بروقت کارروائی کر کے نوجوان کی جان بچائی جا سکتی تھی عدالت کی آبزرویشن
آتشزدگی سے تحفظ کے کیا انتظامات اورباہرنکلنے کے راستوں کی کیا صورتحال ہے؟ منظر ٹیلی کاسٹ کرنے پر پیمرا سے جواب طلب.
KARACHI:
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پیر کو اسٹیٹ لائف بلڈنگ سے گرکر نوجوان کی ہلاکت اوربلدیہ ٹائون میں گارمنٹس فیکٹری کے متعلق ازخود کارروائیوں کی سماعت کرتے ہوئے آبزرو کیا کہ اگر بروقت کارروائی کی جاتی تو نوجوان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
فاضل عدالت نے سانحہ بلدیہ ٹائون تحقیقاتی ٹریبونل کی رپورٹ طلب کرلی، فاضل بینچ نے چیف آفیسر کے ای ایس سی اور ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو آئندہ سماعت پر طلب کیا ہے،فاضل بینچ نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ عدالت کو بتایاجائے کہ اسٹیٹ لائف بلڈنگ میں آتشزدگی سے تحفظ کے لیے کیا انتظامات تھے اور آگ کی صورت میں باہر نکلنے کے راستوں کی کیا صورتحال ہے۔
عمارت میں آگ اوردھوئیں پر قابو پانے کے لیے کیا انتظامات تھے اور ان انتظامات کا کتنے عرصے بعد جائزہ لیا جاتا تھا، فاضل بینچ نے اویس کے نیچے گرنے کا منظر ٹیلی کاسٹ کرنے پر پیمرا سے بھی جواب طلب کرلیا،فاضل بینچ نے اے پی این ایس کوبھی نوٹس جاری کیا کہ بتایا جائے کہ اس نے اپنے ارکان کو ایسے واقعات کی اشاعت سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
سماعت پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے تاہم کے ایم سی، چیف فائر آفیسر اور کے ای ایس سی کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا،بلدیہ ٹائون گارمنٹس فیکٹری کے متعلق سماعت کے موقع پر عدالت نے متاثرین کیلیے مختلف اداروں کی جانب سے کیے گئے مالی امداد کے اعلان کی تفصیلات اور کس نے کتنا معاوضہ دیا کی۔
تفصیلات طلب کرلی، فاضل بینچ نے ریمارکس دیے کہ عدالت خود جائزہ لیگی کہ متاثرین کو کتنامعاوضہ دیا جائے، عدالت نے 33 افراد کی شناخت کیلیے ان کے رشتے داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ دوبارہ کرانے کے لیے دوبارہ نمونے دینے کی ہدایت کی ہے ، بینچ کے روبرو خالد محمود ایڈووکیٹ نے بند لفافہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے علی انٹرپرائز کے مالک کے اثاثوں کے بارے میں حکم دیا تھا۔
انکی اور انکے اہل خانہ کی زندگیاں خطرے میں ہیں اورعدالت کی ہدایات پر جومعلومات بند لفافے میں فراہم کی گئی ہیں اگر انھیں منظر عام پر لایاگیاتو ان کے لیے خطرات بڑھ جائینگے ۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پیر کو اسٹیٹ لائف بلڈنگ سے گرکر نوجوان کی ہلاکت اوربلدیہ ٹائون میں گارمنٹس فیکٹری کے متعلق ازخود کارروائیوں کی سماعت کرتے ہوئے آبزرو کیا کہ اگر بروقت کارروائی کی جاتی تو نوجوان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
فاضل عدالت نے سانحہ بلدیہ ٹائون تحقیقاتی ٹریبونل کی رپورٹ طلب کرلی، فاضل بینچ نے چیف آفیسر کے ای ایس سی اور ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو آئندہ سماعت پر طلب کیا ہے،فاضل بینچ نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ عدالت کو بتایاجائے کہ اسٹیٹ لائف بلڈنگ میں آتشزدگی سے تحفظ کے لیے کیا انتظامات تھے اور آگ کی صورت میں باہر نکلنے کے راستوں کی کیا صورتحال ہے۔
عمارت میں آگ اوردھوئیں پر قابو پانے کے لیے کیا انتظامات تھے اور ان انتظامات کا کتنے عرصے بعد جائزہ لیا جاتا تھا، فاضل بینچ نے اویس کے نیچے گرنے کا منظر ٹیلی کاسٹ کرنے پر پیمرا سے بھی جواب طلب کرلیا،فاضل بینچ نے اے پی این ایس کوبھی نوٹس جاری کیا کہ بتایا جائے کہ اس نے اپنے ارکان کو ایسے واقعات کی اشاعت سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
سماعت پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے تاہم کے ایم سی، چیف فائر آفیسر اور کے ای ایس سی کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا،بلدیہ ٹائون گارمنٹس فیکٹری کے متعلق سماعت کے موقع پر عدالت نے متاثرین کیلیے مختلف اداروں کی جانب سے کیے گئے مالی امداد کے اعلان کی تفصیلات اور کس نے کتنا معاوضہ دیا کی۔
تفصیلات طلب کرلی، فاضل بینچ نے ریمارکس دیے کہ عدالت خود جائزہ لیگی کہ متاثرین کو کتنامعاوضہ دیا جائے، عدالت نے 33 افراد کی شناخت کیلیے ان کے رشتے داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ دوبارہ کرانے کے لیے دوبارہ نمونے دینے کی ہدایت کی ہے ، بینچ کے روبرو خالد محمود ایڈووکیٹ نے بند لفافہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے علی انٹرپرائز کے مالک کے اثاثوں کے بارے میں حکم دیا تھا۔
انکی اور انکے اہل خانہ کی زندگیاں خطرے میں ہیں اورعدالت کی ہدایات پر جومعلومات بند لفافے میں فراہم کی گئی ہیں اگر انھیں منظر عام پر لایاگیاتو ان کے لیے خطرات بڑھ جائینگے ۔