جوش سے جیلانی تک

ان کی باقی تحریریں پڑھیں تو ان کی سحر نگاری مجھے کشاں کشاں ان کے دفتر لے گئی تھی

tanveer.qaisar@express.com.pk

ولادتِ رسولؐ کے پس منظر میں لکھی گئی طویل کہانی ''احوبہ'' پڑھی تو کئی روز تک دل و دماغ عجب روحانی سرشاری میں مبتلا رہے۔ اُس روز معلوم ہوا کہ اسلامی ادب کی ''ڈیفی نیشن'' کیا ہو سکتی ہے۔ ''احوبہ'' اس قدر اثر انگیز اور پُر لطف کہانی تھی کہ مَیں نے اسے زبردستی اپنے کئی احباب کو پڑھایا۔ جس نے بھی اسے پڑھا، واہ واہ کر اٹھا۔ جناب جیلانی بی اے نے اسے لکھا تھا۔ اُن دنوں وہ ہفت روزہ ''ایشیا'' کے مدیر تھے۔ اس ناتے اُن سے آگاہی تو تھی لیکن وہ اتنے اعلیٰ کہانی کار بھی ہوں گے، یہ تو ''احوبہ'' پڑھ کر ہی انکشاف ہوا۔

ان کی باقی تحریریں پڑھیں تو ان کی سحر نگاری مجھے کشاں کشاں ان کے دفتر لے گئی تھی۔ اب جو پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کی طرف سے ارسال کردہ کتاب ''زندگی کیا ہے؟'' ملی تو دل خوشی سے اُچھل کر گویا حلق میں اٹک گیا۔ یہ کتاب جیلانی بی اے صاحب کے لکھے گئے تقریباً دو درجن افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ''یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی'' نے چار سو صفحات پر مشتمل اس دلکشا کتاب کو نہایت شاندار انداز اور محبت سے شائع کیا ہے۔ ''بعَلم بن بعور'' اور ''آدمی کس برتے پر جیتے ہیں'' ۔۔۔ یہ دو کہانیاں تو اس مجموعے کی جان ہیں۔

جیلانی صاحب ان دونوں افسانوں میں اپنے فن، جس کے وہ بانی بھی تھے اور خاتم بھی، کے عروج پر نظر آتے ہیں۔ ''بعَلم بن بعور'' دراصل قرآن مجید کی سورہ مبارکہ ''اعراف'' میں ذکر کیے گئے ایک مذہبی کردار پر مشتمل ہے۔ اسے نہایت احتیاط، سلیقے اور قرینے سے لکھا گیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اسے تبصرے کی چند سطور میں قید کیا جا سکے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ پڑھ کر ہی اس کا مزہ لیا جا سکتا ہے۔ دوسری کہانی ''آدمی کس برتے پر جیتے ہیں'' دراصل ترجمہ ہے جسے ممتاز ترین روسی ادیب، لیو ٹالسٹائی، نے لکھا تھا۔ جناب جیلانی نے اسے انگریزی زبان سے اردو میں نہایت مہارت سے ڈھالا ہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی لکھی گئی، ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل، کتاب ''اقبالؒ: سوانح اور افکار'' بھی سلیم منصور خالد صاحب نے بھیجی ہے۔ تقریباً 53 موضوعات پر لکھی گئی یہ کتاب اگرچہ ضخامت میں مختصر ہے لیکن معنوی اعتبار سے بھرپور اور پیغام رسانی میں بے مثل۔چار سو چونسٹھ صفحات ہیں اور قیمت تین ہزار روپے۔ قیمت زیادہ ہے لیکن عاشقانِ رسولؐ کے لیے اتنی زیادہ بھی نہیں۔ اگر کوئی چاہے تو ''یو ایم ٹی، C-II جوہر ٹاؤن لاہور'' کے پتے پر خط لکھ کر یا 92-42-35212801-10 پر فون کر کے یہ نظر افروز کتابیں منگوا سکتا ہے۔


وزارتِ اطلاعات کی زیرِ نگرانی شائع ہونے والے معروف ماہنامہ جریدے ''ماہِ نَو'' نے اس بار نہایت خوبصورت ''جوش ملیح آبادی نمبر'' شائع کیا ہے۔ تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل چہار رنگے گلیزنگ پیپر پر چھپنے والا یہ خصوصی نمبر دراصل وطنِ عزیز کے نامور اور منفرد غزل و نظم گو شاعر، شبیر حسن خان عرف جوش ملیح آبادی، کی شخصیت اور حیات و خدمات کو خراجِ عقیدت و تحسین بھی ہے اور ان کا تفہیم نامہ بھی۔ یہ اشاعت نظر نواز بھی ہے اور نظر افروز بھی۔ جوش ملیح آبادی نمبر کے نگرانِ اعلیٰ جناب محمد سلیم بیگ ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کتاب اور صاحبانِ کتاب پر جان چھڑکتے ہیں۔ اس سے قبل وہ اسی قابلِ ستائش اسلوب و انداز میں وطنِ عزیز کے نامور شاعر، ادیب اور صحافی جناب احمد ندیم قاسمی پر بھی خصوصی نمبر شائع کر کے دادِ تحسین پا چکے ہیں۔

''ماہِ نَو'' کی تازہ خصوصی اشاعت ''جوش ملیح آبادی نمبر'' میں جناب موئید بخاری اور شبیہہ عباس صاحب نے ان کی معاونت کا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ نمبر تقریباً پچاس موضوعات پر محیط ہے۔ لکھنے والے سب ہی معتبر و مکرم۔ مثال کے طور پر: صہبا لکھنوی، کنور مہندر سنگھ بیدی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر قمر رئیس، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر سید محمد عقیل وغیرہ۔ جوشؔ ملیح آبادی کی شخصیت اور کلام کے جتنے بھی رخ ہیں، ممکنہ حد تک سب کا احاطہ اور انھیں یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اگر مبالغہ نہ کہا اور سمجھا جائے تو اس خاص نمبر کو سعی جمیلہ کا عنوان بھی دیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں دیگر چند ایک جرائد نے بھی جوش نمبر شائع کیے مگر ''ماہِ نَو'' کا جوش ملیح آبادی نمبر سب سے ممتاز اور منفرد ہے۔ معنوی اور صوری ہر دو اعتبار سے۔ محمد سلیم صاحب کا لکھا گیا دو صفحاتی تعارف اور مقدمہ تو خاصے کی شئے ہے۔ زیرِ نظر نمبر کا نمایاں امتیاز یہ بھی ہے کہ جوش ملیح آبادی کی نہایت نادر و نایاب اور تاریخی تصاویر شامل اشاعت ہیں۔ اور یہ پہلی بار ہوا ہے۔ یہ تصاویر جوش صاحب کی ایک قریبی عزیزہ، محترمہ تبسم اخلاق ملیح آبادی، نے فراہم کی ہیں اور اُنہی کی زیرِ نگرانی ان تصاویر کے کیپشن لکھے گئے ہیں تا کہ غلطی کا احتمال نہ رہے۔ یوں جوش صاحب کے توسط سے ہماری ادبی و سیاسی تاریخ کے نئے دریچے کھُل گئے ہیں۔ جوش صاحب کے ہاتھ کے لکھے گئے خطوط کے جو عکس شاملِ اشاعت کیے گئے ہیں، وہ بھی انفرادیت کے حامل ہیں۔

ہمارا یہ نامور شاعر قومی سطح پر تو ہر جگہ شناسا تھا ہی لیکن پاکستان اور بھارت کی معروف سیاسی شخصیات سے ان کے کیسے گہرے تعلقات تھے اور یہ مقتدر ہستیاں کس کس انداز سے جوش صاحب کے نخرے اٹھاتی تھیں، ان واقعات کے مندرجات سے یہ نمبر مزید وقیع اور معتبر بن گیا ہے۔ کُوئے ادیباں اور کُوئے خُوباں کا یہ محبوب شاعر، جوش ملیح آبادی، زیرِ نظر خصوصی نمبر میں پوری طرح عیاں ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس کی بادہ نوشی کے حصے بھی مخفی نہیں رہے اور نہ ہی عشقِ بتاں کی داستانوں پر کسی نے پردہ ڈالنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ نمبر کے آخری سیکشن میں جوش صاحب کی جو انقلابی نظمیں، رباعیات اور قطعات شامل کیے گئے ہیں، ان کی للکار پڑھ کر دل دہل سا جاتا ہے۔

اگر کوئی نجی اشاعتی ادارہ اس قیمتی اور ملائم ترین کاغذ پر ایسا چہا ر رنگا جوش ملیح آبادی نمبر شائع کرتا تو اس کی قیمت کم از کم پانچ ہزار روپے سے کسی بھی طرح کم نہ ہوتی لیکن حیران کن حد تک اس کی قیمت پانچ سو روپے رکھی گئی ہے۔ گویا حیات آفریں نمبر سے مستفید ہونے کی خواہش رکھنے والے ہر کس و ناکس پر دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ اس مساعی جمیلہ پر نمبر کے نگرانِ اعلیٰ محمد سلیم بیگ کو ایک بار پھر مبارکباد۔
Load Next Story