پاکستان کو انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رویوں سے پاک کرنا ہوگا میاں شہباز شریف
ایکسپریس میڈیا گروپ اور ہیپی لیک پینٹس کے زیر اہتمام ’’میری شان پاکستان‘‘ سیمینار میں وزیراعلیٰ پنجاب کا اظہارِ خیال
ایکسپریس میڈیا گروپ اور ہیپی لیک پینٹس کے زیر اہتمام جشن آزادی کے حوالے سے لاہور کے مقامی ہوٹل میں ''میری شان پاکستان'' کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کی جبکہ دیگر مہمانانِ گرامی میں سابق وفاقی وزیر قانون ایس ایم ظفر، سینئر صحافی عارف نظامی، پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین و آئی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر سیف، سماجی کارکن فیصل ایدھی، ہیپی لیک پینٹس کے سی ای او خواجہ شاہد سکہ، بشپ الیگزینڈر جان ملک، سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر اورپاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید نور شامل تھے۔
اس موقع پر ایم این اے پرویز ملک، وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، وزیربہبود آبادی پنجاب ذکیہ شاہنواز، ایم پی اے میری گل، چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ جہانزیب خان، سیکرٹری انفارمیشن راجہ جہانگیرانور ، شعیب بن عزیز، محمد مالک، کامران لاشاری، خواجہ احمد حسان، سینئر صحافی رحمت علی رازی، ڈی جی پی آئی ڈی لاہور اعجاز حسین، سابق ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن اطہر خان، پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی چیئر پرسن فوزیہ وقار ،نمائندہ سول سوسائٹی عبداللہ ملک، ایکسپریس میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسراعجاز الحق، گروپ ایڈیٹر ایاز خان، ایڈیٹرایڈیٹوریل لطیف چوہدری ،ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارکیٹنگ لاہور شرمین خرم اور چیف رپورٹر روزنامہ ایکسپریس لاہور خالد قیوم سمیت لوگوں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ سیمینار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت حافظ نبیل ستار نے حاصل کی۔ سیمینار میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد شہباز شریف
(وزیراعلیٰ پنجاب)
قوم اس سال یوم آزادی اس وقت منارہی ہے جب چند روز قبل کوئٹہ میں انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا جس میں 70 سے زائد افراد شہید اورسینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس افسوسناک واقعہ نے پوری قوم کو ایک بار پھر اشکبار کردیا ہے ۔
1947ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ایک علیحدہ وطن کے حصول کیلئے تاریخی تحریک چلائی گئی جس میں برصغیر کے کونے کونے سے لاکھوں مسلمانوں نے حصہ لیا ۔ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے ہجرت کرکے پاکستان آنا تھا، انہوں نے آگ اور خون کے دریا عبور کیے اورلازوال قربانیاں دیں جن کا مقصد ہندوؤں اور سامراج کے چنگل سے آزادی حاصل کرنا تھا ۔یہ قربانیاں ایک ایسے وطن کے حصول کے لئے دی گئی تھیں جہاں محنت ،امانت ،دیانت، سکہ رائج الوقت ہو اورسب کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقعے حاصل ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اپنے آزادی کے 70 سالہ سفر میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔پاکستان ایٹمی طاقت بنا ہے،اس لئے کسی دشمن میں میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں۔جہاں ہمیں کامیابیاں ملی ہیں وہاں ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں جن کا ہمیں خلوص نیت سے جائزہ لینا ہے اور ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ ہمارے وسائل کم مگر مسائل زیادہ ہیں۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جسے عبور کرنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔دنیا کی تاریخ میںایسی قوموں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے شکست کے باوجودترقی کی منازل طے کیں۔ جاپان اور جرمنی نے ویژن، عزم، جذبے اورانتھک کاوشوں کے ذریعے ترقی کی منازل تیزی سے طے کیں اورآج ان کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوںمیں ہوتا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ کشمیر بنے گا پاکستان اور ایسا اسی طرح ہی ہوگا جس طرح جرمنی کی مضبوط معیشت کے باعث دیوار برلن گری اورجرمن قوم نے دوبارہ دنیا میں عظیم مقام حاصل کیا ۔ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ انصاف کی بنیاد پر اپنے 70سالہ سفر کا تجزیہ اور قیام پاکستان کے بعد سے اپنا احتساب کرنا ہوگاکیونکہ اگر ایسا نہ ہواتو ہم اپنی خامیاں دورنہیں کرسکیں گے۔80ء کی دہائی میں اگر ہم نام نہاد جہاد نہ کرتے تو آج پاکستان ایک پرامن ، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ پاکستان میں چار مارشل لاء آئے، کسی نے اسلام کے نام پر پاکستان پرقبضہ کیا، تو کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاکر قوم کو دھوکا دیا اور کسی نے پاکستان کے عوام کے مسیحا کا روپ دھار کرملک کا چہرہ بگاڑا۔ان چاروں فوجی ادوار نے پاکستان کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔
پاکستان کوانتہاء پسندی اور عدم برداشت کے رویوں سے پاک کرنا ہوگا۔ 60ء کی دہائی میں پاکستان ترقی پسند،تحمل و برداشت پر مبنی معاشرہ تھا۔ کیمونزم کے خلاف نام نہاد جنگ سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھا اگر ہم اس جنگ سے دور رہتے تو پاکستان آج بھی پرامن ،بردبار اور تحمل پر مبنی معاشرہ ہوتا اورملک ترقی اورخوشحالی کے منازل تیزی سے طے کررہا ہوتالیکن بدقسمتی سے بدامنی کی آگ نے ملکی ترقی کے سفر کو روکا ،وہ قومیںجو ہم سے پیچھے تھیںوہ آگے نکل گئیں۔ مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور سب اچھا ہے کہنا بھی درست نہیں ہے۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ تقریریں کرنے، اشعار اورنظمیں پڑھنے سے حالات نہیں بدل سکتے اس کیلئے ہمیں محنت،عزم اورجذبے کیساتھ کام کرنا ہوگا۔ سفر طویل اورمشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ہمیں محنت ،امانت ،دیانت اور عزم کے ساتھ کامیابی کا یہ سفر طے کرنا ہے ۔ ہمیں پاکستان کے 70 ویں یوم آزادی کے موقع پر ملک کو قائداعظم ؒ اورعلامہ اقبالؒ کے تصورات و افکار کے مطابق فلاحی ریاست بنانے کیلئے مل کر کام کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ اگر آج پوری قوم یکجان دوقالب ہوکرماضی کے نقصانات کی تلافی کا فیصلہ کرلے توپاکستان بین الاقوامی برادری میں باوقار مقام اور خودکفالت کی منزل حاصل کرسکتا ہے۔
یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ پر 2008ء میں کام شروع ہوا،آج 11سال گزرنے کے باوجودبھی ابھی تک 900 میگاواٹ کے اس منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس وقت اس کی لاگت ڈیڑھ ارب ڈالر تھی جو اب پانچ ارب تک پہنچ گئی ہے۔ پھر سوال کیا جاتا ہے کہ تعلیم، صحت و دیگر شعبوں کے لیے پیسے کیوں نہیں ہیں؟ میاں نواز شریف نے اپنی حکومت کے گزشتہ تین سال بہت مشکل سے گزارے ہیں، وہ اس ملک کو لے کر آگے چل رہے ہیں۔ ساہیوال کا 1320 میگا واٹ کا کول پاور پلانٹ 23ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے جارہا ہے ۔دنیا کی تاریخ میں اتنی گنجائش کے کول پاور پلانٹ کے منصوبے کی اس تیز رفتاری سے تکمیل کی مثال نہیں ملتی۔ میں بلا خوف وتردید کہہ رہا ہوں کہ سی پیک کے منصوبے انتہائی شفاف انداز میں تیز رفتاری سے مکمل کیے جارہے ہیں اوریہ ''پنجاب سپیڈ'' نہیں بلکہ ''پاکستان سپیڈ ''ہے ۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور ہماری اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ چین نے موجوہ حکومت پر اعتماد کرکے پاکستان کو 46ارب ڈالر کا تاریخی سرمایہ کاری پیکیج دیا ہے جس کے تحت لگنے والے منصوبوں سے ملک کے اندھیرے دور ہوں گے۔صنعتیں ترقی کریں گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک میں ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔سی پیک کی مخالفت کرنے والوں کو ملک وقوم کی ترقی عزیز نہیں ،سرمایہ کاری کے اس پیکیج کی مخالفت دراصل پاکستان کی خوشحالی کی مخالفت ہے، جسے قوم کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی، اگر آج ہم صدق دل سے اورامیدواثق سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے مل جل کر کام کرنے کا فیصلہ کرلیں تو انشاء اللہ پاکستان ترقی اورخوشحالی کی منزل حاصل کرلے گااوردنیا کے نقشے پر ایک عظیم ملک بن کر ابھرے گا۔
ایس ایم ظفر
(سابق وفاقی وزیر قانون)
ہمارا اس سال کا جشن اسی ماحول اور کیفیت میں گزرے گا ، جن حالات میں ہم نے 14اگست 1947 ء کو یوم آزادی کا جشن منایاتھا ۔ پاکستان بننے کی خوشی تھی اور پرچم کو دیکھ کر ایک عزم پیدا ہورہا تھا، جوش و ولولہ تھا ۔ قافلے لٹ کر، اپنے پیاروں کی قربانی دے کر پاکستان آرہے تھے۔ کسی نے درست کہا تھا کہ ''آزادی کے یہ مسافر آگ اور خون کاد ریا پار کرکے پاکستان آرہے ہیں''۔ آج اس جشن کے وقت بھی ہم محسوس کررہے ہیں کہ خوشیاں ہیں، ہم آزاد ہیںلیکن کوئٹہ کے واقعہ نے پوری قوم کوسوگوار کردیاہے ۔ آج ہم ایٹمی طاقت ہیں اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں۔ یہ قوم 70سال کی ہوچکی، بے شمار بحرانوں اور مشکلات سے گزری ہے لیکن اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔
ایک بیرونی مبصر نے کہا کہ جتنے بحرانوں سے پاکستانی قوم گزری ہے، اگر کسی اور قوم پر یہ مشکلات اور صعوبتیں آتی تو وہ بکھر جاتی ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس اندھیری رات سے گزر کر اس سویرے تک ضرور پہنچیں گے جس کی ہمیں تمنا ہے۔آج کا دن مطالبات پیش کرنے کا دن نہیںلیکن میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ایک چھوٹی سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ میرا لاہور مجھے واپس دلا دیں، وہ لاہور جو درختوں کا تھا، جو باغ اور باغیچوں کا لاہور تھااور ٹھنڈی سڑک موجود تھی۔ آج لاہور آہستہ آہستہ عمارتوں اور سیمنٹ کا جنگل بنتا جارہا ہے۔ پاکستان ہماری شان اور شناخت ہے ۔ وطن کہتا ہے کہ میں نے تمہیں شناخت دی، شاندار بنایا، اپنے سینے میں چھپے معدنیات ، پانی اور سب کچھ دیا لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے مجھے کیا دیا؟ آج اگر ہم اس سوال کا صحیح حل معلوم کرلیں اور اس کی تلاش میں نکل پڑیں تو پھر یہ ملک واقعی شاندار بن جائے گا اور کہے گا کہ تم میری شان ہو۔
عارف نظامی
(سینئر صحافی)
پاکستان نے جہاں بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان میں سے ایک کامیابی آزاد میڈیا ہے۔ تیسری دنیا بالعموم اور اسلامی دنیا بالخصوص میں شاید ہی کہیںاتنا آزاد میڈیا ہو جتنا پاکستان میں ہے۔ سانحہ کوئٹہ کی وجہ سے ہم جشن آزادی سوگوار انداز میں منا رہے ہیں۔سانحہ کوئٹہ سے یہ واضح ہوا ہے کہ دہشت گردی کا زخمی سانپ پھنکار رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی سے متعلق مسائل پر وزیر اعلی، وزیر اعظم، آرمی چیف اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی تشویش ہے۔
اب ایک ٹاسک فورس بنی ہے جس کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرانا ہے۔ میرے نزدیک نیشنل ایکشن پلان اور ٹاسک فورس کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگا جب تک ہم قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں پاکستان کی اصل سوچ کو فروغ نہیں دیں گے۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی ہی نہیں بلکہ رول ماڈل بھی ہیں،انہوں نے پنجاب کو یقینا ترقی سے ہمکنار کیا ہے اور وہ اس چیز سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا اور نفرت کی سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ لیڈر شپ اس کی اہل ہے بشرطیکہ سیاسی وِل میں مزید اضافہ کیا جائے۔
ڈاکٹرعمرسیف
(چیئرمین پنجاب آئی ٹی بورڈ و وائس چانسلر آئی ٹی یونیورسٹی)
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے قومی ہیروز کوکبھی رول ماڈل نہیں بنایا۔ ہماری نوجوان نسل اگران ہیروز کے نقش قدم پرچلے تویہ ملک بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہوجائے۔ ہمیں ان عظیم لوگوںاوران کی گراں قدر خدمات کو یاد رکھنا ہے۔ میرے لئے عزت کی بات یہ ہے کہ میں نے تدریسی اورتحقیقی زندگی میں بہت سے ایوارڈز جیتے اوربین الاقوامی سطح پراپنی شناخت حاصل کی، لیکن پاکستان میں میری شناخت اس کام کی وجہ سے ہے جومیں نے پانچ برس قبل حکومت پنجاب میں پنجاب آئی ٹی بورڈ کے ساتھ شروع کیا۔
جب یہ پراجیکٹ شروع ہوا تھا تومیرا خیال تھا کہ دو، چار ماہ ہی کام کرسکوں گا کیونکہ مجھ جیسے شخص کا حکومت کے ساتھ کام کرنا اور اس سسٹم کے ساتھ چلنا مشکل ہوگا لیکن اب پانچ سال گزرچکے ہیں اوریہ سلسلہ بخوبی جاری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی کا اثاثہ یہی پانچ برس ہیں جومجھے ماضی میں ملنے والے ایوارڈز سے بھی بہترلگتے ہیں کیونکہ اس دوران مجھے اپنے خوبصورت ملک میں ملازمت اورمزدوری کے موقع کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ میں فیض احمد فیض کی ایک نظم پڑھنا چاہتا ہوں جو انہوں نے اس قوم کے لیے لکھی تھی:
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں
آیئے عرض گزاریں کہ نگار ہستی
زہر امروز میں شیرینیٔ فرطہ بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باریٔ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کے قدموں کو کسی راہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے
جن کا دیں پیرویٔ کزب و ریا ہے، ان کو
ہمت ِکفر ملے، جرأت تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں،ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرنہاں ، جان تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
فیصل ایدھی
(سماجی کارکن و سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن)
میری شان پاکستان، میری آن پاکستان اور میری جان ''پاکستان اور اس کے عوام''۔ یہ ملک مسلمانوں کے لیے آزاد کروایا گیا اور اس کے لیے بہت سی قربانیاں دی گئیں لیکن ابھی اسے مثالی بنانا باقی ہے۔ میرے والد عبدالستار ایدھی 20 برس تک ایک کمرے کی ڈسپنری چلاتے اوراس کے باہر ہی سوتے رہے ۔ لوگ انہیں ''لالہ'' کہتے تھے ۔ ان کے دوستوں نے انہیں ایمبولینس لے کر دی تھی جس پر وہ دن رات لوگوں کی خدمت کرتے تھے۔
اس ایمبولینس کے اوپر انہوں نے غریب آدمی کی وین لکھا تھا ، واپسی پر لوگ انہیں پیسے دینے کی کوشش کرتے تھے، وہ انکار کرتے اور کہتے کہ اگر کچھ دینا ہی ہے تو اسے چندے کو پیٹی میں ڈال دو۔ آج ان کی ایمبولینسیں پورے ملک میں چلتی ہیں اور جائے حادثہ پر سب سے پہلے پہنچتی ہیں۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ پاکستانی قوم جیسی قوم پوری دنیا میں نہیں ملے گی کیونکہ اس قوم نے انہیں ایک گلی سے پورے ملک تک پہنچایا۔ پاکستانی قوم کی طرف سے عبدالستار ایدھی کو مرنے سے پہلے اور بعد میںجتنا پیار ملا، میں اس پر پوری قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
خواجہ شاہد سکہ
(چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیپی لیک پینٹس )
پاکستان جس طرح ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا اور اس کے لیے جتنی قربانیاں دیں یہ اس کا ہی ثمر ہے کہ آج ہم یہاں آزاد فضا میں اکٹھا ہوئے ہیںاور جشن آزادی منا رہے ہیں۔ اللّٰہ کے بعد یہ قائداعظم ؒ کا احسان ہے۔قائداعظم کوئٹہ میں جب بیمار ہوئے تو ایک نرس جس نے ان کی بہت خدمت کی ، بعدازاں اس نے قائد سے درخواست کی کہ اس کا سارا خاندان لاہور میں ہے لہٰذا اس کا تبادلہ لاہور میں کروادیا جائے۔ بانی پاکستان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میرا نہیں بلکہ محکمہ صحت کا کام ہے۔قائد اعظمؒ کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے، اگر ہم ان کے اصولوں کی روشنی میں کام کریں گے تو ملک مزید ترقی کرے گا۔اس وقت پاکستان خاص کر صوبہ پنجاب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
بعض لوگ ،وزیر اعلی پنجاب کے کارناموں کو سراہنے کے بجائے ان پر بلاوجہ تنقید کرتے ہیں، میں میاں شہباز شریف سے کہتا ہوں کہ وہ ان کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن کو جاری رکھیں۔ وزیر اعلی پنجاب نے صوبہ بھر میں جس طرح سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے میں انہیں شیر شاہ سوری کا خطاب دیتا ہوں۔ پاکستان کی ترقی کے لیے تاجر برادری اور پوری قوم آپ کے ساتھ ہے۔ وزیراعلیٰ کھیلوں کی جانب بھی توجہ دیں، اس سکول کو ''این او سی'' جاری نہ کیا جائے جس میں کھیل کا میدان نہیں ہے۔ نوجوانوں کو اس طرح کے مواقع دیے گئے تو وہ پاکستان کی ترقی میں مزید کردار ادا کریں گے۔
بشپ الیگزینڈرجان ملک
(مسیحی رہنما)
جشن آزادی کا دن شکرگزاری اوراُن قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے ، جو نہ صرف حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ بلکہ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے تمام لوگوں نے دیں۔ تحریک پاکستان میں مسیحی برادری نے بھی حضرت قائداعظمؒ کے ساتھ مل کرکام کیا۔ اس وقت کے جتنے بھی مسیحی پارلیمنٹیرین تھے ، ان سب نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پاکستان نے مجھے عزت اورشان دی، جتنی عزت اورشان مجھے یہاں سے ملی ہے شاید کہیں اور نہ ملتی۔ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اور میں مشکل حالات میں بھی پر امید ہوں۔ ہمیں دوباتوں کا خیال رکھنا ہے کہ بہت سی غیرملکی قوتیں پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہیں لیکن وہ تب تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک ہمارے لوگ ان کا ساتھ نہ دیں۔
آجکل جوکچھ شام، لیبیا اوریمن میں ہورہا ہے ، اس کے پیچھے یقیناً بیرونی قوتیں ہیں لیکن وہ قوتیں اس وقت ناکام ہوجاتیں جب اندرونی قوتیں ان کو سپورٹ نہ کرتیں۔ اس لئے ضروری ہیں کہ ہم اپنے آپ کوان قوتوں کے مقابلے میں مضبوط بنائیں جوہمارے ملک کوغیرمستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری بات دہشت گردی کی ہے۔ دہشت گردی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کہاں جنم لے رہی ہے ؟ ہمیں تباہی اورموت کی سوچ کوختم کرنا ہے۔
ہمیں وہ سوچ رکھنی ہے جوقائداعظم محمد علی جناحؒ کی تھی۔ یہ ملک سب کا ہے اور اس میں اقلیت اور اکثریت کی بات نہیں ، سب آزاد ہیں اور پاکستان کے شہری ہیں۔ ہم نے تو اس ملک کی شروعات ہی قائد کی اس سوچ سے کی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ لاہورکوپیرس بنائیں گے تواب ان کی کاوشوں سے لاہور بالکل پیرس جیسا ہے۔ پاکستان نے مجھے میری ذات سے زیادہ شناخت دی ہے، مجھے نوازشریف کے دور حکومت میں اقوام متحدہ میں نمائندگی کے لیے بھیجا گیا اور میں واحد بشپ ہوں جس نے وہاں پاکستان کی نمائندگی کی۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ پاکستان میں مایوسی نہ پھیلائیں، پاکستان کے لیے کام کریں اور مل کر خامیاں دور کریں۔
عبدالقادر
(سابق ٹیسٹ کرکٹر )
میں جب قرآن پاک کا مطالعہ کرتاہوں تو اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھ جیسے ایک عام آدمی کو، جس کے گھر میں فاقے تھے، صبح کچھ کھالیا تو رات کے کھانے کا معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ملے گا بھی یا نہیں۔ میرے اسی معمولی سے گھر میں ممتاز سپنرز شین وارن، مرلی دھرن اور انیل کمبلے آئے۔ مجھے دنیا بھر کے متعدد عالمی ایوارڈز سے نوازا گیا، میں آج بھی اپنی کامیابیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے۔
اللّٰہ تعالی نے ایک بار پھر ہمیں جشن آزادی کی خوشیاں منانے کا موقع فراہم کیا ہے، آج کے دن ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ان 70 سالوں میں ہم سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں، ان کو دور کریں، کسی کو بلاوجہ تنگ نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں،ہر آدمی اپنی غلطی کی اصلاح خود کرے اور اپنے ضمیر کو جگائے۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو یہ پاک سرزمین جس نے ہیروز پیدا کیے ہیں اور جس کی زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مزید ترقی کرے گی اور ہماری آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔میری اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ پوری قوم کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
سیدنور
(چیئرمین پاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن و معروف ہدایتکاروپروڈیوسر)
پاکستان سے ہماری شان ہے لیکن شان سے پہلے یہ ہماری پہچان ہے۔ ہمیں اچھا کام کرنے سے پہچان ملتی ہے اور اس کے بعد شان ملتی ہے۔آج کل ہمارے ہیرو، ہیروئن اور ٹیکنیشن اپنی '' شان '' ڈھونڈنے کیلئے ہندوستان جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں انہیںسب کچھ ملے۔ ہمارے فنکار جب یہ کہتے ہیں کہ انہیں ہندوستان سے ''شان '' ملی ہے۔
