آزادی کا حقیقی تصور
پاکستان 1947ء میں دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست کے طور پر ظہور میں آیا۔
پاکستان 1947ء میں دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست کے طور پر ظہور میں آیا۔ (مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والی دوسری ریاست اسرائیل تھی)۔ پاکستاان کے دو بازوؤں میں 1000 میل کا فاصلہ تھا۔ یہ علاقہ کٹر دشمن کے قبضے میں تھا۔ پاکستان کے دونوں بازوؤں کو جوڑنے والا مذہب اسلام تھا جس نے مختلف نسلوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والوں کو باہم یکجان کر دیا تھا۔
یہ اپنی نوعیت کا ایک شاندار تجربہ تھا۔ عوام کو ایک مثالی اسلامی ریاست کی تشکیل کرنے کی پوری امید تھی جب کہ ان کے لیڈر خداداد صلاحیتوں کے حامل کرشماتی لوگ تھے جو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھے۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ میں حب الوطنی کا یہ جذبہ اپنے عروج پر پہنچ گیا تاہم معاہدہ تاشقند کے بعد مشرقی پاکستان میں اس معاہدے کے خلاف بطور احتجاج فسادات شروع ہو گئے لیکن مغربی پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناح کو ان کی دیانت اور یک جہتی کی وجہ سے بے حد عزت و تکریم حاصل تھی کیونکہ وہ جو کہتے تھے اس پر عمل کرتے تھے۔ بدقسمتی سے 1948ء میں قائد کا انتقال ہو گیا اور ان کے پیچھے اقتدار کی ہوس رکھنے والے مفاد پرستوں کا ایک ہجوم رہ گیا جن میں نہ تو عوام کے لیے کوئی کشش تھی اور نہ ہی انھیں عوام کی حمایت حاصل تھی۔ 1951ء میں لیاقت علی خان کے قتل سے مسلم لیگ کی سیاسی حیثیت اور کم ہو گئی۔
چالاک بیوروکریٹس نے نامعقول سیاستدانوں کے ساتھ مل کر مکمل سیاسی اور انتظامی اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ سول بیوروکریسی نے بڑے منظم انداز میں گورننس کے اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور گورنر جنرل کے طاقتور منصب سے سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور بالآخر وہ بیوروکریٹس سیاستدانوں سے بھی کہیں زیادہ طاقتور بن گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ قومیت کے جذبے میں علاقائیت شامل ہو گئی جس نے بعدازاں صوبائیت کی شکل اختیار کر لی۔ اردو کو ریاست کی واحد سرکاری زبان قرار دیدیا تا کہ ان کی طاقت اور زیادہ موثر ہو جائے لیکن اس سے بنگالیوں میں بددلی پھیل گئی جو اپنی تعداد کے لحاظ سے اکثریت میں تھے۔ اس سے بنگالی قومیت کے نعرے کو فروغ حاصل ہوا۔
سکندر مرزا نے غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے سے برطرف کر کے خود اس منصب پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے بہت سی حکومتوں کو تبدیل کیا تاآنکہ 1956ء میں پہلا آئین تتشکیل دیا گیا جس کے بعد سکندر مرزا نے بڑی آسانی سے مملکت کے پہلے آئینی صدر کا عہدہ سنبھال لیا لیکن یہ آئین 3 سال سے بھی کم عرصے میں فوجی جرنیلوں نے منسوخ کر دیا۔ سینئر بیوروکریٹس اور سیاستدانوں نے باہمی ملی بھگت سے مکمل اختیارات حاصل کر لیے البتہ ایوب خان کی حکومت میں ٹیکنو کریٹس نے فوجی حکام کے ساتھ مل کر ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کردار ادا کیا۔ ایوب خان کی فوجی حکومت پورے دس سال قائم رہی جس کے بعد جنرل یحییٰ کا مارشل لا نافذ ہو گیا جس میں 23 سال کے بعد 1970ء میں پہلے عام انتخابات منعقد کرائے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی لیکن یحییٰ خان حکومت کی پے در پے غلطیوں سے ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں جاگیردارانہ اشرافیہ کی جگہ سنبھال لی۔ اس سے قبل ملک پر مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ تاہم جنرل یحییٰ کے دور میں بھارت نے فوجی مداخلت کے ذریعے مشرقی پاکستان کو زبردستی علیحدہ کر دیا۔ تاریخ کے اس المیے نے بھارت کے ہاتھ میں ایک خطرناک ہتھیار دیدیا۔ پاکستان میں بعدازاں یکے بعد دیگرے فوجی حکومتیں قائم ہوئیں جن کا حقیقی مقصد خود غرضانہ' ذاتی وجوہات کی تسکین تھی۔ حکمرانی میں ذاتی مفادات کو مقدم رکھنے کے باعث ملک تنزل کا شکار ہونے لگا۔ صرف ایک مخصوص اقلیت اقتصادی مفادات حاصل کرتی رہی جب کہ عوام الناس کی معاشی حالت تباہی کا شکار ہو گئی۔ یکے بعد دیگر آنے والی حکومتوں نے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کو فائدے پہنچائے جس کے نتیجے میں عدل و انصاف کے غلط استعمال کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ملک میں حد درجے کی اقرباپروری اور کرپشن پھیل گئی۔ اس کے بعد مختلف فرقوں نے مذہب کی اپنے حساب سے تاویل شروع کر دی۔
