رنگوں کے خیمے میں ایک کھڑکی خبروں کی

کھیلوں کا ایک عظیم مقابلہ جاری ہے لیکن اس بار کسی بھی کھیل میں ہمارا کوئی کھلاڑی مقابلوں کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکا


Iqbal Khursheed August 14, 2016
برازیل میں اولمپکس کا انعقاد یوں انتہائی اہم کہ یہ پہلا موقع ہے، جب کسی لاطینی امریکی ملک میں یہ میلہ سج رہا ہے فوٹو : فائل

بے شک یہ ایک جنگ ہے۔ یہاں جیت کا جشن بھی ہے، شکست کا گریہ بھی۔ آنسو بھی ہیں، اور پسینہ بھی۔ مگر یہ وہ جنگ نہیں، جس کا محرک نفرت کا جذبہ ہوتا ہے۔ جنگ، جہاں فاتح خون سے اپنی داستان لکھتا ہے، جہاں لاشوں پر جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔۔۔ یہاں تو جیت کے پیچھے لگن، محنت اور صلاحیت جیسے اعلیٰ جذبات ہوتے ہیں، اتحاد اور بھائی چارے جیسے ارفع احساسات ہوتے ہیں کہ یہ کھیلوں کی جنگ ہے۔

کھیل۔۔۔ جو انسانوں کو جوڑتے ہیں۔ اور اِس سمے کھیلوں کا ایک عظیم مقابلہ جاری ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے، یہ مقابلے اپنے نصف تک پہنچ چکے ہوں گے۔ دیگر جنگوں کے برعکس اُس کا عروج اس کا اختتام ہے، جب یک دم دنیا رنگ اور نور میں نہا جائے گی، مسرت کی لہریں اٹھتی ہوں گی، جیت کا جشن گیتوں میں پرویا جائے گا۔ اور تب۔۔۔ شکست خوردہ بھی اس جشن میں شامل ہوجائیں گے۔ عالمی بھائی چارے کی لطافت ہمیں اپنے حصار میں لے لے گی۔آئیں برازیلی شہر ریوجینرو میں ہونے والے اولمپکس کے رنگ برنگی خیمے کی کھڑکی سے اندر جھانکتے ہیں۔ شاید کچھ دل چسپی خبریں ہماری منتظر ہوں۔

٭ میزبانی کی کہانی: برازیل میں اولمپکس کا انعقاد یوں انتہائی اہم کہ یہ پہلا موقع ہے، جب کسی لاطینی امریکی ملک میں یہ میلہ سج رہا ہے۔ 2009 کی نیلامی میں ٹوکیو، میڈریڈ اور شکاگو کو پچھاڑ کر ریو جینرو نے یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ یہ اجلاس کوپن ہیگن میں ہوا تھا، جس میں 95 ممالک نے شرکت کی۔ مقابلہ سخت تھا۔ شکاگو مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا تھا۔ امریکی صدر باراک اوباما بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ ادھر موجود تھے، مگر دنیا کے طاقت ور ترین شخص کی موجودی کے باوجود شکاگو پہلے راؤنڈ میں باہر ہوگیا۔ ووٹوں کے ذریعے ریو ڈی جینرو کے حق میں فیصلہ آیا۔

٭ معاشی اور سیاسی بحرانوں میں مقابلے : جب اولمپکس 2016 کا قرعہ برازیل کے نام نکلا تھا، تب ادھر سیاسی و معاشی حالات مستحکم تھے۔ برازیلی صدر، لولا ڈی سلوا بھی پرجوش تھے، مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ رواں سال کے اوائل میں برازیل کو بدترین کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا۔ بے روزگاری کی شرح یک دم بڑھ گئی، اور مجموعی پیداوار کا گراف گر گیا۔

سیاسی حالات بھی بگڑنے لگے۔ حکومت پر کرپشن کے الزامات لگنے لگے۔ صدر کا مواخذہ شروع ہوگیا۔ عبوری صدر کو چارج سنبھالنا پڑا۔ اولمپکس کے لیے مختص بجٹ میں کٹوتی کی گئی۔ اور یوں ریو اولمپکس کی کام یابی کے امکانات سکڑنے لگے۔تنازع اس وقت شدت اختیار کرگیا، جب انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے نائب صدر، جان کوٹس نے ریو اولمپکس کے انتظامات کو ناقص ٹھہرا دیا۔ انھوں نے صورت حال کو 2004 کے ایتھنز اولمپکس سے بھی زیادہ ہول ناک قرار دیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان تنازعات اور بیانات کے باوجود ٹکٹس کی فروخت جاری رہی، اور افتتاحی تقریب کے ساتھ اندیشے دم توڑ گئے۔

٭ ناراض، تن خواہ سے محروم پولیس اہل کار: اولمپکس اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ غیر ہی نہیں، اپنے بھی احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ریو اولمپکس میں بھی کچھ یہی ہوا، مگر معاملہ ذرا تشویش ناک تھا کہ قانون کے رکھوالے ہی احتجاج کی راہ پر چل پڑے، اور احتجاج بھی ان افراد کے سامنے کیا، جو جوش و جذبے سے لدے برازیل پہنچ رہے تھے۔

ریو ڈی جینرو کے ایئرپورٹ کے باہر پولیس اہل کاروں نے انوکھا احتجاج کیا۔ اُنھوں نے بینر اٹھا رکھا تھا، جس پر انگریزی میں درج تھا: جہنم میں خوش آمدید۔پولیس اہل کاروں کی ناراضی کا سبب یہ تھا کہ ان کی اور فائربریگیڈ کے عملے کی تن خواہیں ایک عرصے سے تاخیر کا شکار تھیں۔ اسی طرح درجنوں سیکیوریٹی اہل کاروں نے ریاستی اسمبلی کے باہر احتجاج کیا۔ ان کا شکوہ تھا کہ پولیس کی ترجیح تو عوام ہیں، مگر ریاست کی ترجیح فقط اولمپکس ہیں۔ یہ احتجاج شائقین اور سیاحوں میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے کافی تھا۔

٭ وائرس کا وار: اس وقت زیکا وائرس نے لاطینی امریکا پر خوف طاری کر رکھا ہے۔ اسی کے پیش نظر درجنوں سائنس دانوں اور طبی ماہرین نے اسے ملتوی کرنے یا ریو ڈی جنیرو سے منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وائرس کے خوف نے اس وقت شدت اختیار کرلی، جب صف اول کے گولفرز میں سے ایک، جیسن ڈیکا نے مقابلوں سے دست برداری کا اعلان کردیا، اور اس کا سبب زیکا وائرس کو قرار دیا۔ زیکا وائرس اتنا حساس مسئلہ رہا کہ عالمی ادارۂ صحت نے حاملہ خواتین کو برازیل کا سفر نہ کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔کچھ سنسنی خیز خبریں ساحلوں سے ملنے والے بیکڑیاز سے متعلق بھی تھیں، جن کی بابت دعویٰ کیا گیا کہ ان پر ادویہ اثر نہیں کرتیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بیکٹریا اور وائرس کے اثرات کے باوجود اولمپکس میں دل چسپی کم نہیں ہوئی۔

٭ سفر مشعل کا۔۔۔: ان مقابلوں میں مشعل کا سفر ہمیشہ توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ جیسے جیسے یہ اپنی منزل کی سمت بڑھتی جاتی ہے، تجسس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس کا سفر اپریل میں یونان سے شروع ہوا تھا۔ تین ماہ تک برازیل کے مختلف شہروں کے چکر کاٹے۔ بالآخر 5 اگست کو اولمپک مشعل ریو ڈی جنیرو پہنچی، جہاں شہر کے میئر، ایدواردو پایس اسے لے کر دوڑے۔ اپنے سفر کے دوران یہ ایتھنز کے ایک مہاجر کیمپ سے بھی گزری، جہاں ایک مہاجر اسے لے کو دوڑا تھا۔

ریو ڈی جنیرو میں مشعل کی آمد کے بعد ان افراد کے جانب سے احتجاج کیا گیا، جن کا خیال تھا کہ مقابلوں پر خرچ ہونے والی رقم عوام کی فلاح و بہبود میں استعمال ہونی چاہیے۔ اس موقع پر پولیس نے آنسو گیس اور مرچوں کا سپرے کرکے لوگوں کو منتشر کیا۔

٭ کیا کچھ ہورہا ہے اس بار: حالیہ مقابلوں میں 206 ممالک سے 10500 ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا قیام کم و بیش 17 دونوں پر محیط ہوگا، جس کے دوران 306 ایونٹس منعقد ہوں گے۔ یومیہ 60 ہزار افراد کے لیے کھانا پکایا جائے گا۔ 70 ہزار سے زاید رضاکار حصہ لے رہے ہیں، جن کی اکثریت مقامی ہے۔ پولیس اہل کاروں کی تعداد 85 ہزار ہے، جو اولمپکس کی تاریخ کا ریکارڈ تصور کیا جارہا ہے۔ ٹکٹس کی تعداد 7.5 ملین کے قریب ہے۔

٭ رگبی کی آمد، گالف کی واپسی: رگبی امریکیوں کا من پسند کھیل۔ اس کی ایک قسم 1924 میں اولمپکس کا حصہ بنی تھے۔ تب فائنل مقابلہ امریکا اور فرانس کے درمیان میں ہوتا، اور امریکا فاتح ٹھہرا۔ اس مقابلے کے بعد خاصا فساد ہوا۔ اس کے بعد، جانے کیوں، رگبی کو درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا۔ اب رگبی سیون نامی کھیل اولمپکس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ادھر گالف کا کھیل 112 برس کے طویل وقفے کے بعد پھر مقابلوں کا حصہ بنا ہے۔ 1904 میں آخری مرتبہ گالفرز ہمیں ایکشن میں نظر آئے تھے۔

٭ پاکستان کی پریشانیاں: مقابلوں میں حصہ لینے والے ممالک میں سب سے بڑا دستہ امریکا ہے۔ دوسری طرف نظر ڈالیں، تو سب سے چھوٹا دستہ ہے ہمارے پاکستان کا۔ سات رکنی دستہ۔ دو ایتھلیٹ، دو تیراک، دو نشانہ باز اور جوڈو کا ایک کھلاڑی! (جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، اولمپکس میں حصہ لینے والی پہلی پاکستانی خاتون شوٹر، منہال سہیل پہلے ہی راؤنڈ میں مقابلے سے باہر ہوچکی ہیں)

پاکستان 28 مقابلوں میں فقط دس میڈلز اپنے نام کرسکا، جن میں تین گولڈ اور تین سلور میڈلز شامل ہیں۔ کانسی کے تمغوں کی تعداد چار۔ باقی کھیلوں میں تو کارکردگی واجبی سی رہی، ریسلنگ میں محمد بشیر اور باکسنگ میں حسین شاہ نے کانسی کے تمغے جیتے، ہاں ہاکی میں ہم نے تین گولڈ، تین سلور اور تین برانز میڈلز اپنے نام کیے۔ البتہ ایک عرصے سے ہم اس کھیل میں بھی مسائل کا شکار ہیں۔ آخری بار 92ء میں پاکستان کے حصے میں طلائی تمغہ آیا تھا۔

صورت حال شرم ناک ہے۔ اس بار کسی بھی کھیل میں، ہمارا کوئی کھلاڑی مقابلوں کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکا۔ ہمیں وائلڈ کارڈ اور کوٹا سسٹم کا سہارا لینا پڑا۔ یہ پہلا موقع ہے، جب پاکستان کی ہاکی ٹیم اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکی۔ 2008 اولمپکس میں جب پاکستان آٹھویں نمبر پر تھا، تب اسے بدترین کارکردگی کہا گیا، مگر کیسے خبر تھی کہ ابھی بدبختی کے اور کتنے مراحل آنے ہیں۔ اس المیے کے اسباب جاننے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، مگر ادھر ہاکی کی کسے پرواہ۔ سب کی توجہ کرکٹ پر مرکوز، سارے فنڈز ادھر کھپ جاتے ہیں، اور دل چسپ بات یہ کہ ادھر بھی کارکردگی اوسط درجے کی۔

٭ روس پر پابندی: پیرااولمپکس کی بین الاقوامی کمیٹی نے روسی ایتھلیٹس پر ریو 2016 پیرااولمپکس میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ فیصلہ ڈوپنگ ایجینسی کی اس رپورٹ کے پیش نظر کیا، جس کے مطابق روسی ایتھلیٹ سرکاری حکام کی مدد سے ممنوعہ ادویات استعمال کرتے رہے ہیں۔ ادھر روسی پیرااولمپکس کمیٹی نے اس فیصلے خلاف کھیلوں کی عالمی عدالت میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیکھیے، کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

٭ افتتاحی تقریب: ماہرین نے ریو اولمپکس کی افتتاحی تقریب کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ مقابلوں سے قبل جو حالات تھے، ان کے تناظر میں یہ بڑی کام یابی ہے۔ اس تقریب میں روشنی، موسیقی اور رقص کے ذریعے برازیل کی رنگا رنگ ثقافت کا جشن منایا گیا۔ دنیا کے 200 سے زاید ممالک کے کھلاڑیوں نے ہزاروں شائقین کے سامنے مارچ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق تین ارب افراد ٹی وی پر یہ مقابلے دیکھیں گے۔ سیاحوں کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہوگی۔ یہ پہلا موقع ہے، جب کوسوو اور جنوبی سوڈان کی ٹیمیں کھیل میں شرکت کر رہی ہیں۔

اِس بار مقابلوں میں پناہ گزینوں کی ایک ٹیم بھی شامل ہے۔ دس ارکان پر مشتمل اس ٹیم میں جنوبی سوڈان سے پانچ، شام سے دو، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو سے دو اور ایتھوپیا کا ایک رکن شامل ہے۔ نیپال کی 13 سالہ تیراک گوریکا سنگھ ریو اولمپکس میں حصہ لینے والی سب سے کم عمر ایتھلیٹ ہیں۔ یہ مقابلے ریاست میں 32 مقامات پر منعقد کیے جائیں گے۔ دوڑ کے مقابلے سب سے اہم۔ بالخصوص سو میٹر کی ریس، جہاں شائقین دنیا کے تیز تیرین انسان یوسین بولٹ کو دیکھیں گے، جن کا یہ آخری اولمپک ہوگا۔

٭ امریکا اور آسٹریلیا کا شان دار آغاز : اولمپکس کا پہلا دن آسٹریلیا کے نام رہا، جو دو طلائی اور کانسی کا تمغہ لے اڑا۔ دونوں طلائی تمغے تیراکی کے مقابلوں میں حاصل کیے۔ ویسے آسٹریلیا آغاز سے قبل بھی خبروں میں رہا ہے۔ آسٹریلیا نے اولمپک گاؤں میں منتقل ہونے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ وہاں، بجلی، گیس اور پانی کی لیکیج کے بدترین مسائل ہیں۔دوسرے دن کی خبریں موصول ہونے تک امریکا میڈلز کے چارٹ پر پہلے نمبر پر پہنچ چکا تھا۔ معروف امریکی تیراک مائیکل فلپس نے ریو اولمپکس میں اپنا پہلا مجموعی طور پر19 واں میڈل جیت لیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں