نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے

جب کوئی قوم اور ریاست جنگ میں مصروف ہو تو اسے سب سے زیادہ اتفاق رائے اور قومی استقامت و استقلال کی ضرورت ہوتی ہے


Editorial August 14, 2016
دہشتگرد قوتوں نے ابھی اپنے ’’گلوز‘‘ ہاتھوں سے نہیں اتارے ہیں، جنگ ابھی جاری ہے جب کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ فوٹو: فائل

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے غیر مناسب بیانات اور تجزیئے قومی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں جب کہ اس طرح کے اکسانے والے ریمارکس قومی کوششوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں جی ایچ کیو میں اعلیٰ سطح کا سیکیورٹی اجلاس ہوا جس میں ڈی جی آئی ایس آئی، پرنسپل اسٹاف آفیسرز اور کور کمانڈر راولپنڈی نے شرکت کی۔ اجلاس میں آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر پیشرفت سے متعلق جائزہ لیا گیا۔

ملکی داخلی صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر اس اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر حکومت کی جانب سے عمل درآمد کے حوالہ سے اہم سوال اٹھایا گیا اور اس پہلو کو اجاگر کرنا کوئی جرم نہیں کہ پلان پر پیش رفت نہ ہونے سے ضرب عضب متاثر ہوا، اس میں ایک اہم اور بنیادی نکتہ کی طرف سیاسی قیادت کی توجہ صاف گوئی سے مبذول کرائی گئی ہے، اور یہ پہلا واقعہ نہیں جنرل راحیل شریف نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں یک طرفہ سست روی کی شکایت اگست و ستمبر2014 ء میں بھی کی تھی جس پر میڈیا، اپوزیشن اور حکومتی حلقے چیں بہ جبیں ہوئے تھے۔

اعتراض ہوا کہ حکومت پر حرف گیری کی گئی ہے لیکن اصل میں کوئٹہ سانحہ کے بعد جس سنجیدہ طرز عمل کی سیاسی حلقوں اور اپوزیشن رہنماؤں سے توقع کی گئی تھی اس کے برعکس کوئٹہ قتل عام پر بعض سیاست دانوں نے سلامتی پر مامور اہلکاروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کو بلاجواز نشانہ بنایا جب کہ سانحہ کوئٹہ کے پس منظر میں جس قومی یکجہتی، اتفاق رائے، مشترکہ لائحہ عمل اور مستقبل کے اقدامات کی ضرورت تھی اس سے پہلو تہی کی گئی۔

جنرل راحیل شریف کا اضطراب انگیز رد عمل اس نامناسب سیاسی رویے اور ہرزہ سرائی کے خلاف ایک دردمندانہ انتباہ ہے جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے جلو میں کوئی موقع محل دیکھے بغیر ریاستی اور قومی مفادات کے مقابل نئی بحث چھیڑنے کے لیے اظہار پاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مسلط شدہ دہشتگردی پوری قوم سے سیاسی، سماجی، معاشی اور مشترکہ فکری مزاحمت چاہتی ہے جو سیاسی رہنماؤں، حکومتی ٹیم، عسکری قیادت اور سول سوسائٹی سے رضاکارانہ جان نثاری کے جذبہ کی منتظر ہوتی ہے، عسکری شعبہ تو فرنٹ فٹ پر بدی کی قوتوں سے نبرد آزما ہے، ضرورت سیاسی پیش قدمی کی بھی ہے، حکومت کو بھی اپنی جارحانہ پیش قدمی سے دہشتگردوں کو یہ حتمی پیغام اور وارننگ پہنچانی چاہیے کہ عسکری و سیاسی قیادت قومی حمایت سے ان کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لے گی۔

ہمیں محض بیانات سے نہیں عملی طور پر یہ ثابت کرنا ہے کہ ملک واقعی حالت جنگ میں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کوئی قوم اور ریاست جنگ میں مصروف ہو تو اسے سب سے زیادہ اتفاق رائے اور قومی استقامت و استقلال کی ضرورت ہوتی ہے، باہمی اختلافات دفن کر دیے جاتے ہیں۔ تسلیم کیجیے کہ دہشتگردی سماج کو سیاسی سماجی اور فکری طور پر ہراساں کرتی ہے، ایسا مخدوش ملکی منظر نامہ سب کو نظر آنا چاہیے، قوم کو کثیر جہتی گرداب نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، آپریشن ضرب عضب ان بحرانوں کے خاتمہ کی ایک نا ختم ہونے والی عسکری اور قومی جدوجہد ہے، یہ آپریشن منشیات کے کسی اڈہ اور چند سماج دشمن عناصر کے خلاف وقتی کارروائی یا کریک ڈاؤن نہیں، بلکہ قانون نافذ کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور ادارے ملک کے وجود کو خطرہ میں ڈالنے والے انتہا پسند اور سرکش مذہبی جنگجوؤں اور ریاست و سماج کو خاطر میں نہ لانے والے فرقہ واریت کے علمبرداروں سے کھلی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اجلاس سے خطاب میں جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ایکشن پلان پر عمل نہ کیا گیا تو دہشت گردی جاری رہے گی کیونکہ ایکشن پلان ہمارے مقاصد کے حصول کا مقصد ہے، آرمی چیف نے کہا کہ خامیوں کو دور کیے بغیر دیرپا امن و استحکام کا خواب پورا نہیں ہو گا، تمام ادارے بھرپور تعاون کر کے شدت پسندی کا خاتمہ یقینی بنائیں، فورسز کی انتھک کوششیں اور قربانیاں امن و استحکام لائیں گی۔ ان معروضات سے برگشتہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، بری فوج کے سربراہ کا یہ کہنا صائب ہے کہ دہشتگردی کے خلاف ہماری کوششوں کو کامیاب کرنے کے لیے مربوط قومی رد عمل کی ضرورت ہے جب کہ فریقین کی طرف سے بامعنی اور مناسب اقدامات نہ ہونے سے امن قائم نہیں ہو گا۔

عسکری قیادت کی جانب سے ان گزارشات کے بین السطور قوم اور حکومتی اکابرین کے لیے غور و فکر کا کافی سامان ہے، تاہم بعض عناصر یہ چنگاری سلگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چند روز قبل وزیراعظم نے سیاسی و عسکری قیادت میں گہری اور ناقابل تردید ہم آہنگی کا اعلان کیا تھا اور نیشنل ایکش پلان کی مانیٹرنگ کے لیے ٹاسک فورس قائم کیے جانے کا فیصلہ ہوا اس لیے عسکری برہمی کی معنویت کچھ اور ہو سکتی ہے حالانکہ یہ خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ وقت کی نزاکت اور فیصلوں کی ٹائمنگ پر نظریں مرکوز رہنی چاہئیں۔ دہشتگرد قوتوں نے ابھی اپنے ''گلوز'' ہاتھوں سے نہیں اتارے ہیں، جنگ ابھی جاری ہے جب کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں