’’چاند‘‘ کے لیے مطلع صاف

تازہ نسخہ میں کہتے ہیں :’’کراچی کا مسئلہ وہاں مارشل لا لگا کر حل کیا جا سکتا ہے‘‘۔

تازہ نسخہ میں کہتے ہیں :’’کراچی کا مسئلہ وہاں مارشل لا لگا کر حل کیا جا سکتا ہے‘‘۔

جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے دور حکومت میں کچھ نسخے نہیں آزما سکے، اس لیے وہ حب الوطنی کے تقاضوں سے مجبور ہو کر موجودہ حکمرانوں کو اپنے نسخے پیش کرتے رہتے ہیں۔ تازہ نسخہ میں کہتے ہیں :''کراچی کا مسئلہ وہاں مارشل لا لگا کر حل کیا جا سکتا ہے''۔

ایک اور ذریعے کے مطابق انھوں نے فوجی آپریشن کے الفاظ استعمال کیے۔ دونوں کا مفہوم ملتا جلتا ہے، اس لیے الفاظ کے فرق سے معنی میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تجویز قابل عمل ہے یا قابل قدر، اس پر کوئی رائے دیے بغیر اتنا بتانے میں ہرج نہیں کہ اس تجویز کا مقصد کراچی میں امن سے زیادہ وہاں وہ حالات پیدا کرنا ہے جن کو بہانہ بنا کر ملک کو انتخابات سے ' 'بچایا'' جا سکتا ہے۔

انتخابات میں بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ گویا وقت کم اور مقابلہ سخت والی بات ہے چنانچہ وقت کی کمی کا ازالہ تیز رفتاری سے ہو سکتا ہے اور یہ تیز رفتاری اب سب کو نظر آنے لگی ہے۔ مشرف کے لیے تو انتخابات کے التوا میں اپنی کامیابی، دعوے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ انتخابات ملتوی ہوئے تو وہ بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بیان دے سکتے ہیں کہ میں تو انتخابات جیت ہی جاتا لیکن کیا کروں، وہ ملتوی ہی ہو گئے ورنہ خاموش اکثریت تو میرے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے بے تاب تھی۔ الیکشن ملتوی نہ ہوئے یعنی ہو گئے تو مشرف اس خاموش اکثریت کو آواز بھی نہیں دے سکتے۔ مشرف کا دوسرا مقصد بلکہ خواہش یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الیکشن ملتوی ہوں اور نگر اں احتسابی ڈھانچے میں شرکت بلکہ سربراہی کے لیے انھیں یاد کیا جائے۔

مشرف نے تو جو بیان دیا سو دیا۔ لیکن حالات میں کچھ ایسے عوامل دانستہ تو نہیں، نادانستہ طور پر ضرور داخل ہو رہے ہیں جن سے انتخابات ملتوی کرانے والوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں وہ عدالتی فیصلے ہیں جنھیں الیکشن کمیشن نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس پر عملدرآمد کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے کراچی کی سیاسی جماعتوں کا اجلاس بھی بلایا اور اجلاس کے بعد اس نے کہا کہ صرف متحدہ نے عدالتی فیصلے کی کاپی مانگی دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی حمایت کی۔

پیپلز پارٹی نے بتایا کہ کراچی کی حلقہ بندیاں انسانی بنیادوں پر ہوئی ہیں اور اس میں ہونے والی غلطیوں سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کر دیا ہے۔ اے این پی نے موجودہ حلقہ بندیوں کو بدامنی کی وجہ قرار دیا اور کہا کہ نئی حلقہ بندیاں کرنا ہمارا مطالبہ تھا۔ جماعت اسلامی نے نئی حلقہ بندیوں کی تائید کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اصل مسئلہ حلقہ بندیاں نہیں ووٹر لسٹوں کا ہے۔ جماعت کا موقف ہے کہ ووٹر لسٹوں میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے۔ کراچی سے 30 لاکھ ووٹروں کے کراچی سے باہر اندراج کے بارے میں کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی نے دو مرلے کے ایسے گھر کی نشاندہی کی جس میں، انتخابی فہرستوں کے مطابق چھ سات سو ووٹر رہائش پذیر ہیں۔


