نئی دنیا کی نئی ایجادات سولر بیٹریاں بندر نما روبوٹ نظر نا آنے والا شیشہ
ٹیکنالوجی کے شعبے میں نئی نئی ایجادات نے دنیا بھر میں ہلچل مچارکھی ہے
KARACHI:
ایلن مسک ایک کام یاب موجد ہے جس نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں نئی نئی ایجادات کرکے دنیا بھر میں ایک ہلچل مچادی ہے۔ اب اس نے ایسی گاڑیاں بھی تیار کرلی ہیں جو شمسی توانائی سے چلیں گی۔ اس ضمن میں یہ گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے نے ''پاور وال'' نامی انقلابی بیٹریاں تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جو شمسی توانائی سے تیار کی جاسکیں گی اور ان کے ذریعے شمسی توانائی اور بھی زیادہ آسانی سے انسانی گرفت میں آجائے گی۔
یہ بیٹری سبھی کسٹمرز کو مزید سہولیات فراہم کردے گی، کیوں کہ اس کے ذریعے کسٹمرز سولر پینل کے ذریعے پیدا کی گئی شمسی توانائی کو اسٹور کرسکیں گے اور جب یہ سولر پینل توانائی پیدا نہیں کررہے ہوں گے تو ان بیٹریوں کو استعمال کیا جاسکے گا۔ مثال کے طور پر یہ بیٹریاں رات کے وقت کام آسکیں گی اور جب موسم ابرآلود ہوگا یعنی سورج نہیں نکلا ہوگا تو انہی بیٹریوں کی مدد سے کام چلایا جاسکے گا۔ عام بجلی اور شمسی توانائی سے بنائی جانے والی بجلی میں یہی فرق ہے کہ عام بجلی چوبیس گھنٹے مل سکتی ہے، مگر شمسی توانائی سے ملنے والی توانائی صرف اسی وقت مل سکتی ہے جب سورج نکلا ہوا ہو۔ اسی لیے مذکورہ بیٹریاں تیار کی گئی ہیں، تاکہ ان کے توسط سے شمسی توانائی ہر وقت مل سکے۔
دوسری جانب ایلن مسک کا کہنا ہے کہ ان شمسی توانائی سے تیار کردہ بیٹریوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اندر اسٹور کی گئی توانائی یا تو خود بہ خود ختم یا جذب ہوجاتی ہے یا پھر یہ بہت زیادہ مہنگی پڑتی ہے، اس لیے ہم نے ایسی بیٹریاں تیار کی ہیں جن میں مذکورہ بالا مسائل نہیں ہوں گے اور یہ خاصی سستی بھی پڑیں گی، کیوں کہ ہماری نظر میں وہ لوگ زیادہ اہم ہیں جن کی قوت خرید بہت کم ہے اور انہیں اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے سب کام کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ایسی بیٹریاں تیار کی ہیں جو چار فٹ لمبی، تین فٹ چوڑی اور سات انچ موٹی ہیں جنہیں گھروں کے اندر یا باہر آسانی سے رکھا جاسکتا ہے۔ آنے والے وقت میں ان کی قیمتیں مزید کم ہوجائیں گی۔
*
کسی حادثے کی صورت میں بہ آسانی ملبہ اٹھا سکے گا
جب ہم مستقبل کے روبوٹس کا تصور کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اکثر چلتی پھرتی ایسی تصویریں ابھرتی ہیں جو انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر کھڑے ہوتے ہیں، اپنے ہاتھوں کی مدد سے سامنے رکھی چیزوں کو پکڑتے اور ایک جگہ سے اٹھاکر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔
ناسا کی Jet Propulsion لیباریٹری ایک مختلف انداز کے روبوٹ پر کام کررہی ہے جو کسی بھی تباہی کے موقع پر کام کرے گا، اس کا ڈیزائن کسی بندر جیسا ہے اور وہ اسی کی طرح حرکت بھی کرے گا۔