یہ بات سن کرمجھے بہت تکلیف ہوتی ہے حالانکہ ہندوستان نے انہیں شان نہیں بلکہ پیسہ کمانے کیلئے پلیٹ فارم دیا ہے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ آرٹ اور فلم کے حوالے ادارہ ضرور بنائیںتاکہ ہمارے فنکاروں کویہاں سے ہی پہچان اورشان ملے اورہم اس پر فخر کرسکیں۔
اس موقع پر ایم این اے پرویز ملک، وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، وزیربہبود آبادی پنجاب ذکیہ شاہنواز، ایم پی اے میری گل، چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ جہانزیب خان، سیکرٹری انفارمیشن راجہ جہانگیرانور ، شعیب بن عزیز، محمد مالک، کامران لاشاری، خواجہ احمد حسان، سینئر صحافی رحمت علی رازی، ڈی جی پی آئی ڈی لاہور اعجاز حسین، سابق ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن اطہر خان، پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی چیئر پرسن فوزیہ وقار ،نمائندہ سول سوسائٹی عبداللہ ملک، ایکسپریس میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسراعجاز الحق، گروپ ایڈیٹر ایاز خان، ایڈیٹرایڈیٹوریل لطیف چوہدری ،ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارکیٹنگ لاہور شرمین خرم اور چیف رپورٹر روزنامہ ایکسپریس لاہور خالد قیوم سمیت لوگوں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ سیمینار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت حافظ نبیل ستار نے حاصل کی۔ سیمینار میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد شہباز شریف
(وزیراعلیٰ پنجاب)
قوم اس سال یوم آزادی اس وقت منارہی ہے جب چند روز قبل کوئٹہ میں انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا جس میں 70 سے زائد افراد شہید اورسینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس افسوسناک واقعہ نے پوری قوم کو ایک بار پھر اشکبار کردیا ہے ۔
1947ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ایک علیحدہ وطن کے حصول کیلئے تاریخی تحریک چلائی گئی جس میں برصغیر کے کونے کونے سے لاکھوں مسلمانوں نے حصہ لیا ۔ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے ہجرت کرکے پاکستان آنا تھا، انہوں نے آگ اور خون کے دریا عبور کیے اورلازوال قربانیاں دیں جن کا مقصد ہندوؤں اور سامراج کے چنگل سے آزادی حاصل کرنا تھا ۔یہ قربانیاں ایک ایسے وطن کے حصول کے لئے دی گئی تھیں جہاں محنت ،امانت ،دیانت، سکہ رائج الوقت ہو اورسب کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقعے حاصل ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اپنے آزادی کے 70 سالہ سفر میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔پاکستان ایٹمی طاقت بنا ہے،اس لئے کسی دشمن میں میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں۔جہاں ہمیں کامیابیاں ملی ہیں وہاں ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں جن کا ہمیں خلوص نیت سے جائزہ لینا ہے اور ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ ہمارے وسائل کم مگر مسائل زیادہ ہیں۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جسے عبور کرنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔دنیا کی تاریخ میںایسی قوموں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے شکست کے باوجودترقی کی منازل طے کیں۔ جاپان اور جرمنی نے ویژن، عزم، جذبے اورانتھک کاوشوں کے ذریعے ترقی کی منازل تیزی سے طے کیں اورآج ان کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوںمیں ہوتا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ کشمیر بنے گا پاکستان اور ایسا اسی طرح ہی ہوگا جس طرح جرمنی کی مضبوط معیشت کے باعث دیوار برلن گری اورجرمن قوم نے دوبارہ دنیا میں عظیم مقام حاصل کیا ۔ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ انصاف کی بنیاد پر اپنے 70سالہ سفر کا تجزیہ اور قیام پاکستان کے بعد سے اپنا احتساب کرنا ہوگاکیونکہ اگر ایسا نہ ہواتو ہم اپنی خامیاں دورنہیں کرسکیں گے۔80ء کی دہائی میں اگر ہم نام نہاد جہاد نہ کرتے تو آج پاکستان ایک پرامن ، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ پاکستان میں چار مارشل لاء آئے، کسی نے اسلام کے نام پر پاکستان پرقبضہ کیا، تو کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاکر قوم کو دھوکا دیا اور کسی نے پاکستان کے عوام کے مسیحا کا روپ دھار کرملک کا چہرہ بگاڑا۔ان چاروں فوجی ادوار نے پاکستان کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔
پاکستان کوانتہاء پسندی اور عدم برداشت کے رویوں سے پاک کرنا ہوگا۔ 60ء کی دہائی میں پاکستان ترقی پسند،تحمل و برداشت پر مبنی معاشرہ تھا۔ کیمونزم کے خلاف نام نہاد جنگ سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھا اگر ہم اس جنگ سے دور رہتے تو پاکستان آج بھی پرامن ،بردبار اور تحمل پر مبنی معاشرہ ہوتا اورملک ترقی اورخوشحالی کے منازل تیزی سے طے کررہا ہوتالیکن بدقسمتی سے بدامنی کی آگ نے ملکی ترقی کے سفر کو روکا ،وہ قومیںجو ہم سے پیچھے تھیںوہ آگے نکل گئیں۔ مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور سب اچھا ہے کہنا بھی درست نہیں ہے۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ تقریریں کرنے، اشعار اورنظمیں پڑھنے سے حالات نہیں بدل سکتے اس کیلئے ہمیں محنت،عزم اورجذبے کیساتھ کام کرنا ہوگا۔ سفر طویل اورمشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ہمیں محنت ،امانت ،دیانت اور عزم کے ساتھ کامیابی کا یہ سفر طے کرنا ہے ۔ ہمیں پاکستان کے 70 ویں یوم آزادی کے موقع پر ملک کو قائداعظم ؒ اورعلامہ اقبالؒ کے تصورات و افکار کے مطابق فلاحی ریاست بنانے کیلئے مل کر کام کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ اگر آج پوری قوم یکجان دوقالب ہوکرماضی کے نقصانات کی تلافی کا فیصلہ کرلے توپاکستان بین الاقوامی برادری میں باوقار مقام اور خودکفالت کی منزل حاصل کرسکتا ہے۔
یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ پر 2008ء میں کام شروع ہوا،آج 11سال گزرنے کے باوجودبھی ابھی تک 900 میگاواٹ کے اس منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس وقت اس کی لاگت ڈیڑھ ارب ڈالر تھی جو اب پانچ ارب تک پہنچ گئی ہے۔ پھر سوال کیا جاتا ہے کہ تعلیم، صحت و دیگر شعبوں کے لیے پیسے کیوں نہیں ہیں؟ میاں نواز شریف نے اپنی حکومت کے گزشتہ تین سال بہت مشکل سے گزارے ہیں، وہ اس ملک کو لے کر آگے چل رہے ہیں۔ ساہیوال کا 1320 میگا واٹ کا کول پاور پلانٹ 23ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے جارہا ہے ۔دنیا کی تاریخ میں اتنی گنجائش کے کول پاور پلانٹ کے منصوبے کی اس تیز رفتاری سے تکمیل کی مثال نہیں ملتی۔ میں بلا خوف وتردید کہہ رہا ہوں کہ سی پیک کے منصوبے انتہائی شفاف انداز میں تیز رفتاری سے مکمل کیے جارہے ہیں اوریہ ''پنجاب سپیڈ'' نہیں بلکہ ''پاکستان سپیڈ ''ہے ۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور ہماری اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ چین نے موجوہ حکومت پر اعتماد کرکے پاکستان کو 46ارب ڈالر کا تاریخی سرمایہ کاری پیکیج دیا ہے جس کے تحت لگنے والے منصوبوں سے ملک کے اندھیرے دور ہوں گے۔صنعتیں ترقی کریں گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک میں ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔سی پیک کی مخالفت کرنے والوں کو ملک وقوم کی ترقی عزیز نہیں ،سرمایہ کاری کے اس پیکیج کی مخالفت دراصل پاکستان کی خوشحالی کی مخالفت ہے، جسے قوم کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی، اگر آج ہم صدق دل سے اورامیدواثق سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے مل جل کر کام کرنے کا فیصلہ کرلیں تو انشاء اللہ پاکستان ترقی اورخوشحالی کی منزل حاصل کرلے گااوردنیا کے نقشے پر ایک عظیم ملک بن کر ابھرے گا۔
ایس ایم ظفر
(سابق وفاقی وزیر قانون)
ہمارا اس سال کا جشن اسی ماحول اور کیفیت میں گزرے گا ، جن حالات میں ہم نے 14اگست 1947 ء کو یوم آزادی کا جشن منایاتھا ۔ پاکستان بننے کی خوشی تھی اور پرچم کو دیکھ کر ایک عزم پیدا ہورہا تھا، جوش و ولولہ تھا ۔ قافلے لٹ کر، اپنے پیاروں کی قربانی دے کر پاکستان آرہے تھے۔ کسی نے درست کہا تھا کہ ''آزادی کے یہ مسافر آگ اور خون کاد ریا پار کرکے پاکستان آرہے ہیں''۔ آج اس جشن کے وقت بھی ہم محسوس کررہے ہیں کہ خوشیاں ہیں، ہم آزاد ہیںلیکن کوئٹہ کے واقعہ نے پوری قوم کوسوگوار کردیاہے ۔ آج ہم ایٹمی طاقت ہیں اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں۔ یہ قوم 70سال کی ہوچکی، بے شمار بحرانوں اور مشکلات سے گزری ہے لیکن اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔
ایک بیرونی مبصر نے کہا کہ جتنے بحرانوں سے پاکستانی قوم گزری ہے، اگر کسی اور قوم پر یہ مشکلات اور صعوبتیں آتی تو وہ بکھر جاتی ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس اندھیری رات سے گزر کر اس سویرے تک ضرور پہنچیں گے جس کی ہمیں تمنا ہے۔آج کا دن مطالبات پیش کرنے کا دن نہیںلیکن میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ایک چھوٹی سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ میرا لاہور مجھے واپس دلا دیں، وہ لاہور جو درختوں کا تھا، جو باغ اور باغیچوں کا لاہور تھااور ٹھنڈی سڑک موجود تھی۔ آج لاہور آہستہ آہستہ عمارتوں اور سیمنٹ کا جنگل بنتا جارہا ہے۔ پاکستان ہماری شان اور شناخت ہے ۔ وطن کہتا ہے کہ میں نے تمہیں شناخت دی، شاندار بنایا، اپنے سینے میں چھپے معدنیات ، پانی اور سب کچھ دیا لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے مجھے کیا دیا؟ آج اگر ہم اس سوال کا صحیح حل معلوم کرلیں اور اس کی تلاش میں نکل پڑیں تو پھر یہ ملک واقعی شاندار بن جائے گا اور کہے گا کہ تم میری شان ہو۔
عارف نظامی
(سینئر صحافی)
پاکستان نے جہاں بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان میں سے ایک کامیابی آزاد میڈیا ہے۔ تیسری دنیا بالعموم اور اسلامی دنیا بالخصوص میں شاید ہی کہیںاتنا آزاد میڈیا ہو جتنا پاکستان میں ہے۔ سانحہ کوئٹہ کی وجہ سے ہم جشن آزادی سوگوار انداز میں منا رہے ہیں۔سانحہ کوئٹہ سے یہ واضح ہوا ہے کہ دہشت گردی کا زخمی سانپ پھنکار رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی سے متعلق مسائل پر وزیر اعلی، وزیر اعظم، آرمی چیف اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی تشویش ہے۔
