جدوجہد جاری رہے گی
22 جولائی 2016 بروز جمعہ جب بزرگ سیاست دان معراج محمد خان کے جسد خاکی پر منوں مٹی ڈال دی گئی،
KARACHI:
22 جولائی 2016 بروز جمعہ جب بزرگ سیاست دان معراج محمد خان کے جسد خاکی پر منوں مٹی ڈال دی گئی، یہ وہ وقت تھا جب مجھ پر مایوسی طاری ہوگئی، میں اس سوچ میں پڑگیا کہ جب معراج محمد خان جیسا زیرک انسان اس ملک کے نظام میں دراڑیں نہ ڈال سکا تو تمہاری حیثیت ہی کیا ہے؟ تم تو فقط اس بات پر فخر کرنے والے ہو کہ تم نے 10 مارچ 1987 کو اس جلسہ عام میں شرکت کی تھی جو مولوی عثمان پارک لیاری میں منعقد ہوا تھا۔ یہ جلسہ عام کامریڈ جام ساقی کو ان کی طویل اسیری سے رہائی کی خوشی میں استقبالیہ دیا گیا تھا، معراج محمد خان نے اس جلسہ عام میں اپنا جوش خطابت خوب دکھایا تھا۔ بلاشبہ معراج محمد خان نے اپنے جوش خطابت کے باعث گویا میلہ لوٹ لیا تھا، معراج محمد خان ایسے سیاستدان نہ تھے جوکہ اتفاقیہ یا شوقیہ سیاسی میدان میں کود پڑے بلکہ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے معراج محمد خان کی رگ رگ میں سامراج دشمنی موجزن تھی۔
سامراج سے ٹکر لینے والے عجب خان آفریدی کو کون فراموش کرسکتا ہے؟ جس نے برٹش سرکار کے خلاف عملی جدوجہد کی اور برٹش سرکار کو ناکوں چنے چبوا دیے، ایسا بے مثل دلاور عجب خان آفریدی کا بھی تو اسی قبیلے سے تعلق تھا جس قبیلے سے معراج محمد خان تعلق رکھتے تھے۔ بات عجب خان آفریدی تک محدود نہ رہی تھی بلکہ معراج محمد خان کے بڑے بھائی وہاج بن تاج بھی تو سبھاش چندر بوس کی فوج کے سپاہی رہ چکے تھے۔ وہ سبھاش چندر بوس جن کا نعرہ تھا ہندوستانیو! اگر برٹش سامراج سے آزادی کے طالب ہو تو تم مجھے خون دو میں تمہیں برٹش سرکار سے آزادی دلاؤں گا۔
انداز گویا یہ تھا کہ آزادی ایسی چیز نہیں کہ اسے طشتری میں رکھ کر پیش کیا جائے بلکہ آزادی وہ چیز ہے جوکہ عملی جدوجہد کی طالب ہوتی ہے۔ معراج محمد خان اسی سبھاش چندر بوس کی فوج کے ایک سپاہی وہاج بن تاج المعروف دکھی پریم نگری کے چھوٹے بھائی تھے۔ اس قدر خصوصیت کے حامل معراج محمد خان نے اس غریب کش مزدور کش کسان کش و عوام کش نظام کا کیا بگاڑ لیا تھا؟ جو مجھ جیسا عام سا صحافی بگاڑ لے گا؟ یہ سب سوچتے ہوئے ہی تو مجھ پر مایوسی کی کیفیت طاری ہوئی تھی، چنانچہ اسی مایوسی کی کیفیت میں، میں نے دو ہفتے تک کچھ لکھنے کے لیے قلم کو ہاتھ تک نہ لگایا۔
9 اگست 2016 کامریڈ نذیر عباسی کی 36 ویں برسی کا دن ہے۔ میں سوچ رہا ہوں میں نے تو پریس کلب کراچی میں 9 اگست 1987 کو نذیر عباسی کی ساتویں برسی کے موقع پر معراج محمد خان جام ساقی و دیگر رہنماؤں کی موجودگی میں یہ عہد کیا تھا کہ نذیر عباسی تمہارا مشن جاری رہے گا۔ یہ عہد میں نے اپنے جیسے سیکڑوں سیاسی کارکنوں کے ساتھ کیا تھا، پھر یہ میرے ارادوں میں ضعف کیوں؟ میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ میرے سامنے صد قابل احترام عوامی شاعر و عظیم صحافی خالد علیگ کا چہرہ گھوم گیا، گویا وہ فرما رہے تھے:
ہم صبح پرستوں کی ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
محترم خالد علیگ سے مجھے ایک نسبت ہے اور وہ نسبت یہ ہے کہ میں نے بحیثیت ایک سیاسی کارکن کے عملی جدوجہد کا آغاز خالد علیگ کے در دولت سے کیا۔ 31 دسمبر 1982 کو سیاسی کارکن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس دور میں سیاست میں قدم رکھنا کس قدر دشوار امر تھا، جب کہ آگے 1983 کی MRD کی تحریک کا مرحلہ آنے والا تھا، اس دور میں سیاست میں قدم رکھنے سے بھی ایک اور مشکل مرحلہ تھا، وہ مرحلہ اس قسم کی سیاسی نشست رکھنے کا تھا۔ یہ مشکل کام بھی خالد علیگ نے اپنے در دولت پر اس قسم کی نشست رکھ کے کر دکھایا۔ مجھے خوب یاد ہے، اس سیاسی نشست میں معراج محمد خان کی سیاسی جماعت قومی محاذ آزادی کے ایک اہم رہنما محترم ابرار الحسن بھی شریک ہوئے تھے۔
افسوس کہ آج خالد علیگ ہمیں داغ مفارقت دے چکے ہیں اور ہم 15 اگست کو ان کی بھی نویں برسی منا رہے ہیں۔ البتہ مجھے اس امر پر تاحیات فخر رہے گا کہ میں نے عملی سیاست کا آغاز ان کے در دولت سے کیا۔ ان حسین و خوشگوار یادوں کا سفر ابھی جاری تھا کہ ایسے میں کامریڈ جیولیس فیوچک کی ایک تحریر میری نظروں کے سامنے رقصاں تھی، جس میں جیولیس فیوچک نے رقم کیا ہے کہ صحافت بعض دفعہ تھکا دیتی ہے اور دوسرے موضوعات سے توجہ ہٹانے کا باعث بن جاتی ہے، اس کے باوجود صحافت زندگی اور مصنف کا براہ راست تعلق قائم کرتی ہے، یہ صحافت شاعری بھی سکھاتی ہے، بشرطیکہ انسان نرودا جیسا عظیم الشان صحافی ہو۔ اخباری صحافت کے لیے ممکن ہے کہ نرودا شاعری کی کئی کتابیں لکھ دیتا لیکن شاید ان میں اتنا عظیم الشان کوئی بھی نہ ہوتا جو صدیوں کے دکھ جھیل کر رہتا، جیسے کہ اب اس کا کلام زندہ ہے۔
25 اگست 1943 کو جیولیس فیوچک کو نازی فوجیوں نے موت کی نیند سلادیا مگر جیولیس فیوچک کے افکار و نظریات آج بھی مجھ جیسے طالب علموں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ جیولیس فوچک کی ایک اور تحریر ہے جوکہ اسیری کے دوران اس نے قلمبند کی، وہ لکھتا ہے کہ ''ہم خوشی و مسرت کے لیے زندہ ہیں، ان ہی کے لیے ہم موت سے ہمکنار ہو رہے ہیں، اس لیے ہمیں غم و افسوس کے ساتھ یاد نہ کیا جائے، میری زندگی کا اختتام قریب ہے، میں اس کا خاتمہ نہیں لکھ سکوں گا، مجھے خود بھی معلوم نہیں کہ یہ انجام کب ہوگا لیکن یہ تماشا نہیں زندگی ہے اور زندگی کی ہما ہمی میں کوئی تماشا نہیں ہوتا۔ تماشائے زیست میں ہر کوئی ایکٹر ہے، شریف النفس ہیرو یا ولن، پردہ اٹھ رہا ہے، یہ آخری ایکٹ ہے، میں تم سے محبت کرتا ہوں، دنیا بھر کے محنت کشو! چوکس رہو، محتاط رہو، یہ تماشا نہیں ہے یہ زندگی ہے''۔
جیولیس فیوچک کی دونوں تحریریں پڑھنے کے بعد نذیر عباسی کی 36 ویں برسی کے دن اگست کے مہینے میں جس مہینے کی 15 تاریخ کو خالد علیگ کی برسی ہو، جس مہینے کی 18 تاریخ کو سبھاش چندر بوس کی برسی منائی جاتی ہے، جس مہینے کی 25 تاریخ کو جیولیس فیوچک کی وفات کا دن ہو، اس مہینے یعنی اگست میں کیا میرا خود سے یہ سوال نہیں بنتا کہ اپنے ارادوں میں ضعف پیدا کرنے کا یہ کون سا موقع ہے؟ چنانچہ مجھے اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ مایوسی موت ہے، اگرچہ یہ مایوسی 25 سالہ نوجوان خود پر طاری کرلے۔ امید زندگی ہے، اگرچہ امید ایک 80 سالہ بزرگ لگالے۔ چنانچہ میں نے بھی امید کا دامن تھام لیا ہے اور اس یقین کے ساتھ پھر قلم تھام لیا ہے کہ ہمارے سماج سے ظلم و جبر، استحصال، جہالت، افلاس، عدم مساوات، دہشت گردی کا ہم سب کو خاتمہ کرنا ہے۔
آج ہمیں عہد کرنا ہوگا معراج محمد خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم عملی جدوجہد جاری رکھیں گے، کیونکہ معراج محمد خان کی منزل حصول اقتدار نہ تھی بلکہ ان کی جدوجہد کا مقصد جبر کے نظام کا خاتمہ تھا۔ آخر میں ہم معراج محمد خان، جیولیس فیوچک، سبھاش چندر بوس، نذیر عباسی و خالد علیگ کو ان الفاظ کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ جدوجہد جاری رہے گی حصول منزل تک۔