دو مستقل دشمن
ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو جب قوم اپنے صبح کے اخبارات دیکھ کر گھبرا جاتی ہو اخبار خبروں کا مجموعہ ہوتے ہیں
ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو جب قوم اپنے صبح کے اخبارات دیکھ کر گھبرا جاتی ہو اخبار خبروں کا مجموعہ ہوتے ہیں اور خبر سے زیادہ دلچسپ ''خبر'' کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن ہم نے اپنے حالات ایسے بنا لیے ہیں کہ ان کو سامنے دیکھ کر خود پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی شکل ایسی بگاڑ لی ہے کہ اسے خود ہی دیکھ نہیں پاتے۔ دیکھیں تو گھبرا جاتے ہیں آخر ملک کے اندر ایسے کیا فتنے پڑے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کو ہر وقت بدامنی سے دوچار کیے رہتے ہیں۔
بظاہر ایسی کوئی بات نہیں اور ہمارا ملک کسی ایسی پیچیدہ صورت حال سے دوچار نہیں کہ ہمیں ہر روز کسی بدامنی کے بڑے حادثے کا سامنا کرنا پڑے بلاشبہ یہ زمانہ پرانے روائتی امن کا زمانہ نہیں ہے اور کسی بھی مشرقی ملک خصوصاً کسی بھی مسلمان ملک کو چین نہیں لینے دیا جاتا۔ یہ ایک کھلی اور ثابت حقیقت ہے کہ دنیا کے بعض ممالک جو ایک طاقت بھی ہیں کسی مسلمان ملک کو اٹھتا اور پنپتا دیکھنا نہیں چاہتے بلکہ اب تو مسلمانوں کے مخالف ملکوں سے ایسی خبریں خود ان کے ذرایع سے موصول ہوتی ہیں جن کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ فلاں حادثہ اور واقعہ کسی مسلمان دشمن ملک کی سازش تھی جہانتک پاکستان کا تعلق ہے ہم تو اپنے ساتھ ہی ایک ہوشیار تاریخی دشمن لے کر پیدا ہوئے ہیں۔
سقوط ڈھاکا کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ تاریخ کچھ بھی کہے لیکن بھارت کی ہندو قوم کے جذبات کی یہ ایک صحیح ترجمانی تھی جو اس کے ایک مستند نمایندے نے ادا کیے تھے۔ ہم پاکستان کے شہری اور خصوصاً مسلمان شہری یہ کبھی فراموش نہ کریں کہ ہم ایک مستقل خطرے میں گھری ہوئی قوم ہیں جس کا ازلی و ابدی دشمن اس کے قریب ترین پڑوس میں سرگرم موجود ہے۔
اس قدر قریب کہ ایک پاکستان گھر میں کھانسے تو اس کا دیوار کے اس پار موجود قریب ترین پڑوسی اسے سنتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ہم پاکستانیوں کو اس تمام صورت حال کا احساس ہونا چاہیے اور میرا خیال ہے کہ پاکستانی اپنی اس حالت سے باخبر رہتے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے ورنہ ان کے ملک کا کوئی بھی حصہ کوئٹہ کی طرح کے حادثات کا شکار ہوتا رہے گا۔ درجنوں پاکستانی اچانک قربان ہوتے رہیں گے بدقسمتی سے ہمارا دشمن پڑوسی ہمارا محض ایک پڑوسی ہی نہیں ہمارے اندر گھسا ہوا ہے اگر ہم ذرا سی بھی سستی سے کام لیں تو ہمیں اس کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ یہ ہماری پڑوسی کی ایک مستقل بیماری ہے جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہمیں چمٹ گئی ہے اور اس سے مستقل جنگ ہماری مجبوری ہے۔
ہم پاکستانیوں کو اس بہت ہی پرانے اور تاریخی دشمن کا احساس ہے اور ہمارے درمیان کوئی کاروباری نہیں اور نہ ہی کسی اور قسم کا تنازعہ ہے بلکہ ہمارے درمیان تاریخ کا تنازعہ ہے جو تاریخ کے ساتھ زندہ رہے گا۔ ہماری تہذیب ہمارا کلچر اور ہمارے نظریات مختلف ہی نہیں متضاد ہیں اور یہ ہم نے پیدا نہیں کیے یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ اور عمل ہیں۔ ہم دو متضاد مذہبوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس تضاد کی وجہ سے کسی نہ کسی موقع پر ایسی تلخی پیدا ہو جاتی ہے جو کسی باقاعدہ جنگ تک لے جاتی ہے۔
ایک تو یہ ملک ہی جنگ لڑ کر حاصل کیا اور اس کے لیے اتنی قربانیاں دیں کہ ہماری قوم انھیں کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ پھر قیام کے بعد صلح کی کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو سکی جو کسی امن کا پیش خیمہ بن سکے بلکہ دونوں ملکوں کے اختلافات بعض اوقات اس قدر سخت بھی ہو گئے کہ باقاعدہ جنگ سے بھی حل نہ ہو سکے اور جنگ کی کیفیت ایک مستقل تکلیف دہ صورت اختیار کر گئی جو جاری ہے۔ دونوں ملکوں کی یہ چپقلش لگتا ہے جاری رہے گی کیونکہ ان کے درمیان صلح کی کوئی سبیل موجود نہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ بھارت کی مقبول ترین وزیراعظم اندرا گاندھی نے دونوں ملکوں میں اس اختلاف کا ذکر کیا۔ بہرکیف یہ محض دو ملکوں کا اختلاف نہیں دو قوموں کے درمیان ایک جاری و ساری جنگ بن گئی ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی حالت میں بھڑک اٹھتی ہے اور بہت سارا نقصان کر کے دم لیتی ہے۔
بہرکیف ہمیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا کیونکہ دونوں ملکوں کو کسی ایسی قیادت نصیب ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے جو ان کے درمیان حالات کی پیدا کردہ خرابیوں کو دور کر سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا بھارت جیسا پڑوسی ہے جو کسی بھی پرامن فضا کو قائم ہوتا نہیں دیکھ سکتا اور درست ہے کہ وہ اپنے دشمن کو کیوں سنبھلتا دیکھ سکے اس وقت تک اس کی خواہشات پوری ہو رہی ہیں۔