آپکی قوتِ برداشت کتنی ہے

انگریز واقعی داد کی مستحق ہیں جس نے نو آبادیاتی نظام کے لیے پولیس کا یہ ’’شاندار‘‘ ڈھانچہ تخلیق کیا ۔

s_nayyar55@yahoo.com

بیرونِ شہر چلنے والی ایک مسافر بس، ایک چھوٹے شہرکے مضافاتی اسٹاپ پر آکے رُکی ۔ تین مسافر بس سے اُتر گئے تو کنڈیکٹر نے اسٹاپ پرکھڑے مسافروں کے چھوٹے سے ہجوم کو اپنے ہاتھ کی چار اُنگلیاں دکھا کر اعلان کیا کہ ''چار سیٹیں خالی ہیں۔صرف چار مسافر اندرآجائیں ۔'' یہ سُن کر فوراً ہی چارمسافر جن میں ایک باوردی پولیس والا بھی شامل تھا ،لپک کر بس میں سوار ہوگئے۔اِن کے بعد جب ایک دیہاتی نے بس میں سوار ہونا چاہا تو کنڈیکٹر نے اپنا بازو دیہاتی مسافر اور گیٹ کے درمیان حائل کرتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہا ''کیا تم نے سُنا نہیں تھا کہ صرف چار مسافروں کے لیے سیٹیں موجود ہیں اور چارمسافر سوار ہوچکے ہیں ، پھر تم کہاں اندر گھُسے چلے آرہے ہو ؟'' یہ سُن کر دیہاتی مسافر بڑی معصومیت سے بولا'' لیکن آدمی تو صرف تین ہی چڑھے ہیں،چوتھا تو '' پولیس والا '' تھا ۔واقعہ بی بی زاہدہ نے اپنے گذشتہ مضمون میں بیان کیا ہے مگر۔۔۔نہ ہوئے اِس وقت مرزا غالب جو یہی رونا روتے ہوئے دُنیا سے کوچ کر گئے کہ''آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا ۔'' غالب پر نہ جانے پولیس نامی اِس مخلوق کو دیکھ کرکیا گزرتی،جسے اِس ملک کے عوام انسان تو درکنار ، سرے سے آدمی ہی تسلیم کرنے پرتیار نہیں ہیں ، تو دوسری جانب پولیس کا رویّہ اِس ملک کے غریب عوام کی اکثریت کے ساتھ ایسا ہے کہ وہ عوام کو،آدمی تو کیا کسی جانور سے بھی بدتر مخلوق کا درجہ دینے پر آمادہ نظر نہیں آتی ۔

انگریزوں کی عقل واقعی داد کی مستحق ہے ، جس نے نو آبادیاتی نظام کے لیے ، نو آبادیاتی پولیس کا یہ ''شاندار'' ڈھانچہ تخلیق کیا ۔ اور اپنی جنم بھومی انگلستان یعنی مادر وطن کے لیے '' بوبی'' جیسا عوام دوست پولیس مین تراشا۔ لندن کی سڑکوں پر ''بوبی'' کو دیکھ کر ہی لندن کے عوام خود کو کسی دوست کی قُربت میں محسوس کرتے ہیں اور اپنی جان ومال کے تحفّظ کے احساس سے سرشار ہوجاتے ہیں ۔ اور ہمارے عوام کی اکثریت کو ، پولیس کی موبائل دیکھ کر ہی اپنی عافیت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے ۔ ایک طرف ہماری پولیس اور دوسری طرف انگلینڈ کی پولیس ۔ دونوں کا تخلیق کار یا معمار ایک ہی دماغ ہے ، جب کہ شاہکار جُدا جُدا ہیں ۔ لیکن گورے کا اصل شاہکار، جو وہ جاتے جاتے ہمیں یہاں سونپ کرگیا ہے ، وہ ہماری پولیس نہیں بلکہ وہ جاگیردار طبقہ ہے ، جسے انگریزوں نے اپنے وطن انگلستان کی تو ایک انچ زمین دینا بھی گوارہ نہیں کیا ، لیکن برصغیر کی سر زمین اور سیکڑوں گاؤں ایک جنبشِ قلم سے یوں بخش دیے ، جیسے یہ زمین گوروں کی جدّی پشتی جائیداد ہو ۔ یعنی ہماری ہی جوتی اور ہمارا ہی سر۔ انگریزوں کے جانے کے بعد یہ '' کالے انگریز '' جاگیردار کی شکل میں ہم پر ایسے مسلط ہوئے ، جیسے کسی خوب صورت دوشیزہ پرکوئی جن سوار ہوجاتا ہے ۔

عامل لاکھ کوشش کرلے،دوشیزہ تو اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتی ہے ، لیکن جن سے جان چھوٹنی ناممکن ہے ۔گوروں کے اِن کالے وارثوں نے، وراثت سنبھالنے کے بعد جہانگیری اور جہاں بانی کے وہ وہ پینترے دکھائے کہ خود گوروں نے دانتوں تلے اُنگلیاں داب لیں ہوں گی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض بڑے بوڑھوں کو جنہوں نے انگریز راج کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ، گورے حکمرانوں کا دورِ حکومت آج کے حکمرانوں کے مقابلے میں سُنہرا اور مبنی بر انصاف نظر آتا ہے ۔ ہماری موجودہ پولیس ، اِنہی کالے انگریزوں یعنی جاگیرداروں کی محنت کا '' ثمر '' ہے ۔ جنہوں نے گوروں کے تخلیق کردہ اِس نظام کو عوام کا خونِ جگر پلا پلا کر کسی کالے ناگ کی طرح پروان چڑھایا اورآج یہ حال ہے کہ عوام پولیس والے سے تو سخت خوفزدہ نظر آتے ہیں، لیکن قانون سے قطعی نہیں ڈرتے ۔ یقین نہ ہو تو شہر کی کسی بھی سڑک پر کھڑے ہوجائیں اگر پولیس سارجنٹ کسی بس اسٹاپ پرموجود ہے تو پبلک سروس گاڑیاں ٹریفک پولیس سارجنٹ کے قدموں میں آکر رُکتی ہوئی نظر آئیں گی ۔ لیکن پولیس سارجنٹ کے روانہ ہوتے ہی،گاڑیاں بغیر کسی اسٹاپ پر، وہیں رُکنے لگیں گی،جہاں مسافر کھڑا ہو ۔ اِس کا صاف مطلب یہی ہے کہ بس ڈرائیور پولیس والے سے تو ڈرتا ہے ۔ لیکن اُس کی غیر موجودگی میں اِس قانون کی قطعی پرواہ نہیں کرتا ، جو کہتا ہے کہ بغیر اسٹاپ گاڑی نہ روکی جائے ۔


یہ قانوناً جرم ہے اور پابندی نہ کرنے والے ڈرائیور ، خلاف ورزی کی صورت میں فلاں فلاں سزا کے مستحق سمجھے جائیں گے ۔ جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں ، بالکل اِسی طرح کسی بھی معاشرے میں قانون کی حکمرانی یا پھر جاگیردار کی حکمرانی بیک وقت نہیں ہو سکتی ۔ جاگیردارانہ نظام کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جاگیردار سیکڑوں ایکڑ زرعی زمین کا مالک ہو ۔ اور لاتعداد مزارعین اُس کی زمین پرمزدور کی صورت میں کھیتی باڑی کرتے نظر آئیں ۔ بلکہ جاگیردارانہ نظام دراصل ایک سوچ اورمخصوص رویے یا برتاؤ کا نام ہے ۔ یہ کمزور فریق کو دبانے اور اپنے سے طاقتور فریق کے سامنے سر جھکا دینے کا نام ہے ۔ اگر آپ غور کریں تو اپنے نظام میں آپکو قدم قدم پر یہ جاگیردار اور مزارع نظر آجائیں گے ۔ ہر جگہ طاقتور فرد کی حکمرانی نظر آئے گی اور قانون یا اللہ کی حاکمیت آپکو کہیں نظر نہیں آئے گی ۔ ہم اپنے موجودہ نظام کو لاکھ جمہوری نظام کا نام دیں ۔ پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتیں اور انتخابات سمیت وہ تمام لوازمات موجود ہوں ، جو ایک جمہوری نظام کی شناخت سمجھے جاتے ہیں ، لیکن جمہوریت آپکو کہیں ''محسوس'' نہیں ہوگی ۔ ہر جگہ طاقتور افراد کی حکمرانی نظر آئے گی ۔

