تاریخی فلم بنانا مشکل کام ہے کیونکہ اس میں ایک طرف تو تاریخ سے انصاف کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف کمرشل فلم کے لوازمات کو بھی دھیان میں رکھنا پڑتا ہے۔ اس لئے اکثر فلم ساز اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہے کہ ایسی فلمیں ذیادہ کامیاب بھی نہیں ہو پاتیں۔ بالی وڈ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر آشوتوش گواریکر 'لگان' اور 'جودھا اکبر' میں یہ بیلنس قائم رکھ پائے تھے لیکن، اس دفعہ 'موہن جو دڑو' بناتے ہوئے وہ وادی سندھ کی تہذیب سے انصاف نہیں کرپائے۔
وادی سندھ کی عظیم تہذیب کی تاریخی جانچ پڑتال کرنا بذات خود ایک کٹھن کام ہے اور پھر اس میں سے فلم کے لئے مواد نکالنا دوہری مشکل ہے۔ اس تہذیب کے عروج و زوال اور معاشرت کے بارے میں کئی متضاد کتابیں اور نظریات ہیں۔ مزید یہ کہ قدیم ہونے کے باعث مٹتے آثار تاریخ کے صفحات کو دھندلا کردیتے ہیں۔ بہرحال آشوتوش گواریکر نے وادی سندھ کے شہرہ آفاق شہر 'موہن جو دڑو' کو پردہ سیمیں تک پہلی بار پہنچا ضرور دیا ہے۔
کہانی کے مطابق سرمن (ریتک روشن) امری میں رہائش پذیر ہے لیکن موہن جو دڑو کے لئے خاص کشش اور تجسس اسے ہمہ وقت بے چین کئے رکھتے ہیں۔ بالآخر سرمن کو تجارتی دورے کیلئے موہن جو دڑو جانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس کے لئے یہ شہر، یہاں کی زندگی، لوگ، فن تعمیر اور دور دراز علاقوں سے آئے تاجر حیرت کا سامان بن جاتے ہیں۔ یہیں اسکی ملاقات چننی (پوجا ہیگڈے) سے ہوتی ہے اور وہ دونوں پہلی ملاقات سے ہی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ لیکن چننی کا رشتہ بچپن میں ہی پردھان ماہم (کبیر بیدی) کے بیٹے مونجا (ارونادے سنگھ) سے طے ہے۔ چننی کو پانے کی خواہش سرمن کے ماضی سے پردہ اٹھا دیتی ہے۔ اب اسے اس شہر کی طرف کھینچتی کشش سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے۔
فلم کا پلاٹ خاصا کمزور ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گواریکر بہت سی چیزوں کا احاطہ کرتے کرتے سب کچھ ہی ادھورا چھوڑ گئے۔ فلم میں 'موہن جو دڑو' کی نہ تاریخ اور ثقافت بھرپور طریقے سے دکھائی جاسکی اور نہ مرکزی کرداروں کے جذبات اور سوچ بہتر طریقے سے عکاسی کرپائی جس پر فلم کی کہانی ترتیب دی گئی ہے۔ کردارنگاری کی اہمیت کو دراصل غیر ضروری طوالت نے ختم کردیا ہے۔ نہ یہ مکمل رومانوی فلم ہے اور نہ ہی تاریخ سے اسکا کوئی تعلق ہے۔
ریتک روشن کہیں سے بھی زمانہ قدیم کا باشندہ نظر نہیں آرہے۔ انکی باڈی لینگوج اور میک اپ یکسر ناکام دکھائی دیتے ہیں، البتہ پوری فلم میں چند جگہوں پر ہی ریتک چہرے کے تاثرات کو مکالموں اور ماحول سے ہم آہنگ کرپائے ہیں۔ پوجا ہیگڈے نے شاید اداکاری پر بہت ہی کم توجہ دی، اس لئے وہ آج کے دور کے تاثرات چہرے اور آنکھوں میں سجائے وادی سندھ کی قدیم تہذیب میں گھوم رہی تھیں۔ کبیر بیدی جیسے لالچی اور ظالم حکمران کو بہت کم وقت دیا گیا سو وہ بھی آسانی سے فراموش کئے جاسکتے ہیں۔ ہاں! انکی ونڈلز(قدیم وحشی) والی غیر ضروری ٹوپی یاد رکھی جاسکتی ہے۔
فلم کے سیٹ محنت اور سرمایہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن اس میں ہلکا سا مصری تہذیب کا ٹچ نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ موسیقی کی ذمہ داری اے۔ آر۔ رحمان نے نبھائی ہے جس میں سے ایک گانا 'موہن جو' مخصوص اے۔ آر۔ رحمٰن کی دھن ہے۔ اس خاصے طویل گانے کی پکچرائزشن دلچسپ ہے، کیونکہ اس میں مختلف علاقوں کے لوگوں کو اپنی اپنی ثقافت کی نمائندگی کرتے دکھایا گیا ہے لیکن رقص چونکہ موجودہ زمانے کا کروایا گیا ہے جو کہ گانے کو بھونڈا بنادیتا ہے۔
آشوتوش گواریکر اگر فلم کا دورانیہ کم رکھتے تو بہتر ہوتا، کیونکہ کمزور کہانی کو طول دیکر خواہ مخواہ وادی سندھ سے جوڑا گیا، سوعظیم تہذیب اور موہن جو دڑو کے بوجھ تلے ایک عام سی کہانی مکمل دب گئی ہے۔ آپ کو ہڑپہ اور موہن جو دڑو کی رقابت بار بار صرف مکالمے کا وزن بڑھانے کی نیت سے سنائی دے گی۔ بصورت دیگر ان چیزوں کا تعلق اس تصوراتی کہانی سے کہیں بھی نہیں ہے۔
آخر الزکر ہماری رائے کے مطابق اس فلم کو بہت وسیع سمندر کو کنارے سے دیکھنے کے مترادف سمجھ کر ہی دیکھیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