پنجاب کی سر زمین میں ’’چھٹا دریا‘‘ نجانے کہاں سے اُبل پڑا تھا ……

معروف ہندو ادیب فکر تونسوی کی پاکستان سے ہجرت کی درد انگیز کہانی


احمد رضوان August 14, 2016
معروف ہندو ادیب فکر تونسوی کی پاکستان سے ہجرت کی درد انگیز کہانی ۔ فوٹو : فائل

فکر تونسوی کے ایک ہم عصر طنز نگار کنہیا لال کپور نے کہا تھا کہ ''فکر تونسوی نے اردو ادب میں ایک لفظ تونسہ کا اضافہ کیا ہے۔''

تونسہ کوہ سلیمان کے دامن میں واقع جنوبی پنجاب کا اہم ترین شہر ہے، قیام پاکستان سے پہلے کا تونسہ کیسا تھا، اس کی روایات کیا تھیں، اس بارے میں فکر تونسوی بتاتے ہیں ''تونسہ کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے، تونسہ سے تین چار میل دور آزاد قبائل کی آبادیاں شروع ہو جاتی تھیں، تونسہ قیام پاکستان سے پہلے ہندوئوں اور مسلمانوں کا ملا جلا مسکن تھا، اسلامی فلسفہ حیات اور ہندو طرز فکر دونوں کا ملاپ یہاں کے باشندوں کو متاثر کرتا تھا، یہاں کی زمین پتھریلی ہے، کوہ سلیمان کے دروں سے ایک نالہ سنگھڑ نامی نکلتا تھا جو تونسہ کو سیراب بھی کرتا تھا اور کبھی کبھی اجاڑ بھی دیتا تھا۔

تونسہ میں دونوں مذہبی فلسفوں کی صحت مند اخلاقی اور سماجی قدریں اور مشترکہ رہن سہن تہذیبی سرگرمیوں میں جاری و ساری تھا، مذہبی منافرت جو سنٹرل انڈیا میں زہر ملا رہی تھی اس سے وہاں کے باشندے نہ صرف نا آشنا تھے بلکہ پاک تھے، خواجہ سلیمان تونسویؒ کی شخصیت پورے تونسہ میں عزت و افتخار کا باعث تھی ان کے عرس پر دور دور سے مسلمان آتے، ہندو بھی بصد احترام موجود رہتے، جب میں بڑا ہوا تو معلوم ہوا اس گائوں میں گزشتہ کئی نسلوں سے کوئی ایک دوسرے کی گردن نہیں ناپتا تھا، کہتے ہیں اس گائوں میں کبھی کسی کا سر کسی کے پتھر سے نہیں پھوڑا گیا، یہاں کبھی کسی کے قتل کی واردات نہیں ہوئی، چہ چہ چہ! کیا انسان بھی انسان کو قتل کرتا ہے۔''

تونسہ میں اپنی پیدائش کے حوالے سے فکر تونسوی کی تحریر کا ایک اقتباس دیکھیے: ''میں تونسہ میں پیدا ہوا، اگر تونسہ میں پیدا نہ ہوا ہوتا تو لاڑ کانہ میں ہو جاتا، ٹمبکٹو بھی کوئی بری جگہ نہیں تھی لیکن مجھے ہر جگہ فکر ہی کہا جاتا اور ہر جگہ میرا باپ چوہدری نارائن سنگھ کا میر منشی دھنپت رائے ہی ہوتا، جن کے گھر خلاف توقع ایک ادیب جنم لیتا اور دیوتا پھول نہ برساتے صرف اس ٹیکنیکل بنا پر کہ میر منشی کی چھت کے نیچے ڈیڑھ سو کمرے نہیں بلکہ ڈیڑھ کمرہ ہے''۔

فکر تونسوی 7 اکتوبر 1918ء کو تونسہ کے نواحی گائوں منگروٹھہ شرقی میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام رام لال بھاٹیہ تھا۔ فکر تونسوی کے دادا جن کا نام من موہت رائے تھا کی تونسہ میں بڑی عزت تھی وہ زمینداری بھی کرتے تھے اور تجارت بھی، تونسہ میں جب بھی کوئی تنازع پیدا ہوتا تو ان کے دادا من موہت رائے کو ہی ثالث بنایا جاتا، ان کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا تھا فکر تونسوی کے دادا کسی مکتب یا پاٹھ شالہ کے فارغ التحصیل نہ تھے، اس کے باوجود قبائلی زبان، اردو اور فارسی میں ملکہ رکھتے تھے۔ فکر تونسوی کے والد دھنپت رائے بھی انہی اوصاف کے مالک تھے۔

فکر تونسوی دھنپت رائے کے سات بیٹوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ دھنپت رائے جو اردو، فارسی، خواندگی اور حساب کتاب میں مہارت رکھتے تھے، قیام پاکستان سے پہلے ملتان کی تحصیل شجاع آباد میں ببلہ خاندان کے معروف زمیندار چوہدری نارائن سنگھ ببلہ کے ہاں میر منشی تھے، فکر تونسوی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ان کے والد کی نگرانی میں ہوئی، پانچویں جماعت میں فکر کو مدرسہ میں داخل کرایا گیا، ان کا پہلا مکتب مڈل سکول منگروٹھہ شرقی تھا، یہاں فکر آٹھویں جماعت تک پڑھے اور اول درجے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول تونسہ میں داخلہ لیا۔ میٹرک کے دنوں میں ہی فکر تونسوی کی ادبی صلاحیتوں کا اظہار ہونے لگا تھا، اردو ادب سے دلچسپی کے سبب فکر تقریری اور تحریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھ کر ان کے بعض اساتذہ کہا کرتے تھے ''رام لال تم ہم سے بھی آگے بڑھ رہے ہو، تمہاری علمی و ادبی سطح ہم سے بھی اونچی ہوتی جا رہی ہے۔'' میٹرک کے بعد فکر تونسوی نے ایمرسن کالج ملتان میں داخلہ لے لیا، ابھی انہوں نے ایف اے کا پہلا سال ہی مکمل کیا تھا کہ ان کے والد دھنپت رائے کا انتقال ہو گیا، یوں فکر تونسوی کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر روزی روٹی کی جنگ میں اترنا پڑا، فکر تونسوی کی پہلی ملازمت کا آغاز خوش نویسی سے ہوا، ایک مقامی خوشنویس کے پاس چند ہی دنوں میں کام چلائو حد تک خوشنویسی سیکھ لی تھی، یوں ڈسٹرکٹ شیخوپورہ کے ہفتہ وار اخبار ''کسان'' میں بطور خوش نویس کام کرتے رہے، یہ سلسلہ ایک سال تک چلا۔ ایک سال بعد فکر نے یہ نوکری چھوڑ دی اور ایک رنگریز جیمنی داس کے ہاں ملازم ہو گئے، یہاں ان کو پگڑیاں اور ڈوپٹے رنگنے اور چھپائی کا کام کرنا پڑا، چھ ماہ تک اس رنگریز کے پاس ملازمت کی، اس کے بعد یہ رنگین نوکری بھی چھوڑ دی۔

اب فکر تونسوی نے برو کے قلم سے خوشنویسی سیکھی، رنگریز کی نوکری سے رنگ ملا نے اور رنگ بنانے کا تجربہ تو حاصل کر ہی لیا تھا، اب فکر ایک پینٹر کی حیثیت سے ہاتھ میں برش سنبھالے بغل میں رنگوں کا خریطہ لیے دیواروں پر مختلف فرموں اور کمپنیوں کے اشتہارات کوئی چار ماہ تک لکھتے رہے، اس کے بعد فکر تونسوی عام پورہ ڈیرہ غازیخان کے ایک آریہ پرائمری سکول میں مدرس ہو گئے، ایک سال تک انہوں نے یہ ملازمت کی اس کے بعد ایک خوشبودار تیل بنانے والی کمپنی ''تیل چنبیلی اسپیشل'' کے مالک سے ایجنسی کے لیے بات کر لی، فکر سارے قصبے میں گھوم کر تیل فروخت کرتے رہے، منافع تو کیا ہونا تھا الٹا نقصان کر بیٹھے، یوں تیل کی ایجنسی بھی واپس کر دی۔ 3 سال تک ڈیرہ غازیخان میں معاشی جدوجہد سے تنگ آکر فکر تونسوی نے لاہور کا رخ کیا، ابتدائی طور پر انہوں نے ایک کتب خانہ میں کتابوں کے پیکٹ بنانے کا کام کیا، یہاں کام کرنے سے فکر کو بہت سی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ فکر جو ادیب بننا چاہتے تھے نے شیخوپورہ سے نکلنے والے ایک نیم ادبی و نیم فلمی ہفتہ وار کی ملازمت کر لی، اس رسالہ کا نام ''من کی موج'' تھا یہ آٹھ نو ماہ اس سے وابستہ رہے اس وقت فکر تونسوی کی عمر 22 سال تھی۔

اب فکر تونسوی ذہن و خیال کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے جب فیض احمد فیض کے بقول ''اندھیرے کی مہر لگتی ہے تو دن میں ستارے اترنے لگتے ہیں''، اب فکر بھی جوان تھے اور ان کی فکر بھی بلوغ حاصل کر چکی تھی۔ رام لال بھاٹیہ 1940ء کے قریب فکر تونسوی بن چکے تھے، اسی دور میں فکر ''ادب لطیف'' میں بطور کلرک داخل ہوئے، اس لطیف ماحول میں فکر تونسوی کی صلاحیتیں دو ایک سال میں اتنی نکھر آئیں کہ انہیں خود ''ادب لطیف'' کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ ادب لطیف اس زمانے کا ایک باوقار اور بے حد معیاری رسالہ تھا، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی ترقی اور فروغ میں فکر کی پرواز خیال کو کتنا دخل حاصل تھا لیکن اس زمانے کے سبھی لکھنے والے اس بات کو جانتے اور مانتے ہیں کہ فکر نے ہر ممکن طریقہ سے اس کا ادبی رنگ روپ نکھارنے میں بڑا حصہ لیا ہے۔



فکر تونسوی 1942ء میں ادب لطیف سے وابستہ ہو گئے تھے لیکن انہوں نے بطور ایڈیٹر ڈیڑھ سال خدمات انجام دیں، اس کے بعد ممتاز مفتی کے اشتراک سے اپنا علیحدہ پرچہ ''سویرا'' نکالنے لگے۔ یہ رسالہ دو ماہی تھا، سویرا اردو کے ادبی رسالوں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اس رسالہ کی وجہ سے اردو کے ادبی رسالوں کو ایک نیا وقار نئی بلندی اور نیا معیار حاصل ہوا۔ سویرا نے اس وقت ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا، صوری اور معنوی دونوں حیثیتوں سے ''سویرا'' آج بھی ادبی رسالوں کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔

فکر تونسوی کچھ عرصہ بعد سویرا کو ممتاز مفتی کے حوالے کر کے دوبارہ ادب لطیف سے وابستہ ہو گئے تھے۔ 1944ء میں ان کی شادی کیلاش کماری سے ہوئی، فکر اپنی اہلیہ کو لے کر لاہور آگئے، یہاں وہ ایک مطمئن زندگی گزار رہے تھے، ادبی شہرت اور مقبولیت بھی ان کے قدم چومنے لگی تھی۔ پنجاب کی سر زمین کے پانچ دریا وہاں کی سر زمین کو نہ صرف سیراب کر رہے تھے بلکہ فکر کی تشنہ کام زندگی بھی بڑی حد تک اسی سر زمین سے وابستہ ہو کر اپنی پیاس بجھا رہی تھی۔

بقول فکر تونسوی ''پانچ دریائوں سے سیراب ہونے والا یہ صوبہ اپنی قدیم ادبی و تہذیبی روایات رکھتا تھا، پنجاب ہندو مسلم تہذیب کے امتزاج کا وہ مقام تھا جہاں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا دریا بھی بہتا تھا۔ پنجاب میں ہندو، سکھ اور مسلمان شیرو شکر ہو کر رہتے تھے لیکن ان دریائوں سے علیحدہ ایک چھٹا دریا بھی تھا جو نجانے کہاں سے اور کدھر سے یکایک ابل پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس بھیانک دریا نے صرف پنجاب ہی کو نہیں بلکہ سارے ہندوستان کو زیر آب کر دیا، اس چھٹے دریا کے نیچے ہندوستان کی ساری تہذیب، ساری عظمت اور بھائی چارگی کی عظیم روایات، انسانیت اور احترام آدمیت کے سارے اصول تمام اخلاقی قدریں' دوستیاں' محبتیں' اخلاقی اصول مذاہب' مسجد کی اذانیں' مندر کے ناقوس' گردواروں کے شاندار کلس اور تمام آئین خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے''۔

نصیر الدین احمد بوگس حیدرآبادی کے بقول ''اس وقت بے شمار انسانوں میں فکر بھی شامل تھے جو اپنی نہیں بلکہ انسانیت کی فکر کر رہے تھے' انسانیت سوزی کا یہ چھٹا دریا فکر کی زندگی اور ان کے فکر و خیال کو ایک نیا موڑ دیتا ہے۔ اب فکر وہ فکر نہیں تھے جو مشق سخن میں مشغول رہتے تھے' اب انہیں انسانیت کی فکر تھی' تہذیب کی فکر تھی' اخلاقی قدروں کی فکر تھی' اعلیٰ انسانی آدرشوں کی فکر تھی' فکر کی زندگی میں 1947ء کی تقسیم کا سانحہ بڑی اہمیت رکھتا ہے' 1947ء میں فکر تونسوی نے لاہور میں انسانیت سوزی کے ایسے ہولناک واقعات دیکھے جو ہمیشہ کیلئے ان کے ذہن پر مرتسم ہو گئے۔''

فکر تونسوی جو قیام پاکستان کے دنوں میں لاہور میں مقیم تھے' نے تقسیم کے ہولناک مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا' تقسیم اور ہجرت کے حوالے سے ان کی ڈائری پر مبنی کتاب ''چھٹا دریا'' کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ سہیل عظیم آبادی ''چھٹا دریا'' کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

''جب لاہور میں آگ اور خون کا تماشا ہو رہا تھا تمام ہندو اور سکھ لاہور چھوڑ رہے تھے تو وہ (فکر تونسوی) لاہور میں رہا' اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ ان کے گھروں میں' اسے خود اپنے اوپر اور اپنے دوستوں پر بھروسہ تھا' اس نے کبھی بے اطمینانی محسوس نہیں کی' شاید سارے لاہور میں وہ تنہا ہندو تھا جو ان ہنگامہ خیز دنوں میں شہر کے اندر اور مسلمانوں کے ساتھ گھومتا رہا' ہوٹلوں میں چائے پیتا رہا۔''

فکر تونسوی لاہور میں کٹھن حالات میں گھرے ہوئے تھے لیکن ان کے سچے دوست اور بہی خواہ یعنی عارف عبدالمتین' قتیل شفائی اور ممتاز مفتی سایہ کی طرح فکر کے ساتھ رہے اور انہی کی دوستی اور محبت نے فکر کو انسان پر بھروسہ کرنے اور یقین کرنےپر مجبور کر دیا لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے' فکر کیلئے یہ طے کرنا مشکل تھا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے' حالات کا تقاضا تھا کہ فکر لاہور چھوڑ دیں لیکن فکر کی یہ خواہش تھی کہ وہ لاہور میں ہی رہیں' ایک طرف جان و مال کی سلامتی تھی تو دوسری طرف وضعداری اور وفاداری کا تقاضا تھا کہ جہاں کے ہو وہیں کے ہو رہو' اس تذبذب اور کشمکش میں بھی فکر نے اپنا فکری توازن قائم رکھا لیکن حالات ایسے تھے کہ فکر تونسوی کیلئے عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ فکر مدت تک لاہور چھوڑنے اور نہ چھوڑنے کی اذیت میں گرفتار رہے' وہ اپنے احساس کو ''چھٹا دریا'' میں یوں اُجاگر کرتے ہیں:

''میں تذبذب میں گرفتار ہوں' لاہور کو چھوڑ دینے کی خواہش میری روح کے نہاں خانے سے جاتی ہی نہیں' کتنا عذاب ہے، یہ کتنی اذیت ہے' میں سوچتا ہوں کہ میری یہ ضد صالح ہے کہ میں لاہور میں رہ کر تبادلہ آبادی کے تصور کو جھٹلا دوں' میری ضد میں انفرادی تڑپ ہے لیکن اس کے پیچھے ایک اجتماعی احساس بھی تو ہے''
آخر فکر تونسوی اس نتیجہ پر پہنچے:

''میری لاہور چھوڑنے کی خواہش پھر تیز ہو گئی لیکن اب اس خواہش کے پس منظر میں نہ تو ضد ہے اور نہ ہی جھلاہٹ اور نہ گھبراہٹ اور نہ فراریت بلکہ ان سب جذبوں کی تہوں کو چیرتی ہوئی ایک چمکیلی سی لکیر اُبھر آئی ہے''

انہی دنوں فکر تونسوی نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا لیکن پریشانی یہ تھی کہ فکر تونسوی کے بیوی بچے تونسہ میں تھے اور فکر لاہور میں اپنے دوستوں کے پاس تھے۔ ان دنوں ہر طرف مار کاٹ ہو رہی تھی' ان حالات کے پیش نظر فکر تونسوی جو ایک ہندو تھے اکیلے تونسہ نہیں جانا چاہتے تھے سو انہوں نے اپنے دوستوں قتیل شفائی اور احمد راہی کو اس ''مشن'' کیلئے تیار کیا لیکن ان دنوں تونسہ میں کیا حالات تھے یہ فکر تونسوی کی زبانی سنیے:

''جب تقسیم ہندو پاک کا سانحہ پیش آیا اور جس کے نتیجے میں سارے ہندوستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی لیکن تونسہ کی سرزمین ایسی تھی جہاں کسی ہندو یا مسلمان کا ایک قطرہ بھی خون نہیں بہا۔ حضرت (خواجہ سلیمان تونسویؒ پیر پٹھان) کے گدی نشینوں نے جن کو قومی یکجہتی کی تعلیم دی گئی تھی' نے اپنی خانقاہوں میں سارے تونسہ کے ہندو حضرات کو پناہ دی' ہندو حضرات جتنے دن خانقاہوں میں مقیم رہے ان کیلئے تین وقت کھانے اور چائے کا مفت انتظام کیا گیا۔ گدی نشینوں نے صرف اتنا ہی نہیں کیا بلکہ انہیں اپنی حفاظت میں لے کر دستوں کی شکل میں یہ ہندو حضرات جہاں جانا چاہتے تھے وہاں وہاں ان کی منزلوں تک بحفاظت تمام پہنچایا۔''

معروف شاعر قتیل شفائی جو 1946ء میں مری ٹرانسپورٹ کمپنی کی ملازمت چھوڑ کر ''ادب لطیف'' سے وابستہ ہو گئے تھے فکر تونسوی کے قریب ترین دوستوں میں شامل تھے۔ قتیل شفائی اپنی آپ بیتی ''گھنگھرو ٹوٹ گئے'' کے صفحہ 106 پر رقم طراز ہیں:

''جب تقسیم ہوئی تو فکر تونسوی لاہور میں تھے اور ان کی بیوی تونسہ میں تھی' یہ بیوی بچوں کے ساتھ لاہور میں رہنا چاہتے تھے' اس لئے انہوں نے مجھے کہا کہ کسی طرح تونسہ جا کر میری بیوی کو لے آئو' میں نے اپنے ساتھ اپنے دوست احمد راہی کو تیار کیا۔ فکر تونسوی پہلے ہی بیوی کے نام خط ارسال کر چکے تھے کہ قتیل شفائی اور احمد راہی آ رہے ہیں ان کے ساتھ آ جانا' اس نے ایک خط اپنے سسرال کے نام دستی لے جانے کیلئے بھی ہمیں دیا جس میں یہی لکھا تھا کہ میری بیوی کو ان کے ساتھ بھیج دینا اور فکر کی کوئی بات نہیں۔ ہم بڑے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے اور سہمے ہوئے لوگوں کے مناظر دیکھتے ہوئے ملتان سے کشتیوں والے پُل سے دریا عبور کر کے تونسہ پہنچے' سب سے پہلے ہم وہاں کے پیر صاحب جن کا نام خواجہ نظام الدین تونسوی تھا' کے پاس گئے، اس وحشت ناک دور میں بھی ہم نے اس شخصیت کو مینارہ ء نور پایا۔

انہوں نے وہاں کے تمام غیر مسلم لوگوں کو اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا اور اعلان کر رکھا تھا کہ جو لوگ یہاں رہنا چاہتے ہیں امن اور حفاظت میں رہیں گے اور جو جانا چاہتے ہیں انہیں بحفاظت کیمپوں میں پہنچا دیا جائے گا۔ انہوں نے اپنا ایک آدمی ہمارے ساتھ کیا اور ہم فکر تونسوی کے سسرال جا پہنچے' ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو فکر کی ساس دروازے پر آئیں' ہم نے پوچھا کہ فکر تونسوی کا خط آپ کو ملاہے؟ کہنے لگیں کہ ملا ہے' میں نے دوسرا خط انہیں دیتے ہوئے کہا ''فکر صاحب نے کہا ہے کہ بھابی کو ہمارے ساتھ بھیج دیں کیونکہ وہ لاہور میں رہنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ''ہم اس کی بیوی کو کیمپ میں بھیج چکے ہیں اور وہ وہاں سے اب تک انڈیا جا چکی ہو گی''۔ دراصل وہاں پر یقین اور بے اعتمادی کا ایسا حال تھا کہ کسی کو کسی پر یقین نہیں تھا' جب ہم 1952ء میں دہلی فکر تونسوی کے گھر گئے تو بھابی نے بتایا ''میں اس وقت گھر ہی میں تھی' میں جانتی تھی کہ آپ فکر صاحب کے دوست ہیں' میں ان کے ساتھ ہی رہنا چاہتی تھی۔

میں اس وقت دروازے کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی اور بولنا چاہتی تھی لیکن انہوں نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور مجھے بولنے نہیں دیا''۔ معروف شاعر قتیل شفائی کی بائیو گرافی ''گھنگھرو ٹوٹ گئے'' میں ان کے تونسہ جانے کا واقعہ کچھ ادھورا ہے لیکن فکر تونسوی کی تقسیم کے حوالے سے ڈائری پر مبنی کتاب ''چھٹا دریا'' میں یہ واقعہ اپنی پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ دراصل اس وقت خواجہ نظام الدین تونسوی نے فکر تونسوی کے بیوی بچوں کو قتیل شفائی کے ساتھ بھیجنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ ''میں ایک مسلمان کے ساتھ ایک ہندو کے بیوی بچوں کو نہیں بھیج سکتا'' انہوں نے ہی انہیں یہ کہہ کر فکر تونسوی کے سسرال بھیجا تھا کہ اگر وہ راضی ہو جائیں تو آپ فکر تونسوی کے بیوی بچوں کو لے جائیں لیکن فکر تونسوی کے سسرال والوں نے بھی قتیل شفائی اور احمد راہی کے ساتھ فکر تونسوی کے بیوی بچوں کو بھیجنے سے انکار کر دیا تھا، فکر تونسوی کے بیوی بچے خواجہ نظام الدین تونسوی نے ہی اپنے حفاظتی دستہ کے ساتھ کیمپوں تک پہنچائے تھے۔
فکر تونسوی کا ادبی سفر
فکر تونسوی کی ادبی زندگی کا آغاز سکول کی تعلیم کے دوران ہی ہو گیا تھا، ابتدا فکر نے شاعری اور غزل گوئی سے کی، ان کی پہلی غزل کے دو شعر دیکھیے:

وہی تو غضب سے جیتا وہی میں غضب سے ہارا
ابھی تو نے روک رکھا ہے کہیں کوئی اک اشارا
تری شعبدہ پسندی سے نبھا رہا ہوں اب تک
کبھی کھو گیا سمندر، کبھی کھو گیا کنارا

شروع میں فکر تونسوی کی شاعری چھوٹے میگزینوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی مگر سنجیدہ آغاز اس وقت ہوا جب ان کی نظم ''شہنائی'' ادبی دنیا میں شائع ہوئی، حلقہ ارباب ذوق لاہور نے اسے سال کی بہترین نظم قرار دیا، 1943 میں مکتبہ اردو لاہور اور ادب لطیف سے وابستگی کے دوران ہمایوں، ادب لطیف اور ادبی دنیا میں تواتر سے ان کا کلام شائع ہونے لگا، 1945ء میں ممتاز مفتی کے اشتراک سے دو ماہی میگزین ''سویرا'' شروع کیا، 1946ء میں ایک مرتبہ پھر ادب لطیف سے وابستہ ہوئے 1947ء میں ان کی نظموں کا مجموعہ ''ہیولے'' کے نام سے شائع ہوا، تقسیم کے بعد شاعری چھوڑ دی اور مکمل طور پر مزاح اور طنز نگاری کی طرف آگئے۔

تقسیم کے فوری بعد ان کی نثر یہ تصنیف ''چھٹا دریا'' سامنے آئی جو فسادات پر ایک درد ناک ڈائری کی فارم میں تھی، فسادات کے حوالے سے ان کی کتاب ''ساتواں شاستر'' کے نام سے بھی سامنے آئی، 1950ء سے 1987ء تک ان کی 16 تصانیف سامنے آئیں جن میں تیرنیم کش (1953)، پروفیسر بدھو (1954) ماڈرن الہ دین (1955) خدو خال (1955) ساتواں شاستر (1955) ہم ہندوستانی ہندی (1957) بدنام کتاب (1958) آدھا آدمی (1959) آخری کتاب (1959) پیاز کے چھلکے (1972) چھلکے ہی چھلکے (1973) فکر بانی (1982) گھر میں چور (1983) میں آپ بیتی حصہ اول (1987) میری بیوی آپ بیتی حصہ دوم (1987) اس کے علاوہ بھی ان کی کتابیں فکر نامہ، وارنٹ گرفتاری، چوپٹ راج، بات میں گھات، فکریات اور فکر بیتی کے نام سے شائع ہوئیں۔

1985ء میں فکر تونسوی نے رسالہ چنگاری کا ''اردو میں سو سالہ کالم نگاری'' پر ایک ضیخم نمبر مرتب کیا تھا فکر تونسوی نے سٹیج اور ریڈیو کے لیے بہت سے ڈرامے بھی لکھے، انہوں نے روزنامہ ملاپ دہلی میں پیاز کے چھلکے کے نام سے 25 سال تک روزانہ کالم بھی لکھا۔ فکر تونسوی کا انتقال 1987ء میں دماغ کی شریان پھٹنے سے ہوا، خواجہ نصیر احمد بوگس حیدر آبادی نے 1981ء میں فکر تونسوی شخصیت اور طنز نگاری کے موضوع پر ایم اے کا مقالہ تحریر کیا تھا جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوا، ہم نے اس مضمون کی تیاری میں بوگس حیدر آباد کی کتاب سے ہی مدد لی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں