے منگیتر کو گرفتار کرکے اس کے کمپیوٹر سے یہ تمام مواد برآمد کرلیا۔ اس قسم کی حرکتوں کے باعث متاثرہ لڑکیوں اور خواتین نے بدنامی کے خوف سے اپنی زندگیاں ختم کرنے کی کوششیں کیں، بہت سوں کی منگنیاں اور نکاح ٹوٹے، تعلیم اور ملازمت بھی ترک کرنا پڑیں، فیس بُک کے ذریعے جرائم میں 99 فیصد متاثرین خواتین اور لڑکیاں بتائی جاتی ہیں۔خواتین محتاط رہیں ، انھیں فیس بک اور سوشل میڈیا پر شوقیہ تصویر اپ لوڈ نہیں کرنی چاہیے۔کئی بے چہرہ لوگ گھات میں رہتے ہیں۔

سائبرکرائمز سے زیادہ ہولناکیاں و تباہی بچوںکے ہاتھوں میں موجود بلا ضرورت اور بلا چیک و بیلنس موبائل فونز،لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کے میزائلوں کی ہیں جو وقت کا زیاں، اخلاقی بے راہ روی اور دیگر جرائم کے وائرس ان کی رگوں میں منتقل کر رہے ہیں، جس کا کوئی اینٹی وائرس نہ حکومت کے پاس ہے نہ ہی والدین کے پاس ہے۔ دوسری جانب کمپنیاں نائٹ پیکیجز اور دیگر آفر مثلاً دوست بنائیں، پسند کا رشتہ حاصل کریں، قسمت و ستاروں کا حال معلوم کریں، ویلن ٹائن ڈے پر ایس ایم ایس کریں، زیادہ ایس ایم ایس اور قرعہ اندازی کے ذریعے کسی اداکار یا اداکارہ کے ساتھ ڈنر کریں یا کاریں موٹرسائیکلیں جیتیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام پیکیجز نوجوان نسل کو بے راہ روی ، جرائم، تن آسانی، شارٹ کٹ اور زندگی کی عملی جدوجہد سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہیں، ایسے پیکیجز سے کمپنیاں لوٹ مار اور تباہی کرنے میں مصروف بہ عمل ہیں، خوامخواہ کے میسیجز خودساختہ اشعار، مذہبی فتوے اور واعظ، بیہودہ لچر لطائف، فحش تحریریں نوجوانوں کے علاوہ بعض عمر رسیدہ افراد کے مزاج کا حصہ و معمول بن گئی ہیں۔ایک شخص ایک وقت تو اخلاقیات، انسانیت اور مذہب کے زریں اصولوں پر مبنی میسج بھیجتا ہے لیکن دوسرے وقت کوئی بیہودہ، لچر، چرب زبانی و فحش گوئی پر مبنی میسج بھیج کر اپنا امیج پاش پاش کر دیتا ہے۔ اس علت میں مبتلا افراد میسج بھیجتے ہوئے کسی شخص کے مزاج، رتبہ یا اس شخص سے اپنے مراسم کی نوعیت کو بھی مدنظر نہیں رکھتے۔ ایسے میسج پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے انسان نے کتنے خول چڑھائے ہوئے ہیں؟ اس کا کون سا چہرہ اصل ہے؟ کیا ہمارا یہ کردار اخلاقیات اور اسلامی اقدار سے لاتعلقی کا نتیجہ نہیں ہے؟ ہم نے اپنے لیے تعمیر کی بجائے تخریب کا راستہ اپنالیا؟ ہم آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے کیا بنیادیں استوار کر رہے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں