نیب ریفرنس خارج کرنے کیلئے شریف فیملی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
بینک کے3864ملین واپس نہیں کیے،رائے ونڈمحل میں2 سو ملین کی کرپشن،حدیبیہ مل میں642 ملین کی منی لانڈرنگ کی گئی،ریکارڈپیش
ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس خواجہ امتیاز احمد اور جسٹس محمد فرخ عرفان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہبازشریف،ان کی والدہ شمیم اختر،بھائی عباس شریف،بھابھی صبیحہ عباس،بیٹوں حمزہ شہباز،حسین نواز،بیٹی مریم نواز اور دیگر کی مبینہ طورپر کئی ارب روپے کی کرپشن،منی لانڈرنگ سے متعلق 3ریفرنس ؛اتفاق فاؤنڈری، رائے ونڈ محل اور حدیبیہ پیپرملز ریفرنس خارج کرکے شریف فیملی کو بری کرنے سے متعلق3 پٹیشنوں کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب چوہدری ریاض نے دلائل مکمل کر لیے ۔ان کا مؤقف تھا کہ یہ تینوں ریفرنس میرٹ پر بنائے گئے ہیں اتفاق فاؤنڈری ریفرنس میں3864ملین کے نیشنل بینک کے قرضے آج تک واپس نہیں کیے گئے یہ قرضہ1991ء میں لیا گیا تھا صرف2اقساط دی گئیں۔ رائے ونڈ محل میں200ملین روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔
شریف فیملی نے انکم ٹیکس رپورٹس میں1992ء سے2000ء تک صرف41ملین روپے کی آمدن ظاہرکی ہے جبکہ رائے ونڈ محل پر241ملین روپے خرچ کیے گئے۔حدیبیہ پیپر ملزریفرنس میں ان کامؤقف تھا کہ اس کیس میں نواز شریف اور شہباز شریف نے مجموعی طور پر 642.74 ملین روپے کی منی لانڈرنگ کی ،انھوں نے اس ریفرنس کا11 جلد پر مشتمل ریکارڈ بھی پیش کیا اور بتایا کہ یہ کرپشن دستاویزی شہادتوں پر مشتمل ہے ان تمام شہادتوں کو نواز شریف،شہباز شریف اور ان کی فیملی نے کسی بھی فورم پر چیلنج نہیں کیا۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ شریف فیملی اس بابت آج بھی اپنا مؤقف عدالت میں پیش کر سکتی ہے،صرف ٹیکینکل بنیاد پرکیسوں کو خارج نہیں کیا جاسکتا ۔حدیبیہ پیپر ملزریفرنس میںنوازشریف کا چالان میں جگہ جگہ بطور ملزم نام شامل ہے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس منی لانڈرنگ میں نوازشریف کو بھی ذمے دار قرار دیا ہے،اگر ہائی کورٹ یہ بیان ڈی سیل کرکے پڑھنا چاہے تو منگوا کر پڑھ سکتی ہے،انھوں نے کہا شریف فیملی کا یہ مؤقف بھی غلط ہے کہ یہ کیس زیر سماعت ہیں اصل صورتحال یہ ہے کہ یہ کیس ابھی تک شروع ہی نہیں ہوئے تو ان کا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے۔
عدالت کے استفسار پر انھوں نے بتایاکہ نیب کی مجاز اتھارٹی کا مؤقف ہے کہ جب یہ کیس شروع ہوجائیں گے اور طلبی کے باوجود ملزمان عدالت پیش نہ ہوئے تو نیب آرڈیننس کے سیکشن24 سی کے تحت تمام ملزمان نواز شریف،شہباز شریف،حمزہ شہباز،عباس شریف،حسین نواز وغیرہ کوگرفتار کرکے عدالت پیش کر دیا جائے گا،تینوںکیس میرٹ کے مطابق ہیں اورتینوں میںٹھوس دستاویزی شہادتیں،سرکاری گواہان موجود ہیں اس لیے شریف فیملی کی تینوں درخواستیں خارج کرکے ان کیسوںکی سماعت شروع کرنے کااحتساب عدالت کو حکم جاری کیاجائے، قبل ازیں شریف فیملی کے وکلا خواجہ حارث اورسلمان بٹ ایڈووکیٹ کا مؤقف تھا کہ انتخابات قریب آنے کے باعث ریفرنس انتقامی طور پر دوبارہ کھولے جارہے ہیں تمام ریفرنس خارج کرکے شریف فیملی کو باعزت بری کیا جائے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب چوہدری ریاض نے دلائل مکمل کر لیے ۔ان کا مؤقف تھا کہ یہ تینوں ریفرنس میرٹ پر بنائے گئے ہیں اتفاق فاؤنڈری ریفرنس میں3864ملین کے نیشنل بینک کے قرضے آج تک واپس نہیں کیے گئے یہ قرضہ1991ء میں لیا گیا تھا صرف2اقساط دی گئیں۔ رائے ونڈ محل میں200ملین روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔
شریف فیملی نے انکم ٹیکس رپورٹس میں1992ء سے2000ء تک صرف41ملین روپے کی آمدن ظاہرکی ہے جبکہ رائے ونڈ محل پر241ملین روپے خرچ کیے گئے۔حدیبیہ پیپر ملزریفرنس میں ان کامؤقف تھا کہ اس کیس میں نواز شریف اور شہباز شریف نے مجموعی طور پر 642.74 ملین روپے کی منی لانڈرنگ کی ،انھوں نے اس ریفرنس کا11 جلد پر مشتمل ریکارڈ بھی پیش کیا اور بتایا کہ یہ کرپشن دستاویزی شہادتوں پر مشتمل ہے ان تمام شہادتوں کو نواز شریف،شہباز شریف اور ان کی فیملی نے کسی بھی فورم پر چیلنج نہیں کیا۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ شریف فیملی اس بابت آج بھی اپنا مؤقف عدالت میں پیش کر سکتی ہے،صرف ٹیکینکل بنیاد پرکیسوں کو خارج نہیں کیا جاسکتا ۔حدیبیہ پیپر ملزریفرنس میںنوازشریف کا چالان میں جگہ جگہ بطور ملزم نام شامل ہے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس منی لانڈرنگ میں نوازشریف کو بھی ذمے دار قرار دیا ہے،اگر ہائی کورٹ یہ بیان ڈی سیل کرکے پڑھنا چاہے تو منگوا کر پڑھ سکتی ہے،انھوں نے کہا شریف فیملی کا یہ مؤقف بھی غلط ہے کہ یہ کیس زیر سماعت ہیں اصل صورتحال یہ ہے کہ یہ کیس ابھی تک شروع ہی نہیں ہوئے تو ان کا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے۔
عدالت کے استفسار پر انھوں نے بتایاکہ نیب کی مجاز اتھارٹی کا مؤقف ہے کہ جب یہ کیس شروع ہوجائیں گے اور طلبی کے باوجود ملزمان عدالت پیش نہ ہوئے تو نیب آرڈیننس کے سیکشن24 سی کے تحت تمام ملزمان نواز شریف،شہباز شریف،حمزہ شہباز،عباس شریف،حسین نواز وغیرہ کوگرفتار کرکے عدالت پیش کر دیا جائے گا،تینوںکیس میرٹ کے مطابق ہیں اورتینوں میںٹھوس دستاویزی شہادتیں،سرکاری گواہان موجود ہیں اس لیے شریف فیملی کی تینوں درخواستیں خارج کرکے ان کیسوںکی سماعت شروع کرنے کااحتساب عدالت کو حکم جاری کیاجائے، قبل ازیں شریف فیملی کے وکلا خواجہ حارث اورسلمان بٹ ایڈووکیٹ کا مؤقف تھا کہ انتخابات قریب آنے کے باعث ریفرنس انتقامی طور پر دوبارہ کھولے جارہے ہیں تمام ریفرنس خارج کرکے شریف فیملی کو باعزت بری کیا جائے۔