سیاسی کرپشن کی جڑیں نوآبادیاتی دور سے ملتی ہیں جب برطانوی حکمرانوں نے اقربا پروری کو فروغ دیا اور اپنے وفاداروں کو زمینیں اور مناصب تقسیم کیے۔ دنیا بھر میں ہماری واحد ایسی جمہوریت ہے جس میں قانون سازی کرنے والوں کے اختیار میں تمام ترقیاتی فنڈ ہوتے ہیں۔ بڑے زمیندار کسی قسم کی زرعی اصلاحات کی مزاحمت کرتے ہیں تا کہ ان کے علاقے کے غریب عوام ان کی بالادستی کے اثر سے خارج نہ ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علاقے کے عوام کو تعلیم' خوراک اور تحفظ کی سہولتوں سے محروم رکھتے ہیں، موجودہ نظام کو اپنی مرضی کا رنگ دیکر جاگیرداری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ انتخابی نظام میں شہری اور دیہی آبادیوں کو اس انداز سے تقسیم کر دیا گیا ہے کہ صرف چند بڑی سیاسی پارٹیاں اور جاگیردارانہ خاندان اور مختلف سیاسی خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گئے جو مسلسل حکمرانی کر رہے ہیں ، ہمارے بہت سے چوٹی کے سرکاری حکام مشکوک طرز عمل اور کرپشن کے حوالے سے پاکستان میں باقاعدہ ایک نظام کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
کرپشن کے منظم جرائم کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے مالیاتی وسائل حاصل ہوتے ہیں۔ ہماری جمہوریت کا ایک مقصد مجرموں کو تحفظ فراہم کرنا بھی ہے جو جواب میں حکمرانوں کو جمہوریت کے نام پر مافیا جیسی حکمرانی کی طاقت فراہم کرتے ہیں۔ 1960ء کے عشرے میں پاکستان کو ترقی پذیر ملکوں میں ایک مثال سمجھا جاتا تھا لیکن ہمارا ملک ناخواندگی کے جال میں پھنس کر کرپشن' افراط زر' بری حکمرانی اور دہشت گردی کے حصار میں آ گیا۔ یکے بعد دیگرے نااہل اور کرپٹ لیڈروں کو جمہوریت کا لبادہ پہنا کر انھیں ہم پر حکومت کرنے کا موقع مہیا کر دیا جاتا ہے۔
حقیقی جمہوریت اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی وجہ سے قانون کی حکمرانی اور اچھی گورننس قائم نہیں ہو سکتی جس کے نتیجے میں منظم جرائم اور دہشت گردی کو بڑھاوا ملا جس سے حکومت کی ناکامی عیاں ہو گئی تاہم پاک فوج نے پیرا ملٹری اور رینجرز کی مدد سے کراچی میں امن قائم کرانے میں کامیابی حاصل کر لی البتہ کوئٹہ کے ہولناک سانحے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب تک ہمارے حکمران قومی ایکشن پلان (این اے سی) کے نفاذ کے لیے سیاست کھیلتے رہیں گے' ملک سے دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کیا جا سکے گا۔ ہمارے سیاستدانوں کو سرکاری خرچ پر ہر قسم کی حفاظت میسر ہے لہٰذا انھیں عوام کی حفاظت پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟
قائداعظم کو مکمل یقین تھا کہ پاکستان دنیا کا عظیم ترین ملک بن سکتا ہے لیکن پاکستان کے لیے ان کے خواب کا کیا حشر ہو چکا ہے۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ میاں نواز شریف جیسے لیڈر جن کو پنجاب میں مکمل اکثریت حاصل ہے وہ قائد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔ ان کی صحت قدرے ناساز ہے اور یہ تاثر پیدا ہورہا ہے ان کے گرد ایک مخصوص ٹولہ حکومت کر رہا ہے۔ آخر ایسے لوگ جمہوریت کے نام پر کس قسم کی حکمرانی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ یہ درست ہے کہ فوجی حکومت جمہوریت کا متبادل نہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ فرسودہ نظام کو کس طرح اصلاح پذیر بنایا جا سکتا ہے۔
ہم آزادی کی69 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اس موقع پر ہمیں سنجیدگی سے اپنے باطن کا جائزہ لے کر یہ پتہ چلانا چاہیے کہ ہمارا سیاسی نظام آخر کیوں ناکام ہوا ہے اور ہم سماجی اور اقتصادی طور پر ترقی سے کیوں محروم ہیں۔ ہمارے فوجی ملک کے دفاع کے لیے مسلسل جانیں قربان کر رہے ہیں جب کہ ہمارے لیڈر چھٹیاں گزارنے لندن اور دبئی چلے جاتے ہیں بلکہ سرکاری خرچے پر کابینہ کے اجلاس بھی بیرون ملک منعقد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا آزادی کا تصور اس انداز سے پروان نہیں چڑھ سکا۔