مقدر کا سکندر
شاید ان کا اشارہ 14ء کے دھرنے کی طرف تھا جب ان کو اچانک دھرنا ختم کرنا پڑا
www.facebook.com/shah Naqvi
عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس اور آف شور اکاؤنٹس کی فوری تحقیقات کے لیے تحریک احتساب کا پشاور سے آغاز کر دیا۔ عمران خان کی احتساب ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ریلی کا جگہ جگہ شاندار استقبال اور آتش بازی کی گئی۔ ریلی نے پشاور سے نوشہرہ تک 45 منٹ کا سفر 12 گھنٹے میں طے کیا۔ لوگ عمران خان کا خطاب سننے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے رہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ یہ تحریک اب نہیں رکے گی۔ نواز شریف کے احتساب تک وہ سڑکوں پر رہیں گے۔
شاید ان کا اشارہ 14ء کے دھرنے کی طرف تھا جب ان کو اچانک دھرنا ختم کرنا پڑا جس کی وجہ پشاور آرمی پبلک اسکول کا سانحہ جس میں دہشت گردوں نے انتہائی بیدردی سے درجنوں بچوں کو سر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ دہشت گردی تو پہلے بھی ہوتی رہی تھی لیکن کم سن بچوں کو اس طرح سے قتل کرنا۔ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ پوری قوم صدمے میں ڈوب کر رہ گئی جس کی شدت سے لوگ آج بھی نہیں نکل سکے۔ اس سانحہ نے عمران خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنا دھرنا ختم کر دیں کیونکہ اس سے پہلے حکومت کی تمام تر کوشش کے باوجود عمران خان اپنا دھرنا ختم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے چنانچہ نواز شریف حکومت جو بڑے خطرات میں گھری ہوئی تھی اس کو اس سانحے نے بچا لیا۔
نواز شریف کے پورے سیاسی کیریئر پر نظر ڈالیں تو وہ جب بھی بحران میں پھنسے انھیں ''غیبی مدد'' ملتی رہی۔ چاہے انھیں ملک کے اندر سے ملی یا بیرون ملک سے۔ ہر بحران میں پاکستانی اداروں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ بیرون ملک مدد کے حوالے سے عوام کو یاد ہی ہو گا کہ جب جنرل مشرف ان کی زندگی کے در پے تھے تو ان کی جان بچانے کے لیے امریکی سابق صدر بل کلنٹن غیبی مدد کے طور پر آئے جنھوں نے سعودی عرب کا بیچ میں ڈال کر پاکستان سے ان کو بحفاظت باہر نکال دیا۔ اسی لیے نواز شریف کو مقدر کا سکندر کہا جاتا ہے۔ نواز شریف واقعی خوش قسمت ہیں۔
ایسی قسمت کسی کسی کو ملتی ہے ان سے زیادہ خوش قسمت ان کی والدہ ہیں جن کے دو بیٹے طویل عرصے سے مختلف وقفوں سے بیک وقت پاکستان اور پنجاب پر حکمران ہیں۔ نواز شریف واقعی خوش قسمت ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی قسمت کب تک ان کا ساتھ دیتی ہے۔ ہر عروج کا زوال ہے جس طرح ہر زندگی کے بعد موت ہے۔ طویل عروج کے بعد زوال کی مثالیں ماضی میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی اور ماضی قریب میں یمن، تیونس کے حکمرانوں کے طویل عروج کے ساتھ ساتھ مصر کے آمر حسنی مبارک کا عبرت ناک زوال ہے۔ یہ وہ شخصیتیں ہیں جن کے بارے میں ان کے ملکوں کے عوام تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ لوگ زوال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
پانامہ لیکس کا طوفان اس سال 3 اپریل کو ایک یورپی شہر سے اٹھا اور پوری دنیا پر چھا گیا۔ جس میں سربراہ حکومت سمیت بڑی اہم شخصیتیں زوال کا شکار ہوئیں لیکن نواز شریف صاحب اس سے بھی بچ نکلے وہ اس طرح کہ جب پانامہ پیپرز کا دباؤ حد سے بڑھا تو وہ نواز شریف جو دو مرتبہ ٹی وی ویڈیو اور قومی اسمبلی میں خود کو احتساب کے لیے پیش کر چکے تھے دباؤ کم نہ ہونے پر علاج کے لیے بیرون ملک برطانیہ چلے گئے میڈیا کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے چار بائی پاس آپریشن ہوئے ہیں لیکن اتنے بڑے آپریشن کے صرف 5 دن بعد نواز شریف صاحب ہاتھ ہلاتے ہوئے بغیر کسی سہارے کے سیڑھیوں سے اترتے نظر آئے۔ اس کے بعد بہت سے سوال اٹھنے شروع ہوئے جن کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
وہ تمام لوگ جن کے عزیز و اقارب دوست احباب کے بائی پاس آپریشن ہوئے ہیں بتاتے ہیں کہ ایک بائی پاس آپریشن کے بعد کسی شخص کو نارمل ہونے میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ بہرحال یہ خیال آرائیاں ہیں آج میڈیکل سائنس بہت ترقی یافتہ ہے ممکن ہے کہ دل کے آپریشن میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہو جس کی بدولت مریض کی صحت جلد بحال ہونا ممکن ہو ہماری سیاست میں الزام عاید کرنا اور شکوک ظاہر کرنا عام سی بات ہے۔
نواز شریف 48 دن بعد واپس وطن تشریف لائے۔ اس دوران پاکستان میں افواہوں کا بازار گرم رہا۔ اور ہماری جذباتی قوم بیماری اور صحت یابی کی خبروں میں پانامہ لیکس کو بھول گئی اور یہی مقصود تھا کہ اتنا وقت گزر جائے کہ رات گئی بات گئی والی بات ہو جائے۔ ویسے بھی مسلمانوں کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کے مختصر عرصے کو چھوڑ کر حکمرانوں کے احتساب کی روایت ہی نہیں۔ جب کہ غیر مسلم دنیا آج بھی اپنے حکمرانوں کا احتساب کر رہی ہے جس کی تازہ ترین مثال جنوبی افریقہ کے صدر کی ہے جس نے عوام کی رقم کو اپنی رہائش گاہ کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا اور جوابدہ ہو گیا۔
تو بات ہو رہی تھی نواز شریف صاحب کی خوش قسمتی کی۔ ان کا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں تھا اور وہ سیاست میں آ گئے اور ایسے آئے کہ راتوں رات وزیر پھر وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان۔ پنجاب کے روایتی جاگیردار خاندان منہ دیکھتے رہ گئے۔ مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کو ذوالفقار علی بھٹو کا زور توڑنے کے لیے ایک ایسے نوجوان کی تلاش تھی جس کا تعلق پنجاب سے ہو۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ سے تو نواز شریف کے اختلاف ہو گئے لیکن عالمی اسٹیبلشمنٹ جس کا سرخیل امریکا ہے کے لیے نواز شریف آج بھی ضروریہیں تا کہ پاکستان میں ریڈیکل اسلام کا راستہ روکا جا سکے۔ نواز شریف کو جو کل تک آمریت کا ناگریز حصہ تھے کو پاکستان میں جمہوریت کی سرپرستی بھی سونپ دی گئی۔ یہ ان کی خوش قسمتی کی انتہا تھی کیونکہ اب جمہوریت کے نام پر ان کا طویل سیاسی کیرئیر تھا۔
آخری بات یہ کہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل کا مورخ غیبی مدد اور اتفاقات کی تشریح کر سکے۔
اگست کا آخر اور ستمبر کے شروع سے حکومت کا مقدر فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