کوئٹہ میں جان کا نذرانہ

ایسے سانحے اچانک جنم نہیں لیتے زمانہ اپنے وجود پہ اس کی پرورش کرتا ہے


جاوید قاضی August 12, 2016
[email protected]

کاش! میں الفاظ کی ڈوری سے بن سکوں وہ تمثیل جس کو فیض صاحب کچھ اس طرح کوزے میں سماتے ہیں ''زرد پتوں کا بن جو ہرا دیس ہے'' تنکا تنکا درد کا میرے وجود میں رچ اور بس گیا ہے۔ کہاں گیا وہ خزینہ جس کی جنبش سے پرورش لوح و قلم کرتے تھے۔ لکھتے تھے، تجزیے رقم کرتے تھے۔ اب تو نہیں ہوتا یہ کام مجھ سے، کیسے ہو، اک انسان ہونے کے ناتے اتنا لہو جو ہولی کے رنگوں کی طرح بہے اور ہر طرف نگاہ جم کر پتھر بن جائے ۔ اک بھسم سے پوری کوئٹہ کی بارکو ہلا دیا جائے۔ سیکڑوں مائیں، بچے، بیویاں اپنوں کو لکھ بیٹھی ہوں۔ وہ میں ہی تو تھا۔ کالا کوٹ پہنے اپنے لیڈر کی لاش لیے سول اسپتال پہنچاتا، وہ آپ ہی تو تھے اپنی آنکھیں اسکرینوں پر پھنسائے بیٹھے تھے کہ ابھی لاش لی ہی نہیں تھی اپنے رہبر کی کہ ایک دم سے ایک اور خودکش دھماکہ ہوا پھر کیا ہوا؟ میں مر گیا کیوں نہ مروں مرنا ہی چاہیے روز روز کے جینے اور مرنے سے۔

کوئٹہ میں خون اس طرح بہا جیسے برف پگھلی ہو۔ بے بس لاچار ہزارہ، حقوق سے محروم بلوچ آزادی کی بات کرنے والے، عام نہتے شہری، ہماری سیکیورٹی کے لوگ اور پھر بالآخر پوری ہائی کورٹ کی آدھی بارکالا کوٹ لہو سے تر ہوگیا۔ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا، یہ ہے وہ کوئٹہ جس کو جنرل مشرف نے اکبربگٹی کو مار کے ایک نئی سلگتی راہ متعین کی۔ یہ ہے وہ شہر جس کو ہم نے پڑوس میں جنگیں دے کے افغان جہاد کے نام پر رقم کی تھی اور اب بھی ہم اچھے اور برے طالبان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

ملا منصور بھی یہاں مرتا ہے تو ملا عمر بھی یہاں رہتا تھا۔ کوئٹہ شوریٰ بھی یہیں ہے تو ہزارہ کو مارنے والے متوالے بھی سرکاری تحفظ میں یہیں رہتے ہیں تو بلوچ سرکردہ و علیحدگی پسند بھی ادھر، اسمگلنگ کرنے والے بھی ادھر، نارتھ وزیرستان کے بعد اب جنگ کوئٹہ شفٹ ہوگئی۔

ہوگا اس کے پیچھے کوئی ملک مگر یہ بات ثانوی اور بے معنی ہے جب تک اس بات کا تعین ہو کہ اس جرم میں ہم میں سے کون تھا۔ ہم بحیثیت ریاست کون سی کوتاہی کر بیٹھے اور بحیثیت شہری کس طرح ان انگلیوں پر کٹھ پتلی بن کر ناچ رہے تھے۔

ایسے سانحے اچانک جنم نہیں لیتے زمانہ اپنے وجود پہ اس کی پرورش کرتا ہے۔ یہ تو ورق ہیں ان سب زمانوں کے جب مذہب اور ریاست کو ایک کردیا گیا۔ جب آئین کے اندر اور باقی قوانین میں ایسی ترامیم کی گئیں جن کی وجہ سے قانون و آئین میں بگاڑ پیدا ہوا اور اب لیجیے یہ بگڑی ہوئی تصویر میری سول اسپتال کوئٹہ کے آنگن میں، بازار میں، اسکولوں کے میدانوں میں۔

لپٹ کے جھپٹنا اور جھپٹ کے لپٹنا یہ آپ لوگوں کو آتا ہوگا مگر مجھے امن چاہیے اور اس امن کا تعلق ہے فلاحی ریاست کے تصور سے، انصاف سے، انسانی حقوق سے، سب کو قانون برابری کی آنکھ سے دیکھے ۔کوئی قانون سے بالاتر خود کو نہ سمجھے۔

یہ پہلی بار تھا جب لوگوں نے ریاست کے اہم لوگوں کے اس بیان کے ماننے سے انکار کردیا کہ اس کے پیچھے ''را'' موجود ہے یا ''موساد'' موجود ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم جلدی نتیجے پہ پہنچ جاتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بھی کہ طالبان کے ایک گروپ نے ذمے داری قبول کی۔ ہم نے آپریشن کیا ان کے خلاف جنھوں نے بندوق اٹھائی ہوئی ہے ہم نے ان کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے جنھوں نے نفرت پھیلائی ہوئی ہے مذہب کے نام پر۔ ریاست، جو سچ بولے اسے غدار کا لقب دیتی ہے اور یہ لوگ جو ان کو بے نقاب کریں ان کو کافر قرار دے دیتے ہیں۔

آپ منہ سے جو زہر اگلو اس کی آپ کو کھلی چھوٹ ہے آپ اتنے نہ بگڑو کے ریاست کے خلاف بندوق اٹھاؤ، اس کا مطلب ؟ ہم اب بھی وہی افغان جہاد والا بیانیہ اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ بندوق تو اس بیانیہ کا شعر ہے یہ اس کی کوکھ سے پھوٹتا ہے۔

