دیسی ملی نغموں کو ڈسکو تڑکا
ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے قومی ترانے نہ صرف کانوں میں رس گھولتے تھے بلکہ سننے والے کو یکایک ماضی کے جھروکوں میں لے جاتے تھے جہاں سننے والا تصور ہی تصور میں اپنے آباؤ اجداد اور اسلاف کو آزادی کی تحریک چلاتے، دو قومی نظریے کے لئے اپنی جانوں پر کھیلتے اور قربانیاں دیتے دیکھتا، جس سے اس کے جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی تھی اور وہ بے اختیار تجدید عہد وفا کرنے لگ جاتا کہ ہم اپنے ملک کو بانیان اور اسلاف کے خوابوں کی تعبیر دیں گے۔
اگر پرانے دور کے کچھ ملی نغموں کی بات کی جائے تو جمیل الدین عالی، حمایت علی شاعر، جوش ملیح آبادی، غلام مصطفی تبسم اور دیگر شعراء کرام کے تحریر کردہ ترانے کمپوزر سہیل رانا، نثار بزمی اور دیگر موسیقاروں کی ترتیب دی گئی دھنیں آج بھی نہ صرف کانوں میں رس گھولتی ہیں، بلکہ انگ انگ میں پاکستانیت بھرنے لگ جاتی ہیں۔ اسی طرح ملکہ ترنم نورجہاں، نسیم بیگم، نیرہ نور، ناہید اختر، محمد علی شہکی، مہدی ظہیر، سلیم رضا، احمد رشدی، مہدی حسن اور عالمگیر سمیت دیگر گلوکاروں کے گائے گئے ملی نغمے جن میں مشہور زمانہ "ہم مصطفوی ہیں، میرا پیغام پاکستان، وطن کی مٹی گواہ رہنا، آج پھر گلشن توحید میں آئی ہے بہار، اللہ سے ڈرنے والے ڈرتے نہیں اور کسی سے، میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے، اے مرد مجاہد جاگ ذرا! اب وقت شہادت ہے آیا، جیوے جیوے پاکستان، اے وطن پیارے وطن اور یہ وطن تمہارا ہے، سوہنی دھرتی اللہ رکھے، اس پرچم کے سائے تلے اور ہم زندہ قوم ہیں" شامل ہیں۔
وہ ترانے ہیں جو آج بھی ہمیں اپنے پاکستانی ہونے کا فخریہ احساس بخشتے ہیں۔ اسی طرح جنید جمشید کا دل دل پاکستان آج بھی سب کا پسندیدہ نغمہ ہے۔ ناہید اختر نے "ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم" گا کر سبز ہلالی جھنڈے کو جو خراج عقیدت پیش کیا ہے، میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کہ اور کسی بھی ملک کے جھنڈے کے بارے میں ایسا کوئی نغمہ، ترانہ یا گانا تیار نہیں کیا جاسکا ہوگا۔ اس کے بعد کے گلوکاروں میں سجاد علی اور شہزاد رائے نے بھی اچھے ملی نغمے پیش کئے۔
مگر اب فن موسیقی اور موسیقاروں کو ری مکس اور ڈسکو فیور چڑھا ہے اس نے سولو اور میلوڈئس گانے تو کجا، جب حمد و نعت اور عارفانہ کلام تک کو نہیں بخشا تو ملی نغمے اور قومی ترانے کس کھیت کی مولی ہیں۔ اب ملی نغموں کے نام پر جو ری مکس سانگز پیش کئے جاتے ہیں ان کو سن کر نئی نسل کو ماضی سے کوئی واقفیت حاصل ہوسکتی ہے نا دھرتی ماں سے انسیت، قربانی دینے کا حوصلہ پیدا ہونا تو عبث ہے۔
وہ نظمیں اور ترانے اب ملی نغمے سے قومی گانے (نیشنل سانگ) میں تبدیل ہوگئے ہیں جنہیں سن کر ناچنے تھرکنے سے زیادہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ بعض مشہور زمانہ اور مقبول عام ملی نغموں کے ریمکس ورژن کا حال یہ ہے کہ اگر صرف وڈیو دیکھا جائے تو گمان بھی نہیں گزرے گا کہ یہ کوئی ملی نغمہ پیش کیا جارہا ہے، ایک قومی ترانے کے ری مکس وڈیو میں نوجوان خاتون سنگر کا لباس دیکھ کر نوجوان نسل میں جذبات ضرور بھڑک اٹھیں گے، مگر جذبہ حب الوطنی جاگنے کا امکان نہیں۔
اسی طرح ایک پرائیوٹ پروڈکشن نے مشہور زمانہ ملی نغمہ اے راہ حق کے شہیدوں کا ریمکس ورژن پیش کیا ہے جس میں معروف وغیر معروف صوفی، پاپ، راک اسٹار اور دیگر گلوکاروں نے مل کر ضرب عضب میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر بے ہنگم میوزک، پارٹی نائٹ لائٹنگ اور سنگرز کی ماڈلنگ اور فیشن شو کے باعث اس کی پریزنٹیشن ترانے کی روح کے بالکل برخلاف ٹھہری اور نغمہ کوئی خاص توجہ حاصل نہ کرسکا۔ اس گانے کو سوشل میڈیا پر جو لائیکس اور شئیرز مل رہے ہیں اس کی واحد وجہ مرحوم امجد صابری کا اس ٹریک میں موجود ہونا ہے، ورنہ سن 65 کی پاک بھارت جنگ کے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے نسیم بیگم اور نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا اصل نغمہ آج بھی جسم و دل کو جذبہ حب الوطنی اور شوق شہادت سے سرشار کر دیتا ہے۔
ملی نغموں کے نام پر ان ری مکس اور ڈسکو ٹائپ سانگز اور ان کے وڈیوز کو دیکھ کر عصرحاضر کے نوجوانوں میں کہاں سے بنیاد پرستی جنم لے گی۔ واضح رہے کہ یہاں بنیاد پرستی سے مراد انتہا پسندی ہرگز نہیں بلکہ وہ بنیاد ہے جس پر اس ملک کی تعمیر ہوئی ہے۔ ہاں البتہ آئی ایس پی آر کی جانب سے آج بھی بعض ایسے نغمے پیش کیے جاتے ہیں جن کا معیار واقعی بہت اعلیٰ اورایک عام شہری کے دلوں کو چھو جانے والا ہوتا ہے۔
یہاں پر ایک قابل ذکر واقعہ نقل کرتا چلوں کہ رات آفس سے گھر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک جگہ یویو ہنی سنگ کا ایک بے ہودہ سا گانا جس کے بول کچھ اس طرح سے ہیں کہ "جانو، آج رات کا سین بنا لے" کانوں سے ٹکرائے۔ مجھے لگا کہ شاید کوئی شادی والا ڈسکو ٹرک گزر رہا ہوگا کیونکہ آج کل عموماً اس طرح کے میوزک، ساؤنڈ سسٹم اور لائٹ سے مزین ٹرک بارات کے آگے پیچھے چلتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب میں نے آواز کی سمت گردن گھما کر دیکھا تو یقین جانیے دھک سے رہ گیا، یہ ریپ سانگ کسی ڈسکو ٹرک میں نہیں بلکہ جشن آزادی کی مناسبت سے لگائے گئے پاکستانی پرچموں، جھنڈیوں اور بیجز کے اسٹال پر بج رہا تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی نسل کو تحریک آزادی پاکستان کے لئے دی جانے والی قربانیوں سے آشنا کرائیں، باقاعدہ طور پر ان کے لئے ان ترانوں کا انتخاب اور اہتمام کریں جو انہیں ماضی کے جھروکوں میں لے جائیں، انہیں اپنے نظریے اور نظریے کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملکت خداداد سے تجدید عہد وفا کرنے پر مجبور کریں۔ ورنہ جو قومیں اپنے ماضی اور بنیادوں کو بھلا دیتی ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ بلکہ یوں کہیں کہ ان کی داستاں تک بھی نہیں رہتی داستانوں میں۔
[poll id="1195"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