ایک گمنام شاعر جو تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ دار تھا
سیالکوٹ کے ایک شاعر نے اپنے زمانہ طالب علمی میں عوامی جلسے میں ’’ترانہ پاکستان‘‘ کے عنوان سے یہ نظم پڑھی تھی
''پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الّاللہ'' کا نعرہ لگانے والے شاعر کے بارے میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ تحریکِ پاکستان میں ان کا 25 فیصد حصہ ہے لیکن آج بہت کم لوگ اس شاعر کے بارے میں جاتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ سیالکوٹ کے ایک شاعر نے اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ایک عوامی جلسے میں ''ترانہ پاکستان'' کے عنوان سے یہ نظم پڑھی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں زبان زدِ عام ہوگئی۔ نظم کے اشعار یہ ہیں:
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
شب ظلمت میں گزاری ہے
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
چھوڑ تعلق داری چھوڑ
اٹھ محمود بتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ
غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
جرات کی تصویر ہے تو
ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو
آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
نغموں کا اعجاز یہی
دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی
وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
ہنجابی ہو یا افغان
مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
تجھ میں ہے خالد کا لہو
تجھ میں ہے طارق کی نمو
شیر کے بیٹے شیر ہے تو
شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
مذہب ہو تہذیب کہ فن
تیرا جداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن
غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
اے اصغر اللہ کرے
ننھی کلی پروان چڑھے
پھول بنے خوشبو مہکے
وقت دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
اس نظم کے شاعر جناب اصغر سودائی مرحوم تھے جن کا اصل نام محمد اصغر تھا اور جو قیامِ پاکستان کے بعد سیالکوٹ کے نمایاں ماہرینِ تعلیم میں شامل رہے۔ وہ 17 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد دین اُپل جب کہ والدہ کا نام اللہ رکھی تھا۔
انہوں نے مرے کالج سیالکوٹ کے بعد اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور پھر جامعہ پنجاب لاہور سے اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے بعد سیالکوٹ واپس آئے اور یہاں گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بطور لیکچرار وابستہ ہوئے۔ یاد رہے کہ مرے کالج وہی مادرِ علمی ہے جہاں سے حضرت علامہ محمد اقبالؒ اور فیض احمد فیض سمیت کئی علمی ہستیوں نے تعلیم حاصل کی۔
اصغر سودائی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں پہلے پروفیسر اور بعد ازاں 1965ء میں پرنسپل بنے۔ 1966ء میں انہوں نے سیالکوٹ میں علامہ اقبال کالج قائم کیا جس کے وہ پرنسپل بھی رہے۔ 1984ء سے 1986ء تک وہ ڈیرہ غازی خان میں ڈائریکٹر ایجوکیشن کے منصب پر فائز رہے۔ پروفیسر اصغر سودائی کے شعری مجموعوں میں ''شہ دوسراؐ'' اور ''چلن صبا کی طرح'' شامل ہیں۔ 17 مئی 2008ء کے روز اُن کا انتقال ہوا اور سیالکوٹ ہی میں ان کی تدفین کی گئی۔
تحریکِ پاکستان سے انہیں دلی وابستگی تھی، جس کا بھرپور اظہار انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعے کیا۔
مذکورہ نظم کے بارے میں واقعہ یہ ہے کہ جب سے تحریکِ پاکستان شروع ہوئی تھی تو نیشنل کانگریس اور ان کے حواری نیشنلسٹ اکثر مسلمانوں سے مضحکہ خیز انداز میں یہ پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ لیکن اس نظم سے پہلے اس سوال کا کوئی جامع جواب مسلمانوں کے پاس موجود نہیں تھا۔
دریں اثناء اصغر سودائی بھی مرے کالج میں زیر تعلیم تھے۔ 1944ء کے ایک جلسہ عام میں انہوں نے اپنی نظم ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الّاللہ'' سنائی، جو اتنی مقبول اور زبان زدِ عام ہوئی کہ مرے کالج کے درودیوار سے نکل کر پورے ہندوستان کے گلی کوچوں میں پڑھی جانے لگی۔ خود اصغر سودائی مرحوم کے بقول: ''جب لوگ پوچھتے تھے کہ مسلمان، پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہئے کہ 'پاکستان کا مطلب کیا؟'
اس نظم کا پہلا مصرعہ تو اتنا زیادہ مشہور ہوا کہ مختلف جلسے جلوسوں میں آج تک ایک نعرے کی صورت پڑھا جارہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نظم کے اصل شاعر اور باقی اشعار کو فراموش کردیا گیا ہے۔
یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں کچھ ایسا مقبول ہوا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہوکر رہ گئے۔ اسی لئے قائداعظمؒ نے ایک موقعے پر فرمایا: ''تحریکِ پاکستان میں 25 فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔''
واقعہ یہ ہے کہ سیالکوٹ کے ایک شاعر نے اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ایک عوامی جلسے میں ''ترانہ پاکستان'' کے عنوان سے یہ نظم پڑھی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں زبان زدِ عام ہوگئی۔ نظم کے اشعار یہ ہیں:
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
شب ظلمت میں گزاری ہے
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
چھوڑ تعلق داری چھوڑ
اٹھ محمود بتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ
غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
جرات کی تصویر ہے تو
ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو
آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
نغموں کا اعجاز یہی
دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی
وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
ہنجابی ہو یا افغان
مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
تجھ میں ہے خالد کا لہو
تجھ میں ہے طارق کی نمو
شیر کے بیٹے شیر ہے تو
شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
مذہب ہو تہذیب کہ فن
تیرا جداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن
غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
اے اصغر اللہ کرے
ننھی کلی پروان چڑھے
پھول بنے خوشبو مہکے
وقت دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالٰہ الّاللہ
اس نظم کے شاعر جناب اصغر سودائی مرحوم تھے جن کا اصل نام محمد اصغر تھا اور جو قیامِ پاکستان کے بعد سیالکوٹ کے نمایاں ماہرینِ تعلیم میں شامل رہے۔ وہ 17 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد دین اُپل جب کہ والدہ کا نام اللہ رکھی تھا۔
انہوں نے مرے کالج سیالکوٹ کے بعد اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور پھر جامعہ پنجاب لاہور سے اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے بعد سیالکوٹ واپس آئے اور یہاں گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بطور لیکچرار وابستہ ہوئے۔ یاد رہے کہ مرے کالج وہی مادرِ علمی ہے جہاں سے حضرت علامہ محمد اقبالؒ اور فیض احمد فیض سمیت کئی علمی ہستیوں نے تعلیم حاصل کی۔
اصغر سودائی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں پہلے پروفیسر اور بعد ازاں 1965ء میں پرنسپل بنے۔ 1966ء میں انہوں نے سیالکوٹ میں علامہ اقبال کالج قائم کیا جس کے وہ پرنسپل بھی رہے۔ 1984ء سے 1986ء تک وہ ڈیرہ غازی خان میں ڈائریکٹر ایجوکیشن کے منصب پر فائز رہے۔ پروفیسر اصغر سودائی کے شعری مجموعوں میں ''شہ دوسراؐ'' اور ''چلن صبا کی طرح'' شامل ہیں۔ 17 مئی 2008ء کے روز اُن کا انتقال ہوا اور سیالکوٹ ہی میں ان کی تدفین کی گئی۔
تحریکِ پاکستان سے انہیں دلی وابستگی تھی، جس کا بھرپور اظہار انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعے کیا۔
مذکورہ نظم کے بارے میں واقعہ یہ ہے کہ جب سے تحریکِ پاکستان شروع ہوئی تھی تو نیشنل کانگریس اور ان کے حواری نیشنلسٹ اکثر مسلمانوں سے مضحکہ خیز انداز میں یہ پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ لیکن اس نظم سے پہلے اس سوال کا کوئی جامع جواب مسلمانوں کے پاس موجود نہیں تھا۔
دریں اثناء اصغر سودائی بھی مرے کالج میں زیر تعلیم تھے۔ 1944ء کے ایک جلسہ عام میں انہوں نے اپنی نظم ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الّاللہ'' سنائی، جو اتنی مقبول اور زبان زدِ عام ہوئی کہ مرے کالج کے درودیوار سے نکل کر پورے ہندوستان کے گلی کوچوں میں پڑھی جانے لگی۔ خود اصغر سودائی مرحوم کے بقول: ''جب لوگ پوچھتے تھے کہ مسلمان، پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہئے کہ 'پاکستان کا مطلب کیا؟'
اس نظم کا پہلا مصرعہ تو اتنا زیادہ مشہور ہوا کہ مختلف جلسے جلوسوں میں آج تک ایک نعرے کی صورت پڑھا جارہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نظم کے اصل شاعر اور باقی اشعار کو فراموش کردیا گیا ہے۔
یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں کچھ ایسا مقبول ہوا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہوکر رہ گئے۔ اسی لئے قائداعظمؒ نے ایک موقعے پر فرمایا: ''تحریکِ پاکستان میں 25 فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔''