تحفظ پاکستان ایکٹ کے مطلوبہ نتائج نہ ملے حکومت کا نیا قانون لانے پر غور

قانون کے تحت قائم اکثرعدالتیں 2سال میں فعال نہیں ہوسکیں،ایکٹ میں موجودخامیاں دورکی جائیں گی،ذرائع وزارت داخلہ

جنوری میں فوجی عدالتوں کی معیادختم ہونے سے پہلے دہشت گردی کے مقدمات کے ٹرائل کیلیے متبادل نظام قائم کردیا جائیگا فوٹو: فائل

حکومت تحفظ پاکستان ایکٹ میں مزیدتوسیع کے بجائے دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے ترمیمی قانون یا نیا قانون لانے پرغورکررہی ہے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تحفظ پاکستان ایکٹ کے اجراسے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کی وجہ سے وزارت داخلہ اس قانون میں موجودخامیاں دورکرکے نیا قانون لانے پر غورکررہی ہے تاکہ اگلے سال جنوری میںاکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم فوجی عدالتوں کا دورانیہ ختم ہونے سے پہلے پہلے دہشت گردی کے مقدمات کے ٹرائل کیلیے متبادل عدالتی نظام قائم کیاجاسکے۔


تحفظ پاکستان ایکٹ کے مستقبل کے بارے ایکسپریس نے وفاقی سیکریٹری قانون کے دفتر سے رابطہ کیا تو بتایاگیاکہ مذکورہ قانون مکمل طور پر وزارت داخلہ کے ڈومین میں ہے، قانون کوتوسیع دینے یا نہ دینے کا فیصلہ وزارت داخلہ کرے گی۔ وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایاکہ تحفظ پاکستان ایکٹ مجریہ2014اور انسداد دہشت گردی قانون مجریہ1997کی متعدد شقیںایک جیسی ہیں جس کی وجہ سے ان دونوں قوانین کے تحت قائم خصوصی عدالتوںکا دائرہ اختیار آپس میں اوورلیپ ہورہا ہے۔ انھوں نے بتایاکہ تحفظ پاکستان قانون زائدالیمعاد ہونے تک اس قانون کے تحت قائم اکثر عدالتیں فعال ہی نہیں ہوسکیں، کراچی کیلیے تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت قائم عدالت کے جج گزشتہ سال مقرر ہوئے جبکہ لاہورمیں پولیس نے اس قانون کے تحت 200 پرچے درج کیے لیکن صرف 16 کیسزمیں چالان جمع کیے جاسکے۔ راولپنڈی ریجن میں ایکٹ کے تحت صرف 5کیسز درج ہوئے جن میں صوبائی وزیرشجاع خانزادہ قتل اور رکن صوبائی اسمبلی راناجمیل کے اغواکامعاملہ شامل ہے لیکن 2 سال میںکوئی فیصلہ نہ ہوسکا، لاہورمیں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج کی اضافی ذمے داری بھی دیدی گئی۔ ایکٹ کے تحت قائم عدالتوں میں ملزمان کے ٹرائل کیلیے الگ استغاثہ قائم ہونا تھا لیکن پنجاب میںڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرزکو اوراسلام آبادمیں ایڈووکیٹ جنرل کو یہ اضافی ذمے داری دیدی گئی۔

ذرائع نے بتایاکہ ایکٹ کے تحت سیکیورٹی اداروںکوحاصل خصوصی اختیارات سے دہشت گردی کیخلاف جنگ پرمثبت اثرات مرتب ہوئے تاہم کچھ سیاسی قوتوںکو یہ اعتراض تھاکہ بغیر وجہ بتائے کسی مشتبہ شخص کو 60 دن کیلئے زیرحراست رکھنا اور ریاست کے شہری کو اجنبی یا غیرملکی قرار دینا آئین میں درج بنیادی حقوق کی شقوں سے متصادم ہے۔ذرائع نے بتایاکہ تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالتیں غیرفعال ہونے سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر نہیں ہوئی کیونکہ 21ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم فوجی عدالتیںمکمل طور پرفعال ہیں تاہم اگلے سال جنوری میں فوجی عدالتوںکی میعاد ختم ہونے سے پہلے متبادل انتظام کردیا جائیگا۔ ذرائع نے بتایاکہ قانون کا ازسر نوجائزہ لیاجارہاہے، تحفظ پاکستان ایکٹ میں ترمیم یا نیا قانون لانے کا فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرزاورصوبوں سے مشاورت کے بعدکیا جائے گا۔
Load Next Story