شمیم آراء وہ اداکارہ جس نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو نئے رجحانات سے متعارف کرایا
فلموں میں شمیم آراء کے نام سے جانی پہچانی جانے والی فلمی اداکارہ کااصلی نام پتلی بائی تھا اور وہ 1938ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے کراچی آئیں جہاں ایک رشتہ دار کے توسط سے ان کی ملاقات ا س زمانے کے مشہورڈائریکٹرنجم نقوی سے ہوئی جواُن دنوں اپنی نئی فلم'' کنواری بیوہ '' کے لئے کسی نئے چہرے کی تلاش میں تھے۔ شمیم آرا کو دیکھتے ہی نجم نقوی نے انہیں اپنی فلم کے لئے فائنل کرلیا اوریوں وہ فلم انڈسٹری میں داخل ہوگئیں۔ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے اس کامیاب دورمیں ان کی پہلی فلم اگرچہ سپرہٹ ثابت نہ ہوسکی لیکن شمیم آراء کی پرفارمنس نہ صرف شائقین کوپسند آئی بلکہ فلمی دنیا سے وابستہ بہت سے لوگ بھی اس دبلی پتلی حسینہ کی پرفارمنس سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکے۔
پچاس کی دہائی میں فلمی دنیا سے وابستہ ہونے والی شمیم آراء کی پہلی فلم 1956ء میں ریلیزہوئی جس کے بعد انہیں مشرقی پاکستان سے فلموں میں کام کی پیشکش ہونے لگی۔ اس دوران انہوں نے کچھ فلمیں سائن بھی کیں اوریوں رفتہ رفتہ ان کا فلمی سفر آگے بڑھتا گیا۔ 1958ء میں ریلیز ہونے والی فلم '' نورجہاں '' میں بھی انہیں ایک مختصرکردارملا، تاہم 1960ء میں ریلیزہونے والی فلم ''سہیلی'' نے انہیں شہرت کی بلندیوں پرپہنچا دیا۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ایس ایم یوسف تھے جبکہ کاسٹ میں ان کے ہمراہ اداکاردرپن، نیئرسلطانہ ، بہاربیگم اور سلطان راہی شامل تھے۔
فلم میں نسیم بیگم اور سلیم رضا کے گائے ہوئے تمام گانے بھی بہت ہٹ ہوئے تھے۔ یہ وہ دورتھا جب فلمسٹار درپن، نیئرسلطانہ، صبیحہ خانم ، محمد علی ، زیبا، مصطفیٰ قریشی، آغا طالش اوردیگرفلمی ستاروںکا طوطی بول رہا تھا ۔ ایسے میں اپنی پہچان بنانا کوئی آسان بات نہ تھی۔ ایک طرف شمیم آراء کی ایکٹنگ لوگوںکو اپنا دیوانہ بنا رہی تھی اوردوسری جانب ان کا ہیئرسٹائل، ملبوسات اورمیک اپ کا اندازبھی خواتین میں مقبول ہورہا تھا۔ یہی وہ دورتھا جس کو صحیح معنوں میں فلمی ستاروں کے راج کا دورکہا جاسکتا ہے۔ شمیم آراء کی کامیابی کا سفرتیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ فلمی حلقوں میں توان کے چرچے عام تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک اوربیرون ممالک بھی ان کے چاہنے والوںکی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔
اسی دوران فلم '' قیدی'' کے لئے فیض احمد فیض کا لکھا ہوا مشہورکلام ''مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ'' ان پرپکچرائزہوا۔ اس گیت کوایسا اچھا رسپانس ملا کہ پھرفلم انڈسٹری کے چند مقبول ترین فنکاروں میں شمیم آراء کا نام بھی شامل ہوگیا۔ اس گیت کی مقبولیت کے بعد تو فلمی پروڈیوسروں اورڈائریکٹروں نے شمیم آراء کے گھر کے چکرلگانے شروع کردیئے۔ ہرنئی فلم میں ان کوکاسٹ کرنے کی پیشکش ہونے لگی۔ ان میں سے کچھ فلموں کو انہوں نے سائن کیا اوربہت سی فلموں میں کام کرنے سے معذرت بھی کی۔
جس کی وجہ ان کی دن رات فلموں کی شوٹنگز میں مصروفیت تھی۔ ان کی یادگارفلموںک ی فہرست توبہت طویل ہے لیکن ان میں '' عالم آرا، واہ رے زمانے، سویرا، جائیداد، مظلوم، بھابھی، دواستاد، عزت، رات کے راہی، انسان بدلتا ہے، زمانہ کیا کہے گا، زمین کے چاند، آنچل، انقلاب، محبوب، دلہن، ایک تیراسہارا، غزالہ، آگ کا دریا، جلوہ، محبوب میرے محبوب، سازش، سیما، تانگے والا، دیوداس، فیشن، زمانہ ، نائلہ، آگ کا دریا، دوراہا، ہمراز، لاکھوں میں ایک، دل میرا دھڑکن '' قابل ذکرہیں۔
شمیم آراء نے جب اپنا فنی سفرشروع کیا توکوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک دن پاکستان فلم انڈسٹری کی مقبول ترین ہیروئن بنیں گی۔ مگران کی سپرسٹار محمدعلی ، درپن، سنتوش کمار، وحیدمراد اورندیم سمیت دیگرہیروزکے ساتھ آنے والی فلموں نے ان کے کیرئیر کومزید بلندیوں تک پہنچا دیا۔ نگارخانوں میں جب شمیم آراء شوٹنگ کیلئے پہنچتی توان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لوگوںکا ہجوم گیٹ پرموجود رہتا۔ یہ وہ دورتھا جب کیمرہ بھی شاید ہی کسی کے پاس ہواکرتا تھا ، ایسے میں آٹوگراف کی اہمیت سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ ایسے میں جس کسی کوان کا آٹوگراف مل جاتا وہ اس کواپنے سینے سے لگائے رکھتا۔ یہ وہ سٹارڈم تھا جس کی بدولت شمیم آراء کی پسندیدگی قائم تھی۔ بطورہیروئن انہوں نے ان گنت اہم کردارکئے اوربہت سے صدا بہارگیت بھی ان پرفلمائے گئے۔ وہ ایک بہترین اداکارہ تھیں لیکن رقص کے معاملے میں وہ کچھ زیادہ مہارت نہ رکھتی تھیں۔
ان کی ایکٹنگ کے شعبے میں کامیاب اننگز توسب کے سامنے ہے لیکن جب انہوں نے کیمرہ کے پیچھے آنے کی ٹھانی تویہ سب کیلئے سرپرائز تھا کیونکہ کیمرے کے سامنے رہنے والی ہیروئن کا کیمرے کے پیچھے آنا سب کی نظروں میں ایک بڑے چیلنج سے کم نہ تھا ۔ ہدایتکاری کے شعبہ میں انہوں نے جوکارنامے دکھائے وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ایک طرف توانہوں نے بطورپروڈیوسر 1976ء میں پہلی فلم ''جیواور جینے دو'' بنائی جبکہ بطورہدایتکارہ فلم '' پلے بوائے، مس ہانگ کانگ، مس سنگاپور، مس کولمبو، لیڈی اسمگلر، لیڈی کمانڈو، آخری مجرا، منڈا بگڑاجائے، بیٹا ، ہاتھی میرے ساتھی، ہم تو چلے سسرال، مس استنبول، ہم کسی سے کم نہیں، لو95 اور آخری فلم''پل دو پل''تھی جس میں فلمسٹار ریشم نے مرکزی کردار کیا جبکہ اس فلم کی موسیقی استاد نصرت فتح علی خان نے ترتیب دی تھی۔
ان کی زیادہ ترفلموں میں مقبول اداکارہ بابرہ شریف نے مرکزی کردارنبھائے جبکہ فلمسٹار ریمبو سمیت دیگر کو اپنی ڈائریکشن میں متعارف بھی کرایا۔ ان کی فلموں نے جہاں شائقین کو خوب انٹرٹین کیا، وہیں سلورجوبلی بھی مکمل کیں۔ ان کی رومانٹک، ایکشن اورمزاحیہ فلموں کے چاہنے والے ملک بھرمیں موجود تھے لیکن ان فلموں کی کامیابی میں میوزک کا بھی خاصا عمل دخل رہا ۔ شمیم آراء جب بھی کوئی نیا پراجیکٹ شروع کرتیں تواس کے میوزک کوبھی بڑی محنت کے ساتھ بنواتیں۔ یہی وجہ ہے کہ استاد نصرت فتح علی خاں جیسے معروف کمپوزر کا کام بھی اپنی فلم میں شامل کیا اوراس فلم کا میوزک بہت مقبول رہا۔
شمیم آراء کی فنی زندگی توبہت کامیاب رہی اورانہوں نے اپنے طویل فنی سفرمیں بہت سی کامیابیاں اپنے نام کیں لیکن ازدواجی زندگی کچھ کامیاب نہ رہ سکی۔ انہوں نے تین شادیاں کیں۔ ان کی سب سے پہلی شادی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سردار سے ہوئی جوکارحادثہ میں وفات پاگئے تھے۔ ان کی دوسری شادی ہدایتکارڈبلیو زیڈ احمد کے بیٹے فرید احمد سے ہوئی لیکن کامیاب نہ رہی اورتیسری شادی معروف رائٹردبیرالحسن سے ہوئی۔ ان کا اکلوتا بیٹا سلمان کریم ہے ، جوبرطانیہ میں مقیم ہے۔ وہی ان کوچھ برس قبل پاکستان سے علاج کی غرض سے برطانیہ لے گیا ، لیکن کہتے ہیں کہ موت ایک دن مقرر ہے۔ جب وہ دن آیا توپھرشمیم آراء اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ انہیں لندن میں ہی سپردخاک کیا گیا ۔
شمیم آرا کی وفات پرشوبزسے وابستہ معروف فنکاروں نے گہرے رنج وغم کااظہارکیا ہے۔ ''ایکسپریس'' سے بات کرتے ہوئے اداکارہ بابرہ شریف نے کہا کہ شمیم آراء پاکستان فلم انڈسٹری کی پہچان تھیں۔ انہوں نے جس طرح سے بطوراداکارہ وہدایتکارہ کام کیا، اس کو کبھی نہیںبھلایا جاسکتا۔ پہلے انہوں نے بڑے پردے پرایکٹنگ کرتے ہوئے پاکستانی فلم کولوگوں تک پہنچایااوراس کو مقبول بنایا اور اس کے بعد کیمرے کے پیچھے بطورہدایتکارہ کام کرتے ہوئے جہاں منفرد اوردلچسپ کہانیوں پرفلمیں بنائیں، وہیں بہت سے باصلاحیت فنکاروںکوبھی اس فیلڈ میں متعارف کروایا۔ ان کی گراں قدرخدمات کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ ہدایتکار و مصنف پرویزکلیم نے کہا کہ میں نے بطور اسسٹنٹ میڈم شمیم آراء کے ساتھ کام کیا۔ شمیم آراء ایک باصلاحیت فنکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ فلم انڈسٹری میں ان جیسے لوگ بہت کم ہیں۔ وہ بہت حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ ان کو کھانے میں دال کے پراٹھے اور لہسن کی چٹنی پسند تھی۔ فلمسٹارندیم بیگ نے کہا کہ شمیم آراء کے انتقال پرگہرا دکھ ہوا ہے۔ یہ دن پاکستان فلم انڈسٹری میں بڑے صدمے کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے ۔
اداکار معمر رانا نے کہا کہ میڈم شمیم آراء ایک بہت ہی زبردست ڈائریکٹر تھیں۔ وہ آرٹسٹ کے موڈ کو دیکھ کر کام کرتی تھیں۔ اگر آرٹسٹ کا موڈ ٹھیک نہیں تو شوٹنگ پیک اپ کروا دیتی تھیں۔ میں نے ان کے ساتھ ''پل دو پل'' ''چپکے چپکے'' اور ''کروڑ پتی'' میں کام کیا ہے۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کوملا ۔ ہدایتکارسیدنور نے کہا کہ اللہ تعالیٰ میڈم شمیم آراء کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کی فلموں نے پاکستان فلم انڈسٹری کو نیا ٹرینڈ دیا تھا۔ وہ ایک ٹرینڈ سیٹر ڈائریکٹر تھیں۔