برطانیہ اور فرانس میں اسرائیلی سفیروں کی طلبی نئی تعمیرات پر اظہار تشویش
روس،جرمنی اور امریکاکابھی تندوتیزردعمل،اشتعال انگیزی ہے، الجزائر،عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے،بان کی مون.
اسرائیل پر3000مکانات کی تعمیر کے اعلان کے بعدسفارتی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔پیرس اورلندن نے اسرائیلی سفارتکاروں کوطلب کرکے اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کیاہے۔
جرمنی اور روس نے بھی اسرائیلی منصوبوں کے اعلان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے اسے امن کی امیدوں کے لیے بد شگونی قراردیا ہے۔ فلسطین کے غیررکن مبصرریاست بننے کے بعداسرائیل کے اس انتقامی اعلان نے اسے اعلیٰ سفارتی سطح پر شدیدردعمل کا ہدف بنایا ہوا ہے۔پیرس میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ نئی تعمیرات دونوں ممالک کے مابین تنازعے میں شدت پیدا کردیں گی۔یہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سلامتی وخودمختاری کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
ادھر اسرائیلی سفارتخانے نے بیان جاری کیا ہے کہ سفیر نے اسرائیلی پوزیشن واضح کردی ہے کہ فلسطین کی جانب سے یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل کرلینے کے بعد اسرائیل ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھا رہے گا۔برطانوی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی سفیر کو بلا کر برطانوی تحفظات سے آگاہ کیا اور نئے مکانات کی تعمیر کے منصوبوںپرنظرثانی کرنے کو کہا گیا۔اس سے قبل دفتر خاجہ سے بیان جاری کیاگیاتھاکہ اسرائیلی حکومت کوبتادیاگیاہے کہ اگر اس نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد جاری رکھا توشدیدردعمل سامنے آئیگا۔
جرمنی نے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت سے یہ اعلان واپس لینیاوردونوں فریقوں سے مثبت طرز عمل اپنانے نیزبلا واسطہ امن مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔روس نے بھی اسرائیل کواپنے منصوبوںپردوبارہ غور کرنیکامشورہ دیتے ہوئے کہاہے کہ اس کابراہ راست مذاکرات کے دوبارہ آغاز پرمنفی اثرپڑیگا۔الجزائر کی حکومت نے فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودیوں کیلیے3000نئے مکانات کی تعمیراوریہودی کالونیوںمیں توسیع کے اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی ریاست کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں صیہونیوں کیلیے مکانات کی تعمیر کھلی بدمعاشی،ہٹ دھرمی اوراشتعال انگیزی ہے۔
اس کاعالمی سطح پر نوٹس لیا جائے اورسخت اقدام کیاجائے۔وزارت خارجہ کے ترجمان عمار بلانی نے کہا کہ یہ تعمیرات جب اور جہاں بھی ہوں گی،غیر قانونی ہوں گی۔اسرائیل ایک غاصب ریاست اور اسے یہ حق کسی صورت میں نہیں پہنچتا۔ترجمان نے کہا کہ ہم اسرائیل کے ذمے واجب الادا ٹیکسوں کی فلسطینی اتھارٹی کو عدم ادائیگی کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔ لندن اور پیرس نے اسرائیل کے دائیں بازو کے ایک اخبار میں شائع ہونے والی ان خبروں کی تردید کی ہے کہ وہ اس معاملے پر اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا رہے ہیں۔دونوں ممالک کے متعلقہ افسران نے کہا ہے کہ منصوبے سے ناپسندیدگی کے اظہار کے دوسرے ذرائع بھی موجود ہیں۔ واضح رہے کہ مجوزہ منصوبہ جس علاقے میںتعمیرات کاہے وہ نہایت حساس اور اہم نوعیت کا ہے۔
فلسطینی ای ون نامی اس منصوبے کے شدید مخالف ہیں۔یہ نہ صرف غزہ کو شمالی اور جنوبی،دو حصوں میں منقسم کردیگا بلکہ اسے یروشلم سے بھی کاٹ دیگا۔ اس طرح ایک متحدومربوط،غیرمنقسم فلسطینی ریاست کاقیام ایک خواب ہی رہ جائیگا۔واشنگٹن اور بروسلز نے بھی اس سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے بھی سخت الفاظ میں اسرائیل کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آباد کاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے دو ملکی حل پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ دریں اثنا اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کوواجب الادا ٹیکس دینے سے بھی انکار کردیاہے۔
جرمنی اور روس نے بھی اسرائیلی منصوبوں کے اعلان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے اسے امن کی امیدوں کے لیے بد شگونی قراردیا ہے۔ فلسطین کے غیررکن مبصرریاست بننے کے بعداسرائیل کے اس انتقامی اعلان نے اسے اعلیٰ سفارتی سطح پر شدیدردعمل کا ہدف بنایا ہوا ہے۔پیرس میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ نئی تعمیرات دونوں ممالک کے مابین تنازعے میں شدت پیدا کردیں گی۔یہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سلامتی وخودمختاری کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
ادھر اسرائیلی سفارتخانے نے بیان جاری کیا ہے کہ سفیر نے اسرائیلی پوزیشن واضح کردی ہے کہ فلسطین کی جانب سے یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل کرلینے کے بعد اسرائیل ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھا رہے گا۔برطانوی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی سفیر کو بلا کر برطانوی تحفظات سے آگاہ کیا اور نئے مکانات کی تعمیر کے منصوبوںپرنظرثانی کرنے کو کہا گیا۔اس سے قبل دفتر خاجہ سے بیان جاری کیاگیاتھاکہ اسرائیلی حکومت کوبتادیاگیاہے کہ اگر اس نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد جاری رکھا توشدیدردعمل سامنے آئیگا۔
جرمنی نے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت سے یہ اعلان واپس لینیاوردونوں فریقوں سے مثبت طرز عمل اپنانے نیزبلا واسطہ امن مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔روس نے بھی اسرائیل کواپنے منصوبوںپردوبارہ غور کرنیکامشورہ دیتے ہوئے کہاہے کہ اس کابراہ راست مذاکرات کے دوبارہ آغاز پرمنفی اثرپڑیگا۔الجزائر کی حکومت نے فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودیوں کیلیے3000نئے مکانات کی تعمیراوریہودی کالونیوںمیں توسیع کے اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی ریاست کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں صیہونیوں کیلیے مکانات کی تعمیر کھلی بدمعاشی،ہٹ دھرمی اوراشتعال انگیزی ہے۔
اس کاعالمی سطح پر نوٹس لیا جائے اورسخت اقدام کیاجائے۔وزارت خارجہ کے ترجمان عمار بلانی نے کہا کہ یہ تعمیرات جب اور جہاں بھی ہوں گی،غیر قانونی ہوں گی۔اسرائیل ایک غاصب ریاست اور اسے یہ حق کسی صورت میں نہیں پہنچتا۔ترجمان نے کہا کہ ہم اسرائیل کے ذمے واجب الادا ٹیکسوں کی فلسطینی اتھارٹی کو عدم ادائیگی کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔ لندن اور پیرس نے اسرائیل کے دائیں بازو کے ایک اخبار میں شائع ہونے والی ان خبروں کی تردید کی ہے کہ وہ اس معاملے پر اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا رہے ہیں۔دونوں ممالک کے متعلقہ افسران نے کہا ہے کہ منصوبے سے ناپسندیدگی کے اظہار کے دوسرے ذرائع بھی موجود ہیں۔ واضح رہے کہ مجوزہ منصوبہ جس علاقے میںتعمیرات کاہے وہ نہایت حساس اور اہم نوعیت کا ہے۔
فلسطینی ای ون نامی اس منصوبے کے شدید مخالف ہیں۔یہ نہ صرف غزہ کو شمالی اور جنوبی،دو حصوں میں منقسم کردیگا بلکہ اسے یروشلم سے بھی کاٹ دیگا۔ اس طرح ایک متحدومربوط،غیرمنقسم فلسطینی ریاست کاقیام ایک خواب ہی رہ جائیگا۔واشنگٹن اور بروسلز نے بھی اس سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے بھی سخت الفاظ میں اسرائیل کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آباد کاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے دو ملکی حل پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ دریں اثنا اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کوواجب الادا ٹیکس دینے سے بھی انکار کردیاہے۔