قانون ان کو کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ یہ وہی قانون ہے جس کے ذریعے مجرموں کو پھانسی ہوئی۔ یہ وہی قانون ہے جو نظریہ ضرورت کے بعد بار بار اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے۔ کتنا بھی سست رفتار کیوں نہ ہو اس میں انصاف دینے کی اب بھی سکت ہے۔ وہ اپنی روح میں آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 20 جس کی جسٹس تصدق جیلانی نے دو سال قبل تشریح کی تھی کہ سارے مذہب قانون کی آنکھ سے برابر ہیں۔ سب مذہب والوں کو برابر کے حق ہیں وہ آزاد ہیں بالکل اسی طرح جس طرح گیارہ اگست کی تقریر میں بابائے قوم جناح نے کہا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ قلم اٹھایا نہیں جاتا، میرے وجود کو کوئٹہ میں لہو سے نہلایا گیا ۔ میرا کالا کوٹ اس دریا میں ڈوب گیا۔ اتنے تو شکاگو میں مزدور بھی نہیں مرے تھے۔ اتنے وکیل تو تاریخ کے کسی ورق میں موجود نہیں کہ مارے گئے ہوں صرف سیکولر قانون کے نام پر۔ یہ قانون جو ہمارے آئین سے اپنی جگہ بناتا ہے۔ یہ دنیا میں مروج آفاقی اصولوں سے اپنی راہیں جوڑتا ہے اور یہی ہے جس کے پھلنے پھولنے سے پاکستان کی آیندہ کی راہیں متعین ہوتی ہیں۔ ہمارے بنیادی حقوق والے آئین میں حصہ دنیا کے سارے آئینوں میں مہذب دنیاؤں سے ہمیں جوڑتا ہے۔

APS کا واقعہ ہوا، ہماری پارلیمنٹ نے کڑوی گولی کھا کے اکیسویں ترمیم کی اور بنیادی حقوق، ان کے لیے بند کیے جو اس دہشت گردی میں ملوث تھے، اس طرح ہمارے آئین کی شکل اس حد تک بگڑی کہ کورٹ کو بیچ میں آنا پڑا آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح کرنے کے لیے کہ خود پارلیمنٹ اس حد تک ترمیم نہیں کرسکتی کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہی چھیڑے۔

اور کوئٹہ سانحہ نے یہ بات ثابت کردی اکیسویں ترمیم سے یہ مسئلے حل نہیں ہونگے، ملٹری کورٹس سے یہ مسئلے حل نہیں ہونگے اس کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

خدارا بند کریں ان پروگراموں کو، اینکروں کو، بولنے سے جن سے نفرت پھیلتی ہو۔ اس بیانیہ سے چھٹکارا حاصل کریں جس سے پاکستان کی نام نہاد سیکیورٹی ریاست کی تصویر اخذ ہوتی ہو۔

اس کے برعکس فروغ دیں اس بیانیہ کو کہ پاکستان ایک فلاحی اور مہربان ریاست ہے۔ عدالتوں کے فیصلوں پر سرخم تسلیم کریں خواہ وہ کتنے بھی تلخ یا انصاف کے قریب نہ ہوں۔ جمہوریت کو مانیں خواہ کتنی بھی اچھی حکمرانی نہ دے سکتی ہو۔

کل جب وکیل سڑکوں پر تھے تو اس تحریک میں یہ رنگ نہیں تھا کہ کون دائیں بازو کا ہے اور کون بائیں بازو کا۔ سب اس بات پر ایک تھے کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہو، قانون کی حکمرانی ہو۔

کل کوئٹہ کے وکیلوں کی اس عظیم قربانی نے ہم سب پر یہ واضح کردیا ہے کہ ہم آئین سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں چاہے ہم دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے۔

کوئٹہ میں وکیلوں پر حملہ، ہمارے آئین پر حملہ ہے۔ ایک ایسی قوت کا جو یہاں بغیر لوگوں کی مرضی کے اپنا قانون اپنی سوچ قابض کرنا چاہتی ہے، ہماری مرضی کے بغیر، ہم سے پوچھے بغیر۔

یاد رکھیے سماج میں کئی رنگ ہوتے ہیں، قومیں و زبانیں ہوتی ہیں، مذاہب ہوتے ہیں، ان سب کو برابری کی بنیادوں پر آگے لے جانا ہوتا ہے۔ اور اس سچ کے لیے کل کوئٹہ میں وکلا نے بالخصوص اور باقیوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

یہ لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں

دشمن اس ملک کے کوئی اور نہیں بلکہ ہم ہیں ہم خود۔ آج ہندوستان کو کشمیر میں شکست ہوئی اس کے باوجود کہ وہ بہت طاقتور ریاست ہے۔ اس کو اس کشمیر پر بنا یہ بیانیہ ڈس گیا۔ کل ہمارا مشرقی پاکستان پر بنایا ہمارا بیانیہ ہم کو ڈس گیا۔

ہمارے حکمران ہیں کہ جن کو چھٹیوں سے فرصت نہیں ملتی، حکمرانوں نے دبئی کو سندھ کا دارالحکومت بنایا ہوا ہے۔ یقیناً ہماری سیکیورٹی کے سربراہوں کو سراہنا ہوگا کہ وہ عید جا کے محاذوں پر کھڑے نوجوانوں کے ساتھ گزارتے تھے۔

ضرورت ہے سول و ملٹری قیادت کے ایک صفحے پہ آنے کی۔ناگزیر آیندہ کی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور اچھا پاکستان دینے کے لیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