روٹی کی آگ
دنیا کے ہر ملک کے عوام طبقات میں بٹے ہوئے ہیں، ان طبقات میں 80 سے 90 فیصد حصہ غریب طبقات پر مشتمل ہے،
دنیا کے ہر ملک کے عوام طبقات میں بٹے ہوئے ہیں، ان طبقات میں 80 سے 90 فیصد حصہ غریب طبقات پر مشتمل ہے، جس کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی ہے۔ اس طبقے کی ساری توانائیاں صرف اپنے بچوں کے لیے غذا فراہم کرنے پر صرف ہو جاتی ہیں اور اس ناانصافی کی ذمے داری اس معاشی نظام پر عائد ہوتی ہے جسے دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتی ہے۔ دو ڈھائی سو سال سے دنیا پر یہ نظام مسلط ہے اور اس طویل عرصے کے دوران دنیا کی آبادی کا یہ 90-80 فیصد حصہ ہمیشہ روٹی کے محور پر گردش کرتا رہا ہے۔
غربت نظروں سے اوجھل کوئی ایسی شے نہیں ہے جو نظر نہ آتی ہو بلکہ یہ ایک ایسی عیاں بیماری ہے جس کا مشاہدہ قدم قدم پر کیا جا سکتا ہے۔ اس طبقاتی نظام کے مظالم کے خلاف ادب اور شاعری کو بھی استعمال کیا گیا اور اس مسئلے پر سیکڑوں فلمیں بھی بنائی گئیں، ڈرامے بھی لکھے گئے، لیکن اس عالمی بیماری میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا گیا۔ آج دنیا بھر میں بھوک اور غربت سے لاکھوں انسان مر رہے ہیں، جن کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں۔ دنیا میں انسانوں کے غمخوار ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، جو بھوک اور غربت کی تباہ کاریوں کو جانتے بھی ہیں اور اس کے اسباب کو بھی سمجھتے ہیں، لیکن اس ناانصافی کے خلاف عالمی سطح پر کوئی ایسی موثر آواز نہیں اٹھاتے جو انسانی احساسات کو جھنجھوڑ دے اور غریب طبقات اس ظلم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔
غربت کے خلاف حکمران طبقات مختلف اقدامات کرتے رہتے ہیں مثلاً ترقی یافتہ ملک، عالمی مالیاتی ادارے غربت کے خلاف غریب ملکوں کو بھاری امداد دیتے ہیں۔ اگرچہ اس امداد سے غربت ختم نہیں ہو سکتی، لیکن اس کا درست استعمال کیا جائے تو غربت میں کمی آ سکتی ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کرپشن کے جن پیروں پر کھڑا ہے اس کرپشن کا پھیلاؤ اس قدر موثر ہے کہ غربت کے خلاف دی جانے والی بھاری امداد بھی غریب طبقات تک پہنچنے سے پہلے ہی اچک لی جاتی ہے۔
آج خود ہمارے ملک پر نظر ڈالیں تو دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف 90-80 فیصد غریب عوام ہیں، جو دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں اور دوسری طرف مٹھی بھر اشرافیائی طبقہ ہے، جو ملک کے اندر اور ملک کے باہر اربوں ڈالر کی جائیداد کا مالک بنا بیٹھا ہے اور ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں اس طبقے کے اربوں روپے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ساری دولت کرپشن اور بددیانتی سے حاصل کی گئی ہے، اس کے خلاف متعلقہ اداروں اور اعلیٰ عدالتوں میں ریفرنسز بھی داخل کیے جا چکے ہیں لیکن اس ناجائز دولت کے خلاف نہ کوئی احتسابی ادارہ حرکت میں آتا ہے نہ انصاف کے مندروں سے کوئی آواز آتی ہے۔ جس سے اس نظریے کی تصدیق ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ریاستی ادارے حکمرانوں کی جیب میں رکھے ہوتے ہیں۔
میرے سامنے بے شمار موضوع، بے شمار مسائل رکھے ہوئے ہیں، جنھیں میں اپنے کالم کا موضوع بنا سکتا ہوں لیکن پچھلے پچاس برسوں سے میرے کالموں، مضامین اور افسانوں کا موضوع طبقاتی ناانصافیاں ہی رہی ہیں۔ میرے بعض دوست کہتے ہیں کہ بہت سارے اہل قلم اپنے قلم کی طاقت سے اپنی زندگی کو جنت بنا رہے ہیں بس تم کیسے آدمی ہو کہ طبقاتی مظالم کو اپنا موضوع بناکر رُل رہے ہو، کیا تمہارے لکھنے سے طبقاتی مظالم ختم ہو جائیں گے؟ تم جس نظام میں زندہ ہو اس نظام میں تمہاری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
دوستوں اور خیرخواہوں کی بات درست ہے لیکن جو لوگ شعوری طور پر طبقاتی مظالم کو اور ان کی تباہ کاریوں کو سمجھتے ہیں وہ ان کے خلاف آواز اٹھانے کو اپنی قلمی ذمے داری سمجھتے ہیں اور اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ روئی میں لگنے والی آگ دیر تک نظر نہیں آتی لیکن جب بھڑکتی ہے تو پھر اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ غریب کے ذہن روئی کے گولے ہیں، ان میں ہم سمیت بہت سارے لوگ چنگاریاں ڈال رہے ہیں اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ چنگاریاں جلد یا بدیر ایک ایسی آگ میں بدل جائیں گی جو اس پورے ظالمانہ طبقاتی نظام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
طبقاتی مظالم میں صرف پاکستان کے عوام ہی نہیں پس رہے ہیں بلکہ دنیا کے 7 ارب انسان بھی صدیوں سے اس آگ میں جل رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس طبقاتی اور انسانوں کے پیدا کردہ مظالم کو بڑی چالاکی سے مقدر اور تقدیر کا لکھا بتا کر غریب طبقات کے دلوں میں موجود آگ کو ٹھنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ اہل علم اور اہل قلم کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ غریب طبقات کو یہ شعور دیں کہ ان پر مسلط غربت، بھوک، بیماری تقدیر کے دیے ہوئے عذاب نہیں بلکہ بالادست طبقے کے مسلط کیے ہوئے عذاب ہیں اور ان سے چھٹکارا پانا ممکن ہے۔ عوام دشمن طبقات کی چالاکی یہ ہے کہ وہ غربت کو تقدیر کا لکھا بتانے کے لیے مسجدوں، مندروں، گرجاؤں کو استعمال کرتے ہیں اور غریب طبقات جو مذہب کو اور عبادت گاہوں کو سب سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں، آسانی سے استحصالی طبقات کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
لیکن اب طبقاتی نظام کے مظالم اس قدر شدت اختیار کر رہے ہیں کہ عام ناخواندہ اور سیاسی سماجی اور طبقاتی شعور سے نابلد عوام بھی طبقاتی استحصال کی آگ کے شعلوں کو محسوس کر رہے ہیں اور یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا طبقاتی مظالم سے عوام کو آگاہ کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کے ذہنوں میں طبقاتی ناانصافیوں کی یہ آگ روئی کی آگ کی طرح اندر ہی اندر سلگ رہی ہے، لیکن یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ روٹی کی یہ آگ جنگل کی آگ میں بدل جائے گی اور ظالموں کے گریبانوں تک پہنچ جائے گی۔
غربت نظروں سے اوجھل کوئی ایسی شے نہیں ہے جو نظر نہ آتی ہو بلکہ یہ ایک ایسی عیاں بیماری ہے جس کا مشاہدہ قدم قدم پر کیا جا سکتا ہے۔ اس طبقاتی نظام کے مظالم کے خلاف ادب اور شاعری کو بھی استعمال کیا گیا اور اس مسئلے پر سیکڑوں فلمیں بھی بنائی گئیں، ڈرامے بھی لکھے گئے، لیکن اس عالمی بیماری میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا گیا۔ آج دنیا بھر میں بھوک اور غربت سے لاکھوں انسان مر رہے ہیں، جن کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں۔ دنیا میں انسانوں کے غمخوار ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، جو بھوک اور غربت کی تباہ کاریوں کو جانتے بھی ہیں اور اس کے اسباب کو بھی سمجھتے ہیں، لیکن اس ناانصافی کے خلاف عالمی سطح پر کوئی ایسی موثر آواز نہیں اٹھاتے جو انسانی احساسات کو جھنجھوڑ دے اور غریب طبقات اس ظلم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔
غربت کے خلاف حکمران طبقات مختلف اقدامات کرتے رہتے ہیں مثلاً ترقی یافتہ ملک، عالمی مالیاتی ادارے غربت کے خلاف غریب ملکوں کو بھاری امداد دیتے ہیں۔ اگرچہ اس امداد سے غربت ختم نہیں ہو سکتی، لیکن اس کا درست استعمال کیا جائے تو غربت میں کمی آ سکتی ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کرپشن کے جن پیروں پر کھڑا ہے اس کرپشن کا پھیلاؤ اس قدر موثر ہے کہ غربت کے خلاف دی جانے والی بھاری امداد بھی غریب طبقات تک پہنچنے سے پہلے ہی اچک لی جاتی ہے۔
آج خود ہمارے ملک پر نظر ڈالیں تو دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف 90-80 فیصد غریب عوام ہیں، جو دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں اور دوسری طرف مٹھی بھر اشرافیائی طبقہ ہے، جو ملک کے اندر اور ملک کے باہر اربوں ڈالر کی جائیداد کا مالک بنا بیٹھا ہے اور ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں اس طبقے کے اربوں روپے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ساری دولت کرپشن اور بددیانتی سے حاصل کی گئی ہے، اس کے خلاف متعلقہ اداروں اور اعلیٰ عدالتوں میں ریفرنسز بھی داخل کیے جا چکے ہیں لیکن اس ناجائز دولت کے خلاف نہ کوئی احتسابی ادارہ حرکت میں آتا ہے نہ انصاف کے مندروں سے کوئی آواز آتی ہے۔ جس سے اس نظریے کی تصدیق ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ریاستی ادارے حکمرانوں کی جیب میں رکھے ہوتے ہیں۔
میرے سامنے بے شمار موضوع، بے شمار مسائل رکھے ہوئے ہیں، جنھیں میں اپنے کالم کا موضوع بنا سکتا ہوں لیکن پچھلے پچاس برسوں سے میرے کالموں، مضامین اور افسانوں کا موضوع طبقاتی ناانصافیاں ہی رہی ہیں۔ میرے بعض دوست کہتے ہیں کہ بہت سارے اہل قلم اپنے قلم کی طاقت سے اپنی زندگی کو جنت بنا رہے ہیں بس تم کیسے آدمی ہو کہ طبقاتی مظالم کو اپنا موضوع بناکر رُل رہے ہو، کیا تمہارے لکھنے سے طبقاتی مظالم ختم ہو جائیں گے؟ تم جس نظام میں زندہ ہو اس نظام میں تمہاری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
دوستوں اور خیرخواہوں کی بات درست ہے لیکن جو لوگ شعوری طور پر طبقاتی مظالم کو اور ان کی تباہ کاریوں کو سمجھتے ہیں وہ ان کے خلاف آواز اٹھانے کو اپنی قلمی ذمے داری سمجھتے ہیں اور اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ روئی میں لگنے والی آگ دیر تک نظر نہیں آتی لیکن جب بھڑکتی ہے تو پھر اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ غریب کے ذہن روئی کے گولے ہیں، ان میں ہم سمیت بہت سارے لوگ چنگاریاں ڈال رہے ہیں اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ چنگاریاں جلد یا بدیر ایک ایسی آگ میں بدل جائیں گی جو اس پورے ظالمانہ طبقاتی نظام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
طبقاتی مظالم میں صرف پاکستان کے عوام ہی نہیں پس رہے ہیں بلکہ دنیا کے 7 ارب انسان بھی صدیوں سے اس آگ میں جل رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس طبقاتی اور انسانوں کے پیدا کردہ مظالم کو بڑی چالاکی سے مقدر اور تقدیر کا لکھا بتا کر غریب طبقات کے دلوں میں موجود آگ کو ٹھنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ اہل علم اور اہل قلم کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ غریب طبقات کو یہ شعور دیں کہ ان پر مسلط غربت، بھوک، بیماری تقدیر کے دیے ہوئے عذاب نہیں بلکہ بالادست طبقے کے مسلط کیے ہوئے عذاب ہیں اور ان سے چھٹکارا پانا ممکن ہے۔ عوام دشمن طبقات کی چالاکی یہ ہے کہ وہ غربت کو تقدیر کا لکھا بتانے کے لیے مسجدوں، مندروں، گرجاؤں کو استعمال کرتے ہیں اور غریب طبقات جو مذہب کو اور عبادت گاہوں کو سب سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں، آسانی سے استحصالی طبقات کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
لیکن اب طبقاتی نظام کے مظالم اس قدر شدت اختیار کر رہے ہیں کہ عام ناخواندہ اور سیاسی سماجی اور طبقاتی شعور سے نابلد عوام بھی طبقاتی استحصال کی آگ کے شعلوں کو محسوس کر رہے ہیں اور یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا طبقاتی مظالم سے عوام کو آگاہ کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کے ذہنوں میں طبقاتی ناانصافیوں کی یہ آگ روئی کی آگ کی طرح اندر ہی اندر سلگ رہی ہے، لیکن یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ روٹی کی یہ آگ جنگل کی آگ میں بدل جائے گی اور ظالموں کے گریبانوں تک پہنچ جائے گی۔