یہی وجہ ہے کہ ایک جاگیردار پارلیمنٹ کی نشست پر الیکشن لڑنے کا ارادہ پہلے ظاہر کرتا ہے اور سیاسی جماعتوں سے انتخابی ٹکٹ کے لیے بعد میں رابطہ کرتا ہے ۔ بلکہ سیاسی جماعتیں ایسے طاقتور (ELECT ABLE) اُمیدواروں کی تلاش میں خود ماری ماری پھرتی ہیں ۔ اُمیدوار جانتا ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر تمام انتخابی حربے استعمال کرکے یہ نشست ہر صورت میں جیت لے گا اور وہ جیتتا بھی ہے ۔ لہذا اُسے کسی سیاسی جماعت کے منشور یا پروگرام سے واسطہ ہی نہیں ہوتا ہے ۔ اور اِسے ہم جمہوریت کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاگیردارانہ نظام میں ، جو شاید پوری دُنیا میں اور کہیں بھی اپنا وجود نہیں رکھتا ، ہر مزارع لاشعوری طور پر خود جاگیردار بننے کی خواہش رکھتا ہے ۔ ہر فرد اپنی جیب میں بیک وقت دو قسم کی نقابیں چھُپائے پھرتا ہے ۔ وقت اور حالات کے مطابق ، اُسے کون سی نقاب اپنے چہرے پر چڑھانی ہے ، جاگیردار کی یا مزارع کی ؟ یہ فیصلہ وہ چشمِ زدن میں کرتا ہے اور روپ بدلنے میں دیر نہیں لگاتا ۔ مثلاًایک ٹیکسی ڈرائیور ، جس رعونت کے ساتھ ، آپکے مطلوبہ مقام پر،آپ کو پہنچانے سے انکار کرتا ہے تو اُس وقت وہ ڈرائیور جاگیردار ہے اور آپ مزارع ۔

لیکن اِسی ڈرائیور کو جب ٹریفک کانسٹیبل روکتا ہے تو یہی ڈرائیور فوراً جاگیردا کی نقاب اُتار کر،مزارع کی نقاب اپنے چہرے پر چڑھا لیتا ہے ۔ اب ٹریفک کانسٹیبل جاگیردار ہے اورڈرائیور مزارع ہے ۔ حالانکہ قانون یہ کہتا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور ، ہر مسافر کو اُس کے مطلوبہ مقام پر پہنچانے کا پابند ہے ۔ لیکن قانون کی حکمرانی ہے کہاں ؟ اگر ہوتی تو ٹیکسی ڈرائیورانکار کرتا؟ یہ تو فیوڈل سسٹم ہے ۔ جہاں ایک سرکاری کلرک ، اپنی سرکاری کُرسی پر ، کسی سائل کے سامنے جاگیردار ہے اور اپنے باس کے کمرے میں گھُسنے سے قبل وہ جاگیردار کا چُولا بدل کر باس کا مزارع بن جاتا ہے ۔ اور اِسی جاگیردارانہ نظام کا ایک تیز دھار ہتھیار ، پولیس کا ہمارا موجودہ ڈھانچہ ہے ۔ جسے ایک غاصب قوم نے اپنے غلاموں پرکنٹرول حاصل کرنے کے لیے کھڑا کیا تھا ۔ لیکن اِسی پولیس کو اب ہمارے جاگیردار ، اپنے ووٹروں پر قابو رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ ہر لیڈر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تھانہ کلچر کو تبدیل کردے گا ۔ لیکن آج تک ایسا ہوا کیوں نہیں ؟ ایسا اُس وقت تک ہو بھی نہیں سکتا جب تک آپ اپنا ووٹ اِن جاگیرداروں کے حق میں استعمال کرتے رہیں گے ۔ آپ میں کتنی قوتِ برداشت ہے ؟ اِس کا فیصلہ خود آپکو کرنا ہے ۔
Load Next Story