انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز
پاکستان کو غیر مستقل مزاجی کی عادت سے پیچھا چھڑانا ہوگا
BAHAWALPUR:
قومی کرکٹ ٹیم کا دورہ شروع ہونے سے قبل ہی ایک تاثر عام تھا کہ انگلینڈ کی کنڈیشنز میں یواے ای جیسی کارکردگی دہراناآسان نہیں ہوگا۔
آرمی ٹرینرز کی نگرانی میں فٹنس کیمپ کے بعد کھلاڑیوں کو قبل از وقت بھجواکر ہمپشائر میں کنڈیشننگ کیمپ لگانے کا مقصد ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے مواقع فراہم کرنا تھا، ٹیم کے ٹارگٹ میچز بارشوں سے متاثر ہونے کے بعد سمر سیٹ اور سسیکس کے خلاف وارم اپ مقابلوں میں بھی ٹیسٹ معرکوں کے لیے صف آرائی کا موقع ملا، پاکستان نے لارڈز میں تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے میزبان ٹیم اور مبصرین کو حیران کردیا،اس فتح کے بعد کھلاڑیوں کا اعتماد عروج پر ہونا چاہیے تھا لیکن ان کی غیرمستقل مزاجی نے انگلینڈ کو نیا حوصلہ دے دیا۔
لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سنچری داغنے والے مصباح الحق دوسری باری میں صفر پر آؤٹ ہوئے،اسد شفیق نے دونوں بار ففٹیز بنائیں،بیٹنگ کی اس واجبی کارکردگی پر یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ نے پردہ ڈال دیا، میزبان بیٹسمین لیگ سپنر کی گھومتی گیندوں کو قطعی طور پر سمجھنے میں ناکام رہے اور شکست کو ٹالنا مشکل ہوگیا۔
اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ میں بولرز اپنی لائن لینتھ بھول گئے، یاسر شاہ نے ضرورت سے زیادہ تیز گیندیں کرتے ہوئے تھری فیگر اننگز کھیلنے والے الیسٹرکک اور ڈبل سنچری میکر جوئے روٹ کو آزادانہ سٹروک کھیلنے کا موقع فراہم کیا، پیسرز بھی رنگ جمانے میں ناکام رہے،انگلینڈ نے 8وکٹ پر 589کا پہاڑ کھڑا کیا تو مہمان بیٹنگ لائن اعتماد کی دولت کھوبیٹھی، مشکل حالات میں صرف مصباح الحق ہی ففٹی بناسکے، محمد حفیظ اور یونس خان نے ایک بار پھر مایوس کیا، میزبان ٹیم نے فالوآن کرانے کے بجائے خود بیٹنگ کرکے ہدف دیا تو کسی ایک کو بھی نصف سنچری کا سنگ میل عبور کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
ایجبسٹن ٹیسٹ بھی پاکستانی سکواڈ کی غیر مستقل مزاجی کے نقوش چھوڑتا ہوا ناکامی پر ختم ہوا،سیریز میں پہلی بار آزمائے جانے والے سہیل خان نے ٹیسٹ کرکٹ میں 5سال بعد واپسی کا جشن اتنی ہی وکٹوں کیساتھ منایا لیکن گیری بیلنس اور معین علی کو ففٹیز کا موقع دے کر بولرز نے مہم کمزور کردی۔
297کے جواب میں پاکستان کو سنچری میکر اظہر علی اور مسلسل ناکام شان مسعود کی جگہ لینے والے لیفٹ ہینڈر سمیع اسلم نے مضبوط پوزیشن پر لاکھڑا کیا تھا لیکن نوجوان اوپنر کے 82پر رن آؤٹ ہونے کے بعد یونس خان اور اسد شفیق کے غیر ذمہ دارانہ سٹروکس نے بڑی برتری کا خواب خاک میں ملا دیا، تاہم بولرز فائٹ کرتے تو 103رنز کی لیڈ بھی پاکستان کا پلڑا بھاری کرنے کے لیے کافی ہوسکتی تھی،سہیل خان سمیت پیسرز اور یاسر شاہ رنز کا سیلاب روکنے میں ناکام رہے۔
جونی بیرسٹو اور معین علی کی شراکت نے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا،ان میں سے کسی ایک بیٹسمین کو بھی جلد آؤٹ کرکے انگلینڈ کے گرد گھیرا تنگ کیا جاسکتا تھا لیکن بولرز اور فیلڈرز دونوں اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے، بعد ازاں میچ ڈرا کرنے کے لیے یونس خان، مصباح الحق یا اسد شفیق میں سے کسی ایک کو 15اوورز تک وکٹ پر قیام کرنا تھا لیکن کسی نے بھی ذمہ داری کا احساس نہ کیا۔
اوول میں جاری چوتھا ٹیسٹ ایک بار پھر غیر مستقل مزاجی کی مثالیں چھوڑتا نظر آرہا ہے،ایجبسٹن کی پہلی اننگز میں تہلکہ مچانے کے بعد دوسری میں بجھے بجھے سے نظر آنے والے سہیل خان نے اس میچ میں انگلینڈ کے 5شکار کئے،دوسری طرف صرف 110رنز پر نصف ٹیم کو پویلین بھیجنے والے بولرز نے 328رنز بنوادیئے،جوابی بیٹنگ میں ایجبسٹن میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے سمیع اسلم صرف3رنز کے مہمان ثابت ہوئے،لارڈز کے بعد مسلسل ناکام اسد شفیق نے سنچری اور سیریز میں رنز کے لیے ترسنے والے یونس خان نے ڈبل سنچری داغ دی تو قابل بھروسہ سمجھے جانے والے مصباح الحق دھوکا دے گئے۔
افتخار احمد نے قطعی طور پر ذمہ داری محسوس نہیں کی کہ پہلا ٹیسٹ کھیلتے ہوئے ون ڈے سٹروکس کھیلنا ٹیم کے مفاد میں نہیں ہوگا،پوری سیریز میں ناکامیوں کی تصویر بنے رہنے والے یونس خان نے سرفراز احمد اور ٹیل اینڈرز کی مدد برتری مستحکم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، میچ کا نتیجہ کچھ بھی ہو، ایک بات واضح ہے کہ پوری سیریز میں کسی کرکٹر کی جانب سے کارکردگی میں تسلسل دیکھنے میں نہیں آیا، یاسر شاہ ایک میچ میں ہیرو، دیگر میں زیرو ثابت ہوئے۔
سہیل خان ابھی تک پہلی اننگز کے بہتر بولر کے روپ میں آئے ہیں، وہاب ریاض، راحت علی بھی کبھی بہترین تو کبھی بدترین بولنگ کرتے رہے ہیں،شائقین کو سب سے زیادہ مایوسی محمد عامر سے ہوئی، سپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ پیسر اوسط درجے کے بولر لگ رہے ہیں،دوسری جانب بیٹنگ میں پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے مصباح الحق بعد میں یہ سنگ میل عبور نہیں کرسکے، تاہم انہوں نے ایک دواننگز میں تھوڑی مزاحمت ضرور کی ہے، محمد حفیظ کیساتھ یونس خان کو بھی ڈراپ کرنے کی صدائیں عام تھیں لیکن انہوں نے آخری ٹیسٹ میں کارکردگی دکھادی۔
اسد شفیق نے ایجبسٹن میں پیئر کی خفت اٹھانے کے بعد اوول میں سنچری بناڈالی،سرفراز احمد نے اپنا مزاج بدلے بغیر کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،اس کا ٹیم کو کبھی فائدہ ہوتا ہے، کبھی نقصان بھی، اولڈ ٹریفورڈ میں تو الیسٹرکک اور جوئے روٹ نے شاندار اننگز کھیل کر پاکستانی کیمپ کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا تھا،600کے قریب رنز بنوادینا ہی شکست کی بنیاد بنا لیکن معین علی یا جونی بیرسٹو جیسی ایک ذمہ دارانہ اننگز ایجبسٹن ٹیسٹ بچا سکتی تھی، جتنی مزاحمت بولرز نے بیٹنگ میں کی اتنی سینئرز بھی کرتے تو انگلینڈ کو سیریز میں برتری پانے کا موقع نہیں ملتا۔
دوسری طرف ون ڈے سیریز کے لیے سکواڈ کا انتخاب بھی کئی سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے، عمرگل طویل عرصے بعد ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، سلیکٹرز نے بہتر فٹنس اور فیلڈنگ صلاحیت کی وجہ سے 32سالہ پیسر کو محمدعرفان پر ترجیح دی گئی ہے لیکن وہ خود بھی انجریز سے نبرد آزما اور آؤٹ آف فارم بھی رہے ہیں،اچھی تکنیک کے حامل نوجوان بیٹسمین سمیع اسلم کو بھی شامل کیا گیا۔
شرجیل خان کی دوسال بعد واپسی ہوئی،ٹیسٹ سیریز میں مسلسل ناکام محمد حفیظ کو ٹیم میں مڈل آرڈر بیٹسمین کے طور پر جگہ دیدی گئی ہے، یاسر شاہ کو بھی نومبر 2015کے بعد ایک روزہ میچ کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے، پیسر حسن علی اور آل راؤنڈر محمد نواز بھی ڈیبیو کے منتظر ہوں گے،فٹنس مسائل سے نجات پانے والے بابر اعظم اور عماد وسیم سکواڈ میں برقرار ہیں،تجربہ کار اظہرعلی بطور کپتان، شعیب ملک، سرفرازاحمد، محمد رضوان، محمد عامر، وہاب ریاض کی خدمات بھی میسر ہونگی۔
صہیب مقصود، انور علی، راحت علی اورظفر گوہر کو جگہ نہیں مل سکی، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے متوازن سکواڈ تشکیل دینے کا دعوی کیا ہے،تاہم انگلینڈ میں صرف 3پیسرز کے ساتھ کھیلنے سے مہم کمزور رہ سکتی ہے،تمام آل راؤنڈرز سپنر کی اضافی خوبی رکھتے ہیں،ان میں سے کوئی فاسٹ بولرز نہیں،کسی کی انجری سے مہمان ٹیم کو پریشانی ہوسکتی ہے، دوسرے بولنگ پر پابندی کا شکار محمد حفیظ ٹیم پر بوجھ ثابت ہوئے تو متبادل اوپنر شرجیل خان کی تکنیک بھی اچھی نہیں۔
قومی کرکٹ ٹیم کا دورہ شروع ہونے سے قبل ہی ایک تاثر عام تھا کہ انگلینڈ کی کنڈیشنز میں یواے ای جیسی کارکردگی دہراناآسان نہیں ہوگا۔
آرمی ٹرینرز کی نگرانی میں فٹنس کیمپ کے بعد کھلاڑیوں کو قبل از وقت بھجواکر ہمپشائر میں کنڈیشننگ کیمپ لگانے کا مقصد ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے مواقع فراہم کرنا تھا، ٹیم کے ٹارگٹ میچز بارشوں سے متاثر ہونے کے بعد سمر سیٹ اور سسیکس کے خلاف وارم اپ مقابلوں میں بھی ٹیسٹ معرکوں کے لیے صف آرائی کا موقع ملا، پاکستان نے لارڈز میں تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے میزبان ٹیم اور مبصرین کو حیران کردیا،اس فتح کے بعد کھلاڑیوں کا اعتماد عروج پر ہونا چاہیے تھا لیکن ان کی غیرمستقل مزاجی نے انگلینڈ کو نیا حوصلہ دے دیا۔
لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سنچری داغنے والے مصباح الحق دوسری باری میں صفر پر آؤٹ ہوئے،اسد شفیق نے دونوں بار ففٹیز بنائیں،بیٹنگ کی اس واجبی کارکردگی پر یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ نے پردہ ڈال دیا، میزبان بیٹسمین لیگ سپنر کی گھومتی گیندوں کو قطعی طور پر سمجھنے میں ناکام رہے اور شکست کو ٹالنا مشکل ہوگیا۔
اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ میں بولرز اپنی لائن لینتھ بھول گئے، یاسر شاہ نے ضرورت سے زیادہ تیز گیندیں کرتے ہوئے تھری فیگر اننگز کھیلنے والے الیسٹرکک اور ڈبل سنچری میکر جوئے روٹ کو آزادانہ سٹروک کھیلنے کا موقع فراہم کیا، پیسرز بھی رنگ جمانے میں ناکام رہے،انگلینڈ نے 8وکٹ پر 589کا پہاڑ کھڑا کیا تو مہمان بیٹنگ لائن اعتماد کی دولت کھوبیٹھی، مشکل حالات میں صرف مصباح الحق ہی ففٹی بناسکے، محمد حفیظ اور یونس خان نے ایک بار پھر مایوس کیا، میزبان ٹیم نے فالوآن کرانے کے بجائے خود بیٹنگ کرکے ہدف دیا تو کسی ایک کو بھی نصف سنچری کا سنگ میل عبور کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
ایجبسٹن ٹیسٹ بھی پاکستانی سکواڈ کی غیر مستقل مزاجی کے نقوش چھوڑتا ہوا ناکامی پر ختم ہوا،سیریز میں پہلی بار آزمائے جانے والے سہیل خان نے ٹیسٹ کرکٹ میں 5سال بعد واپسی کا جشن اتنی ہی وکٹوں کیساتھ منایا لیکن گیری بیلنس اور معین علی کو ففٹیز کا موقع دے کر بولرز نے مہم کمزور کردی۔
297کے جواب میں پاکستان کو سنچری میکر اظہر علی اور مسلسل ناکام شان مسعود کی جگہ لینے والے لیفٹ ہینڈر سمیع اسلم نے مضبوط پوزیشن پر لاکھڑا کیا تھا لیکن نوجوان اوپنر کے 82پر رن آؤٹ ہونے کے بعد یونس خان اور اسد شفیق کے غیر ذمہ دارانہ سٹروکس نے بڑی برتری کا خواب خاک میں ملا دیا، تاہم بولرز فائٹ کرتے تو 103رنز کی لیڈ بھی پاکستان کا پلڑا بھاری کرنے کے لیے کافی ہوسکتی تھی،سہیل خان سمیت پیسرز اور یاسر شاہ رنز کا سیلاب روکنے میں ناکام رہے۔
جونی بیرسٹو اور معین علی کی شراکت نے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا،ان میں سے کسی ایک بیٹسمین کو بھی جلد آؤٹ کرکے انگلینڈ کے گرد گھیرا تنگ کیا جاسکتا تھا لیکن بولرز اور فیلڈرز دونوں اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے، بعد ازاں میچ ڈرا کرنے کے لیے یونس خان، مصباح الحق یا اسد شفیق میں سے کسی ایک کو 15اوورز تک وکٹ پر قیام کرنا تھا لیکن کسی نے بھی ذمہ داری کا احساس نہ کیا۔
اوول میں جاری چوتھا ٹیسٹ ایک بار پھر غیر مستقل مزاجی کی مثالیں چھوڑتا نظر آرہا ہے،ایجبسٹن کی پہلی اننگز میں تہلکہ مچانے کے بعد دوسری میں بجھے بجھے سے نظر آنے والے سہیل خان نے اس میچ میں انگلینڈ کے 5شکار کئے،دوسری طرف صرف 110رنز پر نصف ٹیم کو پویلین بھیجنے والے بولرز نے 328رنز بنوادیئے،جوابی بیٹنگ میں ایجبسٹن میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے سمیع اسلم صرف3رنز کے مہمان ثابت ہوئے،لارڈز کے بعد مسلسل ناکام اسد شفیق نے سنچری اور سیریز میں رنز کے لیے ترسنے والے یونس خان نے ڈبل سنچری داغ دی تو قابل بھروسہ سمجھے جانے والے مصباح الحق دھوکا دے گئے۔
افتخار احمد نے قطعی طور پر ذمہ داری محسوس نہیں کی کہ پہلا ٹیسٹ کھیلتے ہوئے ون ڈے سٹروکس کھیلنا ٹیم کے مفاد میں نہیں ہوگا،پوری سیریز میں ناکامیوں کی تصویر بنے رہنے والے یونس خان نے سرفراز احمد اور ٹیل اینڈرز کی مدد برتری مستحکم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، میچ کا نتیجہ کچھ بھی ہو، ایک بات واضح ہے کہ پوری سیریز میں کسی کرکٹر کی جانب سے کارکردگی میں تسلسل دیکھنے میں نہیں آیا، یاسر شاہ ایک میچ میں ہیرو، دیگر میں زیرو ثابت ہوئے۔
سہیل خان ابھی تک پہلی اننگز کے بہتر بولر کے روپ میں آئے ہیں، وہاب ریاض، راحت علی بھی کبھی بہترین تو کبھی بدترین بولنگ کرتے رہے ہیں،شائقین کو سب سے زیادہ مایوسی محمد عامر سے ہوئی، سپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ پیسر اوسط درجے کے بولر لگ رہے ہیں،دوسری جانب بیٹنگ میں پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے مصباح الحق بعد میں یہ سنگ میل عبور نہیں کرسکے، تاہم انہوں نے ایک دواننگز میں تھوڑی مزاحمت ضرور کی ہے، محمد حفیظ کیساتھ یونس خان کو بھی ڈراپ کرنے کی صدائیں عام تھیں لیکن انہوں نے آخری ٹیسٹ میں کارکردگی دکھادی۔
اسد شفیق نے ایجبسٹن میں پیئر کی خفت اٹھانے کے بعد اوول میں سنچری بناڈالی،سرفراز احمد نے اپنا مزاج بدلے بغیر کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،اس کا ٹیم کو کبھی فائدہ ہوتا ہے، کبھی نقصان بھی، اولڈ ٹریفورڈ میں تو الیسٹرکک اور جوئے روٹ نے شاندار اننگز کھیل کر پاکستانی کیمپ کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا تھا،600کے قریب رنز بنوادینا ہی شکست کی بنیاد بنا لیکن معین علی یا جونی بیرسٹو جیسی ایک ذمہ دارانہ اننگز ایجبسٹن ٹیسٹ بچا سکتی تھی، جتنی مزاحمت بولرز نے بیٹنگ میں کی اتنی سینئرز بھی کرتے تو انگلینڈ کو سیریز میں برتری پانے کا موقع نہیں ملتا۔
دوسری طرف ون ڈے سیریز کے لیے سکواڈ کا انتخاب بھی کئی سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے، عمرگل طویل عرصے بعد ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، سلیکٹرز نے بہتر فٹنس اور فیلڈنگ صلاحیت کی وجہ سے 32سالہ پیسر کو محمدعرفان پر ترجیح دی گئی ہے لیکن وہ خود بھی انجریز سے نبرد آزما اور آؤٹ آف فارم بھی رہے ہیں،اچھی تکنیک کے حامل نوجوان بیٹسمین سمیع اسلم کو بھی شامل کیا گیا۔
شرجیل خان کی دوسال بعد واپسی ہوئی،ٹیسٹ سیریز میں مسلسل ناکام محمد حفیظ کو ٹیم میں مڈل آرڈر بیٹسمین کے طور پر جگہ دیدی گئی ہے، یاسر شاہ کو بھی نومبر 2015کے بعد ایک روزہ میچ کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے، پیسر حسن علی اور آل راؤنڈر محمد نواز بھی ڈیبیو کے منتظر ہوں گے،فٹنس مسائل سے نجات پانے والے بابر اعظم اور عماد وسیم سکواڈ میں برقرار ہیں،تجربہ کار اظہرعلی بطور کپتان، شعیب ملک، سرفرازاحمد، محمد رضوان، محمد عامر، وہاب ریاض کی خدمات بھی میسر ہونگی۔
صہیب مقصود، انور علی، راحت علی اورظفر گوہر کو جگہ نہیں مل سکی، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے متوازن سکواڈ تشکیل دینے کا دعوی کیا ہے،تاہم انگلینڈ میں صرف 3پیسرز کے ساتھ کھیلنے سے مہم کمزور رہ سکتی ہے،تمام آل راؤنڈرز سپنر کی اضافی خوبی رکھتے ہیں،ان میں سے کوئی فاسٹ بولرز نہیں،کسی کی انجری سے مہمان ٹیم کو پریشانی ہوسکتی ہے، دوسرے بولنگ پر پابندی کا شکار محمد حفیظ ٹیم پر بوجھ ثابت ہوئے تو متبادل اوپنر شرجیل خان کی تکنیک بھی اچھی نہیں۔