اب ایک ٹاسک فورس بنی ہے جس کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرانا ہے۔ میرے نزدیک نیشنل ایکشن پلان اور ٹاسک فورس کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگا جب تک ہم قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں پاکستان کی اصل سوچ کو فروغ نہیں دیں گے۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی ہی نہیں بلکہ رول ماڈل بھی ہیں،انہوں نے پنجاب کو یقینا ترقی سے ہمکنار کیا ہے اور وہ اس چیز سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا اور نفرت کی سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ لیڈر شپ اس کی اہل ہے بشرطیکہ سیاسی وِل میں مزید اضافہ کیا جائے۔
ڈاکٹرعمرسیف
(چیئرمین پنجاب آئی ٹی بورڈ و وائس چانسلر آئی ٹی یونیورسٹی)
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے قومی ہیروز کوکبھی رول ماڈل نہیں بنایا۔ ہماری نوجوان نسل اگران ہیروز کے نقش قدم پرچلے تویہ ملک بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہوجائے۔ ہمیں ان عظیم لوگوںاوران کی گراں قدر خدمات کو یاد رکھنا ہے۔ میرے لئے عزت کی بات یہ ہے کہ میں نے تدریسی اورتحقیقی زندگی میں بہت سے ایوارڈز جیتے اوربین الاقوامی سطح پراپنی شناخت حاصل کی، لیکن پاکستان میں میری شناخت اس کام کی وجہ سے ہے جومیں نے پانچ برس قبل حکومت پنجاب میں پنجاب آئی ٹی بورڈ کے ساتھ شروع کیا۔
جب یہ پراجیکٹ شروع ہوا تھا تومیرا خیال تھا کہ دو، چار ماہ ہی کام کرسکوں گا کیونکہ مجھ جیسے شخص کا حکومت کے ساتھ کام کرنا اور اس سسٹم کے ساتھ چلنا مشکل ہوگا لیکن اب پانچ سال گزرچکے ہیں اوریہ سلسلہ بخوبی جاری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی کا اثاثہ یہی پانچ برس ہیں جومجھے ماضی میں ملنے والے ایوارڈز سے بھی بہترلگتے ہیں کیونکہ اس دوران مجھے اپنے خوبصورت ملک میں ملازمت اورمزدوری کے موقع کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ میں فیض احمد فیض کی ایک نظم پڑھنا چاہتا ہوں جو انہوں نے اس قوم کے لیے لکھی تھی:
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں
آیئے عرض گزاریں کہ نگار ہستی
زہر امروز میں شیرینیٔ فرطہ بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باریٔ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کے قدموں کو کسی راہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے
جن کا دیں پیرویٔ کزب و ریا ہے، ان کو
ہمت ِکفر ملے، جرأت تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں،ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرنہاں ، جان تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
فیصل ایدھی
(سماجی کارکن و سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن)
میری شان پاکستان، میری آن پاکستان اور میری جان ''پاکستان اور اس کے عوام''۔ یہ ملک مسلمانوں کے لیے آزاد کروایا گیا اور اس کے لیے بہت سی قربانیاں دی گئیں لیکن ابھی اسے مثالی بنانا باقی ہے۔ میرے والد عبدالستار ایدھی 20 برس تک ایک کمرے کی ڈسپنری چلاتے اوراس کے باہر ہی سوتے رہے ۔ لوگ انہیں ''لالہ'' کہتے تھے ۔ ان کے دوستوں نے انہیں ایمبولینس لے کر دی تھی جس پر وہ دن رات لوگوں کی خدمت کرتے تھے۔
اس ایمبولینس کے اوپر انہوں نے غریب آدمی کی وین لکھا تھا ، واپسی پر لوگ انہیں پیسے دینے کی کوشش کرتے تھے، وہ انکار کرتے اور کہتے کہ اگر کچھ دینا ہی ہے تو اسے چندے کو پیٹی میں ڈال دو۔ آج ان کی ایمبولینسیں پورے ملک میں چلتی ہیں اور جائے حادثہ پر سب سے پہلے پہنچتی ہیں۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ پاکستانی قوم جیسی قوم پوری دنیا میں نہیں ملے گی کیونکہ اس قوم نے انہیں ایک گلی سے پورے ملک تک پہنچایا۔ پاکستانی قوم کی طرف سے عبدالستار ایدھی کو مرنے سے پہلے اور بعد میںجتنا پیار ملا، میں اس پر پوری قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
خواجہ شاہد سکہ
(چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیپی لیک پینٹس )
پاکستان جس طرح ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا اور اس کے لیے جتنی قربانیاں دیں یہ اس کا ہی ثمر ہے کہ آج ہم یہاں آزاد فضا میں اکٹھا ہوئے ہیںاور جشن آزادی منا رہے ہیں۔ اللّٰہ کے بعد یہ قائداعظم ؒ کا احسان ہے۔قائداعظم کوئٹہ میں جب بیمار ہوئے تو ایک نرس جس نے ان کی بہت خدمت کی ، بعدازاں اس نے قائد سے درخواست کی کہ اس کا سارا خاندان لاہور میں ہے لہٰذا اس کا تبادلہ لاہور میں کروادیا جائے۔ بانی پاکستان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میرا نہیں بلکہ محکمہ صحت کا کام ہے۔قائد اعظمؒ کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے، اگر ہم ان کے اصولوں کی روشنی میں کام کریں گے تو ملک مزید ترقی کرے گا۔اس وقت پاکستان خاص کر صوبہ پنجاب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
بعض لوگ ،وزیر اعلی پنجاب کے کارناموں کو سراہنے کے بجائے ان پر بلاوجہ تنقید کرتے ہیں، میں میاں شہباز شریف سے کہتا ہوں کہ وہ ان کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن کو جاری رکھیں۔ وزیر اعلی پنجاب نے صوبہ بھر میں جس طرح سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے میں انہیں شیر شاہ سوری کا خطاب دیتا ہوں۔ پاکستان کی ترقی کے لیے تاجر برادری اور پوری قوم آپ کے ساتھ ہے۔ وزیراعلیٰ کھیلوں کی جانب بھی توجہ دیں، اس سکول کو ''این او سی'' جاری نہ کیا جائے جس میں کھیل کا میدان نہیں ہے۔ نوجوانوں کو اس طرح کے مواقع دیے گئے تو وہ پاکستان کی ترقی میں مزید کردار ادا کریں گے۔
بشپ الیگزینڈرجان ملک
(مسیحی رہنما)
جشن آزادی کا دن شکرگزاری اوراُن قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے ، جو نہ صرف حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ بلکہ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے تمام لوگوں نے دیں۔ تحریک پاکستان میں مسیحی برادری نے بھی حضرت قائداعظمؒ کے ساتھ مل کرکام کیا۔ اس وقت کے جتنے بھی مسیحی پارلیمنٹیرین تھے ، ان سب نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پاکستان نے مجھے عزت اورشان دی، جتنی عزت اورشان مجھے یہاں سے ملی ہے شاید کہیں اور نہ ملتی۔ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اور میں مشکل حالات میں بھی پر امید ہوں۔ ہمیں دوباتوں کا خیال رکھنا ہے کہ بہت سی غیرملکی قوتیں پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہیں لیکن وہ تب تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک ہمارے لوگ ان کا ساتھ نہ دیں۔
آجکل جوکچھ شام، لیبیا اوریمن میں ہورہا ہے ، اس کے پیچھے یقیناً بیرونی قوتیں ہیں لیکن وہ قوتیں اس وقت ناکام ہوجاتیں جب اندرونی قوتیں ان کو سپورٹ نہ کرتیں۔ اس لئے ضروری ہیں کہ ہم اپنے آپ کوان قوتوں کے مقابلے میں مضبوط بنائیں جوہمارے ملک کوغیرمستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری بات دہشت گردی کی ہے۔ دہشت گردی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کہاں جنم لے رہی ہے ؟ ہمیں تباہی اورموت کی سوچ کوختم کرنا ہے۔
ہمیں وہ سوچ رکھنی ہے جوقائداعظم محمد علی جناحؒ کی تھی۔ یہ ملک سب کا ہے اور اس میں اقلیت اور اکثریت کی بات نہیں ، سب آزاد ہیں اور پاکستان کے شہری ہیں۔ ہم نے تو اس ملک کی شروعات ہی قائد کی اس سوچ سے کی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ لاہورکوپیرس بنائیں گے تواب ان کی کاوشوں سے لاہور بالکل پیرس جیسا ہے۔ پاکستان نے مجھے میری ذات سے زیادہ شناخت دی ہے، مجھے نوازشریف کے دور حکومت میں اقوام متحدہ میں نمائندگی کے لیے بھیجا گیا اور میں واحد بشپ ہوں جس نے وہاں پاکستان کی نمائندگی کی۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ پاکستان میں مایوسی نہ پھیلائیں، پاکستان کے لیے کام کریں اور مل کر خامیاں دور کریں۔
عبدالقادر
(سابق ٹیسٹ کرکٹر )
میں جب قرآن پاک کا مطالعہ کرتاہوں تو اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھ جیسے ایک عام آدمی کو، جس کے گھر میں فاقے تھے، صبح کچھ کھالیا تو رات کے کھانے کا معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ملے گا بھی یا نہیں۔ میرے اسی معمولی سے گھر میں ممتاز سپنرز شین وارن، مرلی دھرن اور انیل کمبلے آئے۔ مجھے دنیا بھر کے متعدد عالمی ایوارڈز سے نوازا گیا، میں آج بھی اپنی کامیابیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے۔
اللّٰہ تعالی نے ایک بار پھر ہمیں جشن آزادی کی خوشیاں منانے کا موقع فراہم کیا ہے، آج کے دن ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ان 70 سالوں میں ہم سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں، ان کو دور کریں، کسی کو بلاوجہ تنگ نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں،ہر آدمی اپنی غلطی کی اصلاح خود کرے اور اپنے ضمیر کو جگائے۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو یہ پاک سرزمین جس نے ہیروز پیدا کیے ہیں اور جس کی زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مزید ترقی کرے گی اور ہماری آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔میری اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ پوری قوم کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
سیدنور
(چیئرمین پاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن و معروف ہدایتکاروپروڈیوسر)
پاکستان سے ہماری شان ہے لیکن شان سے پہلے یہ ہماری پہچان ہے۔ ہمیں اچھا کام کرنے سے پہچان ملتی ہے اور اس کے بعد شان ملتی ہے۔آج کل ہمارے ہیرو، ہیروئن اور ٹیکنیشن اپنی '' شان '' ڈھونڈنے کیلئے ہندوستان جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں انہیںسب کچھ ملے۔ ہمارے فنکار جب یہ کہتے ہیں کہ انہیں ہندوستان سے ''شان '' ملی ہے۔
یہ بات سن کرمجھے بہت تکلیف ہوتی ہے حالانکہ ہندوستان نے انہیں شان نہیں بلکہ پیسہ کمانے کیلئے پلیٹ فارم دیا ہے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ آرٹ اور فلم کے حوالے ادارہ ضرور بنائیںتاکہ ہمارے فنکاروں کویہاں سے ہی پہچان اورشان ملے اورہم اس پر فخر کرسکیں۔