معمول کی سارک وزرائے داخلہ کانفرنس میں کیسے غیرمعمولی ہوگئی ۔ ۔ ۔
بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کا تعصب خود انہی کے گلے پڑگیا، کانفرنس کا دلچسپ احوال
بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ ان دنوں سخت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ بھارت کے شدت پسند حلقے ان کے دورہ پاکستان کے سخت مخالف تھے لیکن راج ناتھ نے ان کی ایک نہ سنی اور پاکستان چلے آئے۔ انھیں سارک کے وزرائے داخلہ کے اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔ اس کانفرنس میں رکن ممالک نے علاقائی سکیورٹی کے موضوع پر گفتگو کرنا تھی تاہم اجلاس سے چند ہفتے قبل مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی صورت حال نے دونوں ملکوں کے مابین سخت کشیدگی پیدا کردی۔
پاکستان، انڈیا، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ اور نیپال پر مشتمل علاقائی تعاون کی تنظیم کے ڈھاکہ میں منعقدہ سربراہی اجلاس 2005 ء میں طے پایا تھا کہ رکن ممالک کے وزرائے داخلہ ہر سال باقاعدگی سے ملاقات کریں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر تعاون کو بڑھایا جا سکے۔ پہلا اجلاس ڈھاکہ میں 2006ء میں ہوا جبکہ آخری اجلاس ستمبر 2014 میں کٹھمنڈو میں منعقد ہوا تھا۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس ساتواں تھا۔ بھارت نے اپنے وزیرداخلہ کو اس شرط کے ساتھ پاکستان بھیجا کہ پاکستانی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان مہمان وزیر سے ملاقات نہیں کریں گے۔ چوہدری نثار علی خان نے جواب میں کہا کہ انھیں بھی ملنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ وہ بھی اسی پچ پر کھیلیں گے جس پر بھارت کھیلے گا۔
راج ناتھ سنگھ دوبار شدت پسند بھارتی جماعت' بھارتیہ جنتا پارٹی'(بی جے پی) کے سربراہ رہ چکے ہیں، وہ تیرہ برس کے تھے کہ دہشت گرد گروہ راشٹریہ سیوک سنگھ( آر ایس ایس) میں شامل ہوئے، یہ اُن افراد میں سے ایک تھے جو کسی بھی قیمت پر بابری مسجد شہید اور رام مندر تعمیر کرناچاہتے تھے۔ موصوف اور ان کا گروہ ہندوتوا کا خواب دیکھ رہاہے، وہ اپنے آپ کو پورے جنوبی ایشیا کا آقا و مالک سمجھتاہے، چنانچہ اس کی باتیں اور حرکتیں، اسی احمقانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔
وہ نیپال اور بنگلہ دیش ایسے ممالک کو اپنا باجگزار سمجھتاہے، سری لنکا پر بھی اپنا کنٹرول جمانا چاہتاتھا۔ ایک وقت تھا جب یہ گروہ پاکستان کے ناکام ریاست بننے کے خواب دیکھا کرتاتھا لیکن جب یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا تو اس نے اپنے ہمسائیہ ملک کے ساتھ دشمنی اور سازشیں شروع کردیں۔کشمیر دونوں ممالک کے درمیان باعث نزاع ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر پربہرصورت اپنا تسلط قائم رکھناچاہتاہے، وہ کشمیری قوم کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں، تاہم آٹھ جولائی کو کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت سے وادی جموں وکشمیر کی فضا ایسی بدلی کہ بھارتی قیادت سخت پریشان ہوگئی۔ وہ سمجھتی تھی کہ کشمیر میں تحریک آزادی کچل دی گئی ہے اور اب کبھی حریت پسند سر نہیں اٹھاسکیں گے تاہم برہان وانی کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں تحریک آزادی کا ایسا رنگ دیکھنے کو ملا کہ اس کی مثال نوے کی دہائی میں بھی دیکھنے کو نہ ملی۔
آج ہر گھر اور ہر عمارت پر پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے اور ہزاروں نوجوان اسی سبزہلالی پرچم کے سائے تلے مظاہرے کررہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کی دیواریں آزادی، برہان وانی اور پاکستان سے محبت پر مبنی نعروں سے مزین ہیں۔ حالات (بھارت کے لئے) اس قدر خراب ہیں کہ قریباً گزشتہ ایک ماہ کے دوران زیادہ تر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ رہا۔ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی محبوبہ مفتی حکومت ان حالات سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ برہان وانی کے خلاف کوئی لفظ بولنے کو بھی تیار نہیں ہے۔
کرفیو اور خوف کے اسی عالم میں گزشتہ دنوں راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا، جہاں انھوں نے کہا: ''کشمیر میں پاکستان کا کردار صحیح نہیں ہے۔ کشمیر پر پاکستان کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔'' اس سے قبل بھی انھوں نے کہا تھا:'' پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ملک میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے''۔حالانکہ موصوف مئی 2016ء میں کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت کی پالیسیوں کی بدولت گزشتہ دوبرسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی مداخلت52فیصد کم ہوئی۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کے لئے بھارتی دانشوروں اورپالیسی سازوں کو کوئی سرا نہیں مل رہاتھا۔ تب بھارتی میڈیا پر بیٹھے ہوئے بھارتی تجزیہ نگاروں نے صاف اعتراف کیاتھا کہ اس تحریک کے پیچھے پاکستان کا کوئی ہاتھ نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسے میں راج ناتھ کے مذکورہ بالا بیانات فرسٹریشن کے عکاس ہی قراردئیے جاسکتے ہیں۔ ان بیانات کے جواب میں پاکستانی مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ''وقت آگیا ہے کہ انڈیا جموں اور کشمیر کے عوام کو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کرائے جانے والی رائے شماری میں حقِ خود ارادیت کا موقع فراہم کرے، جب عوام کی اکثریت انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرے گی تو دنیا کشمیری عوام کا فیصلہ تسلیم کرے گی۔''
بہرحال راج ناتھ پاکستان آئے، انھوں نے اسلام آباد میں سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایسا انداز اور الفاظ استعمال کئے جو کسی بھی طورپر کوئی ذی ہوش شخص بول ہی نہیں سکتا۔ ظاہرہے کہ ان کی باتیں فرسٹریشن زدہ تھیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور دہشت گردوں کو ہیروز کے طورپر پیش کرنے سے باز رہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کی مدد کرنے و الے ممالک کے خلاف سخت قدم اٹھائے جائیں اور انھیں یکا وتنہا کردیاجائے۔ ان کے بقول ''دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ان تنظیموں، افراد اور ممالک کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کو شہید کہہ کر ان کی ستائش نہیں کی جانی چاہئے''۔
بھارتی وزیرداخلہ کی تقریر کے جواب میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کو دہشت گردی قراردیتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں فرق ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیاجاناچاہئے نہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان کی جدوجہد آزادی کو دبایاجائے۔ مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر طاقت کا استعمال انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ان کا آزادی کا حق تسلیم کیاجاناچاہئے۔
جب پاکستانی وزیرداخلہ یہ باتیں کررہے تھے، راج ناتھ بھی کانفرنس میں موجود تھے۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی سرحد پار سے ہورہی ہے اور سرحد پار سے ہی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور، چارسدہ دھماکے، گلشن اقبال پارک لاہور جیسے واقعات دنیا کے سامنے ہیں جن میں ہمارا قیمتی جانی نقصان ہوا۔پاکستان کے اندرونی معاملات میں ڈھٹائی سے مداخلت کی جارہی ہے۔سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس ہمارے لئے بہت تشویش کا باعث ہے، ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سانحہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایاجائے۔پاکستانی وزیرداخلہ نے کہاکہ دہشت گردی کی آڑ میں آزادی کی تحریکوں کو کچلا یا دبایا نہیں جاسکتا، دہشت گردی کے نام پر سیکورٹی فورسز کی طرف سے عام شہریوں کو نشانہ بنانا غلط ہے، دہشت گردی کے پردے میں نہتے کشمیریوں پر ظلم کو کیا نام دیں گے، آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد نہیں کہاجاسکتا''۔
