فضا اعظمی کا فلسفہ خوشی اور نصاب تعلیم
دل میں جب درد اٹھتا ہے تو چیخ ضرور نکلتی ہے، آہ و فغاں کی کیفیت غالب آجاتی ہے،
KARACHI:
دل میں جب درد اٹھتا ہے تو چیخ ضرور نکلتی ہے، آہ و فغاں کی کیفیت غالب آجاتی ہے، احساس کی تکلیف بھی درد دل سے ہرگز کم نہیں ہے، اگر علم و آگہی کے دیے میسر آجائیں تب یہ اذیت دوچند ہوجاتی ہے۔ اس آزار کو حساس دل اور خصوصاً شاعر و ادیب شدت سے محسوس کرتے ہیں، ہمارے دور کے فضا اعظمی جو مقصدی اور طویل نظموں کے لیے اپنی شناخت علیحدہ رکھتے ہیں وہ زمانے کے کرب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ''خزاں کی شبنمی راتوں میں، شب دیجور کی سنسان تنہائی سے گھبرا، کر جہاد زندگی کی کلفتوں سے خستہ جاں ہوکر، میں جب بھی بیٹھتا ہوں کرب انسانی کا سبو لے کر، تو تاریخ جہان کے کچھ مناظر یاد آتے ہیں، ستم کے، جور کے خونیں مناظر یاد آتے ہیں، ستم کے، جور کے خونیں مظاہر یاد آتے ہیں''۔
فضا اعظمی اب تک انگریزی اور اردو شاعری کی دو درجن سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں، ان کی تمام کتب خصوصاً شاعری انسانی رویوں کی زبوں حالی کے ہی گرد گھومتی ہے۔ وہ ایک ایسا معاشرہ دیکھنے کے خواہشمند ہیں جہاں انسان بستے ہوں اور جہاں شہر کا قانون ہو، جنگل کا نہیں۔ وہ درندے اور انسان میں فرق دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اور یہ فرق اسی وقت مٹ سکتا ہے جب ملک کے حکمران عوام الناس سے مخلص ہوں، ان کے مصائب اور ان کی مفلوک الحالی کا احساس رکھتے ہوں۔ فضا اعظمی کو اپنے لوگوں کا بے حد غم ہے اور مقتدر حضرات کی خودغرضی اور ہوس پرستی پر نوحہ کناں ہیں، اس لیے کہ گدی نشیں بھولے اور معصوم لوگوں کو کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں دیتے ہیں۔
ہمارے آج کے شاعر فضا اعظمی نے شعر و سخن کے حوالے سے تلخ واقعات اور ناانصافیوں کی نشاندہی اور تدارک کا طریقہ بھی سمجھایا ہے، گویا وہ ایک ایسے سرجن کا کردار ادا کر رہے ہیں، جس کے ہاتھ میں قلم و کاغذ کی شکل میں اوزار ہیں، اور وہ ان سے معاشرے کے بدبودار حصوں کو کاٹ کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔
اس پرآشوب دور میں جہاں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اور جہاں علم و حکمت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، جب کہ طاقتور اور سفارشی اپنے تعلقات اور طاقت کے بل پر سب کچھ حاصل کرلیتا ہے اور دیانتدار و محنتی شخص کو اس کی مشقت اور ایمان داری کا صلہ نہیں مل رہا ہے۔ مفاد پرستوں نے ڈیڑھ اینڈ کی مسجد بنالی ہے، ایسے میں تعصب، اقربا پروری اور قتل و غارت کی فضا اس قدر پروان چڑھی کہ انسان جہالت اور ظلم کی تاریکی میں اترتا چلا گیا، لہو رلا دینے والے واقعات نے شاعر کا قلم بھی لہو رنگ کردیا ہے۔
انھی حالات کے تناظر میں فضا اعظمی کے تواتر کے ساتھ مجموعے شایع ہوتے رہے، ان کی مکمل شاعری موضوعات اور ایک مقصد کے گرد گھومتی ہے اور مقصد انسانیت کو زندگی کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ ان کی نظمیں مسدس کی شکل میں ہیں، مرثیہ مرگ ضمیر، آواز شکستگی، مثنوی ''ثواب و عذاب''، ''عذاب ہمسائیگی''، ''مثنوی کرسی نامہ پاکستان''، ''خاک میں صورتیں'' یہ وہ کتابیں ہیں جن میں ہر شخص اپنا مکروہ چہرہ باآسانی دیکھ سکتا ہے۔
رشتوں ناتوں کی بے حرمتی، والدین کی ناقدری، دولت و جائیداد کے لیے خونی رشتوں کے قتل کی داستانیں عالمی شہرت حاصل کرچکی ہیں، ملکی و غیر ملکی حالات کی عکاسی فضا اعظمی کی شاعری کی شناخت ہے، جسے غم گساری، روتے دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ لکھا گیا ہے، نفسا نفسی اور ایک دوسرے کے استحصال کا منظر ان کے اشعار میں اس طرح ڈھل گیا ہے جس طرح قبروں پر پڑے ہوئے سرخ پھول یا بیوہ کے سر پر سفید ڈوپٹہ جو دکھی بھی کرتے ہیں اور رلاتے بھی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ہر ادارہ کرپشن کا شکار ہے، ہر شخص اپنے جائز حقوق کے لیے سرگرداں ہے، دولت کی مساوی تقسیم کا نظریہ اپنی موت آپ مرچکا ہے، جو صاحب اقتدار ہے وہی زندگی کی تمام نعمتوں اور عیش و طرب کا حقدار ہے۔ تخلیق کا احساس دل رکھتا ہے، اسی لیے معاشرے کے دکھوں پر آنسو بہاتا ہے اور یہی گریہ صفحہ قرطاس پر لفظوں کی شکل میں پھیل جاتا ہے۔ فضا اعظمی نے ملکوں ملکوں کی سیر کی ہے اور بیرون ملک رہائش اختیار کی ہے۔ جس کے نتیجے میں دیس دیس کے واقعات روایات و تجربات اور حالات شاعری کے پیکر میں ڈھل گئے ہیں۔
جہالت و افلاس کا اندھیرا جب زیادہ بڑھا تو فضا اعظمی نے مایوس انسانوں کو خوشیاں بانٹنے کی تدبیر سوچی اور پھر ان کی دو کتابیں ''خوشی کی تلاش میں'' اور ''خوشی کا سکہ'' منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں۔ غمخواری کے جذبات کی رونمائی اور انسانیت کا الم بلند کرنے پر صاحب بصیرت نہ کہ خوش ہوا بلکہ ان کے اس کارنامے پر داد بھی دی کہ اس افراتفری، خودغرضی اور مفاد پرستی کے دور میں کسی نے تو بذریعہ تحریر خوشیاں بہم پہنچانے کی بات کی، کہ آج اس کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ خودکشی کرنے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والی مستورات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ کیسی غیرت ہے کہ جو مرد کے لیے مخصوص ہے۔ عورت بھی غیرت مند ہوتی ہے جب اس کا شوہر ، بھائی، باپ، چوری، اغوا اور دوسرے بدکاری کے کاموں میں ملوث ہوتا ہے۔ لیکن وہ بے چاری تو آنسو بہاکر چپ ہوجاتی ہے، پھر اس کے احتجاج پر اسے چپ کروا دیا جاتا ہے ہمیشہ کے لیے۔ اسی طرح بچوں کا اغوا بھی سنگین جرم ہے۔ پنجاب میں آج کل بہت تیزی سے یہ گھناؤنا کاروبار ترقی کر رہا ہے۔ یہ فعل بد بھی مرد ہی انجام دے رہے ہیں۔ ان کے لیے کوئی سزا نہیں؟ ہمارا قانون اتنا کمزور ترین ہے کہ جس کا جب دل چاہے توڑدے۔ سزا پانے والے چند دنوں میں آزادی کا پروانہ لے کر فخر سے گھوم رہے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں سکون و عافیت اگر حکومت نہیں مہیا کرسکتی ہے تو قلم کاروں کے بھی کچھ فرائض ہیں کہ وہ بھی قلم کا حق ادا کریں اور اقربا پروری، گروہ بندی جسے اسلام بھی پسند نہیں کرتا ہے اس کا خاتمہ کرکے آپس میں شیر و شکر ہوجائیں۔ حال ہی میں ایک کتاب آئی ہے جس کا عنوان ہے ''فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی جائزہ''۔ مصنفہ نے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی جائزہ، خلوص دل کے ساتھ کیا ہے، تمام اسباق میں حصول خوشی کے لیے بحث کی گئی ہے۔
کتاب کے قارئین کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ فضا اعظمی زندگی کے ہر شعبے میں مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں، وہ نصاب کے سقم کو بھی دور کرنا چاہتے ہیں، تعلیمی اداروں کی بہتری کے خواہشمند ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اساتذہ اپنے پیشے سے مخلص اور محب وطن ہوں اور نئی نسل کی ایسی تعلیم و تربیت کریں کہ پاکستان ترقی کے راستوں پر گامزن ہوجائے، وہ طلبا کے ہاتھوں میں اسلحے کی جگہ کتابیں دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ بے شک وہ بے حد زیرک، جہاندیدہ اور صاحب علم و دانش ہیں، ان کی دانشوری کے نتیجے میں جو حقیقت آشکارہ ہوئی ہے اس کی اصل وجہ تعلیم کی زبوں حالی ہے۔
تعلیمی ترقی اور طلبا کے افکار میں تبدیلی اور اچھی سوچ کے لیے فضا اعظمی تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں کہ موجودہ نصاب جس کے پڑھنے سے انسان انسانیت کا دشمن ہوجائے، اپنے فائدے کے لیے اپنے ہی ساتھیوں کا گلا کاٹنے لگے اور وطن فروشی کے لیے دشمن سے ساز باز کرلے محض دولت کو حاصل کرنے کے لیے تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں کی نظرثانی کی جائے اور ایسے اسباق شامل کیے جائیں جن کے پڑھنے سے مہذب و شائستہ انداز فکر اپنانے والے نوجوان سامنے آئیں جو کسی کے ورغلانے میں نہ آسکیں، جنھیں دولت کی چمک متاثر نہ کرسکے۔ یقینی بات ہے تعلیم اچھے برے کی تمیز اور نفع و نقصان کے فوائد سے آگاہ کرتی ہے۔ بے شک یہ وقت کا تقاضا ہے کہ تعلیمی ڈھانچے کو ازسر نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
دل میں جب درد اٹھتا ہے تو چیخ ضرور نکلتی ہے، آہ و فغاں کی کیفیت غالب آجاتی ہے، احساس کی تکلیف بھی درد دل سے ہرگز کم نہیں ہے، اگر علم و آگہی کے دیے میسر آجائیں تب یہ اذیت دوچند ہوجاتی ہے۔ اس آزار کو حساس دل اور خصوصاً شاعر و ادیب شدت سے محسوس کرتے ہیں، ہمارے دور کے فضا اعظمی جو مقصدی اور طویل نظموں کے لیے اپنی شناخت علیحدہ رکھتے ہیں وہ زمانے کے کرب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ''خزاں کی شبنمی راتوں میں، شب دیجور کی سنسان تنہائی سے گھبرا، کر جہاد زندگی کی کلفتوں سے خستہ جاں ہوکر، میں جب بھی بیٹھتا ہوں کرب انسانی کا سبو لے کر، تو تاریخ جہان کے کچھ مناظر یاد آتے ہیں، ستم کے، جور کے خونیں مناظر یاد آتے ہیں، ستم کے، جور کے خونیں مظاہر یاد آتے ہیں''۔
فضا اعظمی اب تک انگریزی اور اردو شاعری کی دو درجن سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں، ان کی تمام کتب خصوصاً شاعری انسانی رویوں کی زبوں حالی کے ہی گرد گھومتی ہے۔ وہ ایک ایسا معاشرہ دیکھنے کے خواہشمند ہیں جہاں انسان بستے ہوں اور جہاں شہر کا قانون ہو، جنگل کا نہیں۔ وہ درندے اور انسان میں فرق دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اور یہ فرق اسی وقت مٹ سکتا ہے جب ملک کے حکمران عوام الناس سے مخلص ہوں، ان کے مصائب اور ان کی مفلوک الحالی کا احساس رکھتے ہوں۔ فضا اعظمی کو اپنے لوگوں کا بے حد غم ہے اور مقتدر حضرات کی خودغرضی اور ہوس پرستی پر نوحہ کناں ہیں، اس لیے کہ گدی نشیں بھولے اور معصوم لوگوں کو کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں دیتے ہیں۔
ہمارے آج کے شاعر فضا اعظمی نے شعر و سخن کے حوالے سے تلخ واقعات اور ناانصافیوں کی نشاندہی اور تدارک کا طریقہ بھی سمجھایا ہے، گویا وہ ایک ایسے سرجن کا کردار ادا کر رہے ہیں، جس کے ہاتھ میں قلم و کاغذ کی شکل میں اوزار ہیں، اور وہ ان سے معاشرے کے بدبودار حصوں کو کاٹ کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔
اس پرآشوب دور میں جہاں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اور جہاں علم و حکمت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، جب کہ طاقتور اور سفارشی اپنے تعلقات اور طاقت کے بل پر سب کچھ حاصل کرلیتا ہے اور دیانتدار و محنتی شخص کو اس کی مشقت اور ایمان داری کا صلہ نہیں مل رہا ہے۔ مفاد پرستوں نے ڈیڑھ اینڈ کی مسجد بنالی ہے، ایسے میں تعصب، اقربا پروری اور قتل و غارت کی فضا اس قدر پروان چڑھی کہ انسان جہالت اور ظلم کی تاریکی میں اترتا چلا گیا، لہو رلا دینے والے واقعات نے شاعر کا قلم بھی لہو رنگ کردیا ہے۔
انھی حالات کے تناظر میں فضا اعظمی کے تواتر کے ساتھ مجموعے شایع ہوتے رہے، ان کی مکمل شاعری موضوعات اور ایک مقصد کے گرد گھومتی ہے اور مقصد انسانیت کو زندگی کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ ان کی نظمیں مسدس کی شکل میں ہیں، مرثیہ مرگ ضمیر، آواز شکستگی، مثنوی ''ثواب و عذاب''، ''عذاب ہمسائیگی''، ''مثنوی کرسی نامہ پاکستان''، ''خاک میں صورتیں'' یہ وہ کتابیں ہیں جن میں ہر شخص اپنا مکروہ چہرہ باآسانی دیکھ سکتا ہے۔
رشتوں ناتوں کی بے حرمتی، والدین کی ناقدری، دولت و جائیداد کے لیے خونی رشتوں کے قتل کی داستانیں عالمی شہرت حاصل کرچکی ہیں، ملکی و غیر ملکی حالات کی عکاسی فضا اعظمی کی شاعری کی شناخت ہے، جسے غم گساری، روتے دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ لکھا گیا ہے، نفسا نفسی اور ایک دوسرے کے استحصال کا منظر ان کے اشعار میں اس طرح ڈھل گیا ہے جس طرح قبروں پر پڑے ہوئے سرخ پھول یا بیوہ کے سر پر سفید ڈوپٹہ جو دکھی بھی کرتے ہیں اور رلاتے بھی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ہر ادارہ کرپشن کا شکار ہے، ہر شخص اپنے جائز حقوق کے لیے سرگرداں ہے، دولت کی مساوی تقسیم کا نظریہ اپنی موت آپ مرچکا ہے، جو صاحب اقتدار ہے وہی زندگی کی تمام نعمتوں اور عیش و طرب کا حقدار ہے۔ تخلیق کا احساس دل رکھتا ہے، اسی لیے معاشرے کے دکھوں پر آنسو بہاتا ہے اور یہی گریہ صفحہ قرطاس پر لفظوں کی شکل میں پھیل جاتا ہے۔ فضا اعظمی نے ملکوں ملکوں کی سیر کی ہے اور بیرون ملک رہائش اختیار کی ہے۔ جس کے نتیجے میں دیس دیس کے واقعات روایات و تجربات اور حالات شاعری کے پیکر میں ڈھل گئے ہیں۔
جہالت و افلاس کا اندھیرا جب زیادہ بڑھا تو فضا اعظمی نے مایوس انسانوں کو خوشیاں بانٹنے کی تدبیر سوچی اور پھر ان کی دو کتابیں ''خوشی کی تلاش میں'' اور ''خوشی کا سکہ'' منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں۔ غمخواری کے جذبات کی رونمائی اور انسانیت کا الم بلند کرنے پر صاحب بصیرت نہ کہ خوش ہوا بلکہ ان کے اس کارنامے پر داد بھی دی کہ اس افراتفری، خودغرضی اور مفاد پرستی کے دور میں کسی نے تو بذریعہ تحریر خوشیاں بہم پہنچانے کی بات کی، کہ آج اس کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ خودکشی کرنے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والی مستورات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ کیسی غیرت ہے کہ جو مرد کے لیے مخصوص ہے۔ عورت بھی غیرت مند ہوتی ہے جب اس کا شوہر ، بھائی، باپ، چوری، اغوا اور دوسرے بدکاری کے کاموں میں ملوث ہوتا ہے۔ لیکن وہ بے چاری تو آنسو بہاکر چپ ہوجاتی ہے، پھر اس کے احتجاج پر اسے چپ کروا دیا جاتا ہے ہمیشہ کے لیے۔ اسی طرح بچوں کا اغوا بھی سنگین جرم ہے۔ پنجاب میں آج کل بہت تیزی سے یہ گھناؤنا کاروبار ترقی کر رہا ہے۔ یہ فعل بد بھی مرد ہی انجام دے رہے ہیں۔ ان کے لیے کوئی سزا نہیں؟ ہمارا قانون اتنا کمزور ترین ہے کہ جس کا جب دل چاہے توڑدے۔ سزا پانے والے چند دنوں میں آزادی کا پروانہ لے کر فخر سے گھوم رہے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں سکون و عافیت اگر حکومت نہیں مہیا کرسکتی ہے تو قلم کاروں کے بھی کچھ فرائض ہیں کہ وہ بھی قلم کا حق ادا کریں اور اقربا پروری، گروہ بندی جسے اسلام بھی پسند نہیں کرتا ہے اس کا خاتمہ کرکے آپس میں شیر و شکر ہوجائیں۔ حال ہی میں ایک کتاب آئی ہے جس کا عنوان ہے ''فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی جائزہ''۔ مصنفہ نے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی جائزہ، خلوص دل کے ساتھ کیا ہے، تمام اسباق میں حصول خوشی کے لیے بحث کی گئی ہے۔
کتاب کے قارئین کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ فضا اعظمی زندگی کے ہر شعبے میں مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں، وہ نصاب کے سقم کو بھی دور کرنا چاہتے ہیں، تعلیمی اداروں کی بہتری کے خواہشمند ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اساتذہ اپنے پیشے سے مخلص اور محب وطن ہوں اور نئی نسل کی ایسی تعلیم و تربیت کریں کہ پاکستان ترقی کے راستوں پر گامزن ہوجائے، وہ طلبا کے ہاتھوں میں اسلحے کی جگہ کتابیں دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ بے شک وہ بے حد زیرک، جہاندیدہ اور صاحب علم و دانش ہیں، ان کی دانشوری کے نتیجے میں جو حقیقت آشکارہ ہوئی ہے اس کی اصل وجہ تعلیم کی زبوں حالی ہے۔
تعلیمی ترقی اور طلبا کے افکار میں تبدیلی اور اچھی سوچ کے لیے فضا اعظمی تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں کہ موجودہ نصاب جس کے پڑھنے سے انسان انسانیت کا دشمن ہوجائے، اپنے فائدے کے لیے اپنے ہی ساتھیوں کا گلا کاٹنے لگے اور وطن فروشی کے لیے دشمن سے ساز باز کرلے محض دولت کو حاصل کرنے کے لیے تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں کی نظرثانی کی جائے اور ایسے اسباق شامل کیے جائیں جن کے پڑھنے سے مہذب و شائستہ انداز فکر اپنانے والے نوجوان سامنے آئیں جو کسی کے ورغلانے میں نہ آسکیں، جنھیں دولت کی چمک متاثر نہ کرسکے۔ یقینی بات ہے تعلیم اچھے برے کی تمیز اور نفع و نقصان کے فوائد سے آگاہ کرتی ہے۔ بے شک یہ وقت کا تقاضا ہے کہ تعلیمی ڈھانچے کو ازسر نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