انجام دیکھ لیا
ہم نے انسان کہا ہے مرد نہیں، کہ ایک بہادر خاتون ہلیری کلنٹن نے پہلی مرتبہ مقابلے پر آکر تاریخ رقم کی ہے
KARACHI:
کرکٹ کا کھیل ہو تو بالر بھاگ کر گیند کرواتا ہے۔ فاسٹ بالر چاہے وہ مرد ہو یا عورت بلا تھامے کھلاڑی اس گیند باز کا نشانہ ہوتا ہے۔ جب بیٹسمین آؤٹ ہوجاتا ہے تو کامیابی کے شادیانے بجتے ہیں۔ مقابلہ ون ٹو ون ہوتا ہے۔ ہاکی میں جب پنالٹی اسٹروک ملتا ہے تب بھی دو انسانوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ واضح طور پر ایک کی جیت اور دوسرے کی ہار ہوتی ہے، اسی طرح باکسنگ اور کُشتی کے مقابلے بھی دو لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ سیاست میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ امریکا کے صدارتی انتخابات تو صدیوں سے دو انسانوں کے درمیان ہورہے ہیں۔
ہم نے انسان کہا ہے مرد نہیں، کہ ایک بہادر خاتون ہلیری کلنٹن نے پہلی مرتبہ مقابلے پر آکر تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستانی سیاست میں بھی اسی طرح ون ٹو ون مقابلے کئی مرتبہ ہوئے ہیں۔ ایوب اور اسکندر مرزا کے علاوہ یحییٰ اور ایوب کا مقابلہ اور پھر بھٹو اور یحییٰ کا مقابلہ۔ اس طرح ہماری سیاست میں چار لوگوں کے درمیان تین دلچسپ ون ٹو ون مقابلے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہارنے والے نے بعد میں فاتح کو کسی اور کے ہاتھوں شکست کھاتے دیکھ لیا۔ اسی کو ہم نے ''انجام دیکھ لیا'' کا عنوان دیا ہے۔ پِٹ جانے والے کے پاس موت کا فرشتہ اس وقت تک نہ آیا جب تک اس نے اس کا انجام نہ دیکھ لیا جس نے اسے مات دی تھی۔
اسکندر مرزا اور ایوب خان دوست تھے۔ یہ پاکستان کے ابتدائی دس برسوں کی بات ہے۔ دونوں ترقی کر رہے تھے اور پاکستانی سیاست کی کمزوریوں کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو غلام محمد نے برطرف کردیا۔ اس کے بعد فالج زدہ گورنر جنرل کی جگہ اسکندر مرزا نے حاصل کی۔ دوسری طرف ایوب خان پاک فوج کے کمانڈر انچیف بن گئے۔ 56 میں آئین بن گیا اور یوں پاکستان جمہوری دور میں داخل ہوگیا۔ ''سرزمین بے آئین'' کا طعنہ مٹ گیا۔ اب سیاست دان چاہتے تھے کہ انتخابات ہوں۔
اسکندر مرزا نے محسوس کیا کہ اگر الیکشن ہوگئے تو ان کی صدر مملکت والی حیثیت کم تر ہوجائے گی۔ انھوں نے کمانڈر انچیف کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا اور بے وقوفی دیکھیے کہ اسی کا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کو بنادیا۔ اب یہ طے نہ تھا کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے۔ اسکندر مرزا کے پاس نہ عوامی طاقت تھی اور نہ فوجی قوت۔ صدر کا انحصار آئین پر تھا۔ جب آئین منسوخ کردیا گیا تو پھر مرزا کی طاقت بھی ختم ہوگئی۔ مارشل لاء کے نفاذ کے تین ہفتوں بعد ایوب نے اسکندر مرزا کو جلاوطن کردیا۔ لندن کے کسی ہوٹل میں منیجر کی نوکری کرکے پاکستان کے پہلے صدر نے اپنی جلاوطنی کا دور گزارا۔ ایک سوال کا جواب بڑا اہم ہے کیا موت سے قبل غریب الوطن مرزا نے اس ایوب کو مات کھاتے دیکھ لیا جس نے انھیں مات دی تھی؟ جی ہاں لیکن کس طرح؟ یہ دلچسپ کہانی آگے آرہی ہے۔
ایوب خان اکتوبر 58 میں برسر اقتدار آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چھاگئے۔ معاشی ترقی کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت بڑھتی گئی۔ ''جنگ ستمبر'' میں بھی اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کا مقابلہ کرلینا ہی ایک قسم کی فتح تھی۔ پاکستانی عوام زیادہ دیر تک کسی حکمران کو برداشت کرنے کے قائل نہیں۔ ایوب سے شکایات پیدا ہوئیں کہ وہ حقیقی منتخب نمایندے نہیں۔ لوگ پارلیمانی نظام اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات چاہتے تھے۔
ون مین ون ووٹ اور ون یونٹ کا خاتمہ صوبوں کا مطالبہ تھا۔ ایوب کے خلاف تحریک چلی اور یحییٰ خان نے انھیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ یہ مارچ 69 کی بات ہے۔ لندن میں ایوب کے ہاتھوں جلاوطن ہونے والے اسکندر مرزا بڑی دلچسپی سے طاقت کا کھیل دیکھ رہے تھے۔ مرزا نے اکتوبر میں موت کے فرشتے کو اس وقت لبیک کہا جب انھوں نے ایوب خان کا انجام دیکھ لیا۔ مارچ سے اکتوبر تک کے مہینے کیسے ہوںگے جب پاکستانی سیاست کے دو طاقت ور انسان کمزوری اور بے چارگی کی زندگی فرحانہ اور لندن میں گزار رہے تھے۔ یہ ہے انسان کی حیثیت۔
جنرل یحییٰ خان واحد فوجی حکمران تھے جن کے دور میں کسی نے بھی عدلیہ سے رجوع نہ کیا۔ آئین کے خاتمے اور مارشل لاء کے نفاذ پر عدلیہ نے بھی کوئی ازخود نوٹس نہ لیا۔ ایوب دور کے مطالبات کو یحییٰ نے فوراً تسلیم کرلیا۔ دسمبر 70 میں انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان میں مجیب کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلزپارٹی کامیاب قرار پائیں۔ یحییٰ خان خود بھی صدر اور وہ بھی طاقتور صدر رہنا چاہتے تھے۔ ملکہ برطانیہ کے لیے اختیارات انھیں قبول نہ تھے۔ بھٹو کو قائد حزب اختلاف بننا گوارا نہ تھا۔ وہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے طور پر کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔ مجیب چاہتے تھے کہ اگلے سیٹ اپ سے یحییٰ اور بھٹو باہر ہوں۔
وہ فوجی پاکستان کی چھوٹی پارٹیوں کو لے کر پاکستان پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔ مجیب کے چھ نکات بھی بڑا مسئلہ تھے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس منسوخ کردیا گیا تو بنگال میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مارچ سے دسمبر 71 تک خوفناک کشمکش جاری رہی۔ ہماری نادانیوں اور دشمن کی عیاریوں سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ یحییٰ اب بھی اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔ اب بھٹو اور یحییٰ کے درمیان کشمکش شروع ہوئی اور بھٹو کامیاب قرار پائے۔ 20 دسمبر کو اقتدار کی منتقلی کی تصویر سے یحییٰ کی مایوسی جھلکتی ہے۔ فرحانہ کے گاؤں میں بیٹھے ایوب خان شاید یہ مناظر ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں اور اخبارات میں پڑھ ہی رہے ہوںگے۔ ایوب تین برسوں تک یحییٰ کی نظر بندی اور ذلت و رسوائی دیکھتے رہے۔ وہ ایوب جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم کے ہاتھوں مات کھائی تھی۔ یحییٰ نامی وہ ''پتھر'' جسے ایوب نے دھڑکنیں عطا کی تھیں اور جب اس پتھر کو زبان ملی تو وہ ایوب پر ہی برس پڑا۔
بھٹو کی عوامی طاقت حیرت انگیز تھی۔ وہ تحریک پاکستان کے رہنما نہ ہونے کے باوجود موجودہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ ان کے مقابل اپوزیشن نہایت کمزور تھی۔ آئین، اسلامی سربراہ کانفرنس، ایٹمی پاکستان کی بنیاد جیسے بڑے کام بھٹو کے کریڈٹ پر تھے۔ صنعتوں کو قومیانے کے علاوہ سیاسی لیڈروں اور صحافیوں پر سختی کرنے کے سبب بھٹو نے کئی مخالفین پیدا کرلیے۔ 77 کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد ایک طرف تھا تو پیپلزپارٹی دوسری طرف۔ دھاندلی کے الزام نے پاکستان کی سب سے بڑی اور پر تشدد تحریک کو جنم دیا۔ ہر کوئی بھٹو سے اپنے بدلے نکالنے کو تیار بیٹھا تھا۔
مارچ سے جون تک کے چار ماہ گزر گئے لیکن کسی معاہدے پر دستخط نہ ہوسکے۔ جنرل ضیا نے مارشل لاء لگادیا اور بھٹو مقدمہ قتل میں گرفتار ہوگئے۔ پونے دو سال تک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا۔ 4 اپریل 79 بھٹو کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ پشاور میں نظر بند یحییٰ خان اسی کشمکش کو دیکھ رہے تھے۔ یہ المناک کہانی ہے انسان کے عروج و زوال کی۔ نادان نہ جانے کس بات پر فخر کرتا ہے، یحییٰ ایک سال مزید زندہ رہے، یوں انھوں نے بھی بھٹو کے ہاتھوں مات کھانے کے بعد اپنی آنکھوں سے بھٹو کا انجام دیکھ لیا۔
کرکٹ کا کھیل ہو تو بالر بھاگ کر گیند کرواتا ہے۔ فاسٹ بالر چاہے وہ مرد ہو یا عورت بلا تھامے کھلاڑی اس گیند باز کا نشانہ ہوتا ہے۔ جب بیٹسمین آؤٹ ہوجاتا ہے تو کامیابی کے شادیانے بجتے ہیں۔ مقابلہ ون ٹو ون ہوتا ہے۔ ہاکی میں جب پنالٹی اسٹروک ملتا ہے تب بھی دو انسانوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ واضح طور پر ایک کی جیت اور دوسرے کی ہار ہوتی ہے، اسی طرح باکسنگ اور کُشتی کے مقابلے بھی دو لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ سیاست میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ امریکا کے صدارتی انتخابات تو صدیوں سے دو انسانوں کے درمیان ہورہے ہیں۔
ہم نے انسان کہا ہے مرد نہیں، کہ ایک بہادر خاتون ہلیری کلنٹن نے پہلی مرتبہ مقابلے پر آکر تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستانی سیاست میں بھی اسی طرح ون ٹو ون مقابلے کئی مرتبہ ہوئے ہیں۔ ایوب اور اسکندر مرزا کے علاوہ یحییٰ اور ایوب کا مقابلہ اور پھر بھٹو اور یحییٰ کا مقابلہ۔ اس طرح ہماری سیاست میں چار لوگوں کے درمیان تین دلچسپ ون ٹو ون مقابلے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہارنے والے نے بعد میں فاتح کو کسی اور کے ہاتھوں شکست کھاتے دیکھ لیا۔ اسی کو ہم نے ''انجام دیکھ لیا'' کا عنوان دیا ہے۔ پِٹ جانے والے کے پاس موت کا فرشتہ اس وقت تک نہ آیا جب تک اس نے اس کا انجام نہ دیکھ لیا جس نے اسے مات دی تھی۔
اسکندر مرزا اور ایوب خان دوست تھے۔ یہ پاکستان کے ابتدائی دس برسوں کی بات ہے۔ دونوں ترقی کر رہے تھے اور پاکستانی سیاست کی کمزوریوں کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو غلام محمد نے برطرف کردیا۔ اس کے بعد فالج زدہ گورنر جنرل کی جگہ اسکندر مرزا نے حاصل کی۔ دوسری طرف ایوب خان پاک فوج کے کمانڈر انچیف بن گئے۔ 56 میں آئین بن گیا اور یوں پاکستان جمہوری دور میں داخل ہوگیا۔ ''سرزمین بے آئین'' کا طعنہ مٹ گیا۔ اب سیاست دان چاہتے تھے کہ انتخابات ہوں۔
اسکندر مرزا نے محسوس کیا کہ اگر الیکشن ہوگئے تو ان کی صدر مملکت والی حیثیت کم تر ہوجائے گی۔ انھوں نے کمانڈر انچیف کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا اور بے وقوفی دیکھیے کہ اسی کا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کو بنادیا۔ اب یہ طے نہ تھا کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے۔ اسکندر مرزا کے پاس نہ عوامی طاقت تھی اور نہ فوجی قوت۔ صدر کا انحصار آئین پر تھا۔ جب آئین منسوخ کردیا گیا تو پھر مرزا کی طاقت بھی ختم ہوگئی۔ مارشل لاء کے نفاذ کے تین ہفتوں بعد ایوب نے اسکندر مرزا کو جلاوطن کردیا۔ لندن کے کسی ہوٹل میں منیجر کی نوکری کرکے پاکستان کے پہلے صدر نے اپنی جلاوطنی کا دور گزارا۔ ایک سوال کا جواب بڑا اہم ہے کیا موت سے قبل غریب الوطن مرزا نے اس ایوب کو مات کھاتے دیکھ لیا جس نے انھیں مات دی تھی؟ جی ہاں لیکن کس طرح؟ یہ دلچسپ کہانی آگے آرہی ہے۔
ایوب خان اکتوبر 58 میں برسر اقتدار آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چھاگئے۔ معاشی ترقی کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت بڑھتی گئی۔ ''جنگ ستمبر'' میں بھی اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کا مقابلہ کرلینا ہی ایک قسم کی فتح تھی۔ پاکستانی عوام زیادہ دیر تک کسی حکمران کو برداشت کرنے کے قائل نہیں۔ ایوب سے شکایات پیدا ہوئیں کہ وہ حقیقی منتخب نمایندے نہیں۔ لوگ پارلیمانی نظام اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات چاہتے تھے۔
ون مین ون ووٹ اور ون یونٹ کا خاتمہ صوبوں کا مطالبہ تھا۔ ایوب کے خلاف تحریک چلی اور یحییٰ خان نے انھیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ یہ مارچ 69 کی بات ہے۔ لندن میں ایوب کے ہاتھوں جلاوطن ہونے والے اسکندر مرزا بڑی دلچسپی سے طاقت کا کھیل دیکھ رہے تھے۔ مرزا نے اکتوبر میں موت کے فرشتے کو اس وقت لبیک کہا جب انھوں نے ایوب خان کا انجام دیکھ لیا۔ مارچ سے اکتوبر تک کے مہینے کیسے ہوںگے جب پاکستانی سیاست کے دو طاقت ور انسان کمزوری اور بے چارگی کی زندگی فرحانہ اور لندن میں گزار رہے تھے۔ یہ ہے انسان کی حیثیت۔
جنرل یحییٰ خان واحد فوجی حکمران تھے جن کے دور میں کسی نے بھی عدلیہ سے رجوع نہ کیا۔ آئین کے خاتمے اور مارشل لاء کے نفاذ پر عدلیہ نے بھی کوئی ازخود نوٹس نہ لیا۔ ایوب دور کے مطالبات کو یحییٰ نے فوراً تسلیم کرلیا۔ دسمبر 70 میں انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان میں مجیب کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلزپارٹی کامیاب قرار پائیں۔ یحییٰ خان خود بھی صدر اور وہ بھی طاقتور صدر رہنا چاہتے تھے۔ ملکہ برطانیہ کے لیے اختیارات انھیں قبول نہ تھے۔ بھٹو کو قائد حزب اختلاف بننا گوارا نہ تھا۔ وہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے طور پر کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔ مجیب چاہتے تھے کہ اگلے سیٹ اپ سے یحییٰ اور بھٹو باہر ہوں۔
وہ فوجی پاکستان کی چھوٹی پارٹیوں کو لے کر پاکستان پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔ مجیب کے چھ نکات بھی بڑا مسئلہ تھے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس منسوخ کردیا گیا تو بنگال میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مارچ سے دسمبر 71 تک خوفناک کشمکش جاری رہی۔ ہماری نادانیوں اور دشمن کی عیاریوں سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ یحییٰ اب بھی اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔ اب بھٹو اور یحییٰ کے درمیان کشمکش شروع ہوئی اور بھٹو کامیاب قرار پائے۔ 20 دسمبر کو اقتدار کی منتقلی کی تصویر سے یحییٰ کی مایوسی جھلکتی ہے۔ فرحانہ کے گاؤں میں بیٹھے ایوب خان شاید یہ مناظر ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں اور اخبارات میں پڑھ ہی رہے ہوںگے۔ ایوب تین برسوں تک یحییٰ کی نظر بندی اور ذلت و رسوائی دیکھتے رہے۔ وہ ایوب جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم کے ہاتھوں مات کھائی تھی۔ یحییٰ نامی وہ ''پتھر'' جسے ایوب نے دھڑکنیں عطا کی تھیں اور جب اس پتھر کو زبان ملی تو وہ ایوب پر ہی برس پڑا۔
بھٹو کی عوامی طاقت حیرت انگیز تھی۔ وہ تحریک پاکستان کے رہنما نہ ہونے کے باوجود موجودہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ ان کے مقابل اپوزیشن نہایت کمزور تھی۔ آئین، اسلامی سربراہ کانفرنس، ایٹمی پاکستان کی بنیاد جیسے بڑے کام بھٹو کے کریڈٹ پر تھے۔ صنعتوں کو قومیانے کے علاوہ سیاسی لیڈروں اور صحافیوں پر سختی کرنے کے سبب بھٹو نے کئی مخالفین پیدا کرلیے۔ 77 کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد ایک طرف تھا تو پیپلزپارٹی دوسری طرف۔ دھاندلی کے الزام نے پاکستان کی سب سے بڑی اور پر تشدد تحریک کو جنم دیا۔ ہر کوئی بھٹو سے اپنے بدلے نکالنے کو تیار بیٹھا تھا۔
مارچ سے جون تک کے چار ماہ گزر گئے لیکن کسی معاہدے پر دستخط نہ ہوسکے۔ جنرل ضیا نے مارشل لاء لگادیا اور بھٹو مقدمہ قتل میں گرفتار ہوگئے۔ پونے دو سال تک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا۔ 4 اپریل 79 بھٹو کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ پشاور میں نظر بند یحییٰ خان اسی کشمکش کو دیکھ رہے تھے۔ یہ المناک کہانی ہے انسان کے عروج و زوال کی۔ نادان نہ جانے کس بات پر فخر کرتا ہے، یحییٰ ایک سال مزید زندہ رہے، یوں انھوں نے بھی بھٹو کے ہاتھوں مات کھانے کے بعد اپنی آنکھوں سے بھٹو کا انجام دیکھ لیا۔