روایت یہ ہے کہ سارک فورم پر سیاسی معاملات پر بات نہیں ہوتی لیکن وزرا ئے داخلہ کے اجلاس میں بھارتی وزیرداخلہ نے سارک وزرائے داخلہ میٹنگ کو شاید بھارتی کابینہ کا اجلاس سمجھ لیاتھا، انھیں میٹنگ کے آداب ہی بھول گئے، پاکستانی وزیرداخلہ نے بھارتی ہم منصب کی تقریر کا صرف جواب دیا ورنہ سب کچھ معمول کے مطابق ہی سرانجام دیاجارہاتھا۔ چودھری نثار نے صرف ریکارڈ کی درستگی کے لئے نہایت شائستگی اور وقار کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، بھارت کانام لئے بغیر اپنا موقف بیان کیا۔
انھوں نے راج ناتھ کو باور کرایا کہ بھارت کوپاکستان کے بارے میں تحفظات ہیں تو پاکستان کو بھی بھارت کے بارے میں ایسے ہی تحفظات ہیں، انھوں نے واشگاف اندازمیں کہا کہ دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دہشت گردی کے نام پر نہتے شہریوں پر فائرنگ کی جائے، ان کو شہید کیاجائے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایاجائے۔آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے اور معصوم بچوں اور شہریوں پر وحشیانہ تشدد دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بات راج ناتھ سنگھ برداشت نہ کرسکے اور کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے۔
چوھدری نثارعلی خان نے اپنی پریس کانفرنس میںکہا: ''ناراض ہوکر اٹھ کر چلے جانا مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حل مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ تمام سارک ممالک نے اصل ایجنڈے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، ایجنڈا بالکل نارمل تھا لیکن پتہ نہیں بھارتی نمائندے کے دل میں کیاتھا؟'' کانفرنس کے بارے میں ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ دورانِ کانفرنس راج ناتھ سنگھ آٹھ بار اپنے وزیراعظم سے فون پر بات کرنے کے لئے واش روم گئے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ بھارتی وزیرداخلہ اپنے وزیراعظم کو کیسے لمحہ بہ لمحہ کانفرنس کی کارروائی سے آگاہ کررہے تھے اور ان سے ہدایات وصول کررہے تھے۔ اب اسلام آباد کانفرنس کے بعد پورے بھارت میں کہرام مچا ہواہے۔
جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، بھارتی متعصب حلقے ایک سے بڑھ کر ایک نئی کہانی گھڑ رہے ہیں۔ کانفرنس ختم ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں ، اب انھوں نے ایک نئی کہانی تیار کی ہے کہ پاکستانی حکام نے بھارتی صحافیوں کو کانفرنس ہال کے دروازے کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیاگیا۔ یہ بھی کہاگیا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر پاکستانی صحافیوں نے بھارتی صحافیوں کو اس اندازمیں گھیرے میں لئے رکھا کہ بھارتی میڈیا پرسنز اپنا کام ہی نہ کرسکے۔ اس سے پہلے بھارتی میڈیا اس نکتہ پر بحث ومباحثہ میں مصروف تھا کہ راج ناتھ کو اسلام آباد جانا چاہئے تھا یا نہیں۔
کانفرنس میں بھارتی وزیرداخلہ کی شرکت کے مخالف حلقے بغلیں بجارہے تھے کہ ان کا موقف درست ثابت ہوا، وہ راج ناتھ کو نہ جانے کو کہہ رہے تھے لیکن انھوں نے بات نہیں مانی اور کانفرنس میں جاکر عزت گنوائی۔تاہم راج ناتھ کے ایک قریبی ساتھی نے ایک بھارتی جریدے کو بتایا کہ بھارتی وزیرداخلہ بھی ایک مرحلے پر شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن پھر دو واقعات ہوئے جن کے سبب انھوں نے کانفرنس میں شرکت کرنا ضروری سمجھا۔ اولاً: پاکستانی پارلیمان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کی تحقیقات کرے، ثانیاً: حافظ محمد سعید اور سید صلاح الدین نے دھمکی دی تھی کہ وہ راج ناتھ سنگھ کو پاکستانی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیرداخلہ نے اپنا ذہن تبدیل کیا۔ راج ناتھ کے حامی حلقوں کی طرف سے یہ وضاحتیں شدت پسند ہندوحلقوں کو مطمئن کرنے کے لئے کافی نہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ راج ناتھ نے پاکستان میں بھارت کی عزت خاک میں ملادی،یہی وجہ ہے کہ وہ بھارتی وزیرداخلہ کی تصویروں پر مبنی پوسٹرز نذر آتش کررہے ہیں۔
کانفرنس میں راج ناتھ کی تقریر سے چودھری نثار علی خان سخت ناراض تھے، چنانچہ جب دونوں کا آمنا سامنا ہواتو انھوں نے راج ناتھ سے بغیر گرم جوشی سے مصافحہ کیا، بعدازاں جب مہمان وزرائے داخلہ کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیاگیاتو راج ناتھ وہاں نہیں آئے، وہ اپنے طے شدہ شیڈول سے انحراف کرتے ہوئے دو گھنٹے قبل ہی خصوصی طیارے پر واپس دہلی لوٹ گئے۔ وہ کانفرنس کی مکمل روداد اپنے وزیراعظم کو سنانے کے لئے اس قدر بے تاب تھے کہ دہلی ائیرپورٹ پر طے شدہ پریس کانفرنس بھی منسوخ کردی اور سیدھے وزیراعظم ہاؤس پہنچے، اگلے روز انھوں نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے رونادھونا شروع کردیا کہ ان کے ساتھ پاکستان میں اچھا سلوک نہیں ہوا۔ اس پر پارلیمان میں شورشرابا شروع ہوگیا، مطالبہ کیاگیا کہ پاکستان کے ساتھ سختی سے پیش آناچاہئے۔
اترپردیش کے اس ٹھاکر راج ناتھ کو اسلام آباد میں بخوبی اندازہ ہوچکاہوگا کہ وہ پوری دنیا دہلی نہیں ہے کہ جہاں ان کی الٹی سیدھی باتیں سنی جائیں اور برداشت کی جائیں۔ موصوف بھارت کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو رات دن پاکستان پر الزام دھرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ان کی ایک بات کا خود بھارت میں بھی خوب مذاق اڑایاگیا جب انھوں نے کہا کہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ وطالبات کے احتجاج کے پیچھے لشکرطیبہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کا ہاتھ تھا۔ اب اسلام آباد کانفرنس میں بھی انھوں نے ایسے ہی اندازمیں بے پر کی اڑائی نتیجتاً انھیں ملی رسوائی۔
پاکستان، انڈیا، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ اور نیپال پر مشتمل علاقائی تعاون کی تنظیم کے ڈھاکہ میں منعقدہ سربراہی اجلاس 2005 ء میں طے پایا تھا کہ رکن ممالک کے وزرائے داخلہ ہر سال باقاعدگی سے ملاقات کریں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر تعاون کو بڑھایا جا سکے۔ پہلا اجلاس ڈھاکہ میں 2006ء میں ہوا جبکہ آخری اجلاس ستمبر 2014 میں کٹھمنڈو میں منعقد ہوا تھا۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس ساتواں تھا۔ بھارت نے اپنے وزیرداخلہ کو اس شرط کے ساتھ پاکستان بھیجا کہ پاکستانی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان مہمان وزیر سے ملاقات نہیں کریں گے۔ چوہدری نثار علی خان نے جواب میں کہا کہ انھیں بھی ملنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ وہ بھی اسی پچ پر کھیلیں گے جس پر بھارت کھیلے گا۔
راج ناتھ سنگھ دوبار شدت پسند بھارتی جماعت' بھارتیہ جنتا پارٹی'(بی جے پی) کے سربراہ رہ چکے ہیں، وہ تیرہ برس کے تھے کہ دہشت گرد گروہ راشٹریہ سیوک سنگھ( آر ایس ایس) میں شامل ہوئے، یہ اُن افراد میں سے ایک تھے جو کسی بھی قیمت پر بابری مسجد شہید اور رام مندر تعمیر کرناچاہتے تھے۔ موصوف اور ان کا گروہ ہندوتوا کا خواب دیکھ رہاہے، وہ اپنے آپ کو پورے جنوبی ایشیا کا آقا و مالک سمجھتاہے، چنانچہ اس کی باتیں اور حرکتیں، اسی احمقانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔
وہ نیپال اور بنگلہ دیش ایسے ممالک کو اپنا باجگزار سمجھتاہے، سری لنکا پر بھی اپنا کنٹرول جمانا چاہتاتھا۔ ایک وقت تھا جب یہ گروہ پاکستان کے ناکام ریاست بننے کے خواب دیکھا کرتاتھا لیکن جب یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا تو اس نے اپنے ہمسائیہ ملک کے ساتھ دشمنی اور سازشیں شروع کردیں۔کشمیر دونوں ممالک کے درمیان باعث نزاع ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر پربہرصورت اپنا تسلط قائم رکھناچاہتاہے، وہ کشمیری قوم کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں، تاہم آٹھ جولائی کو کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت سے وادی جموں وکشمیر کی فضا ایسی بدلی کہ بھارتی قیادت سخت پریشان ہوگئی۔ وہ سمجھتی تھی کہ کشمیر میں تحریک آزادی کچل دی گئی ہے اور اب کبھی حریت پسند سر نہیں اٹھاسکیں گے تاہم برہان وانی کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں تحریک آزادی کا ایسا رنگ دیکھنے کو ملا کہ اس کی مثال نوے کی دہائی میں بھی دیکھنے کو نہ ملی۔
آج ہر گھر اور ہر عمارت پر پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے اور ہزاروں نوجوان اسی سبزہلالی پرچم کے سائے تلے مظاہرے کررہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کی دیواریں آزادی، برہان وانی اور پاکستان سے محبت پر مبنی نعروں سے مزین ہیں۔ حالات (بھارت کے لئے) اس قدر خراب ہیں کہ قریباً گزشتہ ایک ماہ کے دوران زیادہ تر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ رہا۔ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی محبوبہ مفتی حکومت ان حالات سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ برہان وانی کے خلاف کوئی لفظ بولنے کو بھی تیار نہیں ہے۔
کرفیو اور خوف کے اسی عالم میں گزشتہ دنوں راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا، جہاں انھوں نے کہا: ''کشمیر میں پاکستان کا کردار صحیح نہیں ہے۔ کشمیر پر پاکستان کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔'' اس سے قبل بھی انھوں نے کہا تھا:'' پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ملک میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے''۔حالانکہ موصوف مئی 2016ء میں کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت کی پالیسیوں کی بدولت گزشتہ دوبرسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی مداخلت52فیصد کم ہوئی۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کے لئے بھارتی دانشوروں اورپالیسی سازوں کو کوئی سرا نہیں مل رہاتھا۔ تب بھارتی میڈیا پر بیٹھے ہوئے بھارتی تجزیہ نگاروں نے صاف اعتراف کیاتھا کہ اس تحریک کے پیچھے پاکستان کا کوئی ہاتھ نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسے میں راج ناتھ کے مذکورہ بالا بیانات فرسٹریشن کے عکاس ہی قراردئیے جاسکتے ہیں۔ ان بیانات کے جواب میں پاکستانی مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ''وقت آگیا ہے کہ انڈیا جموں اور کشمیر کے عوام کو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کرائے جانے والی رائے شماری میں حقِ خود ارادیت کا موقع فراہم کرے، جب عوام کی اکثریت انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرے گی تو دنیا کشمیری عوام کا فیصلہ تسلیم کرے گی۔''
بہرحال راج ناتھ پاکستان آئے، انھوں نے اسلام آباد میں سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایسا انداز اور الفاظ استعمال کئے جو کسی بھی طورپر کوئی ذی ہوش شخص بول ہی نہیں سکتا۔ ظاہرہے کہ ان کی باتیں فرسٹریشن زدہ تھیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور دہشت گردوں کو ہیروز کے طورپر پیش کرنے سے باز رہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کی مدد کرنے و الے ممالک کے خلاف سخت قدم اٹھائے جائیں اور انھیں یکا وتنہا کردیاجائے۔ ان کے بقول ''دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ان تنظیموں، افراد اور ممالک کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کو شہید کہہ کر ان کی ستائش نہیں کی جانی چاہئے''۔
بھارتی وزیرداخلہ کی تقریر کے جواب میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کو دہشت گردی قراردیتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں فرق ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیاجاناچاہئے نہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان کی جدوجہد آزادی کو دبایاجائے۔ مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر طاقت کا استعمال انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ان کا آزادی کا حق تسلیم کیاجاناچاہئے۔
جب پاکستانی وزیرداخلہ یہ باتیں کررہے تھے، راج ناتھ بھی کانفرنس میں موجود تھے۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی سرحد پار سے ہورہی ہے اور سرحد پار سے ہی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور، چارسدہ دھماکے، گلشن اقبال پارک لاہور جیسے واقعات دنیا کے سامنے ہیں جن میں ہمارا قیمتی جانی نقصان ہوا۔پاکستان کے اندرونی معاملات میں ڈھٹائی سے مداخلت کی جارہی ہے۔سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس ہمارے لئے بہت تشویش کا باعث ہے، ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سانحہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایاجائے۔پاکستانی وزیرداخلہ نے کہاکہ دہشت گردی کی آڑ میں آزادی کی تحریکوں کو کچلا یا دبایا نہیں جاسکتا، دہشت گردی کے نام پر سیکورٹی فورسز کی طرف سے عام شہریوں کو نشانہ بنانا غلط ہے، دہشت گردی کے پردے میں نہتے کشمیریوں پر ظلم کو کیا نام دیں گے، آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد نہیں کہاجاسکتا''۔
روایت یہ ہے کہ سارک فورم پر سیاسی معاملات پر بات نہیں ہوتی لیکن وزرا ئے داخلہ کے اجلاس میں بھارتی وزیرداخلہ نے سارک وزرائے داخلہ میٹنگ کو شاید بھارتی کابینہ کا اجلاس سمجھ لیاتھا، انھیں میٹنگ کے آداب ہی بھول گئے، پاکستانی وزیرداخلہ نے بھارتی ہم منصب کی تقریر کا صرف جواب دیا ورنہ سب کچھ معمول کے مطابق ہی سرانجام دیاجارہاتھا۔ چودھری نثار نے صرف ریکارڈ کی درستگی کے لئے نہایت شائستگی اور وقار کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، بھارت کانام لئے بغیر اپنا موقف بیان کیا۔
انھوں نے راج ناتھ کو باور کرایا کہ بھارت کوپاکستان کے بارے میں تحفظات ہیں تو پاکستان کو بھی بھارت کے بارے میں ایسے ہی تحفظات ہیں، انھوں نے واشگاف اندازمیں کہا کہ دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دہشت گردی کے نام پر نہتے شہریوں پر فائرنگ کی جائے، ان کو شہید کیاجائے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایاجائے۔آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے اور معصوم بچوں اور شہریوں پر وحشیانہ تشدد دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بات راج ناتھ سنگھ برداشت نہ کرسکے اور کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے۔
چوھدری نثارعلی خان نے اپنی پریس کانفرنس میںکہا: ''ناراض ہوکر اٹھ کر چلے جانا مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حل مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ تمام سارک ممالک نے اصل ایجنڈے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، ایجنڈا بالکل نارمل تھا لیکن پتہ نہیں بھارتی نمائندے کے دل میں کیاتھا؟'' کانفرنس کے بارے میں ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ دورانِ کانفرنس راج ناتھ سنگھ آٹھ بار اپنے وزیراعظم سے فون پر بات کرنے کے لئے واش روم گئے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ بھارتی وزیرداخلہ اپنے وزیراعظم کو کیسے لمحہ بہ لمحہ کانفرنس کی کارروائی سے آگاہ کررہے تھے اور ان سے ہدایات وصول کررہے تھے۔ اب اسلام آباد کانفرنس کے بعد پورے بھارت میں کہرام مچا ہواہے۔
جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، بھارتی متعصب حلقے ایک سے بڑھ کر ایک نئی کہانی گھڑ رہے ہیں۔ کانفرنس ختم ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں ، اب انھوں نے ایک نئی کہانی تیار کی ہے کہ پاکستانی حکام نے بھارتی صحافیوں کو کانفرنس ہال کے دروازے کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیاگیا۔ یہ بھی کہاگیا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر پاکستانی صحافیوں نے بھارتی صحافیوں کو اس اندازمیں گھیرے میں لئے رکھا کہ بھارتی میڈیا پرسنز اپنا کام ہی نہ کرسکے۔ اس سے پہلے بھارتی میڈیا اس نکتہ پر بحث ومباحثہ میں مصروف تھا کہ راج ناتھ کو اسلام آباد جانا چاہئے تھا یا نہیں۔
کانفرنس میں بھارتی وزیرداخلہ کی شرکت کے مخالف حلقے بغلیں بجارہے تھے کہ ان کا موقف درست ثابت ہوا، وہ راج ناتھ کو نہ جانے کو کہہ رہے تھے لیکن انھوں نے بات نہیں مانی اور کانفرنس میں جاکر عزت گنوائی۔تاہم راج ناتھ کے ایک قریبی ساتھی نے ایک بھارتی جریدے کو بتایا کہ بھارتی وزیرداخلہ بھی ایک مرحلے پر شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن پھر دو واقعات ہوئے جن کے سبب انھوں نے کانفرنس میں شرکت کرنا ضروری سمجھا۔ اولاً: پاکستانی پارلیمان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کی تحقیقات کرے، ثانیاً: حافظ محمد سعید اور سید صلاح الدین نے دھمکی دی تھی کہ وہ راج ناتھ سنگھ کو پاکستانی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیرداخلہ نے اپنا ذہن تبدیل کیا۔ راج ناتھ کے حامی حلقوں کی طرف سے یہ وضاحتیں شدت پسند ہندوحلقوں کو مطمئن کرنے کے لئے کافی نہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ راج ناتھ نے پاکستان میں بھارت کی عزت خاک میں ملادی،یہی وجہ ہے کہ وہ بھارتی وزیرداخلہ کی تصویروں پر مبنی پوسٹرز نذر آتش کررہے ہیں۔
کانفرنس میں راج ناتھ کی تقریر سے چودھری نثار علی خان سخت ناراض تھے، چنانچہ جب دونوں کا آمنا سامنا ہواتو انھوں نے راج ناتھ سے بغیر گرم جوشی سے مصافحہ کیا، بعدازاں جب مہمان وزرائے داخلہ کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیاگیاتو راج ناتھ وہاں نہیں آئے، وہ اپنے طے شدہ شیڈول سے انحراف کرتے ہوئے دو گھنٹے قبل ہی خصوصی طیارے پر واپس دہلی لوٹ گئے۔ وہ کانفرنس کی مکمل روداد اپنے وزیراعظم کو سنانے کے لئے اس قدر بے تاب تھے کہ دہلی ائیرپورٹ پر طے شدہ پریس کانفرنس بھی منسوخ کردی اور سیدھے وزیراعظم ہاؤس پہنچے، اگلے روز انھوں نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے رونادھونا شروع کردیا کہ ان کے ساتھ پاکستان میں اچھا سلوک نہیں ہوا۔ اس پر پارلیمان میں شورشرابا شروع ہوگیا، مطالبہ کیاگیا کہ پاکستان کے ساتھ سختی سے پیش آناچاہئے۔
اترپردیش کے اس ٹھاکر راج ناتھ کو اسلام آباد میں بخوبی اندازہ ہوچکاہوگا کہ وہ پوری دنیا دہلی نہیں ہے کہ جہاں ان کی الٹی سیدھی باتیں سنی جائیں اور برداشت کی جائیں۔ موصوف بھارت کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو رات دن پاکستان پر الزام دھرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ان کی ایک بات کا خود بھارت میں بھی خوب مذاق اڑایاگیا جب انھوں نے کہا کہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ وطالبات کے احتجاج کے پیچھے لشکرطیبہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کا ہاتھ تھا۔ اب اسلام آباد کانفرنس میں بھی انھوں نے ایسے ہی اندازمیں بے پر کی اڑائی نتیجتاً انھیں ملی رسوائی۔