قومی اسمبلی سے منظور سائبر کرائم بل عدالت میں چیلنج

سائبر کرائم بل کی شق نمبر 10، 18 اور 32 آئین میں دئے گئے بنیادی اور آزادئ رائے کے حقوق کے متصادم ہیں، درخواست


ویب ڈیسک August 12, 2016
پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے سائبر کرائم بل لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، درخواست : فوٹو : فائل

پاکستان عوامی تحریک نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور ہونے والے سائبر کرائم بل کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق گزشتہ روز قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور ہونے والا سائبر کرائم بل عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری اشتیاق چوہدری نے لاہورہائی کورٹ میں بل کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ سائبر کرائم بل کی شق نمبر 10، 18 اور 32 آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے حقوق سے متصادم ہیں جب کہ ریاست بنیادی حقوق کے متصادم کوئی بھی قانون نہیں بنا سکتی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں سائبر کرائم بل کثرت رائے سے منظور

اشتیاق چوہدری نے اعتراض اٹھایا ہے کہ بل میں سائبر دہشت گردی کی شق نمبر 10 بھی شامل کی گئی ہے جو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے مساوی بن گئی ہے جب کہ ملک میں ایک ہی وقت میں 2 مساوی قوانین کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے علاوہ سائبر کرائم بل کی شق 18 میں بھی ہتک عزت کا نیا قانون متعارف کرایا گیا ہے جو پہلے سے موجود ہتک عزت قانون کے متصادم ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: سینیٹ نے سائبر کرائمز بل متفقہ طور پر منظور کرلیا

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 32 ویں شق میں ایف آئی اے کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں اس کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارہ کسی تحقیق کے بغیر ہی کسی بھی شہری کا موبائل اور کمپیوٹر ڈیٹا حاصل کرسکتا ہے، درخواست میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سائبر کرائم بل کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے جو آزادی رائے اور بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: اپوزیشن نے سائبر کرائم بل کو کالا قانون قرار دے کر مسترد کردیا

سائبر کرائم بل اب صدر مملکت کے پاس بھیجا جائے گا اور صدر کے دستخط کے بعد بل باقاعدہ قانون کا حصہ بن جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں