اچھے ٹی وی ڈرامے کو ادب کا حصہ سمجھتا ہوں
بچپن سے کالج کے زمانے تک کرکٹر بننے کا جنون رہا، معروف شاعر و...
وہ قسمت کے دھنی ہیں، جس بھی کام میں ہاتھ ڈالیں، کامیابی ہاتھ باندھے، ان کے پیچھے چل پڑتی ہے اور ساتھ میں ان کا کام مقبولیت بھی حاصل کرلیتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی دور میںوہ بہرصورت کرکٹر بننا چاہتے تھے لیکن بوجوہ ایسا ہونہ سکا ۔وہ وقتی طور پر آزردہ ضرورہوئے مگرجلد سنبھل گئے ، ناکامی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے، اسے اپنی قوت بنا کردوسرے شعبوں میں اتنا بلند مقام حاصل کیا،
کہ جو نہ مل سکا، اس کا احساس زیاں تو انہیں خیر کیا ہوتا الٹا وہ اب اسے اپنے حق میں خیر مستور جانتے ہیں۔اپنے تجربے کی بنیاد پر امجد اسلام امجد نئی نسل کو تجویز کرتے ہیں کہ ''وہ اپنے اندر ایک سے زیادہ کھڑکیاں کھلی رکھیں ، ممکن ہے ، جس کام کو وہ اپنے واسطے بہتر جانتے ہیں، اس کا حصول نصیب میں نہ ہو اور وہ کام جو ترجیحات میںکہیں نیچے ہیں ، وہ آپ کو سربلند کردیں۔'' کرکٹر بھلے سے وہ نہ بن پائے لیکن اس کمبل نے ان کی جان چھوڑی نہیں۔ کرکٹ دیکھنے ،اس سے متعلق پڑھنے کا جنون اب بھی ہے اور بہت سی باتوں کی وضاحت کے لیے مثال بھی کرکٹ سے لاتے ہیں۔
مثلاً اگر انہیں یہ بتانا ہے کہ جو کام کیا جائے، اس میں انفرادی رنگ اور اپنی چھاپ ضرور ہونی چاہیے تو وہ عظیم کرکٹر ویوین رچرڈ کی مثال دیں گے، جن سے کسی نے انگلینڈ میں کہا کہ اگر وہ کرکٹر نہ ہوتے تو اپنے بہت سے ہم وطنوں کی طرح ادھرصفائی ستھرائی کا کام کررہے ہوتے، جس پر ویوین رچرڈ نے جواب دیا، ممکن ہے ایسا ہی ہوتا لیکن میں اگر جمعدار ہوتا تو ان میں بھی نمبر ون ٹھہرتا۔
امجد اسلام امجد نے شاعری ، ڈراما نویسی، تراجم، سفرنامے، کالم نویسی اور تنقید سبھی اصناف میں لکھا اور خوب لکھا ۔وہ اپنی پہلو دار علمی و ادبی شخصیت کا کا بنیادی حوالہ شاعری کوقرار دیتے ہیں۔ ہم نے جب پوچھا کہ '' اتنی زیادہ کشتیوں میں سوار ہونے سے شاعری متاثر تو ہوئی ہوگی تو اس کا جواب انہوں نے کچھ یوں دیا '' بھارتی فلم ''پھر کبھی'' جس کو کسی نے خریدانہیںاورویڈیو پر آئی ہے۔ اس میں ایک شرمیلے مرد اور عورت کی کہانی بیان ہوئی ہے ،جو ایک دوسرے سے محبت کے باوجود، چالیس برس تک، ایک دوسرے سے اظہار محبت نہ کر پائے۔ عاشق کی بیوی مرتی ہے، تو بڑھاپے میںا
تفاقاً دوبارہ سے محبوبہ سے اس کی ملاقات ہوجاتی ہے۔ دونوں میں راہ ورسم بڑھنے پر ،اس بڈھے عاشق کی بہواپنی شوہر سے لڑتی ہے کہ تم اپنے باپ کوروکتے کیوں نہیں۔اور پوچھتی ہے: کیا تمھاری ماں کو معلوم تھاکہ تمھارا باپ ،اس خاتون سے محبت کرتا ہے؟ جس پر بوڑھے کا بیٹا ،بیوی کوجواب دیتا ہے کہ اس کی ماں کو پتا تھا اور میاں بیوی میں اس بات پر چھیڑ چھاڑچلتی رہتی تھی۔ اب وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ''وہ عورت چالیس سال تک میری ماں اور باپ کے ساتھ رہی لیکن کبھی ان کے درمیان نہیں آئی۔ میں بھی یہی کہتا ہوںکہ ڈرامانویسی، کالم نویسی، ترجمہ نگاری، سفرنامے ، تنقیدوغیرہ میری شاعری کے ساتھ ضرور رہے لیکن اس کے درمیان میں نہیں آئے۔ ''
امجد اسلام امجد باغ وبہار شخصیت ہیں۔ بذلہ سنجی اور فقرے بازی میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ بقول شخصے ''امجد بندہ ضائع کردیتا ہے۔ فقرہ ضائع نہیں کرتا۔ '' لطائف وظرائف سے بھرپور یہی شگفتہ بیانی انہیں اپنی آپ بیتی لکھنے سے روک رہی ہے ۔کہتے ہیں '' بڑے ادیبوں سے تعلق خاطر رہاہے، ان کا خودنوشت میںذکر ہوگا تولامحالہ بہت سی باتوں کا لطیف انداز میں بیان ہوگا، جس کو یار لوگ لے اڑیں گے اور طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔''کہتے ہیں '' ہمارے ہاں لوگ مسائل کی وجہ سے اتنے دکھی ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے اوپر ہنسنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ کامیڈی ہوتی ہی، اس وقت ہے جب آپ اپنے اوپر ہنسیں۔''
امجد اسلام امجد کا کوئی بھی تذکرہ دو ہستیوں کے بغیر ہمیشہ ادھورا سمجھا جائے گا۔ایک ان کی اندھی خالہ ہیں، اور دوسرے احمد ندیم قاسمی۔ ان کی یہ نابینا خالہ بچوں ک, کہانیاں سنایا کرتیں۔بچوں کے مزاج کے مطابق کہانی میںردوبدل کرناخوب جانتی تھیں۔ باقی بچے تو کہانی سنتے لیکن ان کا تیز طراربھانجا ، صرف سننے پر اکتفا نہ کرتا بلکہ اس پر غور کرتا اور کوئی ڈھیل یا سقم پاتا تو اسے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق دورکرکے ، اسکول میں سناتا پھرتا، اس بنا پرچھٹی جماعت میں ایک استاد نے اس کا نام کہانیوں کی مشین ڈال دیا۔امجد اسلام امجد کے بقول''کہانی کہنے،