سپریم کورٹ ان 30 لاکھ ووٹروں کا معاملہ بھی درست کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ بہرحال، ان تمام جماعتوں کی تائید اپنی جگہ لیکن کراچی میں اصل فریق متحدہ ہے جس کے قائد نے نئی حلقہ بندیوں کے فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ عدالت کو نئی حلقہ بندیوں کا حق نہیں، یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے۔ بدقسمتی سے الیکشن کمیشن نے متحدہ کے قائد کے بیان کا انتظار نہیں کیا اور پہلے ہی عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا۔ متحد ہ کا موقف ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کا مقصد متحدہ کو اس کی اکثریت سے محروم کرنا ہے۔ اس موقف کی بالواسطہ تائید اے این پی کے بیان سے ہوتی ہے جس نے یہ بات ایک سے زیادہ بار کی ہے کہ حلقہ بندیاں منصفانہ ہوں تو متحدہ کی سیٹیں آدھی یا اس سے بھی کم رہ جائیں گی۔

حلقہ بندیاں یا تو غلط ہوتی ہیں یا صحیح۔ اگر غلط ہوئی ہیں تو اے این پی اور دوسری جماعتوں کا یہ دعویٰ ''برحق'' لگے گا کہ متحدہ منصفانہ حلقہ بندیوں کے بعد اپنی آدھی نشستیں کھو بیٹھے گی اور اگر صحیح ہیں تو متحدہ کی بات ان الفاظ میں درست مان لی جانی چاہیے کہ متحدہ کی سیٹیں اس سے ناجائز طور پر چھیننے کی سازش ہو رہی ہے۔ کراچی میں گزشتہ روز ٹیلی فونک خطاب کے دوران الطاف حسین کا لہجہ خاصا سخت تھا اور ان کا یہ مطالبہ بہت معنی خیز اور اہم تھا کہ آئینی طور پر نئی حلقہ بندیوں سے پہلے نئی مردم شماری ضروری ہے۔

آئین کے تحت اس معاملے کی پوزیشن کیا ہے، اس پر تو آئینی ماہرین ہی روشنی ڈال سکتے ہیں لیکن یہ معاملہ کراچی کا ہے جہاں متحدہ کا ایک پریس ریلیز ہی آئینی حکم کے مترادف سمجھاجاتا ہے۔ خیر، اس معاملے کو ہلکا پھلکا سمجھ کر نظر انداز کر یں لیکن اس سوا ل پر ضرور غور کریں کہ اگر الطاف حسین نے اس مطالبے پر زیادہ زور دیا اور متحدہ سڑکوں پر آ گئی کہ نئی حلقہ بندیوں سے پہلے مردم شماری ضروری ہے تو کیا ہو گا؟ دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک الطاف حسین کا مطالبہ مانتے ہوئے حلقہ بندیوں کا کام ترک کر دیا جائے۔ اس صورت میں الیکشن بروقت ہونے کے راستے کی رکاوٹ دور ہو جائے گی اور اگر ان کی دوسری آپشن تسلیم کی گئی یعنی پہلے مردم شماری پھر حلقہ بندیاں تو الیکشن کا قصہ چار سال کے لیے پاک۔

مردم شماری میں اتنا وقت تو لگتا ہی ہے اور حسن اتفاق دیکھیے، عبوری احتسابی حکومت کو بھی اتنی ہی مدت درکار ہے یعنی چار سال کے لیے۔

انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے لیکن بہرحال اتنا کم بھی نہیں کہ ایسے چند ایک مزید اتفاقات تلاش کرلیے جائیں یا خود ہی تلاش ہو جائیں اور عبوری احتسابی حکومت کا چاند نظر آنے کے لیے درکار مطلع پوری طرح صاف ہو جائے۔

مطلع صاف ہو تو چاند دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ رہے چاند چڑھانے کے خواہشمند تو وہ مصنوعی مطلع بنانے کے بھی ماہر ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ خراب مطلع چاند کو نظر آنے سے روک سکتا ہے لیکن طلوع ہونے سے نہیں۔
Load Next Story