اس بندر نما روبوٹ کا سر نہیں ہے، لیکن اس کی جگہ سات کیمرے لگائے گئے ہیں جو اس روبوٹ کے لیے آنکھوں کا کام کرتے ہیں۔ اس روبوٹ کا نام Simian رکھا گیا ہے جس کے چار ایک جیسے limbs یا جوڑ ہیں اور یہ جوڑ اس روبوٹ کے لیے بازوؤں اور ٹانگوں دونوں کا کام کرتے ہیں۔ یہ جوڑ اس روبوٹ کو غیرمسطح یا ناہموار سطح اور کوڑے کرکٹ وغیرہ میں بھی آسانی سے حرکت دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ملبے پر پڑی ہوئی چیزوں کو اٹھا بھی سکتا ہے اور چھانٹ بھی سکتا ہے۔ اس روبوٹ میں پہیے بھی لگے ہوئے ہیں۔ اگر ساحل پر سطح ہموار ہے تو یہ وہاں بھی آسانی سے چل پھر سکتا ہے۔
Simian نامی یہ روبوٹ ایک مقابلے کے دوران منظر عام پر آیا۔ اس مقابلے میں ایسے روبوٹ رکھے گئے تھے جو کسی بھی ہنگامی صورت حال میں بڑی مہارت کے ساتھ کام کرسکتے ہیں جیسے نیوکلیئر تباہی۔ ان میں سے ایک روبوٹ تو ایسا تیار کیا گیا ہے جو ایسے ماحول میں جاسکتا ہے جو انسانوں کے لیے نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ روبوٹ ہر قسم کے خطرناک حالات میں مشکل سے مشکل کام آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سادہ اور عام سے کام بھی کرسکتے ہیں جیسے کسی حادثے کے بعد ملبہ اٹھانا یا کوئی والو بند کرنا۔
مقابلے میں حصہ لینے والے ان روبوٹس سے بہت سے ایسے کام بھی کروائے جائیں گے جہاں رکاوٹیں ہوں گی۔ اس کے علاوہ ہر روبوٹ کار چلائے گا، ملبے اور کوڑے کرکٹ میں حرکت کرے گا، کوئی اوزار استعمال کرے گا اور سیڑھیوں پر بھی چڑھنے کا مظاہرہ کرے گا، لیکن یہ تمام کام یہ روبوٹ انسانی کنٹرول کے بغیر انجام دیں گے۔
*
اسٹرلائزنگ اسپرےنظر نہ آنے والا شیشہ
اس وقت سائنس کی دنیا میں تازہ ترین ایجاد ایک اسٹرلائزنگ اسپرے ہے جو اصل میں نظر نہ آنے والے شیشے کی نہایت باریک کوٹنگ ہے جس سے اس سطح کی حفاظت بھی ہوتی ہے اور یہ مضبوط بھی ہوجاتی ہے۔ یہ کوٹنگ پانی، دھول، مٹی، دھبوں، پھپھوندی، بیکٹیریا اور وائرس سے بھی تحفظ دیتی ہے۔ یہ مائع والی کوٹنگ تُرکی میں نیو مٹیریلز کے Saarbrücken انسٹی ٹیوٹ میں تیار کیا گیا ہے جسے Nanopool GmbH نے پیٹینٹ کیا ہے۔ یہ ایک لچک دار اور سانس لینے کے قابل اسپرے ہے جو شیشے کی فلم پر کیا جاتا ہے۔
یہ فلم لگ بھگ 100نینومیٹر چوڑی ہے( یعنی ایک انسانی بال سے پانچ سو گنا پتلی) اور اس کے زندگی کے مختلف شعبوں میں متعدد استعمال ہوتے ہیں۔ یہ کوٹنگ ماحول دوست ہے جسے گرین ایپل ایوارڈ بھی ملا ہے۔ اس کوٹنگ کو کسی بھی سطح کو صاف کرنے کے لیے اسپرے کیا جاتا ہے اور یہ اس سطح کو لمحوں میں صاف کردیتا ہے۔
اس اسپیشل گلاس کوٹنگ کو "SiO2 ultra-thin layering" کہا جاتا ہے جو عملی طور پر پانی، الٹرا وائلٹ ریڈی ایشن، دھول، گرمی، تیزاب، دھبوں، پھپھوندی، بیکٹیریا اور وائرسز سے حفاظت کرتی ہے۔ جرمنی میں کئی فوڈ پراسیسنگ پلانٹس کا کہنا ہے کہ جس سطح پر یہ اس اسپرے کی کوٹنگ کی جاتی ہے، اسے صاف کرنے کے لیے صرف گرم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیمبرج یونی ورسٹی کے پروفیسر کولن ہمفریز کا کہنا ہے کہ یہ لیکوئیڈ گلاس بہت سے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے نتائج نہایت حیرت انگیز محسوس ہورہے ہیں۔
ایلن مسک ایک کام یاب موجد ہے جس نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں نئی نئی ایجادات کرکے دنیا بھر میں ایک ہلچل مچادی ہے۔ اب اس نے ایسی گاڑیاں بھی تیار کرلی ہیں جو شمسی توانائی سے چلیں گی۔ اس ضمن میں یہ گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے نے ''پاور وال'' نامی انقلابی بیٹریاں تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جو شمسی توانائی سے تیار کی جاسکیں گی اور ان کے ذریعے شمسی توانائی اور بھی زیادہ آسانی سے انسانی گرفت میں آجائے گی۔
یہ بیٹری سبھی کسٹمرز کو مزید سہولیات فراہم کردے گی، کیوں کہ اس کے ذریعے کسٹمرز سولر پینل کے ذریعے پیدا کی گئی شمسی توانائی کو اسٹور کرسکیں گے اور جب یہ سولر پینل توانائی پیدا نہیں کررہے ہوں گے تو ان بیٹریوں کو استعمال کیا جاسکے گا۔ مثال کے طور پر یہ بیٹریاں رات کے وقت کام آسکیں گی اور جب موسم ابرآلود ہوگا یعنی سورج نہیں نکلا ہوگا تو انہی بیٹریوں کی مدد سے کام چلایا جاسکے گا۔ عام بجلی اور شمسی توانائی سے بنائی جانے والی بجلی میں یہی فرق ہے کہ عام بجلی چوبیس گھنٹے مل سکتی ہے، مگر شمسی توانائی سے ملنے والی توانائی صرف اسی وقت مل سکتی ہے جب سورج نکلا ہوا ہو۔ اسی لیے مذکورہ بیٹریاں تیار کی گئی ہیں، تاکہ ان کے توسط سے شمسی توانائی ہر وقت مل سکے۔
دوسری جانب ایلن مسک کا کہنا ہے کہ ان شمسی توانائی سے تیار کردہ بیٹریوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اندر اسٹور کی گئی توانائی یا تو خود بہ خود ختم یا جذب ہوجاتی ہے یا پھر یہ بہت زیادہ مہنگی پڑتی ہے، اس لیے ہم نے ایسی بیٹریاں تیار کی ہیں جن میں مذکورہ بالا مسائل نہیں ہوں گے اور یہ خاصی سستی بھی پڑیں گی، کیوں کہ ہماری نظر میں وہ لوگ زیادہ اہم ہیں جن کی قوت خرید بہت کم ہے اور انہیں اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے سب کام کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ایسی بیٹریاں تیار کی ہیں جو چار فٹ لمبی، تین فٹ چوڑی اور سات انچ موٹی ہیں جنہیں گھروں کے اندر یا باہر آسانی سے رکھا جاسکتا ہے۔ آنے والے وقت میں ان کی قیمتیں مزید کم ہوجائیں گی۔
*
کسی حادثے کی صورت میں بہ آسانی ملبہ اٹھا سکے گا
جب ہم مستقبل کے روبوٹس کا تصور کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اکثر چلتی پھرتی ایسی تصویریں ابھرتی ہیں جو انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر کھڑے ہوتے ہیں، اپنے ہاتھوں کی مدد سے سامنے رکھی چیزوں کو پکڑتے اور ایک جگہ سے اٹھاکر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔
ناسا کی Jet Propulsion لیباریٹری ایک مختلف انداز کے روبوٹ پر کام کررہی ہے جو کسی بھی تباہی کے موقع پر کام کرے گا، اس کا ڈیزائن کسی بندر جیسا ہے اور وہ اسی کی طرح حرکت بھی کرے گا۔
اس بندر نما روبوٹ کا سر نہیں ہے، لیکن اس کی جگہ سات کیمرے لگائے گئے ہیں جو اس روبوٹ کے لیے آنکھوں کا کام کرتے ہیں۔ اس روبوٹ کا نام Simian رکھا گیا ہے جس کے چار ایک جیسے limbs یا جوڑ ہیں اور یہ جوڑ اس روبوٹ کے لیے بازوؤں اور ٹانگوں دونوں کا کام کرتے ہیں۔ یہ جوڑ اس روبوٹ کو غیرمسطح یا ناہموار سطح اور کوڑے کرکٹ وغیرہ میں بھی آسانی سے حرکت دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ملبے پر پڑی ہوئی چیزوں کو اٹھا بھی سکتا ہے اور چھانٹ بھی سکتا ہے۔ اس روبوٹ میں پہیے بھی لگے ہوئے ہیں۔ اگر ساحل پر سطح ہموار ہے تو یہ وہاں بھی آسانی سے چل پھر سکتا ہے۔
Simian نامی یہ روبوٹ ایک مقابلے کے دوران منظر عام پر آیا۔ اس مقابلے میں ایسے روبوٹ رکھے گئے تھے جو کسی بھی ہنگامی صورت حال میں بڑی مہارت کے ساتھ کام کرسکتے ہیں جیسے نیوکلیئر تباہی۔ ان میں سے ایک روبوٹ تو ایسا تیار کیا گیا ہے جو ایسے ماحول میں جاسکتا ہے جو انسانوں کے لیے نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ روبوٹ ہر قسم کے خطرناک حالات میں مشکل سے مشکل کام آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سادہ اور عام سے کام بھی کرسکتے ہیں جیسے کسی حادثے کے بعد ملبہ اٹھانا یا کوئی والو بند کرنا۔
مقابلے میں حصہ لینے والے ان روبوٹس سے بہت سے ایسے کام بھی کروائے جائیں گے جہاں رکاوٹیں ہوں گی۔ اس کے علاوہ ہر روبوٹ کار چلائے گا، ملبے اور کوڑے کرکٹ میں حرکت کرے گا، کوئی اوزار استعمال کرے گا اور سیڑھیوں پر بھی چڑھنے کا مظاہرہ کرے گا، لیکن یہ تمام کام یہ روبوٹ انسانی کنٹرول کے بغیر انجام دیں گے۔
*
اسٹرلائزنگ اسپرےنظر نہ آنے والا شیشہ
اس وقت سائنس کی دنیا میں تازہ ترین ایجاد ایک اسٹرلائزنگ اسپرے ہے جو اصل میں نظر نہ آنے والے شیشے کی نہایت باریک کوٹنگ ہے جس سے اس سطح کی حفاظت بھی ہوتی ہے اور یہ مضبوط بھی ہوجاتی ہے۔ یہ کوٹنگ پانی، دھول، مٹی، دھبوں، پھپھوندی، بیکٹیریا اور وائرس سے بھی تحفظ دیتی ہے۔ یہ مائع والی کوٹنگ تُرکی میں نیو مٹیریلز کے Saarbrücken انسٹی ٹیوٹ میں تیار کیا گیا ہے جسے Nanopool GmbH نے پیٹینٹ کیا ہے۔ یہ ایک لچک دار اور سانس لینے کے قابل اسپرے ہے جو شیشے کی فلم پر کیا جاتا ہے۔
یہ فلم لگ بھگ 100نینومیٹر چوڑی ہے( یعنی ایک انسانی بال سے پانچ سو گنا پتلی) اور اس کے زندگی کے مختلف شعبوں میں متعدد استعمال ہوتے ہیں۔ یہ کوٹنگ ماحول دوست ہے جسے گرین ایپل ایوارڈ بھی ملا ہے۔ اس کوٹنگ کو کسی بھی سطح کو صاف کرنے کے لیے اسپرے کیا جاتا ہے اور یہ اس سطح کو لمحوں میں صاف کردیتا ہے۔
اس اسپیشل گلاس کوٹنگ کو "SiO2 ultra-thin layering" کہا جاتا ہے جو عملی طور پر پانی، الٹرا وائلٹ ریڈی ایشن، دھول، گرمی، تیزاب، دھبوں، پھپھوندی، بیکٹیریا اور وائرسز سے حفاظت کرتی ہے۔ جرمنی میں کئی فوڈ پراسیسنگ پلانٹس کا کہنا ہے کہ جس سطح پر یہ اس اسپرے کی کوٹنگ کی جاتی ہے، اسے صاف کرنے کے لیے صرف گرم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیمبرج یونی ورسٹی کے پروفیسر کولن ہمفریز کا کہنا ہے کہ یہ لیکوئیڈ گلاس بہت سے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے نتائج نہایت حیرت انگیز محسوس ہورہے ہیں۔