اسکرین پلے بنانے،اور اسکرپٹ لکھنے میں میری خالہ ہی انسپریشن بنیں۔'' احمد ندیم قاسمی کی حوصلہ افزائی سے انہیں یقین ہوا کہ وہ دیار ادب میں اپنا مقام پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کررہے تھے ، جب پنجاب یونیورسٹی میں جنگ ستمبر کے سلسلے میں مشاعرہ ہوا ۔ امجد اسلام امجد نے ادھر نظم سنائی۔ مشاعرہ ختم ہونے پر احمد ندیم قاسمی ، ان کے پاس آئے اور کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ''میں احمد ندیم قاسمی ہوں، اور ایک رسالہ ''فنون'' نکالتا ہوں'' اس پر امجد اسلام امجد نے کہا کہ '' سر آپ کو کون نہیں جانتا، اورمیں ''فنون'' پڑھتا رہتاہوں۔''اس پہ احمد ندیم قاسمی نے فرمایا ''کیا وہ نظم جو آپ نے مشاعرے میں پڑھی ہے ، مجھے ''فنون'' کے لیے عنایت کرسکتے ہیں۔'' امجد اسلام امجد کے بقول ''اب یہ لفظ عنایت میری اوقات سے بہت بڑا تھا، اس نے مجھے یہ اعتماد بخشاکہ میں جو کام کررہا ہوں اس کی اگر اتنا بڑا آدمی تعریف رہا ہے تو اس کو جاری رہنا چاہیے۔
اندر سے گواہی تو تھی اور اب باہر سے اتنی بڑی گواہی مل گئی تو مجھے باقاعدہ یقین آگیاکہ میں ادیب بن سکتا ہوں ۔دو مہینے بعد ''فنون'' ملا، جس میں نظم شامل تھی، اور ساتھ میں رقعہ بھی، جس میں لکھا تھا کہ فنون کا اگلہ پرچہ تیار ہے، آپ کی نظم کا انتظار ہے۔ اس انداز سے قاسمی صاحب نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔''
امجد اسلام امجد کو بحیثیت شاعر خود کو زوروں سے نہیں منوانا پڑا۔ یونیورسٹی میں ان کا شہرہ تھا ۔ ایوب خان کے خلاف نظم ''ہوائے شہر وفا شعاراں'' بھی خاصی مقبول ہوئی، جسے محمد حنیف رامے نے اپنے رسالے ''نصرت'' کے ٹائٹل پر چھاپ دیا۔ '' فنون'' میں وہ باقاعدگی سے چھپنے لگے۔74 ء میںشاعری کا پہلا مجموعہ '' برزخ '' چھپ گیا۔ شاعری کے برخلاف ٹی وی ڈرامے میں خود کوقائم کرنے میں انہیں خاصی تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔
ٹی وی کے لیے ڈراما لکھنے کا قصہ یوں ہے کہ جس زمانے میں اطہر شاہ خان جیدی کا ڈراما ''لاکھوں میں تین ''چل رہا تھا، امجداسلام امجد نے ان سے ڈرامے سے متعلق کچھ نکات پر بحث کی تو اطہر شاہ خان کہنے لگے '' تم خود ڈراما کیوں نے لکھتے'' یہ سمجھے شاید وہ طنز کررہے ہیں لیکن دراصل وہ ان کی تنقیدی بصیرت سے قائل ہوکر بات کررہے تھے، اس مہربان کی تحریک پر ڈراما لکھ کر پی ٹی وی کے در پر تین بار گئے لیکن بے نیل مرام واپس لوٹے۔ 68ء سے 73ء تک ٹی وی کے دروازے ان پربند رہے۔سنہ73 ء میں پی ٹی وی نے ڈراما لکھنے میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنا ہنر آزمانے کی دعوت دی۔
اب امجد اسلام امجد کی قسمت نے پلٹا کھایاان کا ڈراما ''آخری خواب'' پنڈی اسٹیشن سے پیش کیا گیا ۔ سنہ74ء میں راولپنڈی اسٹیشن سے حوا کے نام سے سیریز شروع ہوئی،جس کے لیے امجد اسلام امجد نے ''برزخ''اور'' موم کی گڑیا'' کے نام سے دو ڈرامے لکھے۔''کنورخالد آفتاب کا تبادلہ لاہور ہوا تو یہاں بھی ان کی سنی گئی۔ 1975ء میں 23مارچ کا خصوصی کھیل ''خواب جاگتے ہیں''لکھا جوان کی شادی کے روز دکھایا گیا۔ اس کے بعد اوربھی ڈرامے انہوں نے لکھے اور پھر ڈراما سیریل '' وارث ''کا مرحلہ آگیا، جس نے پاکستان ٹی وی ڈرامے کی تاریخ بدل دی۔ اس ڈرامے کے بارے بتاتے ہیں ''مجھے کہا گیا کہ تین دن میں کوئی آئیڈیا ہے تو پیش کرو، جس پر میں نے اس ڈراما کا پہلا اسکرپٹ لکھا۔اس ڈرامے کی تھیم بارہ سال سے میرے اندر پک رہی تھی۔ ڈرامے اتنا زیادہ ہٹ ہوا کہ اس کے اسکرپٹ کو تبدیل کرنا پڑا۔آخری حصہ جس طرح سے دکھایا گیا، اس طرح پہلے نہیں تھا۔چودھری حشمت کا کردارڈرامے کے وسط تک رہتا، اس کے بعد اس کے دونوں بیٹوں کے درمیان جو لڑائی تھی، اس کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی۔''
ڈرامے سے اب گفتگو کا رخ تھوڑا شاعری کی طرف موڑتے ہیں۔ امجد اسلام امجد شاعری میں وسیع پیمانے پر ابلاغ کی خواہش مند ضرور ہیں لیکن فنی تقاضوں کو پس پشت ڈالنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ ایسی شاعری کرنے میں انہیں دلچسپی رہی ہے، جس سے وہ ثقہ لوگوں اور عام قاری دونوںکو متاثر کر سکیں۔ اس ضمن میں وہ حالی کے شعر کے ذریعے اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں ۔
اہل معنی کو ہے لازم سخن آرائی بھی
بزم میں اہل نظربھی ہیں تماشائی تھی
شعر میں وہ موسیقیت اور آہنگ برقرار رکھنے کے موید ہیں۔ان کے خیال میں'' میرا اپنا نظریہ یہ ہے کہ ہماری زبانوں کی شاعری جو سیمٹیک زبانوں کی شاعری ہے،اس میں قدرت نے عجیب وغریب سہولت رکھی ہے جومغربی زبانوں کو بہت کم حاصل ہے یعنی ہمارے vocal cords جو ہیں،وہ تقریبا ً انگریزی سے دوگنی آوازیں نکالنے پر قادر ہیں۔انگریزی 26 حرفوں میں ختم ہوتی ہے ،ہندی کو ملالیا جائے توہمارے باون ترپن بنتے ہیں ۔ ہم اگر خدا کی دی نعمت کو استعمال نہ کریں تو یہ ہماری کمزوری ہے۔ ہمارے پاس قافیے زیادہ ہے۔ ہمارے پاس ردھم کی صلاحیت زیادہ ہے توکیوں نہ اس کو استعمال کریں۔ ردھم شاعری کے مفہوم سے قطع نظر آپ کواپنا اسیر بنالیتا ہے اور مفہوم یاد رکھنے میں مدد کرتا ہے۔''
اوراب امجد اسلام امجد سے متعلق کچھ معلومات کا بیان ہوجائے۔خوبصورت نظمیں اور غزلیں لکھنے والے امجد اسلام امجدنے 4اگست1944ء کو لاہور میںآنکھ کھولی۔ان کا تعلق دستکاروں کے خاندان سے ہے ، جو 1930ء میں سیالکوٹ سے لاہور آباد ہوگیا۔تین بھائیوں اور چار بہنوں میں وہ سب سے بڑے ہیں۔ 61ء میں مسلم ماڈل اسکول سے میٹرک کیا۔انٹر اسلامیہ کالج ریلوے روڈسے،گریجویشن اسلامیہ کالج سول لائنز سے کی۔اورینٹل کالج سے 67ء میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ ایم اے اردو کیا۔68ء میں ایم اے او کالج میں ساڑھے تین سو روپے تنخواہ پر لیکچرار مقرر ہو گئے ۔
97ء میں اسی ادارے سے بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ تدریس سے فراغت کے بعد اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹراور چلڈرن لائبریری لاہور کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیتوں میں فرائض انجام دیے۔ 23مارچ 1975ء کو امجد اسلام امجد کی شادی اپنی کزن فردوس سے ہوئی، جو ارینج ضرور تھی لیکن دونوں کی پسندکو بھی دخل رہا ۔روشین امجد(آپ معروف مزاحیہ شاعر انور مسعود کی بہو ہیں) اور تحسین امجد بیٹیاں اور علی ذیشان امجد بیٹا ہے۔ امجد اسلام امجدبارہ سال قبل والدہ کی شفقت سے محروم ہوئے۔والد محمداسلام کا سایہ سر پر قائم ہے۔
ادیبوں میں عطاء الحق قاسمی سے گہرا یارانہ رہا۔ ''عکس'' اور''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' شاعری کے تراجم پر مشتمل تصانیف ہیں۔ تنقیدی کتاب ''نئے پرانے ''کے نام سے ہے۔ سفرناموں کے چار اور کالموں کے چھے مجموعے چھپ چکے ہیں۔'' وارث'' ''رات''، ''دہلیز''،''سمندر''، ''فشار''، ''دن ''، ''اگر''، ''انکار'' اور ''ایندھن'' سمیت کئی یادگار ڈرامے لکھے۔ اچھے ٹی وی ڈرامے کو وہ ادب کا حصہ جانتے ہیں۔ چار فلموں''حق مہر''''نجات''''چوروں کی بارات'' اور ''جو ڈر گیا وہ مر گیا''کی کہانی اور دو فلموں ''قربانی'' اور ''سلاخیں'' کے مکالمے لکھے۔
فضل محمود پر لکھی مجید امجد کی نظم ''آٹوگراف''کی روانی سے متاثر ہوکر وہ آزاد نظم کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ نثری نظم کووہ شاعری نہیں سمجھتے۔موجودہ دور میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے علمیت کے سب سے زیادہ معترف ہیں۔ حال ہی میں ان کی شاعری کا چودھواں مجموعہ ''شام سرائے'' شائع ہوا ہے۔ 1984ء میں ''امروز'' سے شروع ہونے والے کالم نویسی کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔ امجد اسلام امجد زندگی سے مطمئن ہیں۔ کہتے ہیں '' نامطمئن ہونی والی کوئی بات نہیں۔اللہ نے مجھے کسی بڑے امتحان میں نہیں ڈالا۔ جس چیز کی تمنا کی وہ ملی۔ذاتی طور پر کوئی گلہ نہیں۔ایک تکلیف مجھے ہے کہ میں نے جو بھی کام کیا ہے ، اس سے معاشرے میں کوئی Qualitative تبدیلی نہیں آئی۔معاشرہ بحیثیت مجموعی زوال آمادہ ہے۔ ''
35ء سے70ء تک اردو جیسا ادب دنیا میں کہیں تخلیق نہیں ہوا: بارہویں تیرھویں صدی کے بعد وہ قوت نافذہ جس سے دنیا ہمارے قانون کے مطابق چلتی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔بعد میںیورپ میں تحریک احیائے علوم چلی اور صنعتی انقلاب آگیا توہم میز کے دوسری طرف آگئے ۔ برصغیر کے مسلمان اور اردو لکھنے والے کے طور پر ہم کس dilemma میں مبتلا ہیں، اس کے بارے میں تھوڑا سمجھنا چاہیے۔ کیا ہم شاعری میں بھی اتنے ہی پسماندہ ہیں جتنے انڈسٹری میں یا سوشیالوجی میں ہیں؟میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ہمارے معاشرے میں انفرادی طور پربہترین دماغوں کی کمی نہیںرہی۔
ہمارا ٹیلنٹ جماعت کے طور پر ایک جگہ جمع نہیں ہوتا اور ہم ٹوٹے ہوتے تاروں کی طرح بھٹکتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر بیسویں صدی کے آنے تک دنیا میں ،انگریز ، جرمن اور فرانسیسی تہذیبیں حکمران تھیں اور انہی کے لکھنے والے نمونہ تھے۔ بیسویں صدی میںامریکی ، روسی اور کسی حد تک ہسپانوی بھی آگئے۔ 1915 کے لگ بھگ کالج اور یونیورسٹیاں کھلنے سے ہماری جہالت کا زمانہ ختم ہونا شروع ہوا تو لوگوں کو پتا چلنے لگا کہ دنیا میں کیا کچھ لکھا جارہا ہے۔ اب خوشی محمد ناظراور غلام بھیک نیرنگ ترجمے کرتے نظر آئیں گے۔آگے چلیں تومیراجی''مشرق ومغرب کے نغمے''لکھ رہے ہیں۔
اقبال نے جو راستہ کھولا وہ اسلامی دنیا سے تعلق رکھتا تھالیکن36ء میں ترقی پسند تحریک کے ساتھ وہ راستہ کھل گیا جو باقی دنیا سے ملا ہوا تھا۔اب ادھر کے آدمی نے دنیا کے ادب کے ساتھ جڑنا شروع کیا۔لیکن یہ جڑنا محاورے کے کمی کمینوں کی حیثیت سے جڑنا ہے، جس میںچودھری کرسیاں ڈال کر بیٹھے ہیں،اور ہم دیوار کے ساتھ لگے ہیں اور کوئی کوئی بات ہمارے کان میں پڑ جاتی ہے توسن لیتے ہیں کیونکہ چودھری کی پریا میں جو زبان سمجھی جاتی ہے ،
اسے ہم جانتے نہیں۔ ہماری زبان وہ نہیں سمجھتے تو ہمارا مسئلہ کیسے سمجھیں گا۔اس لیے ترجمہ بے انتہا ضروری ہے تاکہ مغرب کے لکھنے والے کو پتا تو چلے یہ لوگ کیاسوچتے ہیں، کیا لکھتے ہیں؟ اسے معلوم ہو غلام عباس ، منٹو اوربیدی کیا لکھتے تھے۔ 1915ء سے 1920 ء تک مغرب میں چند ادیب ہی اسے تھے،جو بڑا ادب تخلیق کررہے تھے۔ اس کے بعد 1935سے1970 تک کا جو دور ہے ، اس میں اردو جیسا ادب کہیں نہیں لکھا گیا۔ مغرب میں جتنے بڑے نام ہیں وہ اس عرصے سے پہلے کے ہیں یا بعد کے۔اس درمیانی دور میں منٹو جیسا بڑا نام کہیں نہیں ملے گا۔فیض اور منیرنیازی جیسا شاعرنہیں ہے۔
ناظم حکمت، محمود درویش، وغیرہ توہماری طرف کے ہیں، میں اس کلچر کے ادب کی بات کررہا ہوں جو باقی دنیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکا کے لوگ تو ہماری طرح کے تھے۔محموددرویش اورنزار قبانی کی زندگی میں امریکا کی خواہش کے مطابق مسئلہ فلسطین حل ہوچکا ہوتا تو انہیں نوبیل پرائزمل جاتا۔ اردومیں اقبال کے بعدمنٹو، فیض ، بیدی اور قرۃ العین حیدر کا کام ایسا ہے کہ انہیں نوبیل پرائز مل سکتا تھا۔ میری نظموں کا انگریزی میں ترجمہ ہوا، جس سے متاثر ہوکر اطالوی مترجم و محقق Vito Salerno اطالوی زبان میں ان نظموں کا ترجمہ کررہے ہیں تویہ اسی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ نظموں کا انگریزی ترجمہ دستیاب ہے۔
مردسے عورت کو پٹنے دکھائواور ریٹنگ بڑھائو فارمولا: چینلوںپر83 فیصد اشتہارات ملٹی نیشنل کمپنیوں سے آتے ہیں۔اس لیے سیدھی سی بات ہے وہ ادھر اپنے کلچر کوترقی دیں گے۔ وہ گلوکار جو ملک کی پہچان تھے انہیں کسی نے سو روپیہ نہیں دیا لیکن پاپ گلوکاروں کو وہ پانچ کروڑ دے دیتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی ختم ہوگئی۔ اندھا دھند پیسا آیا، جس نے نئی روایت بنائی کہ یہاں کے لوگ جاہل اور بدسلیقہ ہیں ، اس لیے انہیں مغرب کے لحاظ سے اچھا انسان بنایا جائے۔ وہی کپلنگ کی نظمThe White Man's Burden والی سوچ ہے۔وہ لوگ شاید پوری ایمانداری سے اپنے ہاں رائج اچھی چیزوں کو رواج دینا چاہتے ہیں لیکن اس عمل میں خوبصورت چیزیں کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں اور بدصورت چیزیں ، آگے آجاتی ہیں ۔ ہر معاشرے میں اخلاقی بے راہ روی کسی نہ کسی حد تک ہوتی ہے۔چند مستثنیات (exceptions) کو چھوڑ کر آج کا ڈراما دیکھیے تو ہر ڈرامے میں ہر مرد اور عورت بدکردار ہیں۔ایک چینل ، اپنے لکھنے والوں سے کہتا ہے کہ ہر ڈرامے میں دو سین ایسے ہونے چاہئیں ، جس میں عورت کو مرد سے پٹتے دکھایا گیا ہو، اس سے ریٹنگ بڑھتی ہے۔
کچھ بات جانگلوس سے سرقہ کرنے کے الزام پر:ایک آدمی جس کو ایک دم سے اتنی زیادہ مقبولیت مل جاتی ہے، دس آدمی اس کی تعریف کرتے ہیں تو دوچارایسے بھی ہوتے ہیں،جو حسد کرتے ہیں۔وارث آیا تو ہر طرف وارث وارث ہوگئی۔ جو مجھ سے پہلے لکھ رہے تھے ، چند ایک کوچھوڑ کر انہیں میری کامیابی ہضم نہیں ہوئی۔کچھ اخباروالوں نے شوکت صدیقی کے کان میں جاکر کچھ لفظ ڈالے، جس سے بات بڑھی۔شوکت صدیقی نے صہبا لکھنؤی مرحوم کے گھر پندرہ بیس لوگوں کے درمیان مجھ سے معذرت کی اور کہا کہ امجد میاں!مجھے لوگوں نے غلط بتایا،
اب مجھے اصل بات کا پتا چل گیا ہے۔یہ ان کا بڑا پن تھا۔وہ میرے سینئر تھے، وہ معذرت نہ بھی کرتے تو مجھے ان سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ اعتراضات تو انہیں کہنا بھی نہیں چاہیے۔مثلاً یہ کہا گیا کہ وارث میں میرے کردار کا نام مولاداد ہے اور جانگلوس میں کردار کا نام رحیم داد ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ ہم دونوں پر مقدمہ تو میاں داد کو کرنا چاہیے۔ دوسرے کہا گیا کہ میرا ایک کردار کوٹھری میں قید ہے ، ان کی کہانی میں بھی ایک بندہ قید ہے۔ اس پہ میں نے کہا کہ نویں جماعت میںThe Prisoner of Zenda کی کہانی پڑھی تھی تو ہم نے تو پھر ادھر سے چرایا ہوگا۔ ''جانگلوس'' اور'' وارث'' اب دونوں کتابی صورت میں موجود ہیں مگر اعتراض کرنے والوں میں سے اب کوئی بات نہیں کرتا۔
کرکٹر بننے کا خواب چکنا چور ہوتا ہے:کرکٹ کھیلنے کا جنون مجھے بچپن سے تھا۔آٹھویں جماعت سے بی اے تک میں نے کرکٹر بننے کے سوا کچھ سوچانہیں تھا۔ 1964ء میں اسلامیہ کالج کی جس ٹیم نے 1952ء کے بعد پہلی بار گورنمنٹ کالج کی کرکٹ ٹیم کو ہرایا،میں اس کا اہم رکن تھا۔میں نے ٹورنامنٹ میں آف اسپنر کی حیثیت سے انیس کھلاڑی آئوٹ کئے۔پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم بنی تو مجھے ریزرو میں ڈال دیا گیا اور میری جگہ تین وکٹیں لینے والے لڑکے کو منتخب کرلیا گیا۔اس سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔یہی وہ زمانہ ہے ، جب کالج میں ادب کی طرف میرا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا۔
بی اے میں اردو کے مضمون میں اچھے نمبر آگئے اور مجھے اسکالر شپ مل گیا اور میں اورینٹل کالج میں داخل ہوگیا۔ادھر عجیب و غریب کام ہوا کہ یونیورسٹی قانون کے مطابق اورینٹل کالج کا لڑکا یونیورسٹی ٹیم میں نہیں کھیل سکتاتھا۔اب یہ دروازہ بھی بند ہوگیا اور دل اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا تو 65ء اور 66ء کے برسوں میں آہستہ آہستہ کرکٹ سے دور ہوتا گیا۔ اس وقت تو بہت رنج تھا لیکن اب سوچتا ہوں کہ یہ میرے حق میں بہتر ہوا۔ فرض کریں میں ٹاپ لیول کرکٹ کھیل گیا ہوتا تو عینک مجھے لگی تھی اور جیسی میری جسمانی حالت تھی، دو تین سال سے زیادہ نہ چل پاتا۔
کہ جو نہ مل سکا، اس کا احساس زیاں تو انہیں خیر کیا ہوتا الٹا وہ اب اسے اپنے حق میں خیر مستور جانتے ہیں۔اپنے تجربے کی بنیاد پر امجد اسلام امجد نئی نسل کو تجویز کرتے ہیں کہ ''وہ اپنے اندر ایک سے زیادہ کھڑکیاں کھلی رکھیں ، ممکن ہے ، جس کام کو وہ اپنے واسطے بہتر جانتے ہیں، اس کا حصول نصیب میں نہ ہو اور وہ کام جو ترجیحات میںکہیں نیچے ہیں ، وہ آپ کو سربلند کردیں۔'' کرکٹر بھلے سے وہ نہ بن پائے لیکن اس کمبل نے ان کی جان چھوڑی نہیں۔ کرکٹ دیکھنے ،اس سے متعلق پڑھنے کا جنون اب بھی ہے اور بہت سی باتوں کی وضاحت کے لیے مثال بھی کرکٹ سے لاتے ہیں۔
مثلاً اگر انہیں یہ بتانا ہے کہ جو کام کیا جائے، اس میں انفرادی رنگ اور اپنی چھاپ ضرور ہونی چاہیے تو وہ عظیم کرکٹر ویوین رچرڈ کی مثال دیں گے، جن سے کسی نے انگلینڈ میں کہا کہ اگر وہ کرکٹر نہ ہوتے تو اپنے بہت سے ہم وطنوں کی طرح ادھرصفائی ستھرائی کا کام کررہے ہوتے، جس پر ویوین رچرڈ نے جواب دیا، ممکن ہے ایسا ہی ہوتا لیکن میں اگر جمعدار ہوتا تو ان میں بھی نمبر ون ٹھہرتا۔
امجد اسلام امجد نے شاعری ، ڈراما نویسی، تراجم، سفرنامے، کالم نویسی اور تنقید سبھی اصناف میں لکھا اور خوب لکھا ۔وہ اپنی پہلو دار علمی و ادبی شخصیت کا کا بنیادی حوالہ شاعری کوقرار دیتے ہیں۔ ہم نے جب پوچھا کہ '' اتنی زیادہ کشتیوں میں سوار ہونے سے شاعری متاثر تو ہوئی ہوگی تو اس کا جواب انہوں نے کچھ یوں دیا '' بھارتی فلم ''پھر کبھی'' جس کو کسی نے خریدانہیںاورویڈیو پر آئی ہے۔ اس میں ایک شرمیلے مرد اور عورت کی کہانی بیان ہوئی ہے ،جو ایک دوسرے سے محبت کے باوجود، چالیس برس تک، ایک دوسرے سے اظہار محبت نہ کر پائے۔ عاشق کی بیوی مرتی ہے، تو بڑھاپے میںا
تفاقاً دوبارہ سے محبوبہ سے اس کی ملاقات ہوجاتی ہے۔ دونوں میں راہ ورسم بڑھنے پر ،اس بڈھے عاشق کی بہواپنی شوہر سے لڑتی ہے کہ تم اپنے باپ کوروکتے کیوں نہیں۔اور پوچھتی ہے: کیا تمھاری ماں کو معلوم تھاکہ تمھارا باپ ،اس خاتون سے محبت کرتا ہے؟ جس پر بوڑھے کا بیٹا ،بیوی کوجواب دیتا ہے کہ اس کی ماں کو پتا تھا اور میاں بیوی میں اس بات پر چھیڑ چھاڑچلتی رہتی تھی۔ اب وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ''وہ عورت چالیس سال تک میری ماں اور باپ کے ساتھ رہی لیکن کبھی ان کے درمیان نہیں آئی۔ میں بھی یہی کہتا ہوںکہ ڈرامانویسی، کالم نویسی، ترجمہ نگاری، سفرنامے ، تنقیدوغیرہ میری شاعری کے ساتھ ضرور رہے لیکن اس کے درمیان میں نہیں آئے۔ ''
امجد اسلام امجد باغ وبہار شخصیت ہیں۔ بذلہ سنجی اور فقرے بازی میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ بقول شخصے ''امجد بندہ ضائع کردیتا ہے۔ فقرہ ضائع نہیں کرتا۔ '' لطائف وظرائف سے بھرپور یہی شگفتہ بیانی انہیں اپنی آپ بیتی لکھنے سے روک رہی ہے ۔کہتے ہیں '' بڑے ادیبوں سے تعلق خاطر رہاہے، ان کا خودنوشت میںذکر ہوگا تولامحالہ بہت سی باتوں کا لطیف انداز میں بیان ہوگا، جس کو یار لوگ لے اڑیں گے اور طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔''کہتے ہیں '' ہمارے ہاں لوگ مسائل کی وجہ سے اتنے دکھی ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے اوپر ہنسنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ کامیڈی ہوتی ہی، اس وقت ہے جب آپ اپنے اوپر ہنسیں۔''
امجد اسلام امجد کا کوئی بھی تذکرہ دو ہستیوں کے بغیر ہمیشہ ادھورا سمجھا جائے گا۔ایک ان کی اندھی خالہ ہیں، اور دوسرے احمد ندیم قاسمی۔ ان کی یہ نابینا خالہ بچوں ک, کہانیاں سنایا کرتیں۔بچوں کے مزاج کے مطابق کہانی میںردوبدل کرناخوب جانتی تھیں۔ باقی بچے تو کہانی سنتے لیکن ان کا تیز طراربھانجا ، صرف سننے پر اکتفا نہ کرتا بلکہ اس پر غور کرتا اور کوئی ڈھیل یا سقم پاتا تو اسے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق دورکرکے ، اسکول میں سناتا پھرتا، اس بنا پرچھٹی جماعت میں ایک استاد نے اس کا نام کہانیوں کی مشین ڈال دیا۔امجد اسلام امجد کے بقول''کہانی کہنے،
اسکرین پلے بنانے،اور اسکرپٹ لکھنے میں میری خالہ ہی انسپریشن بنیں۔'' احمد ندیم قاسمی کی حوصلہ افزائی سے انہیں یقین ہوا کہ وہ دیار ادب میں اپنا مقام پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کررہے تھے ، جب پنجاب یونیورسٹی میں جنگ ستمبر کے سلسلے میں مشاعرہ ہوا ۔ امجد اسلام امجد نے ادھر نظم سنائی۔ مشاعرہ ختم ہونے پر احمد ندیم قاسمی ، ان کے پاس آئے اور کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ''میں احمد ندیم قاسمی ہوں، اور ایک رسالہ ''فنون'' نکالتا ہوں'' اس پر امجد اسلام امجد نے کہا کہ '' سر آپ کو کون نہیں جانتا، اورمیں ''فنون'' پڑھتا رہتاہوں۔''اس پہ احمد ندیم قاسمی نے فرمایا ''کیا وہ نظم جو آپ نے مشاعرے میں پڑھی ہے ، مجھے ''فنون'' کے لیے عنایت کرسکتے ہیں۔'' امجد اسلام امجد کے بقول ''اب یہ لفظ عنایت میری اوقات سے بہت بڑا تھا، اس نے مجھے یہ اعتماد بخشاکہ میں جو کام کررہا ہوں اس کی اگر اتنا بڑا آدمی تعریف رہا ہے تو اس کو جاری رہنا چاہیے۔
اندر سے گواہی تو تھی اور اب باہر سے اتنی بڑی گواہی مل گئی تو مجھے باقاعدہ یقین آگیاکہ میں ادیب بن سکتا ہوں ۔دو مہینے بعد ''فنون'' ملا، جس میں نظم شامل تھی، اور ساتھ میں رقعہ بھی، جس میں لکھا تھا کہ فنون کا اگلہ پرچہ تیار ہے، آپ کی نظم کا انتظار ہے۔ اس انداز سے قاسمی صاحب نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔''
امجد اسلام امجد کو بحیثیت شاعر خود کو زوروں سے نہیں منوانا پڑا۔ یونیورسٹی میں ان کا شہرہ تھا ۔ ایوب خان کے خلاف نظم ''ہوائے شہر وفا شعاراں'' بھی خاصی مقبول ہوئی، جسے محمد حنیف رامے نے اپنے رسالے ''نصرت'' کے ٹائٹل پر چھاپ دیا۔ '' فنون'' میں وہ باقاعدگی سے چھپنے لگے۔74 ء میںشاعری کا پہلا مجموعہ '' برزخ '' چھپ گیا۔ شاعری کے برخلاف ٹی وی ڈرامے میں خود کوقائم کرنے میں انہیں خاصی تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔
ٹی وی کے لیے ڈراما لکھنے کا قصہ یوں ہے کہ جس زمانے میں اطہر شاہ خان جیدی کا ڈراما ''لاکھوں میں تین ''چل رہا تھا، امجداسلام امجد نے ان سے ڈرامے سے متعلق کچھ نکات پر بحث کی تو اطہر شاہ خان کہنے لگے '' تم خود ڈراما کیوں نے لکھتے'' یہ سمجھے شاید وہ طنز کررہے ہیں لیکن دراصل وہ ان کی تنقیدی بصیرت سے قائل ہوکر بات کررہے تھے، اس مہربان کی تحریک پر ڈراما لکھ کر پی ٹی وی کے در پر تین بار گئے لیکن بے نیل مرام واپس لوٹے۔ 68ء سے 73ء تک ٹی وی کے دروازے ان پربند رہے۔سنہ73 ء میں پی ٹی وی نے ڈراما لکھنے میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنا ہنر آزمانے کی دعوت دی۔
اب امجد اسلام امجد کی قسمت نے پلٹا کھایاان کا ڈراما ''آخری خواب'' پنڈی اسٹیشن سے پیش کیا گیا ۔ سنہ74ء میں راولپنڈی اسٹیشن سے حوا کے نام سے سیریز شروع ہوئی،جس کے لیے امجد اسلام امجد نے ''برزخ''اور'' موم کی گڑیا'' کے نام سے دو ڈرامے لکھے۔''کنورخالد آفتاب کا تبادلہ لاہور ہوا تو یہاں بھی ان کی سنی گئی۔ 1975ء میں 23مارچ کا خصوصی کھیل ''خواب جاگتے ہیں''لکھا جوان کی شادی کے روز دکھایا گیا۔ اس کے بعد اوربھی ڈرامے انہوں نے لکھے اور پھر ڈراما سیریل '' وارث ''کا مرحلہ آگیا، جس نے پاکستان ٹی وی ڈرامے کی تاریخ بدل دی۔ اس ڈرامے کے بارے بتاتے ہیں ''مجھے کہا گیا کہ تین دن میں کوئی آئیڈیا ہے تو پیش کرو، جس پر میں نے اس ڈراما کا پہلا اسکرپٹ لکھا۔اس ڈرامے کی تھیم بارہ سال سے میرے اندر پک رہی تھی۔ ڈرامے اتنا زیادہ ہٹ ہوا کہ اس کے اسکرپٹ کو تبدیل کرنا پڑا۔آخری حصہ جس طرح سے دکھایا گیا، اس طرح پہلے نہیں تھا۔چودھری حشمت کا کردارڈرامے کے وسط تک رہتا، اس کے بعد اس کے دونوں بیٹوں کے درمیان جو لڑائی تھی، اس کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی۔''
ڈرامے سے اب گفتگو کا رخ تھوڑا شاعری کی طرف موڑتے ہیں۔ امجد اسلام امجد شاعری میں وسیع پیمانے پر ابلاغ کی خواہش مند ضرور ہیں لیکن فنی تقاضوں کو پس پشت ڈالنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ ایسی شاعری کرنے میں انہیں دلچسپی رہی ہے، جس سے وہ ثقہ لوگوں اور عام قاری دونوںکو متاثر کر سکیں۔ اس ضمن میں وہ حالی کے شعر کے ذریعے اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں ۔
اہل معنی کو ہے لازم سخن آرائی بھی
بزم میں اہل نظربھی ہیں تماشائی تھی
شعر میں وہ موسیقیت اور آہنگ برقرار رکھنے کے موید ہیں۔ان کے خیال میں'' میرا اپنا نظریہ یہ ہے کہ ہماری زبانوں کی شاعری جو سیمٹیک زبانوں کی شاعری ہے،اس میں قدرت نے عجیب وغریب سہولت رکھی ہے جومغربی زبانوں کو بہت کم حاصل ہے یعنی ہمارے vocal cords جو ہیں،وہ تقریبا ً انگریزی سے دوگنی آوازیں نکالنے پر قادر ہیں۔انگریزی 26 حرفوں میں ختم ہوتی ہے ،ہندی کو ملالیا جائے توہمارے باون ترپن بنتے ہیں ۔ ہم اگر خدا کی دی نعمت کو استعمال نہ کریں تو یہ ہماری کمزوری ہے۔ ہمارے پاس قافیے زیادہ ہے۔ ہمارے پاس ردھم کی صلاحیت زیادہ ہے توکیوں نہ اس کو استعمال کریں۔ ردھم شاعری کے مفہوم سے قطع نظر آپ کواپنا اسیر بنالیتا ہے اور مفہوم یاد رکھنے میں مدد کرتا ہے۔''
اوراب امجد اسلام امجد سے متعلق کچھ معلومات کا بیان ہوجائے۔خوبصورت نظمیں اور غزلیں لکھنے والے امجد اسلام امجدنے 4اگست1944ء کو لاہور میںآنکھ کھولی۔ان کا تعلق دستکاروں کے خاندان سے ہے ، جو 1930ء میں سیالکوٹ سے لاہور آباد ہوگیا۔تین بھائیوں اور چار بہنوں میں وہ سب سے بڑے ہیں۔ 61ء میں مسلم ماڈل اسکول سے میٹرک کیا۔انٹر اسلامیہ کالج ریلوے روڈسے،گریجویشن اسلامیہ کالج سول لائنز سے کی۔اورینٹل کالج سے 67ء میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ ایم اے اردو کیا۔68ء میں ایم اے او کالج میں ساڑھے تین سو روپے تنخواہ پر لیکچرار مقرر ہو گئے ۔
97ء میں اسی ادارے سے بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ تدریس سے فراغت کے بعد اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹراور چلڈرن لائبریری لاہور کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیتوں میں فرائض انجام دیے۔ 23مارچ 1975ء کو امجد اسلام امجد کی شادی اپنی کزن فردوس سے ہوئی، جو ارینج ضرور تھی لیکن دونوں کی پسندکو بھی دخل رہا ۔روشین امجد(آپ معروف مزاحیہ شاعر انور مسعود کی بہو ہیں) اور تحسین امجد بیٹیاں اور علی ذیشان امجد بیٹا ہے۔ امجد اسلام امجدبارہ سال قبل والدہ کی شفقت سے محروم ہوئے۔والد محمداسلام کا سایہ سر پر قائم ہے۔
ادیبوں میں عطاء الحق قاسمی سے گہرا یارانہ رہا۔ ''عکس'' اور''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' شاعری کے تراجم پر مشتمل تصانیف ہیں۔ تنقیدی کتاب ''نئے پرانے ''کے نام سے ہے۔ سفرناموں کے چار اور کالموں کے چھے مجموعے چھپ چکے ہیں۔'' وارث'' ''رات''، ''دہلیز''،''سمندر''، ''فشار''، ''دن ''، ''اگر''، ''انکار'' اور ''ایندھن'' سمیت کئی یادگار ڈرامے لکھے۔ اچھے ٹی وی ڈرامے کو وہ ادب کا حصہ جانتے ہیں۔ چار فلموں''حق مہر''''نجات''''چوروں کی بارات'' اور ''جو ڈر گیا وہ مر گیا''کی کہانی اور دو فلموں ''قربانی'' اور ''سلاخیں'' کے مکالمے لکھے۔
فضل محمود پر لکھی مجید امجد کی نظم ''آٹوگراف''کی روانی سے متاثر ہوکر وہ آزاد نظم کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ نثری نظم کووہ شاعری نہیں سمجھتے۔موجودہ دور میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے علمیت کے سب سے زیادہ معترف ہیں۔ حال ہی میں ان کی شاعری کا چودھواں مجموعہ ''شام سرائے'' شائع ہوا ہے۔ 1984ء میں ''امروز'' سے شروع ہونے والے کالم نویسی کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔ امجد اسلام امجد زندگی سے مطمئن ہیں۔ کہتے ہیں '' نامطمئن ہونی والی کوئی بات نہیں۔اللہ نے مجھے کسی بڑے امتحان میں نہیں ڈالا۔ جس چیز کی تمنا کی وہ ملی۔ذاتی طور پر کوئی گلہ نہیں۔ایک تکلیف مجھے ہے کہ میں نے جو بھی کام کیا ہے ، اس سے معاشرے میں کوئی Qualitative تبدیلی نہیں آئی۔معاشرہ بحیثیت مجموعی زوال آمادہ ہے۔ ''
35ء سے70ء تک اردو جیسا ادب دنیا میں کہیں تخلیق نہیں ہوا: بارہویں تیرھویں صدی کے بعد وہ قوت نافذہ جس سے دنیا ہمارے قانون کے مطابق چلتی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔بعد میںیورپ میں تحریک احیائے علوم چلی اور صنعتی انقلاب آگیا توہم میز کے دوسری طرف آگئے ۔ برصغیر کے مسلمان اور اردو لکھنے والے کے طور پر ہم کس dilemma میں مبتلا ہیں، اس کے بارے میں تھوڑا سمجھنا چاہیے۔ کیا ہم شاعری میں بھی اتنے ہی پسماندہ ہیں جتنے انڈسٹری میں یا سوشیالوجی میں ہیں؟میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ہمارے معاشرے میں انفرادی طور پربہترین دماغوں کی کمی نہیںرہی۔
ہمارا ٹیلنٹ جماعت کے طور پر ایک جگہ جمع نہیں ہوتا اور ہم ٹوٹے ہوتے تاروں کی طرح بھٹکتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر بیسویں صدی کے آنے تک دنیا میں ،انگریز ، جرمن اور فرانسیسی تہذیبیں حکمران تھیں اور انہی کے لکھنے والے نمونہ تھے۔ بیسویں صدی میںامریکی ، روسی اور کسی حد تک ہسپانوی بھی آگئے۔ 1915 کے لگ بھگ کالج اور یونیورسٹیاں کھلنے سے ہماری جہالت کا زمانہ ختم ہونا شروع ہوا تو لوگوں کو پتا چلنے لگا کہ دنیا میں کیا کچھ لکھا جارہا ہے۔ اب خوشی محمد ناظراور غلام بھیک نیرنگ ترجمے کرتے نظر آئیں گے۔آگے چلیں تومیراجی''مشرق ومغرب کے نغمے''لکھ رہے ہیں۔
اقبال نے جو راستہ کھولا وہ اسلامی دنیا سے تعلق رکھتا تھالیکن36ء میں ترقی پسند تحریک کے ساتھ وہ راستہ کھل گیا جو باقی دنیا سے ملا ہوا تھا۔اب ادھر کے آدمی نے دنیا کے ادب کے ساتھ جڑنا شروع کیا۔لیکن یہ جڑنا محاورے کے کمی کمینوں کی حیثیت سے جڑنا ہے، جس میںچودھری کرسیاں ڈال کر بیٹھے ہیں،اور ہم دیوار کے ساتھ لگے ہیں اور کوئی کوئی بات ہمارے کان میں پڑ جاتی ہے توسن لیتے ہیں کیونکہ چودھری کی پریا میں جو زبان سمجھی جاتی ہے ،
اسے ہم جانتے نہیں۔ ہماری زبان وہ نہیں سمجھتے تو ہمارا مسئلہ کیسے سمجھیں گا۔اس لیے ترجمہ بے انتہا ضروری ہے تاکہ مغرب کے لکھنے والے کو پتا تو چلے یہ لوگ کیاسوچتے ہیں، کیا لکھتے ہیں؟ اسے معلوم ہو غلام عباس ، منٹو اوربیدی کیا لکھتے تھے۔ 1915ء سے 1920 ء تک مغرب میں چند ادیب ہی اسے تھے،جو بڑا ادب تخلیق کررہے تھے۔ اس کے بعد 1935سے1970 تک کا جو دور ہے ، اس میں اردو جیسا ادب کہیں نہیں لکھا گیا۔ مغرب میں جتنے بڑے نام ہیں وہ اس عرصے سے پہلے کے ہیں یا بعد کے۔اس درمیانی دور میں منٹو جیسا بڑا نام کہیں نہیں ملے گا۔فیض اور منیرنیازی جیسا شاعرنہیں ہے۔
ناظم حکمت، محمود درویش، وغیرہ توہماری طرف کے ہیں، میں اس کلچر کے ادب کی بات کررہا ہوں جو باقی دنیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکا کے لوگ تو ہماری طرح کے تھے۔محموددرویش اورنزار قبانی کی زندگی میں امریکا کی خواہش کے مطابق مسئلہ فلسطین حل ہوچکا ہوتا تو انہیں نوبیل پرائزمل جاتا۔ اردومیں اقبال کے بعدمنٹو، فیض ، بیدی اور قرۃ العین حیدر کا کام ایسا ہے کہ انہیں نوبیل پرائز مل سکتا تھا۔ میری نظموں کا انگریزی میں ترجمہ ہوا، جس سے متاثر ہوکر اطالوی مترجم و محقق Vito Salerno اطالوی زبان میں ان نظموں کا ترجمہ کررہے ہیں تویہ اسی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ نظموں کا انگریزی ترجمہ دستیاب ہے۔
مردسے عورت کو پٹنے دکھائواور ریٹنگ بڑھائو فارمولا: چینلوںپر83 فیصد اشتہارات ملٹی نیشنل کمپنیوں سے آتے ہیں۔اس لیے سیدھی سی بات ہے وہ ادھر اپنے کلچر کوترقی دیں گے۔ وہ گلوکار جو ملک کی پہچان تھے انہیں کسی نے سو روپیہ نہیں دیا لیکن پاپ گلوکاروں کو وہ پانچ کروڑ دے دیتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی ختم ہوگئی۔ اندھا دھند پیسا آیا، جس نے نئی روایت بنائی کہ یہاں کے لوگ جاہل اور بدسلیقہ ہیں ، اس لیے انہیں مغرب کے لحاظ سے اچھا انسان بنایا جائے۔ وہی کپلنگ کی نظمThe White Man's Burden والی سوچ ہے۔وہ لوگ شاید پوری ایمانداری سے اپنے ہاں رائج اچھی چیزوں کو رواج دینا چاہتے ہیں لیکن اس عمل میں خوبصورت چیزیں کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں اور بدصورت چیزیں ، آگے آجاتی ہیں ۔ ہر معاشرے میں اخلاقی بے راہ روی کسی نہ کسی حد تک ہوتی ہے۔چند مستثنیات (exceptions) کو چھوڑ کر آج کا ڈراما دیکھیے تو ہر ڈرامے میں ہر مرد اور عورت بدکردار ہیں۔ایک چینل ، اپنے لکھنے والوں سے کہتا ہے کہ ہر ڈرامے میں دو سین ایسے ہونے چاہئیں ، جس میں عورت کو مرد سے پٹتے دکھایا گیا ہو، اس سے ریٹنگ بڑھتی ہے۔
کچھ بات جانگلوس سے سرقہ کرنے کے الزام پر:ایک آدمی جس کو ایک دم سے اتنی زیادہ مقبولیت مل جاتی ہے، دس آدمی اس کی تعریف کرتے ہیں تو دوچارایسے بھی ہوتے ہیں،جو حسد کرتے ہیں۔وارث آیا تو ہر طرف وارث وارث ہوگئی۔ جو مجھ سے پہلے لکھ رہے تھے ، چند ایک کوچھوڑ کر انہیں میری کامیابی ہضم نہیں ہوئی۔کچھ اخباروالوں نے شوکت صدیقی کے کان میں جاکر کچھ لفظ ڈالے، جس سے بات بڑھی۔شوکت صدیقی نے صہبا لکھنؤی مرحوم کے گھر پندرہ بیس لوگوں کے درمیان مجھ سے معذرت کی اور کہا کہ امجد میاں!مجھے لوگوں نے غلط بتایا،
اب مجھے اصل بات کا پتا چل گیا ہے۔یہ ان کا بڑا پن تھا۔وہ میرے سینئر تھے، وہ معذرت نہ بھی کرتے تو مجھے ان سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ اعتراضات تو انہیں کہنا بھی نہیں چاہیے۔مثلاً یہ کہا گیا کہ وارث میں میرے کردار کا نام مولاداد ہے اور جانگلوس میں کردار کا نام رحیم داد ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ ہم دونوں پر مقدمہ تو میاں داد کو کرنا چاہیے۔ دوسرے کہا گیا کہ میرا ایک کردار کوٹھری میں قید ہے ، ان کی کہانی میں بھی ایک بندہ قید ہے۔ اس پہ میں نے کہا کہ نویں جماعت میںThe Prisoner of Zenda کی کہانی پڑھی تھی تو ہم نے تو پھر ادھر سے چرایا ہوگا۔ ''جانگلوس'' اور'' وارث'' اب دونوں کتابی صورت میں موجود ہیں مگر اعتراض کرنے والوں میں سے اب کوئی بات نہیں کرتا۔
کرکٹر بننے کا خواب چکنا چور ہوتا ہے:کرکٹ کھیلنے کا جنون مجھے بچپن سے تھا۔آٹھویں جماعت سے بی اے تک میں نے کرکٹر بننے کے سوا کچھ سوچانہیں تھا۔ 1964ء میں اسلامیہ کالج کی جس ٹیم نے 1952ء کے بعد پہلی بار گورنمنٹ کالج کی کرکٹ ٹیم کو ہرایا،میں اس کا اہم رکن تھا۔میں نے ٹورنامنٹ میں آف اسپنر کی حیثیت سے انیس کھلاڑی آئوٹ کئے۔پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم بنی تو مجھے ریزرو میں ڈال دیا گیا اور میری جگہ تین وکٹیں لینے والے لڑکے کو منتخب کرلیا گیا۔اس سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔یہی وہ زمانہ ہے ، جب کالج میں ادب کی طرف میرا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا۔
بی اے میں اردو کے مضمون میں اچھے نمبر آگئے اور مجھے اسکالر شپ مل گیا اور میں اورینٹل کالج میں داخل ہوگیا۔ادھر عجیب و غریب کام ہوا کہ یونیورسٹی قانون کے مطابق اورینٹل کالج کا لڑکا یونیورسٹی ٹیم میں نہیں کھیل سکتاتھا۔اب یہ دروازہ بھی بند ہوگیا اور دل اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا تو 65ء اور 66ء کے برسوں میں آہستہ آہستہ کرکٹ سے دور ہوتا گیا۔ اس وقت تو بہت رنج تھا لیکن اب سوچتا ہوں کہ یہ میرے حق میں بہتر ہوا۔ فرض کریں میں ٹاپ لیول کرکٹ کھیل گیا ہوتا تو عینک مجھے لگی تھی اور جیسی میری جسمانی حالت تھی، دو تین سال سے زیادہ نہ چل پاتا۔